Tag: Supreme Court Registry

  • نواز شریف کی زیرصدارت اجلاسوں پر پابندی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    نواز شریف کی زیرصدارت اجلاسوں پر پابندی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    لاہور : سپریم کورٹ میں نواز شریف کی زیرصدارت اجلاسوں پر پابندی اور ن لیگ کی رجسٹریشن کی منسوخی کے لئے آئینی درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹانے اور ن لیگ کی رجسٹریشن کی منسوخی کے لئے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کر دی گئی، درخواست خدائی خدمت گار تنظیم کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ نااہلی پر نہ نواز شریف کسی جماعت کی صدارت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ رہ سکتی ہے۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ پاناما فیصلے کے باوجود نواز شریف پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہیں، نواز شریف نے وزیراعظم اور کابینہ کی تشکیل دی، جو عدالتی احکامات کے خلاف ہے جبکہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت نواز شریف کے نام سے رجسٹرڈ ن لیگ نامی پارٹی کا کوئی وجود نہیں رہا۔

    درخواست میں استدعا کی کہ عدالت نواز شریف کی مشاورت سے وزیر اعظم اور کابینہ کی تشکیل کو کالعدم قرار دے اور اور دوبارہ سے آئین کے مطابق کابینہ تشکیل دینے کا حکم دیا جائے، نواز شریف کو آئندہ کسی بھی اجلاس کی صدارت پر پابندی اور اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاوس جانے پر پابندی عائد کرنے کا بھی حکم جاری کرے، ساتھ ہی نواز شریف کی ریلی میں لاہور آمد روکنے کے احکامات دئیے جائیں۔

    موقف میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے نا اہل ہونے سے پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہوگئی، اسلئے نئی پارٹی رجسٹرڈ کراکر الیکشن کا حکم بھی دیا جائے۔


    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار


    واضح رہے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا تھا اور نواز شریف ، حسن، حسین، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب میں ریفرنس بھیجنے اور چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کے سبکدوش ہونے کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی تھی جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس جاری ہونے کے بعد  پارٹی رکنیت بھی ختم ہوگئی تھی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • سپریم کورٹ: تلاشی لینے پر آئی جی سندھ اسٹاف پر برہم

    سپریم کورٹ: تلاشی لینے پر آئی جی سندھ اسٹاف پر برہم

    کراچی: سپریم کورٹ رجسٹری میں داخلے سے قبل تلاشی لینے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سیکیورٹی اسٹاف پر بُری طرح برس پڑے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے لیے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سپریم کورٹ پہنچے تو مرکزی دروازے پر انہیں چیکنگ کے مرحلے سے گزرنا پڑا اور آئی جی کو گاڑی کی تلاشی دینی پڑی۔

    اس دوران آئی جی سندھ نے ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو اپنا تعارف کروایا تاہم انہوں نے اے ڈی خواجہ کو جواب دیا کہ ہمیں تمام گاڑیوں کی تلاشی لینے کے احکامات دئیے گئے ہیں، چیکنگ کے مرحلے کو عبور کرنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سرپم کورٹ کے سیکیورٹی آفس پہنچے اور وہاں موجود اسپیشل برانچ سمیت ایس ایس یو کے عملے پر اظہار برہمی کیا۔

    پڑھیں :   سپریم کورٹ : سندھ حکومت نے 5 سالہ کارکردگی رپورٹ جمع کرادی

    سانحہ کوئٹہ کے بعد تمام عدالتوں میں سیکیورٹی اقدامات کے پیشِ نظر سپریم کورٹ رجسٹری میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں کی چیکنگ ki گئی. اس موقع پر چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن سمیت دیگر افسران کو بھی اسی مرحلے سے گزرنا پڑا۔

    مزید پڑھیں : ڈی جی رینجرز کا سندھ ہائیکورٹ کا دورہ، مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی

    یاد رہے کوئٹہ بم دھماکے میں وکیلوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے تمام عدالتوں میں سخت انتظامات کیے ہیں۔اس ضمن میں پاکستان بار کونسل کے صدر بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی وکلا سے سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں سے تعاون کی اپیل کی ہے اور اُن سے التماس کی عدالت میں داخلے سے قبل چیکنگ کرواکر عدالت میں داخل ہوں تاکہ وکلا کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔

  • کراچی بدامنی کیس : اویس شاہ اغوا کیس رپورٹ مسترد

    کراچی بدامنی کیس : اویس شاہ اغوا کیس رپورٹ مسترد

    کراچی : سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ، پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس مسترد کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی اسلم کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، دورانِ سماعت پولیس کی جانب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے جسٹس اویس شاہ اغواء کیس پر آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔

    آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور ایس پی طاروق نواز سمیت 24 ڈی ایس پیز کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اُن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

    جسٹس امیر ہانی نے سندھ پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف وارننگ دینے سے کام نہیں چلے گا، رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے خلاف مترادف ہے،سیکریٹری داخلہ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کے پاس تحقیقات کا اختیار ہے۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے سیکریٹری داخلہ سے استفتار کیا کہ ‘‘ کیا 20 جون کو شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے ؟، جس پر سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں لگے کیمرے ٹھیک ہیں مگر وہ بہت ہلکی کوالٹی کے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی‘‘۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنے بڑے شہر میں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر پیسوں کا ضیاء کیا گیا، جدید دور میں ناکارہ کیمرے لگانے کی منظوری کس نے دی؟، کوئی بھی ادارہ اپنے کام کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔

    جسٹس امیر ہانی اسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’کیا اب انتظامی معاملات بھی ججز دیکھیں گے؟ ‘‘، عدالت نے اویس شاہ بازیابی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا اور مبارک باد پیش کی۔

    اس موقع پر جسٹس خلیجی نے کہا کہ ہم نے جان کی پرواہ کیے بغیر اویس شاہ کیس پر کام کو جاری رکھا، امیر ہانی اسلم نے اس امید کا اظہار کیا کہ دیگر لاپتہ افراد بھی جلد بازیاب کروالیے جائیں گے۔