Tag: Supreme Court of Pakistan

  • جاننا چاہتے ہیں لندن فلیٹ کا اصل مالک کون ہے‘ چیف جسٹس

    جاننا چاہتے ہیں لندن فلیٹ کا اصل مالک کون ہے‘ چیف جسٹس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی لارجر بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے ممنوع فنڈنگ کامعاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت مناسب سمجھے تومعاملہ الیکشن کمیشن بھجواسکتی ہے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ استدعا ہے ممنوع فنڈنگ کا معاملہ غیرمشروط طورپربھجوایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بڑا ذریعہ عطیات بتایا ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کی ممبر شپ فیس بہت کم ہے جبکہ پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ چندہ 40 کروڑروپے2013 میں ملا۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے پی ٹی آئی کو خوشی سے چندہ دیا جاتا ہو جبکہ اکاؤنٹ کی درست تفصیلات دینا بھی ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ قانونی طور پردیکھنا ہے رقم آکہاں سےرہی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اکاؤنٹ تفصیلات سےشفافیت بھی ظاہرہوتی ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کروڑوں کی رقم آتی ہے اوراکاؤنٹس میں جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تیار کردہ فارم سےکنفیوژن پیدا ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ مقامی،بیرون ملک فنڈزکےلیےالگ الگ کالم ہونا چاہیے تھا، عدالت نے ریماکس دیے کہ الگ کالم سےغیرملکی، ممنوع فنڈنگ کاپتہ لگانے میں آسانی ہوگی۔

    جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا ن لیگ ایسےاکاؤنٹ مرتب کرتی ہےجیسےپی ٹی آئی کے ہیں، جس کے جواب میں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے ممنوع فنڈنگ پرایک جیسا موقف اپنایا۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ مسلم لیگ ن ممنوع فنڈنگ نہیں لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہےاکاؤنٹ ایسےہی مرتب ہوتے ہوں جیسےکیےجارہےہیں۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن یاکسی انکوائری کمیشن کومعاملہ بھجواسکتی ہے اورانہوں نے کہا کہ یہ کیس سیاسی جماعتوں کےمعیار کا ہے۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں حکومت بناکرملک چلانےکی پالیسی بناتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازی میں عطیات کابہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ نیازی سروسز2015میں ختم ہوئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکیس دیے کہ اثاثے کا تعلق ملکیت سے ہوتا ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینفیشل مالک کی تعریف بیان کریں جس کے جواب میں اکرم شیخ نے کہا کہ ٹرسٹ کےتحت جو فائدہ اٹھائے وہ بینفشل مالک ہوتا ہے۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لندن فلیٹ کے مالک عمران خان نہیں نیازی سروسز تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے وہ فلیٹ ظاہر کیا جو ان کا تھا بھی نہیں۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ عمران خان آف شور کمپنی کے نہ شیئرہولڈر تھےنہ منتظم تھے۔ انہوں نے کہا کہ صرف جاننا چاہتے ہیں لندن فلیٹ کا اصل مالک کون ہے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عمران خان کے مطابق وہ فلیٹ کےبینفشل مالک ہیں جس کے جواب میں اکرم شیخ نے کہا کہ شیل کمپنی چاہےکتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اثاثہ ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شیل کمپنی فروخت ہو تورقم بینفشل مالک کوہی ملےگی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چاہتے ہیں ایک کاغذ پرمشتمل چیزکواثاثہ کہا جائے۔ جسٹس عمرعطا بندیال آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا 3پاؤنڈ کی کمپنی بھی اثاثہ ہے۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیازی سروسزکولندن فلیٹ کرایےکی مد میں 2لاکھ 8ہزارپاؤنڈ ملے اور فلیٹ کی فروخت سے 6 لاکھ 90 ہزار پاؤنڈ موصول کیے گئے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ کی رقم نیازی سروسز کےاکاؤنٹ میں منتقل ہوئی جبکہ جمائما کونیازی سروسزکے اکاؤنٹ سے 5 لاکھ 62 ہزارپاؤنڈ ادا ہوئے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان کے مطابق انہیں کرایےدار سے کچھ نہیں ملا تھا،فلیٹ غلط طورپرایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نیازی سروسزایمنسٹی اسکیم کےلیے اہل نہیں تھی۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ جمائما کے جانے کے بعد گھربنانےکی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شادی کےمعاملات میں ایک سے دوسری جگہ رہنا معمول ہے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ جمائما جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جمائما کو واپس لانے کی یہ کوشش بھی ہوسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ میاں بیوی میں کیا چل رہا تھا ہم کیسے کہہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے جمائماعمران خان سےنہیں حالات سے ناراض ہوں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ راشد خان کو بھی علم تھا جمائمہ روٹھ کر میکےجا چکی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں میاں بیوی کامعاملہ زیر بحث لانا مناسب نہیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 2002کےانتخابی گوشواروں میں عمران نے فلیٹ ظاہر کیا تھا جس کے جواب میں اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کےلیے 1کروڑ 45 لاکھ ظاہرنہیں کیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا قرض کو ظاہر کرنا بھی ضروری ہے،جس کے جواب میں حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ انتخابی فارم کے صفحہ7 پر ظاہر کرنا ضروری تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیاآپ عمران خان پرمنی لانڈرنگ کاالزام لگارہے ہیں،جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ بینک ریکارڈسےثابت ہورہا ہےپیسہ باہر کمایا گیا انہوں نے کہا کہ میں صرف دستاویزات کے درست ہونے پرسوال اٹھا رہا ہوں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق بینک ریکارڈغلط اورکتاب درست ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کتاب اور ریکارڈ میں کوئی تضاد سامنےنہیں آیا۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرا موقف ہےعدالت میں جعلی ریکارڈ پیش کیا گیا انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جواب غلط ہے یا ریکارڈ غلط ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ خط میں کہا جاتا ہے پیسے ڈالر میں ملے جبکہ دستاویزات میں بتایا گیا پیسے پاؤنڈ میں ملے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا بیوی کے نام پر جائیداد لینا جرم ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہر مقدمے کے اپنے حقائق ہوتےہیں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ ایک کیس میں خاوند نے بیوی کےنام پرگھرخریدا،دونوں کوقید ہوں گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے گھر کرپشن کے پیسوں سے خریدا گیا ہو،جرم ہوا ہوگا تو ہی سزا بھی ملی ہوگی۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر توقرض ہی لگتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جس کیس کا حوالہ دیا اس میں سزا ٹرائل کےبعد ہوئی۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ قرض ظاہر نہ کرنےکےنتائج بھی ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میاں بیوی کےمعاملات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ آئندہ سماعت تک معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوادیا جائے۔

    آباد:عمران خان نااہلی کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی

    یاد رہے کہ گزشتہ روزعمران خان نا اہلی کیس میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایسے کون سے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر فنڈز کو ممنوع قرار دیں، غیر متنازعہ شواہد سامنے لائے جائیں۔


    عمران خان نااہلی کیس: عدالت کا غیر متنازعہ شواہد سامنے لانے کا حکم


    واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سیاسی جماعتیں فنڈنگ کےمعاملےپرقابل احتساب ہیں‘ چیف  جسٹس

    سیاسی جماعتیں فنڈنگ کےمعاملےپرقابل احتساب ہیں‘ چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت شروع ہوگئی،اکرم شیخ اپنے دلائل دے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کررہا ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی یوایس اے تحریک انصاف کی ایجنٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے پی ٹی آئی کے لیے چندہ جمع کراتی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ ممنوعہ ذرائع سے چندہ جمع کرکے بھجوائےتوکیا وصول کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کیا فنڈنگ سے پہلے فارا کو آگاہ کیا جاتا ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس فہرست وہی ہوتی ہےجوایجنٹ بجھواتاہےجبکہ ایجنٹ کوہدایات اور قانون کے دائرےمیں رہ کرکام کرنا ہوتا ہے۔

    انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکی کمپنی سےفنڈ لینےکامعاملہ نوٹس میں آیاہے۔ انہوں نے کہا کہ 50 ڈالرسے کم چندہ دینےوالوں کےنام فہرست میں شامل نہیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کا سرٹیفکیٹ موصول ہونےوالے فنڈز سے متعلق تھا، ایجنٹ نے قانون اورہدایات پرعمل کرنےکا سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا۔

    تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ فارا کو آگاہ کرنا ایجنٹ کی ذمہ داری ہےجبکہ جو فہرست جمع کرائی وہ فاراکی ویب سائٹ پرموجود ہے۔

    انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں فنڈز لینے پرپابندی نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ پولیٹیکل پارٹیزایکٹ میں غلط سرٹیفکیٹ پرسزاکاذکرنہیں، انہوں نے کہا کہ قانون میں غلطی اوراس کےنتائج دونوں درج ہوتےہیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قانون میں ممنوع فنڈنگ ضبط کیےجانےکاذکرہے،قانون میں کہاں لکھا ہےسزا نااہلی ہے۔جسٹس فیصل عرب نےکہا کہ فاراتحریک انصاف پاکستان کی ریگولیٹرنہیں۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نےسرٹیفکیٹ ایجنٹ کی یقین دہانی کےبعد دیا۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ فاراکی ویب سائٹ پرمعلومات درج ہیں۔

    انہوں نےکہا کہ تحریک انصاف چاہتی تو ویب سائٹ پردیکھ سکتی تھی اور یہ کہنا کہ ایجنٹ کی غلطی ہےدرست نہیں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریماکیس دیے کہ ایجنٹ کا کام صرف فنڈزاکٹھا کرنا ہوتاہے،ایجنٹ سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔


    حنیف عباسی کے وکیل کے دلائل


    اکرم شیخ نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان جب چاہیں ایجنٹ کےساتھ معاہدہ ختم کرسکتےہیں اور معاہدےکے تحت ایجنٹ پی ٹی آئی اورفارامیں رابطےکا کام کرتا ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کےایجنٹ نصراللہ نے بھارتی کمپنیوں سے چندہ لے کربھجوایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ذمہ داریوں سےلاپرواہی پرنا اہلی ہوسکتی ہے۔؟

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ عمران خان نےخلاف قانون فنڈنہ لینےکی ہدایت کی تھی؟ انہوں نےکہا کہ آپ برطانوی عدالتوں کےفیصلوں کےحوالےدے رہے ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کورٹ نے کہا کہ کوئی عام آدمی یا سیاستدان ان باتوں کوکیسےسمجھےگا انہوں نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہوسکتی ہے،قانون میں اس پرنا اہلی نہیں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ میری بات سنے بغیرآبزرویشن دیں گےتومنفی تاثرجائےگا،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب حقائق سامنے لانے کا عمل ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عمران خان عام آدمی نہیں،بائیوڈیٹا عدالت میں دوں گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا پہلا کینسراسپتال عمران خان نےبنایا۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کومتاثرکرلیتے ہیں۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ لگتا ہے آپ عدالت سےنہیں میڈیا سے مخاطب ہیں،آپ کا مقصد صرف ہیڈلائنزلگوانا ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عدالت حکومت کوتحقیقات کاحکم دےسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ازخود کیوں نہیں غیرملکی فنڈنگ کی تحقیقات کرتی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کوعدالتی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں پرپابندی کاحامی نہیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں وہ ریلیف بھی ملےجوآپ نےنہیں مانگا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں منتخب حکومت کا اختیار ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے توعمران خان کا سرٹیفکیٹ غلط ثابت کرناہوگا،اکرم شیخ نے کہا کہ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ میڈیاعدالت میں موجود ہے۔

    اکرم شیخ نےکہا کہ عمران خان نےزندگی میں محنت کی،طلسماتی شخصیت کےمالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کےلیے برطانوی عدالتوں کےفیصلےسمجھنا مشکل نہیں۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے500 روپےکا اکاؤنٹ چھپانے پرلوگوں کونا اہل قراردیا، انہوں نے کہا کہ اثاثے چھپانے کامعاملہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت آتا ہے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ نہ لینےکاغلط سرٹیفکیٹ دینابھی نا اہلی کا سبب بنتا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون میں یہ کہاں لکھا ہےوہ دکھائیں۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے شوکت خانم اورنمل کےلیےغیرملکیوں سےچندہ لیا جبکہ عمران خان کی متفرق درخواست عدالت کےساتھ مذاق ہے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ جعلی دستاویزات پرعدالت مقدمہ درج کراتی ہے،انہوں نے کہا کہ ایس ای سی پی کےچیئرمین کےخلاف بھی مقدمہ درج ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کسی نے کہا ہوہماری جگہ بھی چندہ دے دینا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کومسئلہ ہےتوضابطہ فوجداری کی دفعہ 476 کی کارروائی کرائیں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت کے سامنے ردی کی نظرکرنےوالےکاغذات جمع کرائیں گے، انہوں نےکہا کہ کاغذات خود کہہ رہے ہیں کہ ہم جعلی ہیں۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ جعلی کاغذ بنانے ہوتے توکہیں کسٹم اکاؤنٹ نہ لکھا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کسٹم اکاؤنٹ کی جگہ کسی کا نام بھی دیا جاسکتا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ٹائپنگ کی غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ صرف ایک شخص نے5ہزارڈالر دیے،باقی تو100، 50 ہی ہیں۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ فہرست کےمطابق11لاکھ نہیں،8لاکھ 49 ہزارڈالرمنتقل ہوئے۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس کام کیلئےکوئی اکاؤنٹینٹ بٹھانا پڑے گا۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ حساب کا یہ علم سمجھ میں نہیں آتا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ باہرسے پیسہ آنا اچھی بات ہے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ امریکہ سے پیسےآنا خطرناک بات ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا حکومت امریکہ سے پیسے نہیں لیتی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ امریکی پالیسی نے ہی پاکستان کوتباہ کیا۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ سرٹیفکیٹ کامقصد الیکشن کمیشن کی تسلی کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تسلی نہ ہو توالیکشن کمیشن انتخابی نشان الاٹ نہیں کرتا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ درخواست گزار کےمطابق پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جعلی ہے، انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کےمطابق غیرملکی کمپنیزسےفنڈ لیا گیا۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اپنےعملے سے فارا کی ویب سائٹ کھلوا کردیکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ لازمی نہیں ہر کیس میں جے آئی ٹی بنائی جائے۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ شیخ صاحب انکوائری کرنےمیں معاملےمیں محتاط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام تحقیقات کرنا نہیں ہے۔


    سیاسی جماعتیں فنڈنگ ذرائع بتانےکی پابند ہیں‘چیف جسٹس


    واضح رہےکہ گزشتہ سماعت پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے ریماکیس دیے گئےتھے کہ الیکشن کمیشن کوجائزہ لینے اور تفصیلات مسترد کرنےکا اختیار ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • سیاسی جماعتیں فنڈنگ ذرائع بتانےکی پابند ہیں‘چیف جسٹس

    سیاسی جماعتیں فنڈنگ ذرائع بتانےکی پابند ہیں‘چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت ملتوی ہوگئی،اکرم شیخ اگلی سماعت پراپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔

    پاکستان تحریک انصاف کے وکیل انورمنصورسے کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے کہ آپ کی صحت اچھی ہوگی جس پرتحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ زیادہ دیر کھڑاہونا مشکل ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی بھرپور معاونت کی کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیزایکٹ میں2002میں ترمیم کی گئی جبکہ ترمیم میں الیکشن کمیشن سےآڈٹ کا اختیار واپس لے لیا گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کوپڑتال کرنےکابھی اختیارنہیں؟ جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ تفصیلات قانون کےمطابق نہ ہوتو واپس کی جاتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کومتعلقہ تفصیلات پیش کرنےکا کہا جاتاہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتیں فنڈنگ کےذرائع بتانےکی پابند ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کوواضح کرناہوتاہےفنڈنگ قانون کےمطابق ہے اور سیاسی جماعتیں فنڈنگ کےمعاملےپرقابل احتساب ہیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ غیرملکی فنڈنگ کوکوئی خود توسامنےنہیں لائےگا جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن فنڈنگ کرنے والوں کی تفصیلات طلب کرسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ الیکشن کمیشن کسی کواکاؤنٹ درست ہونےکاسرٹیفکیٹ نہیں دیتا،جس پرانور منصور نے کہا کہ عدالت کےسامنے تمام ریکارڈ رکھ دیا ہے۔

    انورمنصور نے کہا کہ کیا صرف پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کامقدمہ ہی سناجانا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے خلاف شکایت ہےتوالیکشن کمیشن کارروائی کرے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےاپنےجواب میں پی ٹی آئی کوفراڈ قراردیا ہے، جسٹس عمرعطا بندیال نے ریماکیس دیے کہ الیکشن کمیشن سنےبغیرکیسےفراڈکہہ سکتاہے۔؟

    انور منصور نے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن کے جواب میں استعمال زبان کا جائزہ لے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ تعصب کا الزام لگا کرجانچ پڑتال سےجان چھڑائی جاسکتی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ آڈٹ کرانا ہے توسب کا کرائیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوآزادانہ فیصلےکا بھی کہہ سکتے ہیں۔

    انورمنصور نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کونشانہ بنایاجارہاہے،ن لیگ لندن میں کمپنی رجسٹرڈ ہے، چیف جسٹس نے ریماکیس دیے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لائیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ دفاع اچھانہیں کہ ’صرف مجھےسزانہ دو‘ جس کے جواب میں تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن معاملے پرواحد فورم ہے جوتعصب کا مظاہرہ کررہا ہے۔


    لندن فلیٹ خریداری میں منی لانڈرنگ نہیں ہوئی ‘ نعیم بخاری


    چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جودیشل کونسل کی طرح الیکشن کمیشن بھی ایگزیکٹوفورم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کےپاس فیصلےکااختیارہے۔

    انورمنصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےپاس فیصلےکرنےکااختیارنہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےاپنےجواب میں عموعی بات کی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ جواب میں پی ٹی آئی کیس کےریفرنس کی بات کی گئی،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف جمع کرائےگئے ریکارڈ کا جائزہ لےسکتا ہے۔

    عدالت عظمیٰ کی جانب سے ریماکیس دیے گئے کہ الیکشن کمیشن کوجائزہ لینےاورتفصیلات مسترد کرنےکا اختیارہے، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جائزہ لینےکا اختیارہے تحقیقات کرنےکا نہیں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریماکیس دیے کہ کوئی خود اپنی غیرقانونی بات نہیں بتاتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کےکیس میں معلومات چند سال بعد سامنے آئیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ معاملہ براہ راست عدالت آتا توآپ کا مؤقف کیاہوتا؟ انہوں نے کہا کہ عدالت جانچ پڑتال کےلیےمعاملہ الیکشن کمیشن کوبجھوا دیتی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کسی اورکے خلاف درخواست آتی الیکشن کمیشن کوبھیجی جاتی۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ بطورکمیشن معاملہ کسی کوبھی بھجوایا جاسکتا ہے۔

    انور منصور نے کہا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایاجاسکتا، انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹس تفصیلات عوام کی معلومات کےلیےشائع کی جاتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیلات شائع کرنےکا مطلب اعتراضات طلب کرنا ہوسکتا ہے،جس کے جواب میں تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ قانون میں عوام سےاعتراضات مانگنےکی گنجائش نہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ارکان اسمبلی کی تفصیلات شائع کرنا قانون میں درج ہے؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کےتحت اثاثوں کی تفصیلات شائع کی جاتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام سیاسی جماعتوں سےحساب لیناہے،جس کے جواب میں تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ انتخابی نشان لینےکےبعد حساب نہیں لیا جاسکتا۔

    تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ انتخابی نشان ملتا ہی حساب لینےکےبعد ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن اگر5 ہزارڈالر کا سوال کرے توکیا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ کیا آڈیٹرکوبتایاجاتاہے فنڈزممنوع ذرائع سےنہیں۔؟

    انورمنصور نے کہا کہ دوسری جماعتوں کی آڈٹ رپورٹس پراعتراضات ہوئےہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری جماعتوں کا معاملہ سامنےآیا تو دیکھیں گے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کےپاس 184/3میں لامحدوداختیارات ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن تحقیقات میں تعین کرلےگا فنڈزممنوع ہیں یا نہیں۔

    انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کس قانون کےتحت انکوائری کااختیاررکھتاہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں الیکشن کمیشن کوذرائع سےمعلومات لینے کا اختیارنہیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آڈیٹرکوتوسیاسی جماعت خود تعینات کرتی ہے،جس کے جواب میں انور منصور نے کہا کہ آڈیٹرسے کچھ چھپایا جائےتورپورٹ میں لکھا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتےہیں آڈیٹرکا لائسنس منسوخ ہو فنڈنگ ضبط نہ ہو، تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوتحقیقات نہیں جانچ پڑتال کا اختیارہے۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اختیارات نہ ہوں توآڈٹ نہیں کیاجاسکتا، انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا الیکشن کمیشن اپنی مرضی کرے۔

    انور منصور نےکہا کہ الیکشن کمیشن کوجانچ پڑتال کا اختیارہرسال ہوتا ہے جبکہ قانون میں الیکشن کمیشن کولامحدوداختیارات نہیں دیےگئے۔

    تحریک انصاف کے وکیل انور منصورنے کہا کہ غیرملکی اورممنوع فنڈنگ2 الگ چیزیں ہیں۔


    حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے دلائل


    حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے 800 صفحات پر مشتمل جعلی دستاویزات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی اورممنوعہ فنڈنگ کو چھپانےکی کوشش کی گئی۔

    اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کےمطابق پاکستان اوریجن کارڈ رکھنے والوں سے فنڈنگ لی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اوریجن کارڈ رکھنے والے پاکستانی شہریت نہیں رکھتے۔

    حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نےاپنے جوابات میں الزامات کوغلط قرارنہیں دیا بلکہ صرف اپنے ایجنٹس کے بیان حلفی جمع کرائے۔

    اکرم شیخ نے کہا کہ جعلی دستاویزات دے کر عدالتی وقار کی توہین کی گئی جبکہ فارا کی ویب سائٹ پرپی ٹی آئی کاتمام ریکارڈ موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہےتمام معلومات فاراکوفراہم نہ کی گئی ہوں۔

    حنیف عباسی کے وکیل نےکہا کہ پی ٹی آئی ایجنٹ کا بیان حلفی جولائی 2017 کا ہے انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہتا انورمنصور ریکارڈ تیار کرانے امریکہ گئے تھے۔

    واضح رہے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کہنے پربعض جوابات بعد میں منگوائے تھے، انہوں نے کہا کہ بعد میں آنےوالے جواب میں تاریخ نئی ہی ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • پاناما کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا

    پاناما کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ کا اعلان کردیا، یہ فیصلہ 20 اپریل کو دوپہر دو بجے سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق  سپریم کورٹ نے سپلمنٹری کاز لسٹ جاری کردی جس کے مطابق پاناما کیس کا وہ فیصلہ جو عدالت محفوظ کرچکی ہے  اسے 20 اپریل کو دوپہر دو بجے سنایا جائےگا۔

    خیال رہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ سننے کے لیے جہاں حکومت اور فریق سیاسی جماعتیں بے چینی سے منتظر ہیں وہیں عوام بھی اس فیصلے کو جاننے کے لیے بے چینی سے انتظار کررہی ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا ہے کہ پوری قوم کو فیصلے کا شدت سے انتظار ہے، پاناما کیس کا فیصلہ مفروضوں پر نہیں سچ پر مبنی ہوگا۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ پوری قوم کو پاناما کیس کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار ہے۔

    فیصلہ 57 دن بعد سنایا جائے گا

    واضح رہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا، یہ فیصلہ 57 دن بعد سنایا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے راشد حبیب نے بتایا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی، یہ فیصلہ تحریر کیے جانے کے مرحلے میں تھا، قبل ازیں کئی بار فیصلے کی تاریخ ملتوی ہوئی تاہم اب کاز لسٹ میں حتمی طور پر اس کیس کے فیصلے کی تاریخ جاری کردی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کاز لسٹ میں اس کیس کی تاریخ شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حتمی طور پر یہ فیصلہ اب سنادیا جائے گا جس کے لیے امکان ہے کہ آج ہی فریقین کو نوٹسز جاری کردیے جائیں گے۔

    سپریم کورٹ کے اطراف سخت سیکیورٹی کا فیصلہ

    پولیس نے پاناما کیس کے فیصلے والے دن یعنی 20 اپریل کو سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی انتہائی سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پولیس نے کہا ہے کہ فیصلے والے دن سخت سیکیورٹی ہوگی، عمارت کے اطراف خار دار تاریں بچھائی جائیں گی، غیر متعلقہ افراد کو سپریم کورٹ جانے کی اجازت نہیں ہوگی صرف فریقین ہی عدالت جاسکیں گے۔

    فریقین پاسز دکھا کر اندر داخل ہوسکیں گے،ترجمان سپریم کورٹ

    ترجمان سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انتظامیہ کو سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی ہدایت کردی ہے،فیصلہ سننے کے خواہشمندوں کو پاسز جاری کیے جائیں۔

    ترجمان نے کہا ہے کہ فیصلے کے فریقین کو پاسز کی ضرورت نہیں ہوگی،فریقین کورٹ کا جاری نوٹس دکھا کرعدالت آسکتے ہیں۔

  • سچ جھوٹ کی ملاوٹ ہوگی تو ملزمان بری ہوجائیں گے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ

    سچ جھوٹ کی ملاوٹ ہوگی تو ملزمان بری ہوجائیں گے‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں قتل کےملزم محمدافضال کی درخواست کی سماعت میں جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا ہے کہ پولیس حکام کو عدالتی فیصلے کا مطالعہ کرنا چاہیے، عدالتی احکامات کے باغور مطالعے سے ابہام نہیں رہتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں قتل کےملزم محمدافضال کی درخواست کی سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے کی۔

    سماعت میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ عدالت نے12 سال جیل میں گزارنے والے ملزم کوشک کی بناپربری کردیا تھا، وکیل مدعی کا کہنا ہے کہ ملزم کےخلاف بنائی گئی کہانی جھوٹی ہے، انہوں دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کےپاس سےخون آلود کپڑے برآمد ہوئے تھے

    جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سچ جھوٹ کی ملاوٹ ہوگی تو ملزمان بری ہوجائیں گے، ملزمان بری ہوتے ہیں تو الزام عدالت پر لگایا جاتا ہے، کوئی یہ نہیں دیکھتا عدالت نےملزم کوکیوں بری کیا ،پولیس مدعی کو خود کہانی بنا کردیتی ہے۔

    سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پولیس حکام کو عدالتی فیصلے کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انہوں اپنی غلطی کا ادراک ہوجائے، انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کے باغور مطالعے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ملزم کو کس لئے بری کیا ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب تک لوگ سچ نہیں بولیں گے اصل ملزم کو سزا نہیں ہو سکےگی، گواہ حلف اٹھا کر کہتے ہیں سچ کےسوا کچھ نہیں کہیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گواہ سچ کےسوا ہی سب کچھ کہتے ہیں۔

  • عوام  کےمفاد اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں ‘ جسٹس امیر ہانی مسلم

    عوام کےمفاد اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں ‘ جسٹس امیر ہانی مسلم

    اسلام آباد: جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی کچھ کالعدم تنظیمیں موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کواس حوالے سے دیکھنا ہوگا.

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں بلوچستان سول اسپتال خودکش حملہ ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، وزارت داخلہ کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ پرجواب جمع کرا دیا گیا، وزارت داخلہ کی کمیشن کی جانب سےجمع شواہد پیش کرنے کی درخواست کی گئی.

    جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوکام تحقیقاتی ادارےکرتےہیں وہ کمیشن نے کیا ہے ، کیونکہ تفتیشی افسرکی تربیت ہوتی ہے وہ ایمانداری سےکام کرتے ہیں.

    ہم عوام کے وسیع تر مفاد میں اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کررہے ہیں، ہمارے علم میں ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی کچھ کالعدم تنظیمیں موجود ہیں انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کواس حوالے سے دیکھنا ہوگا.

    وکیل وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کومن و عن قبول کرتے ہیں تاہم گذارش ہے کہ کمیشن رپورٹ میں وزیرکی جگہ وزارت کا لفظ استعمال کیا جائے.

    جسٹس امیر ہانی مسلم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ شواہد کو دیکھتے ہوئےفیصلہ دیا تو زیادہ سخت ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت ایک شخص کے مفادات کو دیکھے یا قومی مفاد کو؟انہوں نے مزید کہا کہ کوئی حکومت نہیں چاہتی ہے کہ ایسے واقعات ہوں، ہم سمجھتےہیں کہ انسانی غلطی ہوسکتی ہے، ایک شخص تباہی مچاتا ہےاسے پکڑنا آسان کام نہیں ہے.

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت 2ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • ججزنے قطری خط کی دھجیاں بکھیردی ہیں: عمران خان

    ججزنے قطری خط کی دھجیاں بکھیردی ہیں: عمران خان

    اسلام آباد: تحریک انصاف کے سربراہ ہمران خان کا کہنا ہے کہ ججز نے آج قطری خط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، کیس عدالت میں چل رہا ہے لیکن حقیقت میں آج ختم ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےپانچ رکنی لارجر بنچ میں پانامہ کرپشن کیس کی سماعت کی ۔ عدالت میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نعیم بخاری اور بابر اعوان نے کی جبکہ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ان کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ بھی عدالت میں موجود تھے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے بعد آج بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے فیصلہ نہ ہوسکا اور سماعت چھ دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت 6 دسمبرتک ملتوی

     سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے قوم سے پارلیمنٹ میں اورعدالت سے جھوٹ بولا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے چیئرمین نیب کے خلاف کرمینل پروسیڈنگ شروع کرنےکی درخواست بھی کی ہے۔

    تحریک انصاف کے سربراہ کے مطابق مریم نوازنے 2012میں کہا تھا کہ بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں ‘پاناماکاانکشاف نہ ہوتا تو کبھی بیرون ملک جائیداد تسلیم نہ کرتے۔

    کیسے مےفیئر کےفلیٹ خریدے وہ سب ایک دستاویز پرختم ہوگیا، ہم نے یہ دستاویز عدالت میں جمع شواہد سے نکالا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ فیکٹریوں اور بیرون ملک جائیداد سے متعلق دو کہانیاں ہیں،شریف برادران 7مہینے سے کہانیاں بدل رہے ہیں۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ دبئی کی اسٹیل مل میں 2.6ملین درہم کا نقصان ظاہر کیا گیا ہےاگرپیسہ تھا ہی نہیں تو ان کاکیس آج ختم ہوگیا ہے۔شریف خاندان کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ان کی مل نقصان کررہی تھی‘ اسٹیل مل جب نقصان میں تھی توپیسہ کہیں جانے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    عمران خان نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے مطابق منی ٹریل جمع نہیں کرائی گئی ہے،جب پیسہ ہی نہیں تھا تو منی ٹریل کہاں سے آنی تھی۔دستاویزات کہاں ہیں،قطری کہاں سے آگیا، ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ ہم عدالت چلے جائیں گے۔

    کپتان کا کہنا تھا کہ آج ایک اور کمال ہوا ہے کہ ایک ٹرسٹ ڈیڈچھلانگ لگاکرآگئی ہے‘ن لیگ نے آج سپریم کورٹ میں ڈرامہ کیا ہے۔

  • الیکشن کمیشن کابیلٹ پیپرزچھپائی سے متعلق بیان تبدیل

    الیکشن کمیشن کابیلٹ پیپرزچھپائی سے متعلق بیان تبدیل

    اسلام آباد: عام انتخابات میں اضافی بیلٹ پیپرز کے بار ے میں الیکشن کمیشن نے ایک نیا یو ٹرن لے لیا اورتصدیق کی ہے کہ عام انتخابات میں 93 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کی تصدیق کر دی ہے۔

    الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی میں جو تفصیلات پیش کی گئیں ان میں کہا گیا کہ عام انتخابات کے لئے اٹھارہ کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے اب یہ کہا جارہا ہے کہ 93 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز کے ساتھ کل اٹھارہ کروڑ سترہ لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔

    ڈی جی الیکشن مسعود ملک کا کہنا ہے کہ یہ اضافی بیلٹ پیپرز نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپوائی کی گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد عام انتخابات میں دھاندلی نہیں تھا اور یہ فنی ضرورت تھی۔الیکشن کمیشن کے مطابق 1997 عام انتخابات میں 83 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے۔2002 میں 94لاکھ بیلٹ پیپرز‘2008 میں 90 لاکھ جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں 93لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔

    پا کستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طر ف سے پہلے آٹھ لاکھ بعد اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کی الزام عائد کیاگیا بعد میں ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے پچپن لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کا دعویٰ کیا جبکہ گزشتہ روز کے جلسہ میں عمران خان نے الیکشن کمیشن پر 70لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کا الزام عائد کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ: چیف الیکشن کمیشن کی تقرری، حکومت کو مزید وقت دینے سے انکار

    سپریم کورٹ: چیف الیکشن کمیشن کی تقرری، حکومت کو مزید وقت دینے سے انکار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے حکومت کو مزید مہلت دینے سے انکارکردیا ہے۔

    سپریم کورٹ کی تیسری ڈیڈ لائن ختم ہونے پر بھی چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہ ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر تقرر کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حکومت کو مزید مہلت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر تقرری کیس کی سماعت یکم دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر تک اگر چیف الیکشن کمشنر تقرری نہیں ہوئی تو وزیراعظم اور اپوزیشن کو نوٹسز جاری کرسکتے ہیں، اس حوالے سے مذید مہلت نہیں دی جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیراعظم اور قائدحزب اختلاف ایک ہی نام پرمتفق تھے، لیکن ایک سیاسی جماعت نے عوامی جلسے میں نام پراعتراض اٹھایا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نام پراعتراض اٹھانے کے بعدمتعلقہ شخصیت نے چیف الیکشن کمشنربننےسےمعذرت کرلی ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ چندروزکی مہلت دی جائے معاملہ حل کرلیاجائےگا۔

  • سپریم کورٹ نے 24 نومبر تک چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا حکم دے دیا

    سپریم کورٹ نے 24 نومبر تک چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا حکم دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف الیکشن کمیشن کی تقرری سے متعلق اٹارنی جنرل کی جانب سے دائرکردہ درخواست رد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان اسلم بٹ نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک میں جاری سیاسی بحران کے پیشِ نظر چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کی تاریخ میں ایک ماہ کے لئے توسیع کی استدعا کی تھی۔

    مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کررہا ہے، بینچ نے ایک ماہ کے بجائے 24 نومبر تک چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کا حکم دے دیا ہے۔

    واضح رہے کہ چیف الیکشن کمیشن کے عہدے کے لئے جسٹس ریٹائرڈ بھگوان داس ، جسٹس ریٹائرڈتصدق حسین جیلانی اور جسٹس طارق پرویز اسلم نامزد کئے گئے تھے جن میں سے جسٹسریٹائرڈ بھگوان داس نے چیف الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے نام پر پاکستان تحریک انصاف اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔