Tag: supreme court

  • سپریم کورٹ نے نیب کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے،چیئرمین نیب کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ نے نیب کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے،چیئرمین نیب کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے نیب کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے اور چیئرمین نیب کو نیب کی کارکردگی کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں نجی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے رفاہی پلاٹس پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سپریم کورٹ نے نیب کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے اور چیئرمین نیب کونیب کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی، چیف جسٹس نے کہا سینکڑوں کیس10،10سال سے زیرالتواہیں،پیش رفت نہیں ہوتی۔

    سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے تفتیشی افسر اوصاف کے خلاف انکوائری کی بھی ہدایت کردی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے رجسٹرار کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا پارکس،مسجد اراضی کی الاٹمنٹ کینسل کیوں نہیں کرتے؟ مسجد اوراسکولز سب پلاٹس بیچ ڈالے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نےالاٹمنٹ کیں وہ کیسے باہر گھوم رہےہیں، یہاں دیدہ دلیری سےسینہ تان کر کھڑے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ریاست کیا کر رہی ہے؟ کیا ریاست بےیارومددگارہوچکی ہے؟ نیب کیا کر رہاہے؟ انہیں جیلوں میں کیوں نہیں ڈالتے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا 4افراد نے عبوری ضمانتیں حاصل کر رکھی ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا 32 پلاٹوں کامعاملہ 10سال سے چل رہاہے، حکومت کو کچھ فکر نہیں، رجسٹرارکوآپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی نے بتایا پلاٹس منسوخ کرنا میرے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا۔

    جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ پھر کون کرے گا یہ؟ ریاست بےیارومددگار دکھائی دے تو پھر کیا ہوسکتاہے؟ ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی ہیں، اصل بات 11سال سےدبی ہے، پارک کاٹ کر جو 32 پلاٹس کاٹے سب سے پہلے ان کی بات کریں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا کیا کوئی نہیں جانتا، کیا کرنا ہوتا ہے؟ وکیل نیب نے بتایا کہ پلاٹس کی الاٹمنٹ کی منسوخی ایس بی سی اے کا اختیار ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لے آؤٹ کا بیڑاغرق کردیا، مسجد،پارک کوئی نہیں چھوڑا، نیب کیا آسمان سے اترا ہے؟ رجسٹرار کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی نے کہا مجھے دو ماہ پہلے چارج ملا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ تو کیا رجسٹرار آفس دو ماہ پہلے بنا؟

    جسٹس قاضی محمدامین احمد نے استفسار کیا کہ نیب تفتیشی افسر ملزمان کی گرفتاری کےلیےکیاکیا؟ اگر ضمانت پرہیں توکیا ضمانت صدیوں تک چلنی ہے؟

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر صاحب، کیا آپ ہی کو فارغ کردیں؟ چیئرمین نیب کوکہہ دیتے ہیں، آپ کے خلاف انکوائری کریں، تفتیشی افسر نیب ہی کو جیل بھیج دیتے ہیں، لگتا نہیں کہ یہ تفتیشی افسر ہیں، ضمانت کب ملی،کب کیاہوا؟نیب تفتیشی افسر کوکچھ نہیں پتہ۔

    نیب خود ملزمان سے ملی ہوئی ہے، سارے کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ عوام کےکاموں کے لیےلگایاآپ کو کسی اور کام میں لگ گئے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے نیب سے متعلق ریمارکس میں کہا کہ نیب، ایف آئی اے ریاست کےاہم ترین ادارے ہیں، ٹوٹل اینڈ ٹوٹل کولیپس ہے ، ریاست ناکام دکھائی دیتی ہے، اس طرح تو پورے کراچی پر قبضہ ہو جائےگا۔

    عدالت نے کہا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ملزمان کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جائے۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ کا سول ایوی ایشن کو کلب ختم کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا سول ایوی ایشن کو کلب ختم کرنے کا حکم

    کراچی: سپریم کورٹ نے سول ایوی ایشن کو کلب ختم کرنے کا بڑا حکم دیتے ہوئے کلب کی جگہ بطور میس استعمال کرنےکی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سول ایوی ایشن اراضی پر کلب بنانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمے میں کہا آپ کیسے کاموں میں لگ گئے، ساری دن تو کلب کے معاملات دیکھتے ہوں گے آپ۔

    چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے کا کہنا تھا کہ شادی کےکھانے اور شادیاں کرانے پرپورادن لگ جاتاہوگا، کل جہاز اڑانے کی جگہ پربھی کلب بنا دیں گے ، اس طرح تو آپ اپنے گھربھی بنا لیں گے، یہ سب کب سے کرنے لگے آپ لوگ؟

    ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا یہ 90کی دہائی سے شروع ہوا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیا نجی لوگوں کو بھی ممبر شپ دی آپ نے؟ تو
    ڈی جی سول ایوی ایشن نے جواب میں کہا جی پرائیوٹ لوگوں کوبھی رکنیت دے رکھی ہے۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مطلب نجی لوگ بھی سول ایوی ایشن سہولتیں انجوائےکر رہےہیں، جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ کلب ختم کرکے میس بنانے کی اجازت دی جائے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پھر نجی لوگوں کو اجازت نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کس کام کے لیے بنایا تھاکلب آپ نے؟ ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا آفیسرز کے لیے کلب بنایا گیا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عام ملازمین کے لیے کیوں نہیں؟

    سپریم کورٹ نے سول ایوی ایشن کو کلب ختم کرنے کا بڑا حکم دیتے ہوئے کلب کی جگہ بطور میس استعمال کرنےکی اجازت دے دی تاہم نجی افراد کو سول ایوی ایشن میس استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

  • سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد کم ہونے لگی

    سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد کم ہونے لگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہونے لگی ، گزشتہ2 ہفتوں میں736 مقدمات نمٹائے گئے، جس کے بعد تعداد 53ہزار 266 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےزیر التوامقدمات کی 15روزہ رپورٹ جاری کردی ہے ، جس میں بتایا گیا کہ زیر التوامقدمات کی تعداد54ہزارسے کم ہوکر 53ہزار 266 ہوگئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15نومبرتک زیر التوا مقدمات کی تعداد53ہزار266ہے، گزشتہ2ہفتوں میں736مقدمات نمٹائے گئے اور 500نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔

    خیال رہے 2اکتوبرکوعدالت میں زیر التوامقدمات کی تعداد54ہزار سے تجاویز کرگئی تھی۔

    دوسری جانب چیف جسٹس گلزاراحمد نے22نومبرکےعدالتی ہفتےکیلئےبینچزتشکیل دے دیے ، تین رکنی بینچ سرکاری پلاٹ الاٹمنٹ کیس کی23نومبرکوسماعت کرے گا۔

    سپریم کورٹ کا 5رکنی لارجربینچ اراضی سے متعلق کیس کی23نومبرکو سماعت کرے گا۔

  • سپریم کورٹ کا خواتین کی وراثت سے متعلق تحریری فیصلہ جاری

    سپریم کورٹ کا خواتین کی وراثت سے متعلق تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خواتین کی وراثت سے متعلق تحریری فیصلہ میں کہا ہے  کہ مردوں کا خواتین کو شرعی وراثتی حق سے محروم رکھنا مکروہ عمل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے خواتین کی وراثت سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا ، جسٹس قاضی فائزعیسی نے خواتین کی وراثت سے متعلق فیصلہ تحریر کیا۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ مرد وں کاخواتین کوشرعی وراثتی حق سےمحروم رکھنا مکروہ عمل ہے، خواتین کوشرعی وراثت سے محروم کرنا اللہ کےحکم کی خلاف ورزی ہے۔

    تحریری فیصلہ میں کہا ہے کہ فراڈ اور دیگرحربوں سے خواتین کوشرعی وراثت سے محروم رکھنا عام ہے، خواتین کے لیے وراثت سے محرومی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں ہردن مرد وارث خاتون وارث کو حق سےمحروم کرتا ہے۔

    یاد رہے رواں سال اگست میں بھی سپریم کورٹ نے خواتین کو وراثتی جائیداد میں حق دینے سے متعلق فیصلہ جاری کیا تھا ، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خواتین کے وراثتی حقوق سےمتعلق اقدامات نہ کرنا افسوسناک ہے، محض چن دوسائل رکھنے والی خواتین ہی وراثتی حقوق کیلئےعدالت آتی ہیں جبکہ عدالتوں میں جائیداوں کےمقدمات سست روی سےچلتے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کاچار عدالتی فورمزسےہوکر تیرہ سال بعد فیصلہ ہوا، ریاست کوخواتین کےوراثتی حقوق کاخود تحفظ کرنا چاہیے، خواتین کو وراثتی جائیدا دسےمحروم رکھنا خود مختاری سےمحروم رکھنا ہے۔

  • سانحہ اے پی ایس: سپریم کورٹ نے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی

    سانحہ اے پی ایس: سپریم کورٹ نے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں حکومت کو چار ہفتے میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سانحہ آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت ہوئی، عدالتی حکم کی تعمیل پر وزیراعظم عمران خان عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

    وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سانحہ اے پی ایس بہت دردناک تھا، عوام شدید صدمےمیں تھی جب سانحہ ہوا تو کے پی میں ہماری حکومت تھی، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا۔

    جس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں ،ہمارے لئے قابل احترام ہیں، آپ کیس کے معاملے پر بات کریں تو وزیراعظم نے کہا کہ میں سیاق و سباق کے حوالےسے بتانا چاہتاہوں، جب یہ سانحہ ہوا تو فوراً پشاور پہنچا، سانحہ کےبعد کےپی میں ہماری حکومت نے ہرممکن اقدامات کئے،صوبائی حکومت جو بھی مدد کرسکتی تھی وہ کی۔

    وزیراعظم کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا، ججز نے ریمارکس دئیے کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سےمذاکرات کررہےہیں۔جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپ مجھے بات موقع دیں میں ایک ایک کرکےوضاحت کرتاہوں تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سےکوئی سروکار نہیں، اتنے سال گزرنےکےبعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے دشمن کون؟

    کیس کی سماعت کے دوران سماعت چیف جسٹس نے آئین کی کتاب اٹھاکر کہا کہ یہ آئین کی کتاب ہے جو ہر شہری کو سیکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت 4ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کیلئے4ہفتے کی مہلت دیدی۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم شہدا کے اہلخانہ سے ملیں اور ان کے مطالبات سنجیدگی سے سنیں، پیش رفت رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کیساتھ جمع کرائی جائے۔

    سماعت ملتوی ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ سےروانہ ہوگئے

    وزیراعظم عمران خان کی طلبی


    اس سے قبل سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ پیش میں ہوئے اور بیان میں کہا میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ، آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے۔

    اٹارنی جنرل کا عدالت میں بیان


    وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں طلبی سے قبل اٹارنی جنرل نے بتایا وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے ، ایسے نہیں چلے گا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اورآسان ہدف اسکول کےبچے تھے، ممکن نہیں دہشت گردوں کواندر سے سپورٹ نہ ملی ہو جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو ایسے مرنے نہیں دے سکتے۔

    دوران سماعت ٹی ٹی پی کا تذکرہ


    دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا، جسٹس قاضی امین نے کہا اطلاعات ہیں ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی، چاصل میں توکارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیےتھی، اوپر والےتنخواہیں اور مراعات لیکر چلتےبنے، جس پر وکیل والدین امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ حکومت ٹی ایل پی سےمذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کاہے ریاست کانہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔

    دردناک سانحہ کا پس منظر


    یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، دہشت گردوں نےعلم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

    آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دردناک سانحے اور دہشت گردی کے سفاک حملے میں 147 افراد شہید ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی تھی۔

    خیال رہے پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر سات سال سے غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی، لیکن پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پابندی ختم کر دی گئی تھی۔

    جس کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث کچھ مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے۔

  • سپریم کورٹ کا  سندھ ریونیو کو تمام قبضے ختم کرانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا سندھ ریونیو کو تمام قبضے ختم کرانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے سندھ ریونیو کو تمام قبضے ختم کرانے اور اینٹی انکروچمنٹ سیل کو فعال بنانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ملک بھر کی ریونیو اراضی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے سندھ ریونیو کو تمام قبضے ختم کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ابھی بھی بڑے پیمانے پر ریونیو اراضی پرقبضے ہیں، بتایا جائے کراچی میں ریونیو کی کل کتنی اراضی پر قبضے ہیں۔

    عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریونیو ریکارڈ میں 2 لاکھ سے زائد مشتبہ اندراج پر بھی کارروائی کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا عام شخص کوتو داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا ریونیو میں، ریونیو ریکارڈ تک عام فرد کا تو داخلہ ہی ممکن نہیں، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ عام آدمی کا داخلہ نہیں ہوگا تووہ کیسے معلومات لےگا تو سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے بتایا یکارڈ کوویب سائٹ پر بھی ڈال دیا گیا ہے۔

    دوران سماعت خیبر پختونخواہ ریونیو کی پیش رفت رپورٹ جمع کرا دی گئی،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا سندھ ریونیو کی رپورٹ کہاں ہے؟

    جس پر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ نے بتایا کہ 95فیصدریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیاہے، صوبائی ریکارڈسیل کاڈیٹابھی کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا جبکہ 2 لاکھ سے زائد مشتبہ اندراج کوبلاک کیاگیاہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ مشتبہ اندراج پر کچھ طے تو کیا نہیں، جس زمین سےقبضے ختم کرائے ان کومحفوظ کیسے بنا رہے ہیں، جس پر شمس الدین سومرو نے کہا متعلقہ ادارےہی اپنی اپنی زمینوں کےتحفظ کی ذمے دارہیں۔

    سپریم کورٹ نے اینٹی انکروچمنٹ سیل کو فعال بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا سرکاری اراضی پر جہاں بھی قبضہ ہو، خالی کرایا جائے جبکہ اور سینئرممبربورڈآف ریونیو کوعمل درآمد کرکے رپورٹ جمع کرانےکی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے سندھ بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو فوری کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا سندھ پبلک پراپرٹی ریموول آف انکروچمنٹ کاتوکردار ہی نہیں، جس پر سینئر ممبر بورڈآف ریونیوشمس الدین سومرو نے بتایا اینٹی انکروچمنٹ فورس بنی ہوئی ہے، شہری سیل میں شکایت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریونیو کیس کی سماعت آئندہ سیشن کے لیے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ کا پی ای اسی ایچ ایس بلاک 6 کی گرین بیلٹ پر تعمیر تمام گھر گرانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا پی ای اسی ایچ ایس بلاک 6 کی گرین بیلٹ پر تعمیر تمام گھر گرانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے پی ای اسی ایچ ایس بلاک 6 کی گرین بیلٹ پر تعمیر تمام گھر گرانے سمیت کے الیکٹرک گرڈ اسٹیشن کو بھی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پی ای سی ایچ ایس میں گرین بیلٹ پر کے الیکٹرک گرڈ اسٹیشن بنانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    رہائشیوں کی جانب سے کے الیکٹرک کے خلاف درخواست پر سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل سے استفسار کیا یہ بتائیں، آپ کےگھر بھی تو گرین بیلٹ پر ہیں، جس پر ایڈووکیٹ شعاع النبی نے کہا یہ ہمارا کیس ہی نہیں، کیس یہ ہے سوسائٹی نے رفاہی پلاٹ کے الیکٹرک کودے دیا۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیاآپ کلین ہینڈزکے ساتھ عدالت آئے؟ آپ کے اپنے گھر بھی تو گرین بیلٹ پر ہیں۔

    سپریم کورٹ نے پی ای اسی ایچ ایس بلاک 6 کی گرین بیلٹ کلئیر کرانے اور گرین بیلٹ پر تعمیر تمام گھر گرانے سمیت کے الیکٹرک گرڈ اسٹیشن کو بھی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے کہا کے الیکٹرک پرائیوٹ کاروبار کررہی ہے جگہ کہیں اور لے، رہائشی بھی کلین ہینڈزنہیں آئے لہٰذاان کے گھر بھی گرائے جائیں۔

    عدالت نے بلاک 6کےرفاہی پلاٹ پر پارک کواصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ پی ای سی ایچ ایس کی جانب سے کون پیش ہوا؟ پی ای سی ایچ ایس نےتو پوری سوسائٹی کے رفاہی پلاٹ بیچ ڈالے۔

    سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک، رہائشیوں، پی ای سی ایس ایچ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

  • شادی ہالز چلانا آپ کا کام نہیں، سول ایوی ایشن اراضی کیس میں سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    شادی ہالز چلانا آپ کا کام نہیں، سول ایوی ایشن اراضی کیس میں سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    کراچی : سپریم کورٹ نے سول ایوی ایشن کو دیگر کمرشل سرگرمیوں سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ شادی ہالز چلانا سول ایوی ایشن کا کام نہیں، سول ایوی ایشن اپنی اراضی پرسول ایوی ایشن سے متعلق ہی کام کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سول ایوی ایشن اراضی کیس کی سماعت ہوئی۔

    دوران سماعت جسٹس قاضی محمد امین احمد نے استفسار کیا کیا دنیا میں سول ایوی ایشن شادی ہالز چلاتی ہے، پھر نائٹ کلب اور کسینو بھی کھول لیں آپ، کیا ہیتھرو ائیر پورٹ پر شادی ہالز ہیں، کیا پی آئی اے ہوتی تھی کیا کراچی ہوتا تھا۔

    عدالت نے کہا آپ لوگوں نےائیر پورٹس کو کیا سے کیا بنا دیا اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے سروے رپورٹ اور جامع جواب طلب کرلیا۔

    وکیل سی اےاے شمس سومرو نے بتایا کہ سول ایوی ایشن کومارکیٹ ویلیو پراراضی نہیں دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا سول ایوی ایشن کو سنگل آؤٹ کیوں کر رہے ہیں، آپ کے پاس تو صرف ایک رن وے ہے،دوسرا رن وےوہ تو آج تک فعال نہیں دیکھا تو وکیل کا کہنا تھا کہ دوسرا رن وے ہے مگر متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے سول ایوی ایشن کو دیگر کمرشل سرگرمیوں سے روک دیا اور ریمارکس میں کہا شادی ہالز چلانا سول ایوی ایشن کا کام نہیں، سول ایوی ایشن اپنی اراضی پرسول ایوی ایشن سے متعلق ہی کام کرے اور اپنے مقاصد سے ہٹ کر تمام سرگرمیاں بند کریں۔

    گذشتہ روز سماعت میں بھی چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی زمین پر توشادی ہال چل رہے ہیں، آپ کا کام شادیاں کرانا ہے کیا؟

    عدالت نے 209ایکٹراراضی کیس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کو طلب کرلیا تھا۔

  • گجر اور اورنگی نالہ متاثرین کیس: چیف جسٹس  کے حکم پر  وزیراعلیٰ سندھ عدالت میں  پیش

    گجر اور اورنگی نالہ متاثرین کیس: چیف جسٹس کے حکم پر وزیراعلیٰ سندھ عدالت میں پیش

    کراچی : گجرنالہ اور اورنگی نالہ متاثرین کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش ہوگئے جبکہ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ سے جاری حکم امتناع ختم کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں گجرنالہ اور اورنگی نالہ متاثرین کے کیس پر سماعت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جی بتائیں کیاپیش رفت ہوئی؟ گجرنالہ متاثرین کی بحالی کے لئے ابتک کیاکیا؟ عملی طورپرگراؤنڈپرکیاہورہاہے ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ نےرپورٹ جمع کرادی، کچھ مالی ایشوزآرہےہیں۔

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا ہورہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سے کہیں فوری پہنچیں۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلائیں وزیراعلیٰ سندھ کوابھی ان سےہی پوچھیں گے، آپ لوگ عدالت کامذاق اڑارہےہیں؟ یہ کیارپورٹ پیش کی ہے آپ نے؟

    سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے جاری حکم امتناع ختم کردیے، عدالت نے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہا جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات فوری گرائی جائیں۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے متاثرین کو متبادل جگہ آباد کرنے کا حکم دے رکھا تھا ، عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ سےرپورٹ طلب کی تھی۔

  • پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ

    پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ کرلیا اور حکم ناموں کی مصدقہ نقول طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت پنجاب حکومت نےبلدیاتی اداروں کی بحالی کانوٹیفکیشن پیش کیا۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پنجاب حکومت کےنوٹیفکیشن کی ڈرافٹنگ ہی درست نہیں، صوبائی حکومت سمجھتی ہےبلدیاتی ادارےانہوں نے بحال  کیے، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب حکومت نےکہاعدالتی حکم پرعمل نہیں ہوسکتا۔

    سپریم کورٹ نےلاہور ہائیکورٹ کی تمام کارروائی کاریکارڈطلب کرتے ہوئے کہا تحقیقات کرکےمعاملے کی تہہ تک جائیں گے، ۔جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس میں کہا سیکرٹری کے تحریری جواب میں ہےکہ وزیراعلیٰ کو سمری بھیجی تھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی ذمہ دار ہوا اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب،سابق چیف سیکرٹری پنجاب،سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور سماعت دو ہفتوں کےلیے ملتوی کردی گئی۔