Tag: supreme court

  • عدالت نے حق مہر کے مقدمے میں خاتون کے حق میں فیصلہ دے دیا

    عدالت نے حق مہر کے مقدمے میں خاتون کے حق میں فیصلہ دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے حق مہر کے مقدمے میں خاتون کے حق میں فیصلہ دے دیا، ساڑھے12تولے سونا اور آدھا گھر بطور حق مہر دینے کا حکم جاری کردیا، عدالت کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ اگر حق مہر نہیں دے سکتے تو پھر شادی نہیں کرنی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    سپریم کورٹ کا حق مہر کے مقدمے میں خاتون فلک نگار کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فلک نگار نامی خاتون کو ساڑھے 12تولے سونا اور آدھا گھر بطور حق مہر دینے کا حکم جاری کردیا۔

    سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت فیملی مقدمات کو تسلی سے سن کر فیصلہ کرتی ہے، اگر حق مہر نہیں دے سکتے تو پھر شادی نہیں کرنی تھی، حق مہر نہ دے کرعدالت کی مشکلات بڑھا دی جاتی ہیں،۔

    عدالت نے قرآنی آیات کو دیکھ کر فیصلہ دیا، قرآن کی آیات سے کوئی کیسے اختلاف کرسکتا ہے، کہہ دیں کہ شوہر اجمل کی بیوی فلک نگارمسلمان نہیں۔

    واضح رہے کہ فیملی کورٹ نے خاتون کو سوات میں گھر25تولے سونا حق مہر میں دینے کا حکم دیا تھا، ہائیکورٹ نے فیملی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا، محمد اجمل نے سوات میں فلک نگار سے نکاح کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا خواتین کے مقدمات میں خاتون تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا خواتین کے مقدمات میں خاتون تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خواتین کے مقدمات میں خاتون کو ہی تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے پولیس کو سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور غلامی سے نکلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں گوجرانوالہ میں خلع کے بعد اغوا کی جانے والی خاتون کی درخواست کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم احکامات جاری کردیے۔

    سپریم کورٹ نے خواتین کے مقدمات میں خاتون کو ہی تفتیشی افسر بنانے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ ایس او پی تمام تھانوں میں آویزاں کردیے جائیں اور ایس او پی کا اردو ترجمہ تمام ایس ایچ اوز تک پہنچائے جائیں۔

    آئی جی کو آئی جی صاحب کہنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایس پی کی سخت سرزنش کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی صاحب کوئی نہیں ہوتا آئی جی صرف آئی جی ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے سنہ 47 میں آزادی حاصل کر لی تھی، لیکن پولیس ابھی تک انگریز کے دور میں ہے۔ دنیا میں کہیں آئی جی کو آئی جی صاحب نہیں کہا جاتا، پولیس اپنی ذہنیت تبدیل کرے اور غلامی سے نکلے۔

    سپریم کورٹ نے خاتون کے کیس میں مرد تفتیشی افسرمقرر کرنے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ ایس او پی کے مطابق خواتین کے مقدمات میں خاتون افسر تفتیش کر سکتی ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ گوجرانوالہ میں خاتون کے مبینہ اغوا اور زیادتی کے مقدمے کی تفتیش مرد تفتیشی افسر نے کی، مرد افسر کی تفتیش پر عدالت نے سوال اٹھایا تو ایس پی نے آئی او کو شوکاز جاری کیا۔

    عدالت نے ایس پی کے شوکاز نوٹس جاری کرنے پر سوال اٹھا دیا، عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ کیا ایس پی اپنے ماتحت جس کو وہ خود تعینات کرتا ہو شوکاز نوٹس جاری کرسکتا ہے؟

    سرکاری وکیل نے کہا کہ ایس پی شوکاز نہیں جاری کر سکتا، نوٹس واپس لے لیا جائے گا۔

    عدالت نے مرد تفتیشی افسر مقرر کرنے پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر درخواست نمٹا دی۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن : قتل صرف قتل ہوتا ہے، اہم یا غیر اہم نہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ

    سانحہ ماڈل ٹاؤن : قتل صرف قتل ہوتا ہے، اہم یا غیر اہم نہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کو کام روکنے سے متعلق درخواست میں فریقین کو نوٹس جاری کردیے، چیف جسٹس نے کہا کہ قتل کا کوئی واقعہ اہم یا غیر اہم نہیں ہوتا سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے دو فریقین خرم علی اور رضوان قادر کو نوٹس جاری کردیا۔

    دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے لواحقین کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہائیکورٹ نے نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا ہے، یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی تھی، لہٰذا ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قراردیا جائے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نئی جے آئی ٹی کا حکم سپریم کورٹ نے نہیں دیا ،یہ حکومت نے بنائی تھی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ٹرائل جاری ہے ،200سے زائد گواہان کے بیانات بھی قلمبند ہوچکے۔

    وکیل حکومت پنجاب کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مداخلت کیوں ضروری ہے؟ یہ ایک اہم واقعہ ہے عام نہیں،10مرد خواتین جاں بحق اور60سے زائد زخمی ہوئے، پہلی جے آئی ٹی اسی حکومت نے بنائی تھی جس پر الزام تھا، پہلی جے آئی ٹی میں زخمیوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کئے گئے وہ جانبدارتھی۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قتل کا کوئی واقعہ اہم یا غیر اہم نہیں ہوتا سب ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک کے بعد دوسری جے آئی ٹی بنا کر ٹرائل میں رکاوٹ پیدانہیں کی جاسکتی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک سے زائد تحقیقاتی کمیٹی میں آئین کے مطابق کوئی رکاو ٹ نہیں، ٹرائل بھی جاری رہے اور تحقیقات بھی جاری رہے تو کوئی حرج نہیں، نئی شہادتیں سامنے آسکتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں فریقین کو نوٹس دینا پڑے گا جن کیلئےعبوری حکم آیا،بعد ازاں سپریم کورٹ نے دو فریقین خرم علی اور رضوان قادر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست کی سماعت 13فروری تک ملتوی کردی۔

  • ریلوے خسارہ کیس : شیخ رشید اور اسد عمر کی آج سپریم کورٹ میں طلبی

    ریلوے خسارہ کیس : شیخ رشید اور اسد عمر کی آج سپریم کورٹ میں طلبی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پاکستان ریلوے خسارہ کیس میں وزیرریلوے شیخ رشید اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو آج ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کاحکم دیا ہے اور ریلوے سے بزنس پلان اور سرکولر ریلوے منصوبے پر عملدرآمد رپورٹ طلب کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاکستان ریلوے میں خسارہ کیس کی سماعت ہوگی ، وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو طلبی کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آج ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

    سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، اٹارنی جنرل پاکستان اور سیکریٹری پلاننگ، چیف سیکریٹری سندھ، چیئرمین،سی ای او ریلوے و دیگر کو بھی نوٹس جاری کئے گئے اور ریلوے سے بزنس پلان اور سرکلر ریلوے پر عملدرآمدرپورٹ طلب کی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : ریلوے خسارہ کیس : شیخ رشید اور اسد عمر کوذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

    وزیرمنصوبہ بندی اسدعمر سے ایم ایل ون کے ٹینڈر میں تاخیر پر جواب طلب کیا گیا ہے۔

    یاد رہے 28 جنوری کو ہونے والے سماعت میں سپریم کورٹ نے ایم ایل ون کی منظوری ترجیحی بنیادوں پر دینے کا حکم دیتے ہوئے شیخ رشید سے ریلوے کا بزنس پلان طلب کرتے ہوئے کہا تھا پلان پرعمل نہ کیا توتوہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

    عدالت نے کہا تھا سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کیلئے مزید وقت نہیں دیا جائے گا، سرکلر ریلوےسے بے گھر ہونیوالوں کی بحالی ریلوے کی ذمہ داری ہوگی۔

    سپریم کورٹ نے وزارت منصوبہ بندی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پروزیرمنصوبہ بندی اورپلاننگ کمیشن حکام کو طلب کرلیا تھا۔

  • ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت  آج پھر ہوگی

    ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    کراچی : کراچی بد امنی کیس کی سماعت ڈھائی سال بعد آج پھر ہوگی ، پولیس کی جانب سے امن وامان پررپورٹ پیش کی جائےگی جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل سندھ ، محکمہ داخلہ سندھ،آئی جی،ڈی جی رینجرزاوردیگرکونوٹس جاری کردیئے گیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج پھر ہوگی ، چیف جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

    عدالت کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ،آئی جی،ڈی جی رینجرزاوردیگرکونوٹس جاری کردیئے گئے ہیں جبکہ رحمان ملک،راجہ پرویز اشرف، وفاقی سیکرٹری داخلہ ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بھی نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔

    سماعت میں پولیس کی جانب سے امن وامان پررپورٹ پیش کی جائےگی، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں دو روز کے لئے دو علیحدہ علیحدہ بنچ قائم کئے ہیں۔

    واضح رہے 11 اگست 2016 کو آخری مرتبہ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی تھی ، جس میں  حکومت سندھ نے کارکردگی رپورٹ پیش کی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق ستمبر 2013 سے تاحال سترہ ہزار آپریشن میں اسی ہزار ملزمان گرفتار کئے، جن میں پندرہ سو سے زائد قتل کے ملزم اور ٹارگٹ کلرز شامل ہیں۔

    خیال رہے شہر قائد میں اسٹریٹ کرمنلز بے لگام ہیں ، سال کے پہلے مہینے میں پولیس اہل کار، حساس ادارے کے افسر سمیت 6 افراد کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کر دیا گیا۔

    فائرنگ کے دیگر واقعات سپر ہائی وے، کورنگی، لانڈھی، ریلوے کالونی، گلشن، ایوب گوٹھ، اورنگی ٹاؤن، صدر، منظور کالونی، لیاقت آباد اور نیو کراچی میں پیش آئے، جہاں اب تک 20 سے زائد شہری زخمی ہو چکے ۔

  • اسلام آباد تجاوزات کیس : سی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی

    اسلام آباد تجاوزات کیس : سی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی

    اسلام آباد : سی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں دو شاپنگ مالز سمیت13منصوبوں میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی، تجاوزات کیخلاف 139 آپریشنز کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی اس موقع پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نےاسلام آباد میں دو شاپنگ مالز سمیت13منصوبوں میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کی تحقیقات سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مونال ریسٹورنٹ، لا مونٹانا کو زمین الاٹمنٹ کی تحقیقات، ڈسپنسری کی زمین پر صفا گولڈ مال کے قیام کی بھی تحقیقات اور سنٹورس مال کے پلاٹ کے حوالے سے بھی تحقیقات جاری ہیں۔

    اس کے علاوہ من پسند افراد کو اسکول پلاٹس، جی 9میں سینما پلاٹ کی الاٹمنٹ کی تحقیقات، گن کلب، سید پور ولیج، لیک ویو پارک میں غیرقانونی الاٹمنٹس کی تحقیقات، ڈپلومیٹک شٹل سروس، کوورڈ مارکیٹ میں اضافی دکانوں کی تحقیقات بھی جاری ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق تجاوزات کیخلاف 139 آپریشنز میں 1293تعمیرات مسمار کی گئیں، غیرملکی سفارتخانوں کو وزارت خارجہ کے ذریعے تجاوزات ہٹانے کا کہا گیا، سفارت خانوں نے ازخود تجاوزات نہ ہٹائیں تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کو فنڈ حکومت نہیں سی ڈی اے دے رہا ہے، سی ڈی اے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو19 ارب روپے قرض دے چکا ہے۔

    سی ڈی اے قرض کی ادائیگی وفاقی کابینہ کے فیصلے کے تحت دے رہا ہے، لوکل گورنمنٹ کو قرض دینے سے سی ڈی اے مالی مشکلات کا شکار ہے۔

  • سپریم کورٹ نے غلط بیانی پر خیبرپختونخوا حکومت پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائدکردیا

    سپریم کورٹ نے غلط بیانی پر خیبرپختونخوا حکومت پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائدکردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےغلط بیانی پر خیبرپختونخوا حکومت پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا اور حکم دیا کہ جرمانے کی رقم ایدھی فاؤنڈیشن میں جمع کرائی جائے اور وزیراعلیٰ ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں محکمہ کمیونی کیشن اینڈورکس خیبر پختونخوامیں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عدالت میں پیش ہوئے۔

    ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ 2009 میں17لوگوں کوبھرتی کیاگیاتھا اور اسی سال ہی ان لوگوں کونوکری سےنکال دیاگیا، یہ لوگ پشاورہائیکورٹ چلےگئے،عدالت نےبحال کردیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاآپ نےاپنی درخواست دیکھی، خیبرپختونخواحکومت نےاپنی غلطی تسلیم کی ہے؟

    ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا جی بالکل غلطی ہوئی ہے، اے او آر سے غلطی ہوئی ، ہائی کورٹ اپیل کے2 پیراگراف درخواست پر دائر کردیے، یہ درخواست 2012 میں دائر ہوئی تھی، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیوں نہ پورے ایڈووکیٹ جنرل آفس کوہی معطل کردیا جائے، ایڈووکیٹ جنرل صاحب آج ہم آپ کا پورا دفترختم کردیں گے ، وزیراعلیٰ کو کہیں گے اے جی آفس میں نئے لا آفیسرز بھرتی کریں۔

    ،چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کوہم نوکری پرنہیں رہنےدیں گے، اتنی بڑی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے، آپ نےحکومتی محکموں کواپنی جاگیر سمجھا ہواہے، یہ تون وکریوں کامعاملہ ہےاربوں روپے کا ہوتا تو حکومت کیساتھ کیا ہونا تھا، درخواست 2012میں دائرہوئی،باہرسےایک لفظ بھی نہیں سن سکتے۔

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا جن لوگوں نےیہ درخواست دائرکی وہ افسران اب موجودنہیں، جن اے او آر کے ذریعےدرخواست دائر کی وہ بھی دنیا میں نہیں رہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ایڈووکیٹ جنرل آفس نےاس درخواست کونہیں پڑھا، کیا محکمہ کے سیکریٹری نے بھی اسے پڑھنا گوارہ نہیں کیا۔

    سپریم کورٹ نے کے پی حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے غلط بیانی پر خیبرپختونخوا حکومت پر5 لاکھ جرمانہ عائد کردیا، عدالت نے حکم دیا کہ جرمانے کی رقم ایدھی فاؤنڈیشن میں جمع کرائی جائے، وزیراعلیٰ ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

    سپریم کورٹ نے حکم میں مزید کہا اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے پی زاہد یوسف نےغلط بیانی کی، چیف جسٹس خیبرپختونخوا ان کےخلاف بھی کارروائی کریں اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا معاملے کو قانون کے مطابق دیکھیں۔

  • ورکرز ویلفیئر فنڈز، ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس

    ورکرز ویلفیئر فنڈز، ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ورکر ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہوجانا چاہیے اس کے علاوہ ورکرز ویلفیئر فنڈز اور ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہوسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ اسلام آباد میں ورکر ویلفیئر فنڈز کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے سندھ اور بلوچستان حکومت سے فنڈز کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔

    اس کے علاوہ سندھ حکومت سے ہائی کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئیں، سندھ حکومت بتائے کہ کتنے مقدمات ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں؟ اور کتنے فنڈز اکٹھے اور کتنے تقسیم کیے؟

    سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی مشینری کیوں کام نہیں کررہی ہے؟ یہ خوامخواہ ہم پر بوجھ پڑگیا ہے۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ورکر ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہوجانا چاہیے، پہلے ورکرز میں ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہورہا تھا، حکومت نے آج تک کوئی ورکر کالونی نہیں بنائی، آفیسر پیسے دبا کر بیٹھے ہیں، سیروتفریح ہورہی ہے، سمینار میں شرکت کررہے ہیں اپنا کام نہیں کررہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کے پی حکومت نے کالونی بنائی لیکن ملکیت کےحقوق دیدیئے، کس قانون کے تحت ملکیتی حقوق دیئے گئے، کالونی صرف ورکر کے لیے،سروس سے ریٹائرمنٹ پر چھوڑنی ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ افسران نے کام نہیں کرنا تو ہمارےمسئلے کا ایک ہی حل ہے، حکم جاری کردیتے ہیں کہ سب کمپنیاں سپریم کورٹ میں پیسے جمع کرائیں۔

    ہم خود ورکرزمیں فنڈز تقسیم کر دیں گے ہم پورے محکمے کو ہی ختم کر دیں گے، پھرافسران بیٹھے رہیں، کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ لیں اور کام بھی نہ کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ورکرز کو چیک کے اجرا میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے، چیک کے اجرا کے بعد ہی بچہ اسکول جاتا ہے، بچوں کی شادی ہوتی ہے،۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت نے ورکرز کے لیے کتنی ہاؤسنگ کالونیاں بنائیں، ہمیں تو کوئی کالونی نظر نہیں آتی، فنڈز سے ورکرز کے لیے ہاؤسنگ کالونیاں بنانی تھیں۔

    سارا پیسہ پھنس گیا، افسران پیسہ ریلیز ہی نہیں کررہے، کیا صوبوں میں تقسیم ہونے والے پیسے کا آڈٹ ہوتا ہے، یہ پیسہ بھی دوسری اسکیموں کی طرح تو نہیں تقسیم ہوتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد کیا وفاق ورکرز ویلفیئر فنڈ کا پیسہ اکٹھا کرسکتا ہے، کیا اس آئینی نقطے کا کبھی جائزہ لیا گیا۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ سندھ کے علاوہ تمام صوبوں کا پیسہ وفاق اکٹھا کرتا ہے، سی سی آئی میں طے ہوا سارا پیسہ وفاق اکٹھا کرے گا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہاں سوشل ویلفیئر کا نظام موجود ہی نہیں، ورکرز کی مدد کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈز ہی ہے، ورکرز ویلفیئرفنڈز، ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہو سکتا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت3ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

  • کرپشن کی رقم : سپریم کورٹ کی نیب کو نیا قانون لانے کے لیے3ماہ کی مہلت

    کرپشن کی رقم : سپریم کورٹ کی نیب کو نیا قانون لانے کے لیے3ماہ کی مہلت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کرپشن رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق نیا قانون لانے کے لیے نیب کو3ماہ کی مہلت دے دی، عدالت کا کہنا ہے کہ کیا حکومت چاہتی ہے کہ نیب کے قانون کو فارغ کردیں؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کرپشن رقم کی رضاکارانہ واپسی ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے نیا نیب قانون لانے کے لیے3ماہ کی مہلت دے یتے ہوئے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ حکام نیب قانون سے متعلق مسئلے کو جلد حل کرلیں گے، نیب قانون کے حوالے سے مناسب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا، ۔
    عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق فاروق ایچ نائیک قانون میں ترمیم کا بل پیش کرچکے ہیں اور سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کی کوشش کی جارہی ہے،3ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو قانون اور میرٹ کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ کیا25اے کے معاملے پر ترمیم ہوگئی ہے، کیا یہ معاملہ اب ختم ہوگیا ہے؟جسٹس اعجازالاحسن استفسار کیا کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن25اے ختم ہوا یا اس میں ترمیم ہوئی؟

    جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی میں میرا نیب آرڈیننس سے متعلق پرائیویٹ ممبر بل موجود ہے، سینیٹ کمیٹی سے منظوری کے بعد معاملہ ایوان میں جائے گا، بل کے مطابق نیب کے آرڈیننس 25 اے کو مکمل ختم کیا جارہا ہے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا رضاکارانہ رقم واپس کرنے والا اپنا جرم بھی تسلیم کرے؟ کیا رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے والے کو سزا یافتہ تصور کیا جائے؟ کیا نیب آرڈیننس کے سیکشن25اے سے بھی کوئی مستفید ہورہا ہے؟

    جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی ہدایت ہے کہ میں اپنا مؤقف عدالت میں پیش کروں، موجودہ اٹارنی جنرل کا مؤقف گزشتہ اٹارنی جنرل سے مختلف ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا قانون ہے کہ پہلے انکوائری ہوگی پھر تحقیقات،200گواہ بنیں گے، اس طرح تو ملزم کے خلاف زندگی بھر کیس ختم نہیں ہوگا، کرپشن کی رقم واپس کرنے والوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    انہوں نے کہا کہ لوگوں کا پیسہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نیب کو پہلے ہی پلی بارگین سے روک چکی ہے، پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں تک اختیار استعمال نہیں ہوگا، حکومت نیب قانون کے معاملے کو زیادہ طول نہ دے۔

    مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار، سپریم کورٹ میں بینچ تشکیل

    انہوں نے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم پارلیمنٹ کا کام ہے، سپریم کورٹ نے نیب دفعات کو غیر آئینی قرار دیا تو نیب فارغ ہوجائے گا، کیا حکومت چاہتی ہے کہ نیب کے قانون کو فارغ کردیں؟

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے نیب آرڈیننس لاکر نیب کے پر کاٹ دیے ہیں، محکمہ کسٹم میں6ماہ میں تو فیصلہ ہوجائے گا لیکن نیب میں عمر بھر نہیں ہوگا، نیب میں تو دس دس سال کیس پڑے رہتے ہیں۔

  • چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار : سپریم کورٹ میں بینچ تشکیل

    چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار : سپریم کورٹ میں بینچ تشکیل

    اسلام آباد : چیئرمین نیب کو رضا کارانہ رقم کی واپسی کے معاملے پر عدالتی بینچ تشکیل دے دیا، عدالت نے2015میں رضاکارانہ رقم واپسی کےقانون پر از خود نوٹس لیاتھا، سماعت 15جنوری کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیاراستعمال کرنے کی اجازت ملے گی یا نہیں، اس حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عدالتی بینچ تشکیل دے دیا۔

    چیف جسٹس کی سر براہی میں 3رکنی بینچ 15جنوری کوکیس کی سماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس سجاد علی شاہ بھی بینچ کاحصہ ہوں گے۔

    چیئرمین نیب کے رضاکارانہ رقم واپسی قانون پر ازخود نوٹس سماعت کے لیے مقرر کردیا، اس سلسلے میں رجسٹرار آفس نے نیب اور تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔

    رجسٹرار آفس نے رضاکارانہ رقم واپسی سے متعلق48کیسز کو یکجا کردیا، واضح رہے کہ عدالت نے سال2015 میں رضا کارانہ رقم واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

    سپریم کورٹ چیئرمین نیب کو تا حکم ثانی رضاکارانہ رقم واپسی کے اختیار سے روک چکی ہے، عدالت نے نوٹس رضاکارانہ رقم واپسی کے بعد کرپٹ افراد کی عہدوں پر بحالی پر لیا تھا۔