Tag: supreme court

  • کرپشن مقدمات پر 30دن میں فیصلہ ممکن نہیں، چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    کرپشن مقدمات پر 30دن میں فیصلہ ممکن نہیں، چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    اسلام آباد : چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ رپشن مقدمات پرتیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں ، موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ہیں۔

    رپشن مقدمات پرتیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کو بتا دیا۔ مزید کہا کہ حکومت کو کئی مرتبہ کہ چکے کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے لاکھڑا پاور پلانٹ تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔

    جس میں چیئرمین نیب نے صاف کہا کہ کرپشن مقدمات پر تیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں، پچاس پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے اوت موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں،حکومت کوکئی مرتبہ کہہ چکے نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

    جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور کراچی راولپنڈی اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے، ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے۔ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے اور احتساب عدالتوں کیخلاف اپیلیں سننے کیلئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔

    جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں، احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں جبکہ ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلی عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہیں۔

    چیئرمین نیب نے مزید کہا عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں اور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے، عدالتوں کی جانب سے “سیاسی شخصیات” کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔

    جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے جواب میں مزید کہا رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔

  • سپریم کورٹ نے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کاعندیہ دے دیا

    سپریم کورٹ نے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کاعندیہ دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پرقابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پرقابل اعتراض موادکانوٹس لے لیا، نوٹس فرقہ وارانہ جرم میں ملوث شوکت علی کی ضمانت کےکیس میں لیا گیا۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمیں آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں،عوام کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں، ہماری کارکردگی اور فیصلوں پرعوام کوبات کرنے کاحق ہے، نجی زندگی کا حق بھی ہمیں آئین دیتاہے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیاایف آئی اے،پی ٹی اے نے دیکھاہے یوٹیوب پر کیا ہورہا ہے، یوٹیوب اور سوشل میڈیاپرہمارے خاندانوں کو بخشا نہیں جاتا۔

    سپریم کورٹ کے جج نے ریمارکس میں کہا کہ کوئی یوٹیوب پر کوئی چاچا توکوئی ماما بن کربیٹھ جاتاہے، ججز کو شرمندہ کیا جاتا ہے، کل ہم نے فیصلہ دیا اور وہ یوٹیوب پر شروع ہوگیا، ہم تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، آخراس کا اختتام تو ہونا ہے۔

    پی ٹی اے حکام نے کہا ہم انفرادی موادکوہٹانہیں سکتےصرف رپورٹ کرسکتےہیں، جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ کئی ممالک میں یوٹیوب بندہے۔

    سپریم کورٹ نے پاکستان میں یوٹیوب بندکرنےکاعندیہ دےدیا، جسٹس مشیرعالم نے ریمارکس دیئے کہ امریکا،یورپی یونین کیخلاف مواد یو ٹیوب پر ڈال کر دکھائیں، کئی ممالک میں سوشل میڈیا کومقامی قوانین کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا ایسے جرم کےمرتکب کتنےلوگوں کیخلاف کارروائی ہوئی، آرمی،عدلیہ ،حکومت کیخلاف لوگوں کو اکسایا جاتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے اس حوالے سے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

  • سپریم کورٹ کا پائلٹس کوجعلی لائسنس دینے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا پائلٹس کوجعلی لائسنس دینے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس دینے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں ہدایت کی سماجی فاصلہ برقراررکھاجائے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائیں، الحفیظ کمپنی کی مشینری کوامپورٹ کی اجازت کی دستاویز کہاں  ہیں، تین بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیئے گئے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا جہازچارٹرڈ کرنے اور ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں؟ ڈائریکٹرایڈمن نے بتایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اےنےامپورٹ نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا، اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا دستاویز کے مطابق مشینری کی قیمت ظاہرنہیں کی گئی،چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چارٹرڈ کیلئے 1 کروڑ    سات لاکھ  سے زائد نقد رقم ادا کی گئی، چارٹرمعاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں، کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے، لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔

    لگتا ہے این ڈی ایم اےکو ہی ختم کرنا پڑے گا، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ویکسین اورادویات کی امپورٹ کی دستاویزکہاں ہیں،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا اٹارنی جنرل صاحب کیا تماشہ چل رہا ہے، لگتا ہے این ڈی ایم اےکو ہی ختم کرنا پڑے گا، این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کے لئے سفارش کردیں، چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

    جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا شایدبہت کچھ غلط ہواجس پرپردہ ڈالنےکی کوشش کی جارہی ہے، کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت نوٹس جاری کردیں، کسی کو ایک روپےکابھی فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ملک کےاداروں کوشفاف اندازمیں چلناچاہیے، نقدادائیگی اس کمپنی کوکی گئی جس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا، لگتاہےچین میں پاکستانی سفارتخانےنےچین کونقدادائیگی کی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ این ڈی ایم اے کو فری ہینڈ،فنڈزدیے گئے تاکہ وبا سے لڑا جاسکے، این ڈی ایم اےعدالت اور عوام کو جوابدہ ہے، کورونا ، سیلاب،ٹڈی دل،سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ این ڈی ایم اےٹڈی دل کےلئےجہازاورمشینری منگوارہا ہے، صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی، کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ اربوں روپے کیسے خرچ کیا جارہا ہے، این ڈی ایم اے کے ممبرایڈمن کوخودکچھ معلوم نہیں۔

    جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنیوالوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، چیف جسٹس

    کورونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنیوالوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا ہوتی ہے اور جعلی دوائی بیچنے والے کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے مکالمے میں کہا چیئرمین ڈریپ صاحب آپ اپنا کام کرہی نہیں رہے۔

    سپریم کورٹ نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی

    سپریم کورٹ نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی اور ڈریپ سے امپورٹ کی گئی ادویات سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکریٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا سیکریٹری صاحب آپ صرف بیان بازی ہی کرتے ہیں ، آپ کیا کر رہے ہیں خط لکھنے سے  مسائل حل نہیں ہوتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ نے سارا ملبہ صوبوں پرڈال دیا، صرف خط ہی لکھنےہیں تو وزارت صحت کا کیا فائدہ۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں عملی کام چاہیے بابووں والا کام نہیں، آپ کو معلوم ہے کہ بابو کون ہوتا ہے، جس پر ایڈیشنل سیکریٹری صحت نے کہا بابو کا لفظ افسران کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائیں ، جس پر سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرلیں اور این ڈی ایم اے کا جواب ممبر ایڈمن کو واپس دے دیا جبکہ سپریم کورٹ نے تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی در امد کی اجازت کیسے دی؟ کس اسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں اور بھارت سے آنے والی ادویات کون سی تھیں؟ جس پر چیئرمین ڈریپ نے بتایا کہ ایمر جنسی میں ادویات،مشینری در آمد کی اجازت دے سکتے ہیں، بھارت سے آنے والی ادویات کی امپورٹ پر پابندی لگی تھی، بھارت سے خام مال دوبارہ آرہا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا بھارت سے انے والی ادویات غیر قانونی تھی،اس کی حیثیت کیاتھی؟ اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی مگرامپورٹ زیادہ ہوئیں، شہزاداکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا ڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں آسکتی، ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن  کا کہنا تھا کہ دورمحکمہ صحت کا کام صرف خط لکھنا نہیں، آ ئندہ سماعت پرسیکریٹری صحت دواؤں کی قیمت کی تفصیلی رپورٹ لے کرپیش ہوں۔

    لگژری گاڑیوں کی خریداری

    کورونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے سوال کیا حکومت پنجاب کتنی لگژری گاڑیاں خریدرہی ہے، حکومت پنجاب نےنہیں بتایا کہ 50کروڑ کی کونسی گاڑیاں درآمد کی جائیں گی، ایمبولینس ہے، کچرے کی گاڑی ہے یا پراڈو، کچھ معلوم نہیں ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب حکومت گاڑیاں درآمدنہیں کر رہی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوروناکی وجہ سےترقیاتی فنڈتوجاری نہیں کر رہے، پھریہ گاڑیاں کیسےخریدی جارہی ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی استفسار کیا گزشتہ سال کتنی گاڑیاں خریدی گئیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہا کہ گزشتہ سال کی معلومات ابھی نہیں ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ پہلےبھی بی ایم ڈبلیو،ڈبل کیبن پراڈو خریدنے پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیاتھا، اب پنجاب حکومت دوبارہ 50کروڑکی گاڑیاں خریدرہی ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ڈونرزسےقرض لےگاڑیاں خریدی جاتی ہیں، افسران کہتےہیں کھیتوں میں جاناہےاس لیے بڑی گاڑی چاہیے۔

    پائلٹس کے جعلی لائسنسز

    اسلام آباد:سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس میں پائلٹس کے جعلی لائسنسز پر چیف جسٹس نے کہا پوری دنیا میں جعلی لائسنس کا ہمارا اسکینڈل مشہورہا، پاکستان کے بہت سےاوراسکینڈل پہلے سے مشہور تھے۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کیاسول ایوی ایشن اتھارٹی کےکسی افسر کے خلاف کارروائی ہوئی؟ عملی کام کیاتوجواب دیں،تقریر نہیں سنیں گے، پاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں، لگتاہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے ، جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا کہ سول ایوی ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ڈی جی ایوی ایشن سےمکالمے میں کہا ہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں آرہیں، آپ اس عہدےکےاہل نہیں، سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں، پائلٹ کولائسنس دیتے وقت سی اے اے کےتمام کمپیوٹر بند ہوگئے، ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ پائلٹس کےلائسنس جعلی نکلے، سی اے اے نے عوام کی زندگیاں داؤپر لگا دیں اور کسی افسرکےخلاف کارروائی نہیں کی، بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا بدنامی میں پاکستان زمین کی تہہ تک پہنچ چکا ہے، پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک کہا جاتا ہے، سی اے اے کے بعض جاری لائسنس سمجھ سے باہر ہیں ، ڈی جی سی اے اے نے جواب میں بتایا کہ جس فرانزک آڈٹ کےمطابق 262 لائسنس جعلی ہیں، 28 لائسنس منسوخ کرکے189 کےخلاف کارروائی شروع کردی ہے ، 2010 سے 2018 تک تھرڈ پارٹی فرانزک آڈٹ کرایا گیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 2018میں عدالت نےلائسنس چیک کرنےکاحکم دیاتھا، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ڈی جی سے مکالمے میں کہا کیا مضبوط آدمی ہیں، ڈی جی نے جواب دیا انشااللہ میں مضبوط آدمی ہیں، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آپ کا انشااللہ عملی طور پر نظر نہیں آرہا، سی اے اے کا تمام عملہ سمجھوتہ کرچکاہے، جعلی لائسنس دینے والے تمام افسران کوبرطرف کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا سی اےاےکےتمام افسران کوان کاحصہ پہنچ رہاہوتاہے، جعلی لائسنس پر دستخط کرنے والے جیل جائیں گے، حکومت کی منظوری سے معاملہ ایف آئی اے کوبھجوائیں گے۔

    کورونا ازخود نوٹس کیس میں ایم ڈی پی آئی اے ارشد محمود ملک عدالت میں پیش ہوئے ، ارشد ملک نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے، بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے، لوگوں نے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا ہے، پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا پی آئی اے کو 450 پائلٹس کی ضرورت ہی کیوں ہے، جس پر سی ای او ارشد ملک نے کہا جعلی ڈگریوں والے 15 پائلٹس کو برطرف کیا گیا، پائلٹس کو صرف معطل کر سکتا ہوں، برطرف سی اے اے کرتا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا آپ کو پائلٹس برطرف کرنے کا اختیار ہے، ارشد ملک نے کہا بدقسمتی سے قانون نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، پی آئی اے کا 50 فیصد عملہ نکال رہے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں کہ 500 ملازم نکال کر اتنے ہی بھرتی کرلیں، پی آئی اے کا کوئی اثاثہ بھی فروخت نہیں کر سکیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا روزویلٹ ہوٹل سمیت کوئی اثاثہ بغیراجازت فروخت نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا گلشن جناح میں پی آئی اے پلاٹ پر آج بھی شادی ہال بنا ہوا ہے، شادی ہال نہ گرانے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کمپیوٹرتک غیرقانونی رسائی پرکیاکارروائی ہوئی، مئی میں حادثہ ہوااب تک صرف چٹھی بازی ہورہی ہے، کراچی حادثے کے پائلٹ کولائسنس1990میں جاری ہواتھا، 2010سے پہلےجاری لائسنس کا کیا کریں گے، اب فوری طور پر عملی اقدامات کا وقت ہے۔ جہازکاپائلٹ 300 بندوں کی ذمہ داری چھوڑکرکوروناپرگفتگوکررہاتھا۔

    چیف جسٹس نے ڈی جی سی اےاے سے استفسار کیا آپ کو رات کو نیند کیسے آجاتی ہے ، آپ کو تو کام کام اور صرف کام کرکے نتائج دینے چاہئیں، 1947سےآج تک جاری تمام لائسنس چیک کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا پاکستان کے علاوہ کتنے ممالک میں جعلی لائسنس نکلے؟ سیاسی مداخلت ہےپائلٹ اتنےبااثرہیں کہ ایکشن نہیں ہورہا، پوری دنیا میں سول ایوی ایشن نے ملک کو بدنام کیا،جسٹس اعجازالاحسن

    ڈی جی سی اےاے نے بتایا کہ کمپیوٹرائزڈڈیٹا2010میں شروع ہوا،وہاں سے آڈٹ ہوا، پی آئی اے کے 31جہازاور 450 پائلٹ ہیں اور دنیا کی 10ایئر لائنزمیں  176 پائلٹ کام کررہے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں تو سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہونے والا کوئی کام محفوظ نہیں رہا۔

    سپریم کورٹ نے جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس دینے والےافسران کیخلاف فوجداری مقدمات  درج کرانے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ کا سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 2 ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

  • سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی اور کہا حکومت اور ادارے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے شوگر ملز کیخلاف کارروائی روکنے پر درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی اور کہا حکومت اور ادارے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

    سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگرملز مالکان کیخلاف غیرضروری اقدامات نہ کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا سندھ اوراسلام آبادہائی کورٹس 3ہفتےمیں شوگر ملز کی درخواستوں پر فیصلہ کریں۔

    وکیل شوگرملز نے کہا حکومتی وزرابیان بازی کرکےمیڈیاٹرائل کرتےہیں، جس پر سپریم کورٹ نےشوگر کمیشن رپورٹ پرحکومتی عہدیداران کو بیانات سے بھی روک دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیان بازی سیاسی معاملہ ہے زیادہ مداخلت نہیں کرسکتے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا یہ پہلاکمیشن ہے جس میں دو وزرائے اعلی پیش ہوئے، وزیراعظم کےقریب ترین ساتھی کوبھی کمیشن میں پیش ہونا پڑا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا شفاف کام ہونا چاہیے کہ ملوث افراد کیفر کردار تک پہنچ سکیں، تکنیکی معاملات میں عوام کا مفاد پیچھے نہیں رہنے دیں گے۔

    وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ حکم امتناع خارج ہوا تو ہائی کورٹس میں کیس متاثر ہوگا، اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا20 شوگر ملزآسمان سے اتری ہیں جو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا حکومت کو کام سے کیسے روک سکتے ہیں؟

    اٹارنی جنرل نے کہا حکومت چینی کےبعد پیٹرولیم بحران پر بھی کمیشن بنا رہی ہے، سندھ ہائی کورٹ نےجس طرح کارروائی سےروکا وہ خلاف قانون ہے، چاہتے ہیں پیٹرول کمیشن سے پہلے حکم امتناع والامسئلہ حل ہو۔

    سپریم کورٹ نے کہا حکومت عدالتی فیصلوں تک شوگرملز کیخلاف حتمی حکم جاری نہیں کر سکتے۔

    یاد رہے سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت اور دیگر اداروں کو شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے روک دیا تھا، جس کے بعد وفاقی حکومت نے شوگر انکوائری کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا ریلوے کے سفر کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا ریلوے کے سفر کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ریلوے کے سفر کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کا حکم دے دیا اور ایم ایل ون منصوبے سےمتعلق رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے  کہا کہ ریلوے کا انفرااسٹرکچر کام کے قابل نہیں رہا، تمام شعبہ جات میں اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ریلوے خسارہ ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے وزیرریلوے کے بھرتیوں کے بیان پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ شیخ رشید کہتے ہیں ریلوے میں ایک لاکھ بھرتیاں کریں گے، ریلوے کے پاس پہلے ہی ستترہزارملازمین ہیں۔ وزیرریلوے ایک لاکھ ملازمین کو کہاں بھرتی کریں گے؟

    چیف جسٹس کے اظہارحیرانگی پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وضاحت دی کہ کوشش ہے ملازمین کی تعداد کم کرکے چھپن ہزارکی جائے، شیخ رشید سے شاید الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی ایک لاکھ ملازمین ایم ایل ون کیلئے رکھے جائیں گے۔

    چیف جسٹس نےسیکریٹری ریلوے کی سرزنش کی اور کہا کہ ریلوے کا ٹریک لوگوں کیلئے ڈیتھ ٹریک بن چکا ہے،ریلوے کے سیکریٹری،سی ای او اور تمام ڈی ایس فارغ کرنا پڑیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے کا نظام ایسا نہیں کہ ٹرین ٹریک پر چل سکے، دنیا میں بلٹ ٹرین چل رہی ہے ایم ایل ون میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، سیکریٹری ریلوے نےبتایا کہ ایم ایل ون کے تحت اسٹیشنز کو کمرشلائز کریں گے، کراسنگ نہیں ہوگی اور انڈرپاس اوراوورہیڈ برج بنیں گے۔

    سپریم کورٹ نے ریلوے کے سفرکومسافروں کیلئے محفوظ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا حکومت فوری اقدامات سے یقینی بنائےریلوے کا سفرعوام کیلئے محفوظ  ہو، آئے روزکے حادثات سے قیمتی زندگیوں اورریلوے کا نقصان ہو رہا ہے۔

    عدالت نے کہا ریلوےکو جس طرح چلایا جا رہا ہے اس انداز میں نہیں چلایا جا سکتا، ریلوےکاانفرااسٹرکچر کام کےقابل نہیں رہا، ریلوے کے تمام شعبہ جات میں اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔

    عدالت نے پلاننگ ڈویژن سے ایم ایل ون منصوبے سےمتعلق رپورٹ طلب کرکےسماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔

  • ڈینیل پرل قتل کیس:  ملزمان کی بریت پر حکم امتناع کی استدعا مسترد

    ڈینیل پرل قتل کیس: ملزمان کی بریت پر حکم امتناع کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں ملزمان کی بریت پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی، سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع کی استدعا کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ڈینیل پرل قتل کیس کی سماعت کی، وکیل سندھ حکومت نے عدالت کو بتایا ملزمان بین الااقوامی دہشت گرد ہیں، ملزمان کو ایم پی او کے تحت رکھا گیا ہے جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی بریت کے بعد اپ ان کو کیسے دہشت گرد کہہ سکتے ہیں؟

    وکیل سندھ حکومت نے کہا کہ ملزمان میں ایک بھارت جبکہ دوسرا افغانستان میں بھی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔ ملزمان آزاد ہوئے تو سنگین اثرات ہوں سکتے ہیں۔

    جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ذہن میں رکھیں کہ ملزمان کو ایک عدالت نے بری کیا ہے،وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ایسا بیان کیسے دیا جا سکتا ہے ، ملزمان نے 18 سال سے سورج نہیں دیکھا ، حکومت میں خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیے۔

    جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بریت کے حکم کو ٹھوس وجہ کے بغیر کیسے معطل کیا جا سکتا ہے۔ فیصلے میں کوئی سقم ہو تب ہی معطل ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو ایم پی او میں توسیع کر سکتی ہے۔

    عدالت نے ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت ستمبر تک ملتوی کردی۔

    یاد رہےیکم جون 2020 کو سپریم کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعامسترد کردی تھی ، جسٹس منظور ملک نے کہا تھا سندھ حکومت نےغیر متعلقہ دفعات کاحوالہ دیا، پہلے شواہدسےثابت کرنا ہوگا اغوا ہونے والا امریکی صحافی ڈینیل پرل ہی تھا۔

    خیال رہے ہائی کورٹ نے دو اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل اور دیگرتین ملزمان کو بری کردیا تھا جسے سندھ حکومت نے چیلنج کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس، ایئرلائنز سربراہان طلب

    سپریم کورٹ کا جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس، ایئرلائنز سربراہان طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس لے لیا اور پی آئی اے، ایئربلیو، سیرین کے سربراہان کو بھی آئندہ سماعت  پر  طلب کرتے ہوئے کہا ایئرلائنز سربراہان پائلٹس کی ڈگریوں ،لائسنس کی تصدیق پر مبنی رپورٹس فراہم کریں جبکہ سندھ بجٹ میں لگژری گاڑیوں کیلئے مختص 4بلین سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کورونا ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا نہیں معلوم این ڈی ایم اے کیسے کام کررہا ہے، این ڈی ایم اربوں روپے ادھر ادھر خرچ کررہا ہے، نہیں معلوم این ڈی ایم اے کے اخراجات پر کوئی نگرانی ہے یا نہیں، این ڈی ایم اے باہرسے ادویات منگوا رہاہے، نہیں معلوم یہ ادویات کس مقصد کے لئے منگوائی جارہی ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کیا یہ ادویات پبلک سیکٹر اسپتالوں کو فراہم کی گئی ہیں؟ ادویات سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرزکی زیر نگرانی استعمال  ہو رہی ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا این ڈی ایم اے کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرتا ہے، این ڈی ایم اے ادویات منگوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے تو چیف جسٹس نے کہا جوادویات آرہی ہیں اس کی ڈرگ ریگولٹری اتھارٹی سےمنظوری ہونی چاہیے۔

    کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کی معیشت بالکل بیٹھ چکی ہے، صحت اور تعلیم کا شعبہ بہت نیچے چلا گیا ہے، لاتعداد گریجویٹس بےروزگارہیں ، ایسے گریجویٹس کو کھپانے کا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں، ایک لاکھ لیبرواپس آ رہی ہے، 14دن قرنطینہ کرنےکےعلاوہ کوئی پلان نہیں، حکومت ان کو کہاں کھپائے گی، حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ ہے تو سامنے لائے، حکومت کی بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا ڈیوٹی میں فائدہ کسی کمپنی کو نہیں دیا گیا، این ڈی ایم اے نےہنگامی حالات میں نجی کمپنیوں کومشینری منگوانےمیں سہولت دی، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ کسی انفرادی شخصیت کو فیورنہیں ملنی چاہیے، نجی کمپنی کا مالک 2دن میں ارب پتی بن گیا ہوگا، نہیں معلوم باقی لوگوں اور کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا، کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا، اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں، نہیں معلوم اس کمپنی کے پارٹنرز کون ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا ایسی مہربانی سرکار نے کسی کمپنی کے ساتھ نہیں کی، اسکےمالک کاگھربیٹھےکام ہوگیا، نجی کمپنی کی این ڈی ایم اے نے این 95 ماسک کی فیکٹریاں لگوادیں، ایسی سہولت فراہم کریں تو ملک کی تقدیر بدل جائے، بیروزگاری اسی وجہ سےہے حکومتی اداروں سےسہولت نہیں ملتی ، باقی شعبوں کو بھی اگر ایسی سہولت ملےتوملک کی تقدیر بدل جائے۔

    جسٹس گلزار نے سوال کیا کس قیمت کی مشینری آئی،ایل سی کیسے کھولی گئی، ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں، این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی، حکومت نےبزنس مینوں کو سہولت فراہم کرنی ہے تو اخبار میں اشتہار دیا جائے گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی کمپنی کو ڈیوٹی کی سہولت نہیں دی جارہی تو چیف جسٹس نے کہا حکومت ایسا کرے تو ملک میں صنعتی انقلاب آجائے گا، پیداواراتنی بڑھ جائے گی کہ ڈالر بھی 165 سے 20سے25روپے کا ہوجائے گا۔

    سپریم کورٹ نے سندھ بجٹ میں لگژری گاڑیوں کیلئے مختص 4بلین سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا لوگوں کےپاس کھانےکوروٹی ،آپ کےپاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں، 4 ارب کی گاڑیاں کیسے منگوا رہے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں یہ4ارب کیسے سرکاری  ملازمین، لیڈرز کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نےاسپرےکرنےوالےجہازوں کیلئےپائلٹ باہرسےکیوں منگوائے، جس پر اے جی نے بتایا کہ محکمے کا کہنا ہے  وہ پائلٹس کوتربیت دےرہےہیں۔

    جسٹس گلزار نے مزید کہا ہمیں یاد ہے کہ ڈالر کبھی 3روپے کا ہوتا تھا، مشرق وسطیٰ سے آنے والے پاکستانیوں کوکہاں کھپایا جائے گا، یہ پاکستانی 3ماہ جمع  شدہ رقم سے نکال لیں گے، اس کے بعد مزدور کیا کریں گے، کیا حکومت کاکوئی پلان ہے، کیا 14دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد وہ جہاں مرضی ہے جائے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں سےلوگ فارغ التحصیل ہورہے ہیں انکوکھپانےکاکیاطریقہ ہے، ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی ہے کوئی ادارہ بظاہر کام نہیں کررہا ، ہرادارےمیں این ڈی ایم اے جیسا حال ہے، حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے وہ نہیں معلوم، اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے  تو بتائیں؟ حکومت کا مستقبل کا ویژن کیا ہے وہ بھی بتائیں، حکومت عوام کے مسائل کیسے حل کرے گی۔

    جسٹس گلزار نے استفسار کیا کیا عوامی مسائل پرپارلیمنٹ میں اتفاق رائے ہے، ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا ، عوام کو روٹی، پیٹرول، تعلیم، صحت اور روزگارکی ضرورت ہے، اس وقت تربیت دینے کی مثال ایسے ہے، جیسےبھوک لگنے کے بعد گندم بونے کی کوشش کی جائے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کہتا ہے ایک صوبےکاوزیر اعلیٰ آمرہے،اس کی وضاحت کیا ہوگی؟ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کی اس صوبے  میں کوئی رٹ نہیں ہے، پیٹرول، گندم، چینی کے بحران ہیں، کوئی بندہ نہیں جو اسے دیکھے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مسلم ممالک میں پاکستان ایسا ہے جہاں رمضان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، دیگر ممالک میں رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا بیرون ملک سے منگوائی گئی ادویات کیا نجی پارٹی کو دی گئی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں این ڈی  ایم اے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، پہلےبھی یہی ہوا نجی پارٹیوں نےسامان منگواکرقیمتیں بڑھائیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا سندھ حکومت 4 ارب 400 لگژری گاڑیوں کے لئے کیسے خرچ کر سکتی ہے، یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لئے منگوائی گئی ہیں، ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ 16لاکھ ہے، اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دیں گے، 4 ارب کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں، کراچی کا نالہ صاف کے کرنے کے لئے پیسےنہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پنجاب، کے پی ،بلوچستان ایسی گاڑیاں منگوا رہے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہا کے پی اور پنجاب ایسی لگژری گاڑیاں نہیں منگوارہا، جس پر جسٹس گلزار نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا اس آئین کا فائدہ عام آدمی کوتوآج تک نہیں پہنچا، اس کے پھل کے انتظارمیں بچے  بوڑھے ہوگئے، اس کا پھل صرف چند لوگ کھا رہے ہیں اس میں شاید آپ اور ہم بھی شامل ہیں، اس میں مگرعام آدمی شامل نہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا آپ ٹڈی دل کے اسپرے کے لیے طیارےکے پائلٹ باہر سے کیوں منگوا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا محکمے کا کہنا ہے کہ وہ پائلٹس کو ٹریننگ دے رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس وقت تربیت دینے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ بھوک لگنے پر گندم بونے جایا جائے، ہم 44سال سے عالمی تنظیم کے رکن ہیں ،پہلے تیار رہنا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا مشینری، امپورٹ اور دیگر سامان سے متعلق تفصیلات تسلی بخش نہیں،جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ آکسیجن سلنڈر کی قیمت 5ہزار سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، صوبائی حکومت شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی،حکومت کہاں ہے، جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری بھی ہوں، قانون کی عمل داری کدھر ہے۔

    جسٹس گلزار نے کہا لوگوں کو بڑی امید تھی اس لئے تبدیلی لائے جبکہ جسٹس قاضی امین کا بھی کہنا تھا سیاسی لوگ ایک دوسرے پرکیچڑ ا چھالنے پر آگئے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا حکومت قانون کے اندر رہتے ہوئے سخت فیصلے کررہی ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوری حکومت کو 20 لوگ یرغمال نہیں بنا سکتے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گندم کا بحران پیدا ہوا جس کی کوئی وجہ نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی اگر کوئی خواہش ہو توحکومت کو کوئی روک نہیں سکتا، حکومت ہرکام میں قانون کے مطابق ایکشن لے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت ایسی طاقتوں کے خلاف سرنڈرنہیں کررہی۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا 16 ملین ٹن گندم سندھ سے چوری ہوگئی، اس کا کیا بنا،اٹارنی جنرل نے کہا ٹڈی دل کا مسئلہ صوبائی ہے، اس کے خاتمے کے لئے  معاونت کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے نیب کے متوازی این ڈی ایم اے کا ادارہ بن جائے گا، یہ ساری چیزیں عوام اور پاکستان کے لئے ڈیزاسٹر ہیں۔

    دوران سماعت لوڈ شیڈنگ کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا لاک ڈاؤن کے دوران لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو رہی ہے، دکانیں اور ادارے بند ہیں پھر لوڈ شیڈنگ کیسی، جس ملک کے لوگوں کو 18 گھنٹے بجلی نہیں دیں گے ، وہ بات کیوں سنیں گے، حکومت نے عوام کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیا، آئین کا معاہدہ ٹوٹے بڑاعرصہ ہو چکا ہے،لوگ انتظار میں ہیں کہ انہیں کب انہیں یہ پھل ملے گا، یہ پھل چند لوگوں کو مل گیا، پتہ نہیں اس پھل سےہم اورآپ فائدہ اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا پارلیمنٹ کو اس چیز کا احساس ہونا چاہیے ، حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں کیا کرنا ہے، ہر شہری کو بنیادی سہولیات ملنی چاہئے،اس پر حکومت اپنا پلان دے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا کی وبا چل رہی ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے قانون کا مسودہ بن گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے ہمارے3جہاز کھڑےہیں، کیا ہمارےپاس اسپرے والے جہاز چلانےکے لئے پائلٹ نہیں، لگتا ہے جب بھوک لگی توگندم بونے چل نکلے، حکومت کو ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

    کرونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے سوال کیا سندھ حکومت نے کتنی ڈبل کیبن گاڑیاں منگوائی ہیں، سندھ حکومت ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے گاڑیاں منگوا رہی ہے، سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کرنا ہے تو کرے،لوگوں کو کھانا، پانی، بجلی فراہم کرے۔

    جسٹس گلزار نے کہا سندھ میں 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر رپورٹ دیں گے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے بڑھ کر کوئی بااختیار نہیں، اگرچاہے تو سندھ حکومت صوبے کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے، کراچی کا گجر نالہ بھرا پڑا ہے، اس کو صاف کرنے کا کسی کو خیال نہیں، فیصل آباد کے رضاآباد کے گٹر سے نکلنے والا پانی پورے شہر میں پھیلاہے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلیٰ اور حکومت ہے، کیا پنجاب میں کوئی حکومت ہے؟ کیا صوبے میں ذخیرہ اندوزی پر کوئی چیک ہے، پنجاب میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے بھی سوال کیا بارش سے لاہورمیں کتنی بستیاں ڈوب گئیں ؟ کتنوں کو کرنٹ لگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوگی تو کیسے کچھ ٹھیک ہوگا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس میں پی آئی اے طیارہ حادثے کی رپورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا ائیر کریش کا سارا الزام پائلٹ اور ٹریفک کنٹرول پر ڈال دیا ہے ، میں سن کرحیران رہے گیا 15سال پرانے جہاز میں کوئی خرابی نہیں تھی، سول ایوی ایشن پیسے لیکر پائلٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے، قصور تو سول ایوی ایشن کا ہوا، پائلٹس کا کیا قصور ہوا، اٹارنی جنرل بتائیں سول ایوی ایشن کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا قانون کے مطابق ایکشن ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایسے لگتا ہے جیسے پائلٹ چلتا ہوا میزائل اڑا رہے ہوں، وہ میزائل جو کہیں بھی جاکر مرضی سے پھٹ جائے، بتایا گیا کہ 15سال پرانے جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، ساراملبہ پائلٹ اور سول ایوی ایشن پر ڈالا گیا ، لگتاہے ڈی جی سول ایوی ایشن کو بلانا پڑے گا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جعلی ڈگریوں والے پائلٹس کے ساتھ کیا کیا گیا؟ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس لے لیا اور پی آئی اے ، سیرین ایئر اور ایئر بلیو سے بھی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نے کہا بتایاجائے پائلٹس کو جعلی لائسنس کیسے اور کیوں جاری ہوئے؟ جعلی لائسنس دینے والوں کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگین جرم ہے۔

    سپریم کورٹ نے پی آئی اے، ایئربلیو، سیرین کے سربراہان کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کہا ایئرلائنز سربراہان پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کی تصدیق  پر مبنی رپورٹس فراہم کریں۔

    سپریم کورٹ نےطیارہ حادثہ عبوری رپورٹ پر بھی سوال اٹھا دیے اور کہا اسمبلی فلورپروزیر نے کہا جس کا دل چاہتا ہے، پائلٹ کا لائسنس لے لیتا ہے، لگتا ہے، سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں، جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلتا پھرتا میزائل ہو۔

    جعلی لائسنس لے کر جہاز اڑانااس میزائل جیسا ہے جو کہیں بھی جا کر پھٹ جائے، ہمیں حکومت کی رپورٹ پر حیرانگی ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، حیرت کی بات ہے 15 سال پرانا جہاز اڑایا گیا،رپورٹ میں سارا ملبہ سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا، سول ایوی ایشن والے وہی ہیں جو پائلٹس کو لائسنس دیتے ہیں، یہ حیران کن ہے جعلی لائسنس کی بنیادپرکمرشل پروازیں اڑانےکی اجازت دی گئی۔

  • سپریم کورٹ کا ریلوے میں 76 ہزار ملازمین کی چھانٹی کا حکم

    سپریم کورٹ کا ریلوے میں 76 ہزار ملازمین کی چھانٹی کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ریلوے میں 76 ہزار ملازمین کی چھانٹی کا حکم دےدیا، چیف جسٹس گلزار نے کہا کہ ریلوے میں نااہل افراد بھرے پڑے ہیں، جو خود اپنے محکمے سے وفادار نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اورجسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ نے ریلوے بدانتظامی کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے کہ ریلوےبدترین حال میں پہنچ چکی ہے، ہرہفتے ایک حادثہ ہوجاتا ہے، حادثات سےبڑاجانی اورمالی نقصان ہوتاہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہونیوالےحادثے میں بھی کروڑوں کانقصان ہوا، 6ماہ پہلےوالےحادثےکی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی، ریلوے مسلسل خسارے میں جارہا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریلوےسیکریٹری کےبیان پرعدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے ریلوےمیں مکمل اوورہالنگ اور ریلوے میں76ہزارملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سیکرٹری ریلوے کا بیان سنا، جس سے بالکل مطمئن نہیں، ریلوے میں نااہل افراد بھرے پڑے ہیں، ملازمین خود اپنے محکمے کے ساتھ وفادار نہیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا ریلوے آئے روز حادثات کا شکار ہوتی ہے، حادثات کے باعث بھاری جانی ومالی نقصان ہوتا ہے، ان حادثات کی کوئی رپورٹ ہے اور نہ کوئی عملدرآمد، ریلوے فوری طور پر اپنا اصلاحاتی عمل شروع کرے اور ریلوے سے غیر ضروری اور نااہل ملازمین کی چھانٹی کریں۔

    سیکرٹری ریلوے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلیا اور سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔

  • سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے بڑی خبر، سپریم کورٹ نے ڈیڈ لائن دے دی

    سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے بڑی خبر، سپریم کورٹ نے ڈیڈ لائن دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں پر قبضہ خالی کرانے کیلئے دو ماہ کی ڈیڈلائن دے دی ، چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا افسران ذاتی رہائش گاہ ہونےکے باوجود سرکاری گھرالاٹ کرالیتے ہیں، وزارت ہاؤسنگ نےقبضےخالی نہ کرائے تو نوکریوں سےجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سرکاری گھروں پر قبضوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    عدالت نے کہا حکم کےباوجودوزارت ہاؤسنگ نے سرکاری رہائش گاہوں کو خالی نہیں کرایا، وزارت ہاؤسنگ کی رپورٹ غیر تسلی بخش ہے ، آئندہ سماعت پر سیکریٹری ہاؤسنگ کی دستخط شدہ رپورٹ دی جائے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا افسران ذاتی رہائش گاہیں ہونے کے باوجود سرکاری گھرالاٹ کرالیتےہیں، کئی سرکاری افسران نےگھر الاٹ کراکر کرائےپر دے رکھے ہیں، وزارت ہاؤسنگ کی پیش کردہ رپورٹس جھوٹ پرمبنی ہے۔

    ایڈیشنل سیکریٹری ہاؤسنگ کا کہنا تھا کہ ہرگھرکی تصدیق کراکرریکارڈ عدالت میں پیش کیاگیا، 52 گھروں کوخالی کراکرمحکمانہ کارروائی شروع کردی، گھروں کی انسپکشن کیلئے48ٹیمزتشکیل دی گئی تھیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا سرکاری گھروں پراب بھی قبضہ ہے ، لوگ ہمیں وزارت ہاوسنگ سے متعلق شکایات بھجواتے رہتے ہیں، ایک خاتون کی جی6 میں  سرکاری رہائش پر قبضےکی شکایت ملی ہے، سرکاری گھروں پر قبضے کو فوراً پولیس لیکر خالی کرائیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ سرکاری رہائش گاہیں صرف ملازمین کیلئےہیں نجی لوگوں کیلئےنہیں، وزارت ہاؤسنگ نے خالی نہ کرائیں تونوکریوں سےجائیں گے ، ٹائم پرٹائم لیا جاتا ہے کام نہیں کیا جاتا، 2 ماہ کےاندر کارروائی کر کے رپورٹ پیش کریں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو بھی ختم کرائیں، جس پر وکیل سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ اسلام آبادپولیس نے سی ڈی اے گھروں پر قبضہ کررکھاہے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا یہ حکومت کا معاملہ ہے خود حل کرائیں۔

    سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں پر قبضے خالی کرانے کیلئے وزارت ہاؤسنگ کو آخری مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ماہ کیلئے ملتوی کردی۔

  • ٹڈی دل کی نشونما نہ رُکی تو پورے ملک میں پھیلنے کا خطرہ ہے، رپورٹ

    ٹڈی دل کی نشونما نہ رُکی تو پورے ملک میں پھیلنے کا خطرہ ہے، رپورٹ

    اسلام آباد : ٹڈی دل پوری دنیا کی زراعت کیلئے خطرہ بن چکاہے، ملک کا3لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ ٹڈی دل سے متاثرہ ہونے کا خدشہ ہے، ٹڈی دل کی نشونما کو نہ روکا گیا تو پورا ملک متاثر ہوگا۔

    یہ بات حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتائی۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹڈی دل کے حملوں سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کا3لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ ٹڈی دل سے متاثرہ ہونے کا خدشہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا60 ،سندھ کا25، پنجاب کا15 فیصد رقبہ ٹڈی دل سے متاثر ہوسکتا ہے، ٹڈی دل کی نشونما کو نہ روکا گیا تو پورا ملک متاثر ہوگا، پنجاب اور سندھ ٹڈی دل کے پیداواری زون میں آتے ہیں، سروے سے متعلق تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ48ہزار 85 ہزار، 483 ہیکٹر ایکٹر پر سروے مکمل کیا گیا، ٹڈی دل کو تلف کرنے کے لیے771 مختلف ٹیمیں کام کررہی ہیں،771ٹیمیں دو ہزار 682 افراد پر مشتمل ہیں۔

    حکومت پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ، 49 ہزار، 68 ہیکٹر ایکٹر رقبے پر اسپرے کیا جاچکا ہے، ٹدی دل پوری دنیا کی زراعت کیلئے خطرہ بن چکا ہے، پنجاب کا15 فیصد ایریا ٹڈی دل سے متاثر ہوا۔

    ٹڈی دل کی افزئش کی وجہ سے اسے روکنا ممکن نہیں لگ رہا، این ڈی ایم اے اور مقامی حکومت ٹڈی دل سے نبردآزما ہیں،5طیارے،50 اسپرےمشینیں اور 50 اینٹرو مولو جسٹس کی ضرورت ہے، ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے خصوصی ٹیمیں اور گروپس تشکیل دے دیے ہیں۔