Tag: supreme court

  • سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیسز کی تعداد 44 ہزار سے تجاوز کر گئی

    سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیسز کی تعداد 44 ہزار سے تجاوز کر گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں زیرالتواکیسزکی تعداد44ہزار سے تجاویز کر گئی ، رپورٹ میں بتایا گیا یکم مئی سے15 جولائی تک 196 کیسز کا اضافہ ہوا جبکہ یکم سے 15مئی تک 366کیسز نمٹائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےزیرالتواکیسزکی 15روزہ رپورٹ جاری کر دی، جس میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 44ہزار658ہوگئی ہے ، یکم مئی کو زیر التوا کیسز کی تعداد44ہزار462 تھی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا یکم مئی سے15جولائی تک196 کیسز کا اضافہ ہوا جبکہ یکم سے 15مئی تک 366کیسز نمٹائے اور 562نئے کیسز کا اندراج ہوا۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ میں28سے29مئی تک کیسزکی سماعت کیلئے3بینچ تشکیل دے دیئے گئے ہیں، بینچ ایک میں چیف جسٹس گلزاراحمداورجسٹس قاضی امین ، بینچ دو میں جسٹس مشیرعالم،جسٹس مظہرعالم میاں خیل،جسٹس یحییٰ آفریدی جبکہ بینچ تین میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس سردارطارق شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ اسلام آباد کیلئے یکم سے5جون تک کیسز پر7بینچ تشکیل دیئے ہیں ، جس کے مطابق بینچ ایک میں چیف جسٹس گلزاراحمد،جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظاہرعلی ، بینچ دومیں جسٹس مشیرعالم،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان اور بینچ تین میں جسٹس عمرعطابندیال،جسٹس فیصل عرب،جسٹس قاضی امین شامل ہیں۔

    بینچ چارمیں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس سردار طارق ، بینچ پانچ میں جسٹس مقبول باقر،جسٹس مظہر عالم میاں خیل، بینچ چھ میں جسٹس منظورملک اورجسٹس منصور علی شاہ اور بینچ سات میں جسٹس سجادعلی شاہ اورجسٹس منیب اختر کو شامل کیا گیا ہے۔

  • سندھ میں ہفتہ اور اتوار کو بھی مارکیٹیں کھول دیں گے،  سعید غنی

    سندھ میں ہفتہ اور اتوار کو بھی مارکیٹیں کھول دیں گے، سعید غنی

    کراچی : صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ شاپنگ مالز بند رکھنے کا فیصلہ این سی سی کا فیصلہ تھا، سندھ میں ہفتہ اور اتوار کو بھی مارکیٹیں کھول دیں گے، کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہو۔

    یہ بات انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ پورا ہفتہ مارکیٹیں کھولنے کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کے پابند ہیں لہٰذا عدالتی حکم کے مطابق ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں کھول دیں گے، شاپنگ مالز بند رکھنے کا فیصلہ این سی سی کا فیصلہ تھا۔

    سعید غنی نے کہا کہ شاپنگ مالز سے متعلق سپریم کورٹ کا آرڈر ابھی دیکھا نہیں ہے، پوری کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہو،

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عوام ایس اوپیز پر عملدرآمد نہیں کریں گے تو حکومت کو مشکل ہوگی، عوام ہی ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرے تو حکومت عملدرآمد نہیں کراسکتی۔

     انہوں نے اپیل کی کہ بازار جانے والوں کو خیال کرنا چاہیے کہ بچوں اور بزرگوں کو ساتھ نہ لے کر جائیں، بازاروں میں جانے والے ماسک کا استعمال کریں اور سماجی فاصلہ لازمی رکھیں۔

     ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کا حکم، ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار

    انہوں نے کہا کہ خواتین چند مہینوں کے بچوں کوبھی مارکیٹیں میں لے کر آرہی ہیں جس سے گریز کرنا چاہیے، اس صورتحال میں شہریوں کو بھی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔

    یاد رہے کہ کورونا ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کراچی کی تمام مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس کی کمشنرکراچی کومارکیٹس کھولنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا زینب مارکیٹ میں غریب لوگ آتےہیں، زینب مارکیٹ میں لوگوں کوایس او پیزعمل کرائیں، ایس او پیز پر عمل کرانا ہےآپ نے لوگوں کو مارنایا ڈرانانہیں۔

  • ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کا حکم، ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار

    ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کا حکم، ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملک بھر میں شاپنگ مالز اور کراچی کی تمام مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا اور ہفتہ،اتوارکوکاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا حکومتی حکم غیر آئینی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالدجاوید نے کراچی سےوڈیولنک پر دلائل کا آغاز کیا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کراچی کی تمام مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس کی کمشنرکراچی کومارکیٹس کھولنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا زینب مارکیٹ میں غریب لوگ آتےہیں، زینب مارکیٹ میں لوگوں کوایس او پیزعمل کرائیں، ایس او پیز پر عمل کرانا ہےآپ نے لوگوں کو مارنایا ڈرانانہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کراچی میں چند مالز کے علاوہ تمام مارکیٹس کھلی ہیں، جو دکانیں سیل کی گئیں انہیں بھی کھول دیں، چھوٹے تاجر کورونا کے بجائے بھوک سےہی نہ مرجائیں، وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا جن چھوٹی مارکیٹس کو کھولا گیا وہ کونسی ہیں؟ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹس ہیں؟ کیا طارق روڈ ،صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹوں میں ہوتا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ شاپنگ مالز کے علاوہ تمام مارکیٹیں کھلی ہیں جبکہ کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ مالز میں 70فیصد لوگ تفریح کے لئے جاتے ہیں۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت سے بڑے شاپنگ مالزکھولنے پر ہدایات فوری مانگ لی، اےجی سندھ نے کہا حکومت آج سے شاپنگ مالز کھولنے پر غورکررہی ہے۔

    جسٹس مظہرعالم کا کہنا تھا کہ باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز؟ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عید کے موقع پر ہفتے ،اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کی جائیں اور چھوٹے دکانداروں کوکام کرنے سے دیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ دکانیں بند کریں گے تو دکاندار تو بھوک سے مر جائے گا، کراچی میں 5بڑے مال کےعلاوہ کیاسب مارکیٹیں کھلی ہیں،کمشنر کراچی نے بتایا کہ کچھ مارکیٹس کو ایس او پی پر عمل نہ کرنے پر سیل کیا ہے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی مارکیٹس بھی کھولیں ،انھیں ڈرانےکےبجائےسمجھائیں، کراچی کی تمام مارکیٹ کھول دیں، مارکیٹس میں چھوٹے طبقے کا کاروبار ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہ ملک بھر کے تمام شاپنگ مالزکھولنے کاحکم دےرہےہیں ، عید پر رش بڑھ جاتا ہے،ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بندنہ کرائی جائیں ، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے مگر دوسرے لینا چاہتےہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پرہی نئے کپڑےپہنتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کوروناوائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کورونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ کیا ہفتہ اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ ہفتہ اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟

    چیف جسٹس نےملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کاحکم دےدیا اور کہا ہفتہ اور اتوار کو بھی مالز اور مارکیٹیں بند نہیں ہوں گی، پشاور میں کتنے شاپنگ مالز ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان پشاور میں کوئی شاپنگ مال بند نہیں، تمام کاروباری مراکز کھلے ہیں جبکہ اےجی بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی مال نہیں باقی مارکیٹس کھلی ہیں۔

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کورونا کے نام پراربوں خرچ کئےجاچکے،یہ کہاں جارہے ہیں، جس پر نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا ہمارے لئے 25ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ25ارب روپے پورے نہیں ہوئے، 25 ارب آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا 500 ارب کوروناکےمریضوں پر خرچ ہوں تووہ کروڑپتی بن جائیں، اتنی رقم مختص ہونے پربھی 600لوگ جاں بحق ہوگئے تو کیا فائدہ ، آپ25ارب سے کیا قرنطینہ کیلئے کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کررہے ہیں،نمائندہ این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ رقم پوری طرح نہیں ملی ،دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس کا این ڈٰی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہماراملک ابھی تک ٹیسٹنگ کٹس کی صلاحیت کیوں نہ حاصل کرسکا تو نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا اس کاجواب وزارت صحت بہتردےسکتی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ملک کے وسائل بہت غلط طریقے سے استعمال ہورہےہیں، رپورٹ میں اخراجات کی واضح تفصیلات موجودنہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا ملک کےعوام حکومت کےغلام نہیں، لوگوں کو قرنطینہ کے نام پر یرغمال بنایاجارہاہے، لوگوں کی حقوق کی ضمانت آئین نےدی ہے ،آپ کسی پر کوئی احسان نہیں کررہے ، یہ پیسہ ایسی جگہ چلا گیا جہاں سےضرورت مندوں کونہیں مل سکتا۔

    ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کرا دی ، چیف جسٹس نے کہا شاپنگ مالز کو بند رکھنےکی کیا منطق ہے؟ جس پر اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے، پنجاب،اسلام آبادکےمالز کھولنااین سی سی فیصلوں کے برعکس ہوگا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا ؟ کیا قرنطینہ مراکز کیلئے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، جس پر ممبر این ڈی ایم اے نے کہا حاجی کیمپ قرنطینہ پر59ملین خرچ ہوئے، حکومت کی طرف سے صرف2.5 ارب روپے ملے۔

    چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کوروناکے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسےخرچ ہوتے ہیں؟ کورونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ وزارت صحت میں کالی بھیڑیاں بھی موجود ہیں، اسپتال کے اندر کے لوگوں کے دواسازکمپنیوں سےتعلقات ہوتےہیں، اسپتال کے لوگ دواساز کمپنیوں سے کمیشن لیتےہیں، ان سارے معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،چیف جسٹس

    جسٹس گلزار نے سوال کیا ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ میڈیکل آلات،کٹس،قرنطینہ مراکزپرپیسےخرچ ہوئے، جس پر ڈی چیف جسٹس نے کہاکورونااس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کاپیسہ اٹھاکرلےجائے، ٹڈی دل کےلئےاین ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دے گا ، صنعتیں فعال ہوجائیں توزرعی شعبہ کی اتنی ضرورت نہیں رہےگی، صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے مجھے نہیں لگتا کوروناپر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کورونا کا علاج صرف کمرے میں بند کرنا ہے، چیف جسکیا کمرے میں بندہونےپر25 لاکھ خرچ ہوتےہیں؟ پولن سے کتنے لوگ مرتےہیں؟ تو وفاقی سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ پولن سے کم و بیش ایک ہزار لوگ مرتےہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ابھی ڈینگی آئے اور 50ہزارلوگ مرجائیں گے، سرکاری اسپتال میں کورونامثبت،نجی اسپتالوں میں منفی آتاہے، جسے دل کرتا ہے کورونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے، پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں نظر بھی نہیں آرہا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا عوام حکومت کی غلام نہیں ہے، عوام پر حکومت آئین کے مطابق کرنی ہوتی ہے، پاکستان میں غربت بہت ہےلوگ روزانہ کما کر ہی کھاسکتےہیں، کراچی پورٹ پراربوں کاسامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا کسی کو معلوم ہے دو ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، سارا الزام این ڈی ایم اے پر آئے گا، کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلئے گولیاں ماری جائیں گی؟ سنا ہے ہولی فیملی اسپتال سے لوگوں کو نجی اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، سیکریٹری صحت پنجاب نے بتایا مریض منتقل ہو رہے تو یہ ڈاکٹرز کا مس کنڈکٹ ہے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ سب سے تھرڈ کلاس ادویات سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہیں، او پی ڈی میں مریض کھڑے ہوتے ہیں، ڈاکٹر چائے پی رہے ہوتے، کیا کیمرے لگا کر سرکاری اسپتالوں کی نگرانی نہیں ہو سکتی؟ تمام سرکاری اسپتالوں کے ہر کمرے میں کیمرے لگائیں، جس پر سیکریٹری صحت نے یقین دہانی کرائی جہاں جہاں ممکن ہوگاکیمرے نصب کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم غیر آئینی ہے، بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی، جس میں قومی رابطہ کمیٹی میں کئےگئے فیصلوں سےمتعلق عدالت کو آگاہ کیا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اجلاس میں تعمیراتی سیکٹر کے فیز ٹو کو کھولنےکافیصلہ کیاگیا، شاپنگ مالز، شادی ہالز سمیت متعدد جگہوں کو 31مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا اور عوام کی سہولت کیلئے چھوٹے تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی۔

    واضح رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پریکساں پالیسی بنانےکا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے غیر ملکی امداد کی تفصیل بھی مانگ لی تھی ، چیف جسٹس نے وفاق اور صوبوں کی رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا ملک کے حصوں میں آگ لگی ہے، حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں ، صدر اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے ،مگر کچھ ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا۔

  • کورونا وائرس از خود نوٹس کیس، وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    کورونا وائرس از خود نوٹس کیس، وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    اسلام آباد : کورونا وائرس از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت  کی جانب سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی، جس میں قومی رابطہ کمیٹی میں کئےگئےفیصلوں سےمتعلق عدالت کو آگاہ کیا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا ہے کہ اجلاس میں تعمیراتی سیکٹر کے فیز ٹو کو کھولنےکافیصلہ کیاگیا، شاپنگ مالز، شادی ہالز سمیت متعدد جگہوں کو 31مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا اور عوام کی سہولت کیلئے چھوٹے تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی۔

    دوسری جانب پنجاب حکومت نے بھی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ، جس میں کہا گیا ہے کہ زکوٰۃ فنڈ میں کوئی غبن اورفراڈ نہیں ہوا، آڈیٹرجنرل نےفنڈکی تقسیم میں قواعد کی خلاف ورزی کےاعتراضات لگائے، آڈیٹر جنرل کے اعتراضات میں چوری یاغبن کاکوئی الزام نہیں۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، نیا بینچ تشکیل

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایگری کلچرانکم ٹیکس کےبعدفصلوں پرعشرڈبل ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے، صحت اور امن سے متعلق قانون سازی کرنا صوبوں کا اختیار ہے ، عوامی صحت کےلیےپنجاب انفیکشن ڈیزیزاینڈکنٹرول پریوینشن آرڈیننس کااجراکیا۔

    پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نےصوبوں کولاک ڈاؤن سےمتعلق فیصلہ سازی کااختیار دیا، پنجاب میں کاروباری سرگرمیاں معطل کرنےمیں وفاقی کی ہدایت شامل تھی، آرٹیکل 143، 149 کےتحت صوبےوفاقی حکومت کی ہدایت کےپابندہیں۔

    رپورٹ کے مطابق لاک ڈاون عوام کی صحت کےلیےضروری تھا، لاک ڈاون سے وفاقی ٹیکس متاثر ہوسکتا ہے،وفاقی حکومت اور صوبوں کا لاک ڈاون پر کوئی اختلاف نہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پریکساں پالیسی بنانےکا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے غیر ملکی امداد کی تفصیل بھی مانگ لی تھی ، چیف جسٹس نے وفاق اور صوبوں کی رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا ملک کے حصوں میں آگ لگی ہے، حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں ، صدر اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے ،مگر کچھ ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا۔

  • سپریم کورٹ میں  کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، نیا بینچ تشکیل

    سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، نیا بینچ تشکیل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی، جس کے لیے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے اور اٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے کوروناوائرس پرازخودنوٹس کیس کی سماعت پیر کو مقررکردی اور سماعت کےلئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس سجادعلی شاہ کی عدم دستیابی پرنیابینچ تشکیل دیا گیا ہے، اب جسٹس مشیر عالم اور جسٹس طارق مسعود بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    جسٹس عمرلاہورجبکہ جسٹس سجاد کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت میں مصروف ہیں، کورونا کیس کےلئےاٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کو نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہی

    دوسری جانب پرنسپل سیٹ اسلام آباد ، کراچی اورلاہوررجسٹری کی آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ جاری کردی گئی ہئے، جس کے مطابق آئندہ ہفتے 3ججز بینچز اسلام آباد میں مقدمات کی سماعت کریں گے ، کراچی میں 2اور لاہور میں 3بینچ مقدمات کی سماعت کریں گے.

    بینچ ایک چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل ہوگا ، بینچ 2میں جسٹس مشیر عالم,جسٹس مظہر عالم اور جسٹس یحیی آفریدی شامل ہیں جبکہ بینچ 3جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل ہوگا۔

    کراچی رجسٹری میں جسٹس مقبول باقر،جسٹس سجاد علی شاہ سماعت کریں گے، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ بھی سماعت کرےگا۔

    لاہور میں بنچ ایک میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس مظاہر نقوی ، بینچ 2میں جسٹس منظور ملک اور جسٹس منصور علی شاہ اور بینچ 3میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔

  • سپریم کورٹ : ایف آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر اکاؤنٹس کی ترقی کا فیصلہ معطل

    سپریم کورٹ : ایف آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر اکاؤنٹس کی ترقی کا فیصلہ معطل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایف آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر اکاؤنٹس کی ترقی کا فیصلہ معطل کردیا، سیکریٹری داخلہ کی سروس ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی۔

    سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خالد محمود اختر اے جی پی آر سے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں آیا تھا، کس قانون کے تحت ایف آئی اے میں ریگولر کیا گیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ سینیارٹی کا معاملہ ہے، فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ سروس ٹریبونل نے قواعد پرانحصار کرکے خالد محمود اختر کے حق میں فیصلہ دیا،۔

    ٹریبونل نے2012میں خالد محمود کوگریڈ 19میں ترقی دینے کا فیصلہ دیا تھا، خالد محمود اختر کی گریڈ 17 میں ترقی ہونے کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

     

  • کرونا ازخود نوٹس کیس : سپریم کورٹ نے راشن اور پیسوں کی تقسیم پررپورٹس غیر شفاف قرار دیدیں

    کرونا ازخود نوٹس کیس : سپریم کورٹ نے راشن اور پیسوں کی تقسیم پررپورٹس غیر شفاف قرار دیدیں

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کرونا سےمتعلق از خود نوٹس کیس میں راشن،پیسوں کی تقسیم پر رپورٹس غیرشفاف قراردے دی اور بیت المال اور زکوة فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت اور کرونا وائرس سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں اور وفاق سے رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوروناوائرس ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہوئی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیئے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محکمہ زکوةنےکوئی معلومات نہیں دیں، محکمہ زکوة کےجواب میں صرف قانون بتایاگیا تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت  زکوة فنڈ صوبوں کو دیتی ہے ، صوبائی حکومتیں زکوة مستحقین تک نہیں پہنچاتیں، زکوة فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑاحصہ انتظامی امورپرخرچ ہوتا ہے ، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں  شفافیت نہیں، سندھ حکومت ہو یاکسی اورصوبے کی،مسئلہ شفافیت کاہے، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی تفصیل نہیں دی گئی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9ارب سے زائد زکوة جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے، اس کا کچھ نہیں  بتایا  گیا ، وفاق حکومت کو زکوة فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہیے، زکوة فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خود مختاری متاثرنہیں ہو گی ، زکوة کے پیسے سے دفتری امور نہیں  چلائے جاسکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زکوة کا پیسہ لوگوں کےٹی اےڈی اے ،باہردورے کرانے کیلئے نہیں، یہی حال بیت المال اور زکوة کے محکمے کے ساتھ ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری صحت سے استفسار کیا اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز ہیں، سیکریٹری صحت نے بتایا کہ کیپٹل ٹریٹری میں  16 قرنطینہ  سینٹرزقائم ہیں، ہوٹلز،حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ، پاک چائنہ سینٹر شامل ہیں، بیرون ملک سے آئے مسافروں کو 24گھنٹے قرنطینہ سینٹرز میں رکھا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا ان قرنطینہ سینٹرزمیں رکھے جانے کا خرچ کون برداشت کرتا ہے، وفاقی سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے تو جسٹس گلزار احمد نے کہا لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سےبچ نکلتےہیں، مردان میں ایک شخص نے 2پیناڈول کھائی اور وہ اسکریننگ سے بچ نکلا۔

    سیکریٹری صحت نے بتایا کہ اسی لئے اب 24 گھنٹے میں قرنطینہ میں رکھ رہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹرمیں لوگ  کیوں شورمچارہےہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر دیکھ کرآئےہیں تو سیکریٹری صحت کا کہنا تھا میں نہیں گیا مگر ایڈیشنل سیکریٹری خود ہو کر آئےہیں، چیف جسٹس نے مزید کہا آج آپ حاجی کیمپ،اوجی ڈی سی ایل،پاک چائنہ سینٹرخود جاکر دیکھیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زکوة کا پیسہ بیرون ملک دوروں کےلیےنہیں ہوتا ،افسران کی تنخواہیں بھی زکوة فنڈ سے دی جاتی ہیں، سارا پیسہ زکوة فنڈ کا ایسے ہی خرچ کرنا ہےتو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیداہوتوایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والےہیں ، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سیہون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی ، مزارات کاپیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیلئے ہوتا ہے، مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوة فنڈ  سے تنخواہ لے رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ جوقوانین صوبوں نے بنائے ان کا جائزہ لینا بھی  ضروری ہے، قرنطینہ مراکزمیں مقیم افرادسے پیسے لئے جارہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا قرنطینہ کیلئےہوٹلزکاانتخاب کن بنیادوں پرکیاگیا، تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا ، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا قرنطینہ مراکز میں گرمیوں میں کیا سہولتیں سہولیات ہوں گی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جواب دیا کہ اے سی کی ضرورت  ہوئی تو مہیا کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کون صاحب ہیں ؟ وسیم خان نے بتایا کہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہوں۔

    چیف جسٹس نے وسیم خان کو روسٹرم سےہٹا دیا اور کہا آپ جاکر سیٹ پر بیٹھیں ، استفسار کیا اے سی لگانے کا خرچہ معلوم ہے آپ کو؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی کہا فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائےگا۔

    چیف جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے سے دینے کی بات ہے، کسی صوبے اور محکمہ نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی، عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپےخرچ ہو چکے اور مریض صرف 5ہزار ہیں۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا کہ قرنطینہ مراکز کے بجائے اسکول، کالجز کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے، اٹارنی جنرل پاکستان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کی تجویز اچھی ہے غور کریں گے۔

    کوروناوائرس ازخود نوٹس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ کورونا کے آتے ہی زکوة فنڈ سے 569 ملین روپے لوگوں میں  تقسیم کئے، رقوم کے تقسیم یو سی کی سطح پر موجود ڈیٹا سےکی گئی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نےکراس چیک کیاکہ یہی لوگ وفاق سے12ہزارتونہیں لےرہے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ کراس چیک نہیں کیاگیا، سندھ حکومت کےپاس مستحقین کی فہرست پہلے سے موجود تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا آپ نے جو رقم دی ہے فی کس کیا بنی ہے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا 6 ہزار روپے فی خاندان دیئے گئے ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید پوچھا کیا آپ نے یہ 6ہزار روپے کیش اداکئےہیں تو اے جی سندھ نے بتایا کہ یہ کیش میں نہیں بلکہ اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی گئی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن 11یو سیز کو سیل کیا گیاتھا ان کی آبادی کتنی ہے ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا 11 یو سیز کی آبادی 6لاکھ 70ہزار کے قریب بنتی ہے ، 12 اپریل تک ان یوسز سے234کورونا کیسز آئے تھے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اب یہ234متاثرہ افراد کہاں اورکس حالت میں ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ 160 لوگوں کو گھروں میں قرنطینہ میں رکھاگیا ہے، 45 لوگ اسپتالوں میں ہیں، جن میں سے6کی حالت تشویشناک ہے، 21 صحتیاب ہوچکے جبکہ باقی آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس آپ کی رپورٹ کوچیک کرنےکاکوئی طریقہ کارنہیں،اےجی سندھ نے کہا کہ عدالت میں پیش ہر ایک معلومات درست  اورحقیقت پرمبنی ہے ، جس پر چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ رپورٹ میں آپ نے 1.56بلین روپے کےراشن تقسیم کا لکھاہے ، پتہ چلا کہ اتنا بڑا راشن  تقسیم بھی ہوگیامگرکسی کوپتہ بھی نہیں چلا، ویسے کوئی چھوٹی چیزکسی کو دیتے ہیں تو اخبار میں 2تصویرآتی ہیں۔

    اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ یقین سے کہتا ہوں کہ کورونا پر کوئی سیاست نہیں کی جارہی ، سماجی فاصلےمدنظررکھ کر صبح4 بجے سے 7بجے کے درمیان  راشن تقسیم کیا، یہ راشن ضلعی انتظامیہ،یوسیزچیئرمین کے ذریعےتقسیم کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کیا یہ درست ہے کہ جو راشن تقسیم ہوا وہ ناقص تھا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے 22ہزار گھروں میں راشن کیسے تقسیم کیا اور استفسار کیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ان گھروں کی نشاندہی یوسیز کی کمیٹیوں نے کی تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کا علاقہ یورپ کے چھوٹے ملک جتنا ہے، مانتے ہیں سندھ حکومت کو تشہیرکی ضرورت نہیں ، لیکن تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہوگا، جے ڈی سی والے راشن تقسیم پر بتاتے ہیں کتنا راشن تقسیم ہوا۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا ہمیں تکلیف ہوتی ہے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں؟ کیا آپ کے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں  ہے، اے جی سندھ نے بتایا کہ جناب باتیں کرنے والے تو باتیں کرتےہیں، سندھ میں 23 مارچ سے راشن کی تقسیم شروع ہوئی، ہمارے پاس فہرستیں موجود ہیں، راشن فراہمی کا دوسرا دور جلد شروع ہو جائے گا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا دوسرے دور کے بعد خرچہ 8 ارب روپے تک پہنچ جائے گا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہے۔

    اے جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں کام کریں گے، جن کی ملازمت شروع ہوگی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہےگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کپڑے کی دکانیں کھولے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیےہوتی ہیں، ایسے تو درزی  ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے ،فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کی سیفٹی کوبھی مدنظر رکھنا ہو گا ، بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنےکاراستہ بھی نہ ملا،فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کردی گئیں تھیں،فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پرعمل نہیں ہورہا، مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے۔

    اے جی سندھ نے کاہ کہ ایس او پیز پر نہ عمل کرنے والی 3فیکٹریوں کو سیل کیا گیا، ماضی میں جو ہوا اسے بھول کر آگے بڑھ رہےہیں۔

    کورونا سے بچاؤ کے حفاظتی سامان کے حوالے سے اے جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی ، این 95 ماسک 425 روپے اور سرجیکل ماسک27روپے میں مل رہاہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کررہا ہے، سیکریٹری صحت سندھ نے بتایا کہ سول سوسائٹی نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے جبکہ اےجی سندھ نے کہا سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔

    چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے سوال کیا مردان کی یوسی منگاہ میں کیا صورتحال ہے ، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ یو سی منگاہ کو کھول دیا گیاہے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا، جس پر اےجی کےپی نے بتایا کہ طور خم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا ، اب تک ڈھائی ہزار افراد واپس آئےہیں ، طورخم سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا جاتاہے۔

    اےجی بلوچستان نے بتایا کہ چمن،تفتان بارڈرپر قرنطینہ مراکزقائم کردیئےگئے، قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کردیا، بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافیت کا مسئلہ ہے، صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کونقد امداد نہیں دی، حکومت نے 21ہزار ، این جی اوز نے 26 ہزار خاندانوں کو راشن دیا۔

    سپریم کورٹ نے زکوة فنڈز کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق صوبوں اور وفاق سےرپورٹ اور بیت المال کی شفافیت سے متعلق بھی رپورٹ طلب کرلی اور کہا اسلامی نظریاتی کونسل اورمفتی تقی عثمانی سے رائے لی جائے ، رائے لی جائے کہ زکوة فنڈ تنخواہ ،انتظامی اخراجات پر خرچ ہوسکتا یا نہیں۔

    عدالت نے چاروں صوبوں اور وفاق سےآئندہ سماعت سے پہلے کورونا پر پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے کہا صوبائی حکومتیں میڈیکل عملے،ڈاکٹرز کا مکمل خیال رکھیں، ممکن ہو تو میڈیکل عملے کو اضافی مراعات دی جائیں۔

    سپریم کورٹ نے ڈاکٹرز اور میڈیکل عملے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا سینٹری ورکرز کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

    عدالت نے سندھ میں راشن اورپیسوں کی تقسیم کے حوالے سے رپورٹس غیرشفاف قرار دیتے ہوئے کہا سندھ میں صنعتیں کھولنے کے ایس اوپیز کا پورے ملک پراطلاق ہوگا۔

    سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ، ضلعی عدالتوں کے وکلا اورعدالتی عملے کو حفاظتی سہولتیں دینے کاحکم دیتے ہوئے بار ایسوسی ایشنز کی جانب سےحکومت سے فنڈ فراہم کرنےکی درخواست مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ پوراملک اس وقت بحران کی کیفیت میں ہے، بارایسوسی ایشنزکو فنڈ کی فراہمی حکومت کی صوابدید ہے، اس کے لیے کوئی اور طریقہ  اختیارکیاجائے، بتایا گیا ہے ملک بھر میں بعض صنعتیں کھولی جا رہی ہیں،جوبھی صنعتیں کھولی جائیں ان پرفیکٹریز ایکٹ کا معیاریقینی بنایا جائے۔

    عدالت نے ہدایت کی وباسے نمٹنے کے لیے حکومتی ادارے آپس میں تعاون کریں، توقع ہے وفاقی اورصوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلے کریں گی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت 2ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

    خیال رہے چاروں صوبوں نے اپنی اپنی کارکردگی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہیں، سندھ حکومت نے آٹھ ارب کے راشن کی تقسیم سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔

    گزشتہ سماعت عدالت عظمی نے صوبوں اوروفاق کی کارکردگی پرعدم اطمینان کااظہارکیاتھاوزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کے ریمارکس سامنے آئے تھے، عدالت نے واضح کیاتھا کہ مفادعامہ اورعوام کے حقو ق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

  • پی ایم ڈی سی چلانے کیلئے ایڈ ہاک کونسل قائم، سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    پی ایم ڈی سی چلانے کیلئے ایڈ ہاک کونسل قائم، سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو چلانے کیلئے ایڈ ہاک کونسل قائم کردی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت توہین عدالت درخواست بھی خارج کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا مختصر فیصلہ سنادیا، یہ مختصر فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے پڑھ کر سنایا، پی ایم ڈی سی کو چلانے کے لیے نو رکنی ایڈ ہاک کونسل قائم کردی۔

    فیصلے کے مطابق ایڈہاک کونسل کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ اعجازافضل خان کریں گے، ممبران میں اٹارنی جنرل، سرجن جنرل آفس پاکستان شامل وائس چانسلر نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، وی سی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، وی سی سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی بھی شامل ہوں گے۔

    اس کے علاوہ وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی بھی ایڈ ہاک کونسل کے ممبر ہوں گے، وی سی شہید ذوالفقارعلی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اور وی سی بولان میڈیکل یونیورسٹی، پرنسپل مونٹ مورینسی کالج آف ڈینٹسٹری لاہور بھی ایڈ ہاک کونسل میں شامل ہیں۔

    علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت توہین عدالت درخواست بھی خارج کر دی گئی۔

     

  • ملک بھر کی جیلوں میں سینکڑوں قیدی مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار

    ملک بھر کی جیلوں میں سینکڑوں قیدی مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کو دی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں موجود 21 سو قیدی مختلف جسمانی بیماریوں جبکہ 594 قیدی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ‏صدر سپریم کورٹ بار سید قلب حسن کی سپریم کورٹ کو دی گئی رپورٹ میں جیلوں سے متعلق اہم انکشافات‏ کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد 25 ہزار 456 ہے جبکہ انڈر ٹرائل قیدیوں کی تعداد 48 ہزار 8 ہے۔ ملک بھر کی 114 جیلوں میں 60 سال سے زائد عمر کے 15 سو 27 افراد موجود ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ مختلف جیلوں میں 11 سو 84 خواتین بھی جیلوں میں بند ہیں، پنجاب اور پختونخواہ کی جیلوں میں 140 نوزائیدہ بچے بھی ماؤں کے ہمراہ بند ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں 33 فیصد سے زائد اضافی قیدیوں کو رکھا گیا ہے، جیلوں میں موجود 21 سو قیدی مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ملک بھر کی مختلف جیلوں میں قید 594 قیدی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔

    سپریم کورٹ کو دی جانے والی رپورٹ کے مطابق 24 سو قیدی ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہیں، صرف پنجاب میں 66 معذور قیدی مختلف جیلوں میں بند ہیں، جیلوں میں بند ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 173 ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب کی 10 فیصد جیلوں میں ایمبولینس کی سہولت موجود نہیں، جیلوں میں نفسیاتی معالج کی 58 اسامیاں بھی خالی ہیں، جیلوں میں ڈاکٹروں کی 108 اسامیاں بھی خالی ہیں۔

  • سپریم کورٹ نے راؤ انوار کیخلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کا کیس نمٹا دیا

    سپریم کورٹ نے راؤ انوار کیخلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کا کیس نمٹا دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے راؤ انوار کیخلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کا کیس نمٹا دیا، فیصلہ درخواست گزار کے درخواست واپس لینے پر کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق پولیس انسپکٹر راؤ انوار کیخلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کا کیس نمٹا دیا ہے، عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی، سرخواست کی سماعت کے موقع پر درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پہلے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔

    دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا کوئی درخواست گزار ماورائے عدالت قتل کا براہ راست متاثرہ ہے؟ جس کے جواب میں وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نقیب اللہ محسود کے والد بھی درخواست گزار ہیں، نقیب اللہ کے قتل پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی۔

    جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ راؤ انوار گرفتار ہوئے اور ٹرائل بھی چل رہا ہے عدالت اب مزید کیا کرے؟ راؤ انوار پر 444 ماورائے عدالت قتل کا کیا ثبوت ہے؟ کیا درخواست گزاروں کو قتل ہونے والوں کے نام معلوم ہیں؟

    جواب دیتے ہوئے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ریکارڈ سندھ پولیس کے پاس ہے عدالت نوٹس جاری کر سکتی ہے، عدالت انکوائری کرائے سب سامنے آ جائے گا،444قتل کی بات سندھ پولیس کی رپورٹ میں لکھی ہے،۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا نقیب اللہ محسود کے والد زندہ ہیں؟ وکیل نے کہا کہ نقیب اللہ کے والد انتقال کرگئے اب کیس کی پیروی ان کے ورثا کررہے ہیں۔

    جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر قتل ہونے والوں کے نام تک آپ کو معلوم نہیں ، مرنے والوں کا اتنا درد ہے تو ان کے نام بھی معلوم ہونے چاہیے تھے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، عدلیہ کی آبزرویشنز سے فوجداری کیس پربہت اثر پڑتا ہے، جسٹس مشیر عالم نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟

    وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عوامی مفاد کا مقدمہ ہے جو سپریم کورٹ پہلے بھی سن چکی، جس پر جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد کا کیس تو تب ہوتا جب متاثرہ افراد خود سامنے آتے۔