Tag: supreme court

  • سپریم کورٹ نے ایک کیس میں سندھ  حکومت کو جرمانہ کردیا

    سپریم کورٹ نے ایک کیس میں سندھ حکومت کو جرمانہ کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو غیر ضروری التوا پر جرمانہ کردیا اور فریقین کے وکلا کے سفری اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے ایک کیس میں سندھ حکومت کو جرمانہ کر دیا اور غیرضروری التوا پر فریقین کے وکلا کے سفری اخراجات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کوغیر ضروری التوا پر جرمانہ کیا ، عدالت نے کہا کہ دونوں وکلاحیدرآباد،سندھ سے آئے ہیں ، سندھ حکومت وکیل امداد علی، ضمیر اللہ کو 50 ،50 ہزار روپے ادا کرے،عدالت

    ایڈیشنل اےجی سندھ نے کہا عدالت سے استدعا ہے 2دن کی مہلت دیں، ج پر عدالت نے ایڈیشنل اےجی سندھ کی مہلت مانگنےکی استدعامستردکردی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس التوا کا اختیار نہیں ہے۔

    جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اے جی سندھ تحریری جواب کی کاپی جمع نہ کراسکے، گزشتہ سماعت پربھی حاضری یقینی بنانےکاحکم دیاتھا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 5نومبر تک ملتوی کردی۔

  • مرید عباس قتل کیس : سپریم کورٹ نے عادل زمان کی ضمانت کالعدم قرار دے دی

    مرید عباس قتل کیس : سپریم کورٹ نے عادل زمان کی ضمانت کالعدم قرار دے دی

    کراچی : سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے مرید عباس قتل کیس کے مرکزی ملزم عادل زمان کی ضمانت منسوخی سے متعلق فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے ملزم کی ضمانت کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مرید عباس قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عینی شاہدین عمر ریحان اور اسامہ کے مطابق عادل زمان موقع پر موجود تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عادل زمان خضرحیات اور مرید کے قتل کے وقت عاطف زمان کے ساتھ تھا، ملزم کو گواہوں نے شناخت پریڈ کے دوران شناخت بھی کرلیا تھا، دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ واردات میں اسلحہ بھی عادل زمان کا استعمال ہوا۔

    سپریم کورٹ کے مطابق شواہد عادل زمان کو عاطف زمان کا شریک ملزم ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں، ضمانت پر رہائی کا ناجائز استعمال اور ٹھوس شواہد ہونا الگ الگ معاملہ ہے، عادل زمان کے خلاف تسلیم شدہ حقائق بیان کئے گیے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کی آبزرویشن دستیاب شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، ہائیکورٹ نے ضمانت دیتے ہوئے اہم شواہد اورحقائق کو نظر انداز کیا، ہائیکورٹ کی جانب سے عادل زمان کی ضمانت کا حکم کالعدم قرار دیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ ٹرائل کورٹ آزادانہ ٹرائل کرکے کیس کا فیصلہ سنائے۔

    مزید پڑھیں : مرید عباس کیس ، ضمانت خارج ہونے پر عادل زمان عدالت سے فرار

    واضح رہے کہ اینکر مرید عباس قتل کیس میں ضمانت خارج ہونے ملزم عادل زمان عدالت سے فرار ہوگیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے ملزم کو گرفتار کرکے واپس جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    خیال رہے اہلیہ زارا عباس نے اپنے شوہر کے قاتلوں سے صلح کرنے سے انکار کرتے ہوئے  کہا تھا مریدعباس کے قتل کاہرگز سودا نہیں کرسکتی، کیس جتنا بھی طویل چلے مکمل طور پر پیروی کروں گی۔

  • شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

    شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ معطل کردیا اور کہا شوگر اسکینڈل  پر  متعلقہ ادارے تحقیقاتی عمل جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمیشن میں مختلف شعبوں کےماہرین شامل ہونے چاہئیں تھے، جس پر ا ٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹ میں سزا تجویزنہیں کرنا تھی، مزید تحقیقات محکموں نے خود کرنا تھی، سندھ ہائیکورٹ نے تکنیکی بنیادپر کمیشن کو کالعدم قرار دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اعتراض یہ تھا کہ کمیشن کا نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا تھا تو ا ٹارنی جنرل نے کہا سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کمیشن کا نوٹیفکیشن گزٹ میں شائع نہیں ہوا ، گزٹ نوٹیفکیشن میں تاخیر سے کمیشن کا کام متاثر کیسے ہوسکتا ہے؟

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمیشن نے انکوائری میں صرف حقائق کا تعین کیا تھا ، ہائی کورٹ حقائق کو کالعدم کیسے قرار دے سکتی ہے؟ کابینہ کی منظوری سے کمیشن میں آئی ایس آئی نمائندہ شامل کیا گیا، کابینہ نے صرف انکوائری کیلئے معاملہ متعلقہ اداروں کوبھجوایا۔

    اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ متعلقہ اداروں کو معاملہ بھجوانے میں کیا مسئلہ ہو سکتا؟ سندھ ہائیکورٹ میں وہ ملزگئیں جن کاآڈٹ بھی نہیں ہوا تھا، شوگر مل مالکان کو کمیشن کے قیام کا علم تھا۔

    سپریم کورٹ نے شوگر کمیشن رپورٹ کالعدم قرار دینے کا سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا شوگراسکینڈل پر متعلقہ ادارے تحقیقاتی عمل جاری رکھیں گے، اس دوران سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد معطل رہے گا۔

    سپریم کورٹ نے 20شوگر ملز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی سماعت ایک ماہ بعد ہوگی۔

    یاد رہے 17 اگست کو سندھ ہائی کورٹ نے شوگر انکوائری کمیشن اور رپورٹ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا تھا، ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ نیب اور ایف بی آرگزشتہ کمیشن رپورٹ سے ہٹ کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے اور کمیشن میں شوگر انڈسٹری سے متعلق معلومات رکھنے والوں کو بھی شامل کیا جائے۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا تھا کہ ایف بی آر ٹیکس قوانین کے مطابق تحقیقات کرے جب کہ ایف آئی اے بھی اس حوالے سے از سر نو تحقیقات کرے۔

    بعد ازاں وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اپیل میں کہا گیا تھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے شوگرکمیشن کی رپورٹ تکنیکی نکات پرکالعدم قراردی، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے سے شوگرمافیا کو فائدہ پہنچا اور عوام شدید متاثر ہوئے ہیں۔

    حکومت نے جانب سے اپیل میں کہا تھا کہ شوگرمافیا انتہائی مہنگے داموں چینی فروخت کرکےدونوں ہاتھوں سےلوٹ رہی ہے، سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردے کر شوگرکمیشن رپورٹ بحال کی جائے تاکہ شوگرکمیشن رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات ہوسکیں۔

  • سپریم کورٹ کا فوری طور پر دریاؤں اور نہروں کے اطراف شجرکاری کا حکم

    سپریم کورٹ کا فوری طور پر دریاؤں اور نہروں کے اطراف شجرکاری کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر دریاؤں اور نہروں کے اطراف شجرکاری کا حکم دیتے ہوئے  نئی گاج ڈیم کی تعمیر جلد مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے نئی گاج ڈیم تعمیر کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ دریاؤں کیساتھ کچےکی زمین پر کاشت کاری نہیں ہو سکتی، دریاؤں اورنہروں کےاطراف پودےنہیں درخت لگائیں ، کم ازکم 6فٹ پردرخت لگا کر اس کو محفوظ بنائیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سےپانی کی قلت ہوسکتی ہے، دریاؤں اور نہروں کیساتھ درخت لگانے کی کوئی اسکیم نہیں ہے؟ درخت لگانے کاسلسلہ ختم ہو گیا ہے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بےایا حکومت نےبلین ٹری سونامی کامنصوبہ شروع کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہاں دریاؤں اور نہروں کے اطراف جنگلات کی بات ہو رہی ہے، شیشم کے درخت پنجاب میں ختم ہو گئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیا بنا، جس پر جوائنٹ سیکرٹری پانی بجلی نے بتایا کہ نئی گاج ڈیم کے پی سی ون کی ایکنک نےتاحال منظوری نہیں دی۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ نئی گاج ڈیم پانی کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے، وفاق اور سندھ نئی گاج ڈیم کی تعمیر پر رضامند ہیں۔

    سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر دریاؤں اور نہروں کے اطراف شجرکاری کا حکم دیتے ہوئے شجرکاری پرتمام حکومتوں سے ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نےدریاؤں کےاطراف کچےکی زمین پر کاشت کاری سےبھی روک دیا جبکہ وفاق اور سندھ سے نئی گاج ڈیم کی تعمیر کی ٹائم لائن طلب کرتے ہوئے نئی گاج ڈیم کی تعمیر جلد مکمل کرنے کی بھی ہدایت کردی۔

  • حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنے کا حکم

    حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیس کے تفصیلی فیصلے میں حکومت کوشمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنےکاحکم دیتے ہوئے کہا ٹاپی منصوبے پر پاکستانی سرحدتک پہنچتے ہی فوری کام شروع کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیس کاتفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ، جسٹس فیصل عرب نے47 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ، جس میں جسٹس منصورعلی شاہ نے 31 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کیلئے سہولت دیناتھا، جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ لیوی آئین کے مطابق ہے۔

    عدالت نے حکومت کو سیس بقایاجات وصولی تک مزیدسیس عائدکرنےسےروک دیا اور کہا 2020-21کیلئےگیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگراسیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا، کمپنیوں سے31 اگست 2020 تک کی واجب الادارقم24اقساط میں وصول کی جائے۔

    عدالت نے حکومت کوشمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ٹاپی منصوبے پر پاکستانی سرحدتک پہنچتے ہی فوری کام شروع کیا جائے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی وجوہات پرپاک ایران،ٹاپی منصوبوں پرکام نہ ہوا تو جی آئی ڈی سی ایکٹ غیر فعال تصور ہوگا، رواں ماہ تک قابل وصول رقم 700 ارب تک پہنچ جائے گی، اب تک سیس کی مد میں 295 ارب روپے وصول کیے جا چکےہیں۔

    اختلافی نوٹ


    جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ توانائی،صنعت، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، زراعت انفرااسٹرکچر کے لیے ضروری ہے، ہر وہ قوم جس کی معیشت ابھر رہی ہو، طرز زندگی بہتر بنا رہے ہو وہاں توانائی کی فراہمی ضروری ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ابھی بھی قدرتی گیس کی قلت ہے، قدرتی گیس کی قلت،طلب کے درمیان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے، اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق مقامی قدرتی گیس مجموعی توانائی سپلائی کا38 فیصد ہے۔

    نوٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان 4ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس پیداکر رہاہے، 295ارب روپے 10سال میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے، وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 6 ماہ میں قانون سازی کرے، حکومت قانون سازی نہ کرسکی تو جی آئی ڈی سی مد میں اکٹھے فنڈ کو واپس کرے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 295 ارب اکٹھے کیے گئے لیکن گیس پائپ لائن منصوبے کو بنانے کا کوئی نشان نہیں ملا، لگتا ہے حکومت گیس پائپ لائن کے  منصوبوں کومکمل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، لگتا ہے قدرتی گیس کی قلت قطر سے درآمد ایل این جی سے پوری کی جا رہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مقننہ، انتظامیہ دونوں فنڈز استعمال کرنے سے متعلق عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے، اکثریتی فیصلے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں کہ معاملے پر حکومت کا قصورنہیں، کیا حکومت اس ایکٹ کے معاملے کو قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ لے کر گئی؟ حکومت جی آئی ڈی سی معاملے پر سالانہ رپورٹ، تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو بر وقت پارلیمان میں لے جایا جاتا توآج نتائج مختلف ہوتے، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا، حکومتی اقدامات کو جانچنا ہے، پارلیمنٹ کا کام پبلک سیکٹر میں حکومتی معاشی سرگرمیوں کا احتساب کرنا شامل ہے، پارلیمنٹ کا یہ کام بھی ہےکہ عوامی مسائل پربات کرے ،عوام پر خرچ پیسوں کی جانچ کرے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں پارلیمنٹ سےمعلومات چھپانابدترین عمل ہے اور حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے،2015 سے   2020 تک   کسی معاشی سروے میں پاک ایران،ٹاپی منصوبوں کاذکرنہیں، معاشی سروےکےمطابق توانائی کاشارٹ فال ایل این جی کی درآمدسے پورا کیا گیا، حیران کن طور پر ایل این جی منصوبہ جی آئی ڈی سی کےتحت نہیں ہے۔

    نوٹ کے مطابق پائپ لائن منصوبےمکمل ہونےکافی الحال کوئی نام و نشان نہیں، حکومت پائپ لائن منصوبےمکمل کرنہیں سکتی یاکرناہی نہیں چاہتی، قانون کے  مطابق حکومت ہرسال منصوبوں پرپارلیمان کوبریفنگ کی پابندہے ، آج تک پارلیمان کےدونوں ایوانوں میں کوئی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی گئی،حکومت سیس کی مد میں وصول تمام رقوم واپس کرے اور رقوم کی واپسی کیلئےکمیٹی تشکیل دے۔

  • سپریم کورٹ  کا سائن بورڈز اورہورڈ نگز کی تنصیب سے متعلق بڑا حکم

    سپریم کورٹ کا سائن بورڈز اورہورڈ نگز کی تنصیب سے متعلق بڑا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے کمشنرکو نجی پراپرٹیز سے بھی فوری اشتہار ہٹانے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا سڑکوں پر اشتہار نہیں لگناچاہیے ٹی وی پر اشتہار چلتا ہے وہ کافی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سائن بورڈز اورہورڈنگز کی تنصیب سے متعلق بڑا حکم دے دیا، سپریم کورٹ کاکمشنرکو نجی پراپرٹیز سےبھی فوری اشتہار ہٹانےکا حکم دیا۔

    کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہم نے شہر سے 300 سے زائد سائن بورڈہٹا دیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سڑکوں پر اشتہار نہیں لگناچاہیے ٹی وی پراشتہار چلتاہےوہ کافی ہے۔

    چیف جسٹس نے اشتہارات کی اجازت دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کسی کوانسانی جان سےکھیلنےکی اجازت نہیں دے سکتے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں غیر قانونی بل بورڈز کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ پورے شہر میں بل بورڈ لگے ہوئے ہیں اور اگر یہ بل بورڈ گر گئے تو بہت نقصان ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگے ہوئے ہیں کہ کھڑکیاں اور ہوا بند ہوگئی ہے، لوگ ان عمارتوں میں رہتے کیسے ہیں جہاں نہ ہوا جاتی نہ روشنی، نہ دن کا پتہ چلتا ہے نہ رات کا۔ حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ہر بندہ خود مارشل لا بنا بیٹھا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی طوفانی بارش کے دوران ایک بل بورڈ موٹرسائیکل سوار شخص پر آگرا تھا جس سے وہ زخمی ہوگیا تھا۔

  • ہل پارک کراچی کی زمین مکمل واگزار کرائی جائے، سپریم کورٹ کا حکم

    ہل پارک کراچی کی زمین مکمل واگزار کرائی جائے، سپریم کورٹ کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک کی زمین مکمل واگزار کرانے کا حکم جاری کردیا، عدالت کا کہنا ہے کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی انتظامیہ نے تو سارے نالے پر قبضہ کرا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہل پارک میں تجاوزات سے متعلق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہل پارک پر بنے چار بنگلے ماسٹر پلان میں نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ ہل پارک پر کوئی سوسائٹی نہیں ہے۔ سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہل پارک میں ڈھلان سمیت13گھر بنے ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیا کہ کیا وہ13گھر ماسٹر پلان میں شامل ہیں جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ وہ 13گھر ماسٹر پلان میں نہیں ہیں۔

    کمشنر کراچی کیرپورٹ کے مطابق ہل پارک 56 ایکٹر زمین پر قائم ہے، ہل پارک سے پی ای سی ایچ ایس بلاک6 بھی منسلک ہے، سارے گھر500گز کے ہیں جس کی کیٹگری ہے ہی نہیں۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کڈنی ہل پارک کی زمین مکمل واگزار کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی نے تو سارے نالے پر قبضہ کرا دیا ہے، انہوں نے سرکاری زمین پر موجود نجی اسکول کی عمارت منہدم کرنے کی ہدایت بھی دی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الاٹیز رقم کی وصولی کے لیے متعلقہ اداروں سے رجوع کرسکتے ہیں، تجاوزات کے خاتمے کے بعد کمشنر کراچی چار ہفتے میں رپورٹ جمع کرائیں۔

    علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کلفٹن میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کی زمین سے قبضہ ختم کرانے پر بھی سماعت ہوئی، اس موقع پر سی اے اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ کام تیزی سے جاری ہے۔

    کورونا کی وجہ سے تاخیر ہوئی، عدالتی حکم کے مطابق زمین پر پلانٹیشن کررہے ہیں، چیف جسٹس نے ایئر پورٹ کے قریب سی اے اے کی زمین پرپارک بنانے کی ہدایت بھی جاری کی ان کا کہنا تھا کہ ہینگر کس کام کے ؟ چالیس پچاس جہاز کھڑے کیے ہوئے ہیں،

    جس پر سی اے اے حکام کا کہنا تھا کہ ہم کمرشل لگانے والوں کو گرین ری منٹین کرنے کی ذمہ داری دیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جتنا کمرشل کرنا تھا کرلیا مزید کوئی کمرشل کام نہیں کریں ایئر پورٹ پر۔

    عدالت نے سول ایوی ایشن اتھارٹی سےآئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرلی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے باغ ابن قاسم پارک میں منہدم عمارت کا ملبہ فوری ہٹانے کا حکم بھی دیا۔

  • سپریم کورٹ نے کراچی سے تمام بل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دے دیا

    سپریم کورٹ نے کراچی سے تمام بل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دے دیا

    کراچی : سپریم کورٹ نے کراچی سے فوری طور پر تمام بل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دے دیا، ملزمان ڈھونڈ کر لاؤ، چیف جسٹس نے ایس ایس پی ساؤتھ کو آدھے گھنٹے کی مہلت دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے مقدمات کی سماعت کی۔

    اس موقع پر غیر قانونی بل بورڈز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کمشنر کراچی کو طلب کیا گیا، ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین بھی موجود تھے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی افتخار شلوانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمشنر صاحب آپ کے شہر میں جگہ جگہ بل بورڈ لگے ہوئے ہیں، شارع فیصل پر عمارتیں دیکھیں اشتہار  ہی اشتہار لگے ہوئے ہیں، کھڑکیوں کی بھی جگہ نہیں چھوڑی،  وہاں رہنے والے لوگ کیسے جیتے ہوں گے؟

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ نے ان کے خلاف کیا کیا جو واقعہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے، جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑی مافیا ہے بہت سارے ادارے ہیں یہ لوگ پبلک پراپرٹی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ آپ سب کو فارغ کریں ،آپ کے پاس اختیار ہے، گورنمنٹ کا کام ہےبلڈنگ پلان پرعمل کرائے یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں، کسی کے پاس پیسے ہیں تو وہ سب کر لیتا ہے، سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج اور محکمہ جاتی کارروائی شروع ہوگئی ہے،
    چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹر ایڈورٹائزمنٹ وزیرعلی کہاں ہیں؟

    خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی طوفانی بارش کے دوران ایک بل بورڈ موٹرسائیکل سوار شخص پر آگرا تھا جس سے وہ زخمی ہوگیا تھا۔

    آج ہونے والی سماعت کے دوران کمشنر کراچی کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اس معاملے پر ہم نے مقدمہ درج کیا ہے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ بل بورڈ کس نے لگایا تھا، جس پر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) جنوبی شیراز نذیر نے بتایا کہ دو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور انہیں تلاش کر رہے ہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہاں گئے وہ ملزمان کیا سمندر کے نیچے گئے ہیں؟ ،آدھے گھنٹے میں ملزمان کو ڈھونڈ کر لاؤ۔

    سپریم کورٹ نے کراچی سے تمام بل بورڈز فوری طور پر ہٹانے کاحکم دے دیا، چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ سب کر لیتا ہے، کون ذمہ دار ہے اس صورتحال کا؟

    کون ذمہ دار ہے ٹوٹی سڑکوں ، کچرے اور اس تعفن کا؟ ایڈوکیٹ جنرل صاحب! بچے گٹرکے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں، میری اپنی گاڑی کا پہیہ بھی گٹر میں پھنس گیا۔

    لگتا ہے صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی شہر سے دشمنی ہے، میئر  کراچی کہتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار نہیں، ایسا ہے تو گھر بیٹھو، کراچی کو بنانے والا اب تک کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے میئر کراچی وسیم اختر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا حال کیا ہے آپ نے میئر صاحب اس شہر کراچی کا؟

    چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک کو فوری طلب کرلیا

    سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے موقع پر کراچی میں لوڈشیڈنگ پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بجلی والوں کو مزے لگے ہیں، یہ سب مافیا ہیں، سب ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں،10،8لوگ روز مر رہے ہیں نیپرا کچھ نہیں کر رہی؟

    انہوں نے کہا کہ جو کراچی کی بجلی بند کرتا ہے اس کو بند نہیں کرنے دیں، چوڑیاں پہنی ہیں سب نے کیوں کہ یہ ان کا پیسہ کھاتے ہیں، ہر وہ شخص جو کرنٹ لگنے سےجاں بحق ہوتا ہے اس کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، واقعے کے ذمہ داران کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سی ای او کے الیکٹرک کو عدالت میں فوری طلب کرلیا۔  انہوں نے کہا کہ وزرا بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، وزیراعلیٰ صرف ہیلی کاپٹر پرچکر لگاتے ہیں کرتے کچھ نہیں۔

  • ڈاکٹر عاصمہ رانی قتل کیس عام عدالت میں چلانے کا فیصلہ،  دہشت گردی کی دفعات ختم

    ڈاکٹر عاصمہ رانی قتل کیس عام عدالت میں چلانے کا فیصلہ، دہشت گردی کی دفعات ختم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصمہ رانی قتل کیس عام عدالت میں چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر عاصمہ رانی قتل کیس کی سماعت کی، ،وکیل راجہ عامر عباس نے کہا یہ نجی مخاصمت کا مقدمہ ہے، یہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں ہے، ایف آئی آر میں لکھا ہے رشتہ نہ دینے پر قتل کیا گیا۔

    جس پر وکیل والد عاصمہ بی بی کا کہنا تھا کہ بیٹی کو بے دردی سے لوگوں کے سامنے قتل کیا گیا ، مقدمہ کا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہونا چائیے۔

    جس پر عدالت نے ڈاکٹر عاصمہ رانی قتل کے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے کیس عام عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا۔

    یاد رہے دسمبر 2019 میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو عاصمہ رانی قتل کیس کا فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات کے خلاف اپیل پر تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے 2018 میں خیبر پختونخواہ میں مجاہد اللہ آفریدی نامی شخص نے رشتے سے انکار پرمستقبل کی ڈاکٹر عاصمہ رانی کو گولیاں مار کرکے قتل کردیا تھا اور سعودی عرب فرارہوگیا تھا، مقتولہ نے دم توڑنے سے قبل اپنے اہل خانہ کو مجاہد آفریدی کا نام بتایا تھا۔

    بعد ازاں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے قتل کے معاملہ کا نوٹس بھی لیا تھا۔

  • نیب مجرمان سزا معطل ہونے پر عہدے پر بحال نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ

    نیب مجرمان سزا معطل ہونے پر عہدے پر بحال نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب کے سزا یافتہ سرکاری افسر کی ملازمت پر بحالی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ نیب مجرمان سزا معطل ہونے پر عہدے پر بحال نہیں ہوسکتے، سزا معطل ہونے کا مطلب جرم ختم ہونا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دینے کی حکومتی اپیل منظور کرلی اور نیب کے سزا یافتہ سرکاری افسر کی ملازمت پربحالی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل کہا کہ طاہر عتیق صدیقی ٹیلی فون انڈسٹریز میں ڈپٹی جنرل منیجر تھا اور غیرقانونی ٹھیکہ دینے کے الزام میں پانچ سال قید بامشقت اور پچاس لاکھ جرمانہ ہونے پر محکمے نے برطرف کردیا تھا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اپیل میں سزا معطل ہوئی تو ملزم نے عہدے پر بحالی کی درخواست دی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم طاہر عتیق کی بحالی کا حکم دیا تھا، سزامکمل ہونے کے بعد مجرم 10سال عوامی عہدے کیلئے نااہل رہتا ہے۔

    جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سزا معطل ہونے سے جرم ختم نہیں ہوتا، اپیل میں بری ہونے تک سرکاری و عوامی عہدے پر بحالی نہیں ہو سکتی۔