Tag: Suicide

  • خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    احمد ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جانے لگے۔ اس نے ہر جانب ہاتھ پیر مارے، دوستوں اور رشتے داروں سے مدد طلب کی لیکن کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حالات سے مایوس ہو کر اس نے ایک دن تنگ آکر خودکشی کا سوچنا شروع کردیا، وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو بتاتا رہا کہ اگر اس کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ خود کشی کرلے گا۔

    صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ رقم کا تقاضہ کرنے والوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا، گھر والے بھی ان حالات کے لیے اسی کو قصور وار ٹہرا رہے تھے، اچھے وقتوں کے دوست اب فون اٹھانے سے کتراتے تھے کہ مبادا وہ رقم طلب نہ کرلے، بالآخر ایک دن اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

    میڈیکل اسٹور سے نیند کی گولیاں لیں اور اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے معدے میں انڈیل لیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب ایک پرسکون خاتمہ اس کے قریب ہے لیکن بروقت طبی امداد نے اس کی جان بچالی۔

    ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں احمد موجود ہیں، جو خودکشی کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیال کو جنم دینے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

    یہ لوگ معاشرتی رویوں، گھریلو حالات، احساس کمتری، ناکام عملی یا ازدواجی زندگی، کسی بڑے صدمے یا نقصان کی وجہ سے ایک دھچکے کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ خودکشی کی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز نے آج خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ کسی شخص میں خودکشی کے رجحان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ اور کیا ہم خودکشی کا ارادہ کیے ہوئے کسی شخص کو بچا سکتے ہیں، اگر ہاں تو کیسے؟

    سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے کے پیچھے کیا عوامل یا وجوہات ہوتی ہیں۔

    لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

    خودکشی کا رجحان عموماً مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فروغ پاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار ہونا

    کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا جس میں موت بہت پرکشش لگتی ہو

    کسی شخص کو اس کام پر اکسایا جائے

    کسی کو مدد کی ضرورت ہو لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آئے اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے

    کسی قسم کا ناقابل برداشت پچھتاوا، گہرا صدمہ یا بہت بڑا نقصان

    خودکشی کی خاندانی تاریخ موجود ہو تب بھی امکان ہے کہ کسی شخص میں خودکشی کا رجحان پایا جائے۔

    ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے علاوہ دیگر دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزو فرینیا بھی خودکشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں منشیات اور الکوحل کے عادی افراد میں بھی خودکشی کا رجحان ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

    اذیت پسندی جو ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے، بھی کسی کو خودکشی کی طرف مائل کرسکتی ہے۔

    ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔

    اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سلیم بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟

    ان کے مطابق خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایسا اظہار کرے کہ اس کی زندگی بے فائدہ ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے، اور وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    خودکشی کی عام علامات

    خودکشی کی سب سے عام علامت ڈپریشن کا شکار ہونا ہے اور بذات خود ڈپریشن کے مریض میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن پر آس پاس کے افراد کو دھیان دینا بہت ضروری ہے۔

    ان علامات میں مذکورہ شخص کی اداسی، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانا، تنہائی میں وقت گزارنا، ناامیدی، ہر شے سے غیر دلچسپی، اپنے بارے میں منفی باتیں کرنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اس کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، موت اور خودکشی کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔

    کہاں الرٹ ہونے کی ضرورت ہے؟

    ہنسی مذاق میں مرنے کی گفتگو کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن جب آپ دیکھیں کہ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے کوئی شخص موت کی باتیں کرنے لگے، کوئی پریشان شخص موت یا خودکشی کے بارے میں کہے تو یہ معمولی بات نہیں۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ خودکشی کا طریقہ سوچنے کا ہے۔ مریض اس بات پر غور کرتا ہے کون سا طریقہ مرنے کے لیے موزوں رہے گا۔ وہ آپ کو لوگوں سے زہر یا نیند کی گولیوں کے بارے میں بھی معلومات لیتا نظر آئے گا۔

    ’خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں‘۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔

    اے آر وائی نیوز نے اس بارے میں ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر طحہٰ صابری سے بھی گفتگو کی۔

    ان سے پوچھا گیا کہ کیا خودکشی کسی فوری واقعے کا ردعمل ہوتی ہے؟ یا ماضی میں پیش آنے والے بہت سے حالات و واقعات مل کر کسی شخص کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں؟

    اس بارے میں طحہٰ صابری کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھوڑا سا مشکل ہوگا کہ کب کس شخص کے ذہن میں خودکشی کا خیال آجائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ طویل عرصے سے مایوسی کا شکار رہنے والے ہی خودکشی کی کوشش کریں، یہ فوری طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جیسے گھریلو لڑائیوں میں کسی شخص کا خودکشی کرلینا، امتحان میں فیل ہوجانا۔ ایسی صورت میں صرف ایک یا 2 دن میں متاثرہ شخص خودکشی کے بارے میں سوچ کر اس پر عمل کر ڈالتا ہے۔

    خودکشی کرنا کمزوری کی علامت؟

    کہا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کمزور ہوتے ہیں، کیا اپنی ہی جان لینے کے ارادے پر عمل کرنا طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی نشاندہی نہیں؟

    اس بارے میں ڈاکٹر طحہٰ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ہی تصورات غلط ہیں۔ کوئی انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے کسی سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو اور وہ اپنی زندگی سے بے حد مایوس ہوچکا ہو۔ ایسے میں موت ہی اسے آسان راہ فرار اور ذریعہ نجات نظر آتی ہے۔ ’کمزور ہونے یا مضبوط ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘۔

    کیا کسی شخص کی خودکشی کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ڈاکٹر طحہٰ کہتے ہیں کہ یقیناً یہ معاشرے کی ہی ناکامی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد نہ کر سکی جب اسے لوگوں اور اداروں سے پہلے سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔

    خودکشی کا رجحان کم کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

    بحیثیت معاشرہ خودکشی کسی ایک فرد کا عمل نہیں۔ ایک خودکشی سے پورا خاندان ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے خصوصاً بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے تو اس کے لیے ہر شخص ذمہ دار ہے۔

    تو پھر انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

    ڈاکٹر طحہٰ کے مطابق، ’ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، جیسے اوپر بیان کیے گئے احمد کے کیس میں اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنا قرض اتار سکتا ہے یا اس کے پاس کیا متبادل آپشن موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی دوسرے شخص کی جان لے لے۔

    کیا مذہب سے تعلق اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

    اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خودکشی کو حرام کہا گیا ہے۔ کیونکہ انسان ناامیدی اور مایوسی کی آخری حد پر پہنچ کر خودکشی کرتا ہے اور مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔

    ’خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی ادارہ

    دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے آئی اے ایس پی (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن) کے سربراہ اس وقت ایک پاکستانی ڈاکٹر مراد موسیٰ ہیں۔ ڈاکٹر مراد اس ادارے کی سربراہی کرنے والے پہلے ایشیائی اور پہلے پاکستانی شخص ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ذہنی صحت، صحت کی پالیسی میں ترجیح نہیں ہے، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے لہٰذا پاکستان میں خودکشی کی درست شرح بھی مصدقہ نہیں۔

    ان کے مطابق ہر سال ملک میں تقریباً ڈیڑھ سے 3 لاکھ کے قریب افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 13 سے 15 ہزار کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اندازاً پاکستان کی 20 فیصد آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے جن میں سے 80 فیصد علاج اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر مراد کے مطابق ذہنی صحت کے بارے صحیح معنوں میں توجہ سنہ 2016 کے بعد سے دینی شروع کی گئی جب آرمی پبلک اسکول کے بھیانک حادثے میں بچ جانے والوں کی ذہنی کیفیت خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ اس وقت ذہنی صحت کی بہتری کی طرف توجہ دی گئی اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں اقدامات شروع کیے۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی ادارے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوسائٹی دنیا بھر میں ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جہاں مریض فون کر کے اپنے مسائل بتا سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ’پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

  • صومالیہ کی سرکاری عمارت پر خودکش دھماکا، 6 افراد جاں بحق

    صومالیہ کی سرکاری عمارت پر خودکش دھماکا، 6 افراد جاں بحق

    موگاڈیسو : صومالی دارالحکومت کے ہوڈان ڈسٹرکٹ میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سرکاری عمارت سے ٹکرا دی، جس کے باعث 6 افراد جاں بحق جبکہ 16 زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم افریقہ کے ملک صومالیہ کے دارالحکومت موگاڈیسو میں پیر کے روز ڈسٹرکٹ ہوڈان کے سرکاری دفتر کی عمارت میں خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زور دار دھماکے کے باعث شہر بھر میں دھوئیں کے بادل چھا گئے۔

    ایمبولینس سروس کے ڈائریکٹر عبد القادر کا کہنا ہے کہ ’ہنگامی خدمات انجام دینے والی ٹیموں نے 6 افراد کی لاشیں اٹھائی ہیں جبکہ افسوس ناک حادثے میں 16 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    موگاڈیسو سیکیورٹی فورس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور  نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی ہوڈان ڈسٹرکٹ کی سرکاری عمارت کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی جس کے باعث زور دار دھماکا ہوا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداورں کی جانب سے لی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوڈان ڈسٹرکٹ آفس کی عمارت دھماکے کے نتیجے میں مکمل طور ہر تباہ ہوچکی ہے۔

    واقعے کے عینی شاہد حسین عثمان نے میڈیا کو بتایا کہ میں ایک تیز رفتار گاڑی کو سرکاری دفتر میں مرکزی دروازے سے ٹکراتے دیکھا جس کے بعد روز دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور عمارت زمین بوس ہوگئی۔

    صومالی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال کسی بھی دہشت گرد تنظیم نے خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے صومالی دارالحکومت میں ایک اور سرکاری عمارت کو خودکش دھماکا اور اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم الشباب نے قبول کی تھی۔

  • تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے تھریسا کے خلاف تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھریسا مے نے برطانیہ کے آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اتوار کے روز برطانوی خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی کے بیشتر ارکان پارلیمنٹ نے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی کالم کے میں استعمال کی گئی نازیبا زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے ’دی میل آن لائن‘ میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کالم بھی شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے برطانوی عوام سے گذارش کی تھی وزیر اعظم کے بریگزٹ معاہدے کی حمایت کریں۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن کی جانب سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کی تصدیق کے بعد یہ پہلا کالم ہے، اس تصدیق سے قبل ایک خبر رساں ادارے میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بورس جانسن کا کسی دوسری خاتون ساتھ تعلق ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں بورس جانسن کو حکمران جماعت کے سربراہ نے ایک خاتون صحافی کے ساتھ تعلقات رکھنے کی بنا پر وزارت کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

    دی سنڈے ٹائمز کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسز مے کے معاونین نے 4000 الفاظ پر مشتمل ’نازیبا دستاویز‘ لکھی تھی۔

    اخبار کا کہنا ہے کہ اس نے وہ دستاویز دیکھی ہے جسے کنزروٹیو لیڈرشپ کے مقابلے کے وقت تحریر کیا گیا تھا تاہم ڈاؤننگ سٹریٹ کے حکام اور پارٹی کے ہیڈکوارٹر نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد سے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی حکومت بحران کی زد میں ہے۔

  • لاہور: ڈیفنس میں 26 سالہ ماڈل گرل کی پھندا لگی لاش برآمد

    لاہور: ڈیفنس میں 26 سالہ ماڈل گرل کی پھندا لگی لاش برآمد

    لاہور : ڈیفنس میں چھبیس سالہ ماڈل گرل کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی ہے، متوفیہ دو ماہ قبل اٹلی سے واپس آئی تھی، پولیس قتل اور خود کشی کے پہلوؤں پر تفتیش کررہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقہ ڈیفنس میں چھبیس سالہ ماڈل گرل انعم تنولی کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی، متوفیہ کو قتل کیا گیا یا انعم نے خود کشی کی، پولیس اس حوالے سے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات کر رہی ہے۔

    ڈیفنس بی پولیس اسٹیشن کی حدود میں رہائش پذیر انعم دو ماہ قبل اٹلی سے واپس پاکستان آئی تھی۔ انعم نے فیشن ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔

    لاش گھر میں پھندے سے جھولتی ہوئی ملی، اطلاع ملنے پر پولیس نے لاش تحویل میں لے کر اسپتال پہنچائی اور پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کردی۔

    انعم کی والدہ کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ انعم تنولی گزشتہ کافی عرصے سے ذہنی دباؤ کا شکار تھی تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ ذاتی مسائل کے بعد ڈپریشن کا شکار تھیں یا پھر پروفیشنل زندگی کے حوالے سے پریشان تھی۔

  • چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال:شمالی علاقہ جات کے حسین علاقے چترال ٹاؤن میں ایک اور23 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی ہے، خودکشی کی فوری وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی۔ گزشتہ تین ماہ میں یہ بیسویں خودکشی ہے۔

    چترال پولیس کے مطابق ہون فیض آباد کے رہائشی سفینہ بی بی دختر شیرین خان نے گلے میں اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس نے زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری تفتیش شروع کردی اور تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کی جائے گی۔

    سفینہ بی بی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا ، ضروری کاروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثا ء کے حوالہ کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پچھلے تین ماہ میں خودکشیوں کا یہ بیسواں (20) واں واقعہ ہے جس میں اکثر نوجوان لڑکیاں ہی خودکشی کرتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ طلباء طالبات نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ان کے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمبر کم آئے تھے۔

    اس سے قبل ماہ اپریل میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں چھ ماہ میں 22 خواتین نے خود کشی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔

    واضح رہے کہ پورے چترال میں کسی بھی ہسپتال میں کوئی سائیکاٹرسٹ، ماہر نفسیات اور دماغی امراض کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی چترال میں خواتین کے لئے کوئی دارلامان یعنی شیلٹر ہاؤ س نہیں ہے جہاں نا مساعد گھریلو حالات کی صورت میں وہ پناہ لے سکیں۔

    چترال کے نوجوان طبقے اوربالحصوص خواتین میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی رحجان پر والدین نہایت پریشان ہیں اورعوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ٹیم بھیجی جائے تاکہ اس کا اصل وجہ معلوم کرکے اس کی روک تھام ہوسکے

    چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان کو کم کرنے کے لیے تاحال حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے تاہم سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے خواتین کے لیے تھانہ چترال میں ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر کھولا تھا جس میں زنانہ پولیس ڈیوٹی کررہی ہیں۔

  • امریکا: 17سرجریوں کے بعد نیا چہرہ پانے والی امریکی خاتون

    امریکا: 17سرجریوں کے بعد نیا چہرہ پانے والی امریکی خاتون

    واشنگٹن : امریکی ڈاکٹرز نے 31 گھٹنے طویل سرجری کے بعد کیٹی نامی خاتون کو نیا چہرہ لگا دیا، مذکورہ خاتون نے 18 برس کی عمر میں خودکو چہرے پر گولی مار کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی رہائشی کیٹی اسٹبل فیلڈ کا 31 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد چہرہ تبدیل کیا گیا ہے۔ مذکورہ خاتون کے چہرے کے 17 سرجری کرنے کے بعد نیا چہرہ لگایا گیا ہے۔

    ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ 21 سالہ کیٹی اسٹبل فیلڈ نے 18 برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں مذکورہ خاتون کی آنکھیں، ناک اور چہرے کا دیگر حصّہ خراب ہوگیا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کیٹیی کو بچپن میں بہت زیادہ امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے باعث کیٹی خود کو گولی مارلی تھی۔

    ڈاکٹرز نے بتایا کہ کیٹی کے چہرے کو متعدد سرجریوں کے تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد خاتون کا چہرے کی بتدیلی کو فوراً قبول کرلیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کیٹی سنہ 2016 سے ڈونر نہ ملنے کے باعث مسخ شدہ چہرے کے ساتھ سرجری ہونے کی منتظر تھیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ 21 سالہ خاتون سرجری کے ذریعے مکمل چہرہ تبدیل کروانے والی 40 ویں انسان ہیں اور گذشتہ برس مئی میں چہرے کی پہلی سرجری کروانے والے امریکا کی پہلی نوجوان انسان تھی۔

    یاد رہے کہ رواں برس فرانسیسی شہری جیرومی ہامون دنیا کے پہلے انسان تھے جنہوں نے اپنے چہرے کی تین سرجریاں کروائی تھی۔

    خیال رہے کہ دنیا کی پہلی چہرے کی تبدیلی کا آپریشن سنہ 2005 میں شمالی فرانس میں کیا گیا تھا، جس کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں 40 سرجریاں ہوچکی ہیں۔

  • جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری، ایک نوجوان نے خودکشی کرلی

    جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری، ایک نوجوان نے خودکشی کرلی

    برلن : جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے 69 افغان تارکین وطن میں سے ایک نوجوان نے خودکشی کرلی، جس کے بعد وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر افغان مہاجرین کے ملک بدر کیے جانے پر اعلانیہ خوشی اور اطمینان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری 69 ویں سالگرہ کے موقع پر اتنے ہی افغانیوں کو جرمنی سے بے دخل کیا گیا ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت کے سربراہوں نے تارکین وطن کو ملک سے بے دخل کرنے پر ہورسٹ زیہوفر کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ جبکہ واپس افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین میں سے ایک نوجوان نے خود کشی کرلی ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جرمن حکومت نے افغان تارکین وطن کے 69 افراد پر مشتمل گروپ کو اجتماعی طور پر خصوصی طیارے کے ذریعے واپس افغانستان بھیجا تھا، جس میں افغان صوبہ بلخ کے ایک 28 سالہ نوجوان نے کابل میں بنائے گئے مہاجرین کیمپ میں خودکشی کرلی۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل وزیر داخلہ زیہوفر نے تارکین وطن سے متعلق ’نئے منصوبے‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست مسترد ہونے والے مہاجرین کی ملک بدری میں اضافے کا عندیہ دیا۔

    جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت لنکے کی سربراہ اولا یلپکے کا کہنا تھا کہ ’زیہوفر کا افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا موت کے منہ میں دینے کے برابر ہے، زیہوفر نے افغانیوں کی ملک سے بے دخلی پر مسرت کا اظہار کرکے ثابت کردیا کہ انہیں انسانیت کی کمی کا لاعلاج مرض ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے وزیر داخلہ زیہوفر کو عہدے نہ ہٹانے پر انجیلا میرکل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’تارکین وطن کے معاملے پر جرمن چانسلر اور وزیر داخلہ کے مابین اختلافات پیدا ہونے میں انجیلا میرکل نے کمزور سیاسی قوت ہونے کا مظاہرہ کیا ہے کوئی وزیر ملکی چانسلر کو وارننگ نہیں دے سکتا‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • بیلو وہیل کے شکار سعودی نوجوان نے خودکشی کرلی

    بیلو وہیل کے شکار سعودی نوجوان نے خودکشی کرلی

    ریاض : بلیو وہیل نامی گیم کھیلنے والے سعودی عرب کے 12 سالہ نوجوان نے ٹاسک مکمل کرنے کے لیے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر ابہا میں جمعرات کے روز بیلو وہیل گیم کھیلنے والے ایک نوجوان نے خود کو پھانسی سے دے کر خودکشی کرلی۔

    سعودی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ متاثرہ نوجوان کے قریبی رشت دار نے بتایا کہ ’میرا ماموں زاد بھائی بیلو وہیل نامی گیم کھیل رہا تھا، جس میں اسے خودکشی کرنے کا ٹاسک ملا اور اس نے گلے میں پھندا لگا کر خود کو پھانسی دے دی۔

    پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے فی الحال 12 سالہ لڑکے کی ہلاکت کی وجوہات جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا نوجوان نے بیلو وہیل گیم کی وجہ سے خودکشی کی ہے یا کسی نے متاثرہ لڑکے کو پھانسی دے کر قتل کیا ہے۔

    خیال رہے کہ 50 روز پر مشتمل بیلو وہیل گیم اپنے کھیلنے والے صارفین کو مختلف نوعیت کے چیلنجز دیتا ہے، جبکہ آخری مرحلے میں گیم کھیلنے والے کو خودکشی کرنی ہوتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بیلو وہیل گیم اپنے صارفین کی ذاتی معلومات کے ساتھ ساتھ دیئے گئے چیلنجز مکمل کرنے کی تصاویر ثبوت کے طور پر مانگتا ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ہلاک ہونے والے نوجوان کے قریبی عزیز عبداللہ بن فہید کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سایٹز پر اپنے رشتہ دار کی خودکشی کی خبر لگانے کے بعد شہریوں نے سعودی حکومت سے بیلو وہیل گیم کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    واضح رہے بلیو وہیل گیم روس کے ایک نوجوان نے تیار کیا جسے حکومت نے ایک سال قید کی سزا دے رکھی ہے، اس گیم کے متاثرین برازیل، بلغاریہ، چلی، چین، جارجیا، بھارت، اٹلی، کینیا، پاکستان، پیراگوئے، پرتگال، روس، سعودی عرب، سربیا، اسپین، امریکا اور یوراگوئے میں سامنے آچکے ہیں۔

    جہاں لوگوں نے خودکشیاں کرنے کی کوشش کی، کچھ کامیاب ہوگئے، متعدد افراد نے اپنے جسموں کو تیز دھار آلات سے کاٹا اور دیگر طرح کے خطرناک چیلنجز پورا کرنے کے دوران خود کو نقصان پہنچایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سعودی عرب کی افغانستان میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مذمت

    سعودی عرب کی افغانستان میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مذمت

    ریاض : سعودی عرب نے جلال آباد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں افغان حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں  افغانستان کے صوبے ننگر ہار کے میں  اتوار کے روز ہونے والے خودکش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔

    سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکام خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افغان شہریوں کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور متاثرہ خاندانوں سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔

    سعودی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدے دار کا بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب مکمل تعاون کرنے کو تیار ہے۔

    یاد رہے کہ اتوار کے روز افغانستان کے شہر جلال آباد میں گورنر ہاؤس کے قریب خودکش حملے میں سترہ افراد لقمہ اجل بنے ہیں، خودکش حملہ اس وقت ہوا جب جنگ بندی کے دوران صوبے کے گورنر طالبان کے ایک گروہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس سے ایک روز قبل جلال آباد میں‌ ہونے والے دھماکے میں 36 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

    اطلاعات کے مطابق اس دھماکے کی ذمے داری عالمی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ہے۔

    واضح رہے کہ افغان طالبان نے بھی جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے صدر اشرف غنی کی پیش کش مسترد کر دی ہے. طالبان کی جانب سے سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال: وادی کیلاش کے خوبصورت گاؤں بریر میں جواں سال لڑکی نے خودکشی کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیا، یہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں‌ خودکشی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے، تھانا آیون کی حدود میں واقع بریر گاؤں میں بیس سالہ سعدیہ بی بی دختر بہادر خان نے خودکشی کر لی۔

    پولیس کے مطابق متوفیہ نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، واقعے کے فوری بعد سعدیہ بی بی کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتال آیون پہنچایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کردی، بعد ازاں اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال چترال روانہ کر دیا گیا۔

    آیون پولیس کی تفتیش جاری ہے، البتہ خودکشی کی وجوہات کا تعین نہیں ہوسکا ہے، اہل خانہ کے مطابق سعدیہ منگنی ٹوٹنے کی وجہ سے دل برداشتہ تھی.

    ایک اندازے کے مطابق یہ گذشتہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے، بیش تر واقعات میں‌ خواتین کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا، البتہ حکومت کی جانب سے  ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے.

    تھانا چترال میں خواتین ڈیسک کا قیام

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال منصور امن نے اس ضمن میں پولیس اسٹیشن میں خواتین ڈیسک قائم کی ہے، جہاں لیڈیز پولیس کانسٹیبلز کو تعینات کیا گیا ہے.

    اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او منصور امان اور لیگل ایڈوائزور انسپکٹر محسن الملک نے کہا کہ تھانا چترال میں خواتین کا علیحدہ ڈیسک قائم کرنے کا مقصد یہی ہے کہ خواتین بلاجھجک تھانے آکر اپنا مسئلہ بیان کرسکیں، انھوں‌نے امید ظاہر کی کہ اس سے خودکشی کے کسیز میں کمی آئے گی.


    ثقافتی رنگوں سے مزین حسین وادی چترال میں ’’ جشن قاقلشٹ‘‘ کا انعقاد


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔