Tag: supreme court

  • عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں، سپریم کورٹ کا نیب کو حکم

    عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں، سپریم کورٹ کا نیب کو حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے زیر التوا کرپشن مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں غیر فعال احتساب عدالتوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں،عدالت عظمیٰ نے وفاقی سیکریٹری قانون کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اللہ دینو بھائیو نامی ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ زیر التوا کرپشن مقدمات کی تفصیلات اور غیر فعال احتساب عدالتوں کی تفصیلات عدالت کو فراہم کی جائیں، عدالت عظمیٰ نے وفاقی سیکریٹری قانون کو بھی طلب کرلیا۔

    کیس کی سماعت کے دوران اللہ دینو بھائیو نامی ملزم کے وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ میرا مؤکل کبھی عوامی عہدیدار نہیں رہا، اللہ دینو بھائیو پر ترقیاتی کاموں کی مدمیں22ملین روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔

    احتساب عدالت میں ٹرائل نیب کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ جسٹس منصورعلی نے کہا کہ ملزم 2018 سے جیل میں ہے، نیب کے مقدمات کیوں نہیں چل رہے ؟

    جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت میں ملزم پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ2018کے بعد سے ٹرائل میں کیا پیشرفت ہوئی؟ اور قانون کے مطابق نیب مقدمات کا 30 دن میں فیصلہ ہونا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ احتساب عدالتوں میں تو روزانہ سماعت ہونی چاہیے۔

    ملزم کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ملزم پر مبینہ کرپشن کا50فیصد بطور احتجاجاً جمع کرانے کو تیار ہے، عدالت ضمانت منظور کرے تو نصف رقم جمع کرا دیں گے، جس پر نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم کے پاس اتنی رقم ہے تو پلی بارگین کر لے۔

    عدالت نے ملزم کی پیشکش مسترد کرکے درخواست ضمانت خارج کر دی، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کی درخواست تو خارج ہوگئی مگر تفصیلات کا بہت لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

  • امل عمر کیس کا فیصلہ 3ماہ میں کیا جائے، عدالت عظمیٰ کی ٹرائل کورٹ کو ہدایت

    امل عمر کیس کا فیصلہ 3ماہ میں کیا جائے، عدالت عظمیٰ کی ٹرائل کورٹ کو ہدایت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 3ماہ میں امل عمر کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بچی کے والدین چاہیں تو سندھ حکومت کی رپورٹ پراعتراضات جمع کراسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کراچی میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے امل کی موت پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ امل کو جن دو پولیس اہلکاروں کی گولی لگی انہیں برطرف کردیا گیا ہے اور بچی کے والدین کو عدالتی حکم پر مالی امداد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، سندھ حکومت کی جانب سےامل کے والدین کو5لاکھ امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس کی فائرنگ سے امل جاں بحق ہوئی تھی وہ کیا امداد لیں گے؟ پیسہ یا امدادی رقم کسی کی بھی جان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

    امل والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ نجی اسپتال کی خلاف انکوائری مکمل ہوچکی ہے، انکوائری میں کہا گیا ہے کہ ادارے نے دستاویزات میں ٹمپرنگ کی اور امل کو زخمی حالت میں دوسرے اسپتال منتقلی میں غفلت برتی گئی، سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے نجی اسپتال کو5لاکھ جرمانہ کیا لیکن نجی اسپتال کے چیئرمین انکوائری رپورٹ نہیں مانتے۔

    چیف جسٹس نے سندھ حکومت کو اپنی رپورٹ امل کے والدین کو دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے رپورٹ باضابطہ طور پر جمع کیوں نہیں کرائی، انہوں نے کہا کہ امل کے والدین چاہیں تو رپورٹ پراعتراضات جمع کراسکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل سے دریافت کیا کہ امل پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے مقدمہ کی کیا پوزیشن ہے؟

    مزید پڑھیں : امل عمر کیس، نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری کا حکم

    جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مقدمہ کا ٹرائل کورٹ میں چالان جمع ہوچکا ہے، عدالت نے ٹرائل کورٹ کو تین ماہ میں امل عمر کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے پوچھا کہ پولیس امل کے والدین کو کیا امداد دے گی اس حوالے سے رپورٹ دی جائے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نجی اسپتال کو ہم نے حکم دیا تو اپیل کا حق نہیں رہے گا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

  • نیب ملازم کی ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ : چیف جسٹس نے وکیل کو ڈانٹ پلادی

    نیب ملازم کی ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ : چیف جسٹس نے وکیل کو ڈانٹ پلادی

    اسلام آباد : چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر کو مقدمے کی تیاری کرکے نہ آنے پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کیس کی مکمل تیاری کر کے آئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ملازم محمد شفیق کی ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ کیخلاف اپیل کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔

    اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عدالت کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر رہے، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے نیب پراسیکیوٹر عمران الحق کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب آپ یہاں کھڑے ہوکر کیا کررہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آپ نے مقدمے کی کوئی تیاری نہیں کی، آپ نے مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی، وقفے کے بعد کیس کی مکمل تیاری کر کے آئیں۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیا کہ قانون کے مطابق غیر حاضری پر کیا سزاہو سکتی،؟ ہمیں مقدمے کی مکمل ہسٹری بتائیں۔

    اپیل کی سماعت کے موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب پراسیکیوٹر سے کیا کہ کیا آپ مقدمے کی مکمل تحقیق کرکے نہیں آئے؟، آپ مقدمے سے متعلق عدالتی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

     جسٹس سجاد علی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق برطرف ملازم سات سال میں ایک ہزار 66 دن غیرحاضر رہا۔

    اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملازم کو غیر حاضری پر جبری ریٹائر کیا گیا، اس کی رخصت کو بغیر تنخواہ کے رخصت قرار دیا گیا، ملازم کو دو سزائیں نہیں دی گئیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت میں وقفہ ہوگیا۔

    سماعت کے دوران وقفے کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل منظور کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ محمد شفیق کو مس کنڈکٹ پر محکمے نے جبری ریٹائر کیا ہے، محکمے نے درخواست کو جبری ریٹائرمنٹ کے بعد منظور کیا، بظاہر محکمہ اس عمل کا مجاز ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ کسی نجی اسپتال کا نہیں بلکہ سرکاری اسپتال کا میڈیکل سرٹیفکیٹ محکمے کو دیا گیا۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک بار پھر کہا کہ نیب پراسیکیوٹر صاحب آپ کام پر دھیان دیں، نیب پراسیکیوٹر تیاری کے بغیر عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کیا نیب کیسز میں عدالت نے کام کرنا ہے یا نیب پراسیکیوشن نے؟ آج بھی مقدمے میں نیب کی کوئی متعلقہ عدالتی نظیر پیش نہیں کی گئی۔

  • چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں الوادعی عشائیہ

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں الوادعی عشائیہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ بار کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں الوادعی عشائیہ دیا گیا۔

    عشائیے میں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان نے شرکت کی، اس موقع پر پرویزمشرف کیس کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس نذیر اکبر بھی موجود تھے، تقریب میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ اور بار کے تمام ممبران وسینئر وکلا نے بھی شرکت کی۔

    اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کسی بھی عدالت کا فیصلہ اپیل کی صورت میں تبدیل ہوسکتا ہے جبکہ عدالتی فیصلہ ریفرنس کی صورت میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔

    واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ منصفِ اعلیٰ کے منصب پر347 دن فائزرہنے کے بعد کل 20دسمبر بروز جمعہ کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے1969میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشنز حاصل کیں اور اسی یونیورسٹی سے 1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، انہیں تین بار نیشنل ٹیلنٹ اسکالرشپ سے نوازا گیا۔

    کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی دو ڈگریاں حاصل کیں، تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979میں ملک واپس آئے اور لاہور ہائی کورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل کا درجہ ملا 1998میں لاہور ہائی کورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔

  • غیرت کے نام پر قتل: شواہد نہ ہوئے تو معاونت کرنے والوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے: سپریم کورٹ

    غیرت کے نام پر قتل: شواہد نہ ہوئے تو معاونت کرنے والوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے: سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کیا غیرت کے نام پر قتل کے الزام پر بغیر شواہد سزا دینا شروع کردیں؟ اگر اتنا کافی ہے تو معاونت کے الزام والے لوگوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی سعیدہ بی بی کے غیرت کے نام پر مبینہ قتل کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔

    درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ سعیدہ بی بی کے والد نے 2018 میں بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کروایا، والد پیر رحمٰن ہی اس کیس کے مدعی ہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے مقدمہ ساڑھے 5 ماہ بعد درج ہوا؟ کیا اس قتل کا کوئی گواہ نہیں؟

    مدعی کے وکیل نے کہا کہ کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. چیف جسٹس نے کہا کہ پیش رفت اس لیے نہیں ہوئی کہ کوئی گواہ نہیں۔

    وکیل مدعی نے کہا کہ یہ قتل غیرت کے نام پر کیا گیا ہے، ہائیکورٹ نے اپریل 2019 میں شریک ملزمان کی ضمانت منظور کی۔ سعیدہ بی بی کے شوہر کے بھائی ( دیور) نے اپنی بھابھی (مقتولہ) پر الزام عائد کیا تھا۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا خاتون (مقتولہ) وفات پاچکی ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ کچھ علم نہیں خاتون تاحال منظر سے غائب ہے۔ خاتون کے بھائی نے جرگہ کے سامنے تسلیم کیا کہ خاتون کو قتل کیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی برآمدگی ہوئی ہے جس پر وکیل نے کہا کہ کوئی برآمدگی نہیں ہوسکی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیا غیرت کے نام پر قتل کے الزام پر بغیر شواہد سزا دینا شروع کردیں؟ اگر اتنا کافی ہے تو معاونت کے الزام والے لوگوں کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست خارج کردی۔

  • بڑا سوال یہ ہے کہ سپریم کون ہے پارلیمان یا سپریم کورٹ؟  فواد چوہدری

    بڑا سوال یہ ہے کہ سپریم کون ہے پارلیمان یا سپریم کورٹ؟ فواد چوہدری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں سپریم کون ہے ؟ پارلیمان یا سپریم کورٹ؟ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو کوئی مخصوص قانون بنانے کا کہہ سکتی ہے تو پھر پارلیمان مقتدر اعلیٰ نہیں۔

    یہ بات انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وفاقی وزیر نے کہا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ ملک میں سپریم کون ہے پارلیمان یا سپریم کورٹ؟ کیاسپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مخصوص قانون بنانے کا کہہ سکتی ہے؟ اگر سپریم کورٹ کہہ سکتی ہے تو پھر پارلیمان مقتدر اعلیٰ نہیں ہے۔

    فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں کہا کہ یہ کہنا کہ روایات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں درست تشریح نہیں، ایگزیکٹو اختیارات کو پارلیمان کیسے استعمال کرسکتی ہے جبکہ یہ انتظامی ادارہ نہیں۔

    اپنے پیغام میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کیسے یہ حکم دے سکتی ہے کہ مدت کا تعین پارلیمان لازماً کرے ؟ فیصلے میں1956اور1962کے آئین پر سیرحاصل گفتگو نہیں ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی تقاریر کو نہیں دیکھا گیا جو کےآرٹیکل243کی تشریح کرتی ہیں، بہرحال سپریم کورٹ سپریم ہے حتمی فیصلے کا اختیار تو سپریم کورٹ کہے۔

  • سپریم کورٹ نے کیپٹل ویلیوٹیکس کی وصولی کو درست قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے کیپٹل ویلیوٹیکس کی وصولی کو درست قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی کیپٹل ویلیوٹیکس وصولی کو درست قرار دے دیا، چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے کہا ہے کہ کیپٹل ویلیو ٹیکس کی وصولی ہر کمپنی کی طرف سے جائیداد کی منتقلی پر وصول کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا سپریم کورٹ نے کیپٹل ویلیوٹیکس کی وصولی کودرست قرار دے دیا، کیپٹل ویلیوٹیکس کی وصولی کمپنی کی جانب سے ٹرانسفر پراپرٹی پر بھی ہوگا۔

    شبر زیدی کا کہنا تھا کہ کیپٹل ویلیو ٹیکس ہرطرح کےٹرانسفرزوصول کیاجاسکتاہے،یہ صرف رجسٹرار کے اختیار میں پراپرٹیز پر محدود نہیں ہوگا۔

    یاد رہے گذشتہ ہفتے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ریفنڈ کلیمز میں انسانی مداخلت مکمل ختم کردی، ریفنڈ کے معاملات میں کسی کو گڑبڑ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا، ریفنڈ کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، برآمدات کے ریفنڈ میں کسی کا ہاتھ نہیں رہا، خود کارنظام کے تحت ریفنڈ کے 25 ارب کے کلیمز5 ماہ میں آئے۔

    شبر زید ی کا کہنا تھا متعدد ریفنڈ کلیئرہوگئے ہیں جو خود کار طریقے سے ہوئے، مجموعی 1800 میں سے 1604 کلیمز کلیئر ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فارم ایچ کمپیوٹرسے فائل ہوتا ہے اور خود کار نظام سے آگے جاتا ہے۔

  • وفاقی اسپتالوں کی صوبوں کو متقلی غیر آئینی قرار، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

    وفاقی اسپتالوں کی صوبوں کو متقلی غیر آئینی قرار، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جناح اسپتال (جے پی ایم سی) اور این آئی سی وی ڈی کی صوبہ سندھ کو منتقلی غیر آئینی قرار دے دیا، شیخ زید اسپتال لاہور کی صوبائی حکومت کو منتقلی بھی آئین کیخلاف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی اسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کردیا، کیس میں 18ویں ترمیم کی آئینی حیثیت پر سوال نہیں اٹھایا گیا۔

    فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی توثیق کا فیصلہ سپریم کورٹ پہلے ہی کرچکی ہے، عدالت نے جناح اسپتال (جے پی ایم سی) اور این آئی سی وی ڈی کی سندھ کو منتقلی غیرآئینی قرار دیتے ہوئے این آئی سی ایچ اور این ایم پی کی صوبے کو منتقلی بھی غیر آئینی قرار دے دی۔

    فیصلہ کے مطابق سندھ اسمبلی کا منظور شدہ این آئی سی وی ڈی ایکٹ2014 غیر آئینی قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ شیخ زید اسپتال لاہور کی صوبائی حکومت کو منتقلی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شیخ زید اسپتال صوبے کو دینے کا فیصلہ وزیراعظم نے کیا تھا کابینہ نے نہیں۔

    فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ این آئی سی ایچ1990میں جے پی ایم سی سے الگ ہوکر وفاق کو منتقل ہوا، اٹھارہویں ترمیم عمل درآمد کمیشن نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا، جے پی ایم سی اور این آئی سی وی ڈی کا وفاقی ادارے ہونا پہلے سے تسلیم شدہ ہے۔

  • طاقت ور ملک کے صدر کو بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ گیا

    طاقت ور ملک کے صدر کو بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ گیا

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ میرے ٹیکس گوشوارے ظاہر ہونے سے روکے جائیں ، اٹارنی نے امریکی صدر سے 2011 سے اب تک کے ٹیکس گوشوارے طلب کیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس گوشوارے سرکاری وکیل کونہ دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائرکردی، صدرٹرمپ کے وکیل کا کہنا ہے کہ فیڈرل اپیل کورٹ نےایک اکاؤنٹنگ فرم کوٹیکس ریکارڈ مہیا کرنے کی اجازت دے کرسنگین قانونی غلطی کی ہے، صدرٹرمپ کومدت صدارت کے دوران کرمنل پروسیڈنگز اورتحقیقات سے استثنیٰ حاصل ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدرٹرمپ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے گزشتہ آٹھ سال کے ٹیکس گوشوارے مین ہیٹن کے سرکاری وکلاء کو دینے سے روکا جائے۔

    یاد رہے گزشتہ ہفتے مین ہیٹن کی عدالت نے صدرٹرمپ کیخلاف فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری وکلاء کو گرینڈ جیوری تحقیقات کے سلسلے میں صدر کے مالی ریکارڈ کی ضرورت پڑسکتی ہے جبکہ صدرٹرمپ اپنے مالی معاملات خفیہ رکھنے کے لئے ہر سطح پر کوشش کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں : امریکی صدر ٹرمپ کو عہدے سے برخاست کیا جائے یا نہیں؟ تحقیقاتی کارروائی کا آغاز

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اٹارنی نے2011 ءسے اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے ٹیکس گوشوارے طلب کیے ہیں، معاملہ قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ ہونے میں ایک ماہ لگ سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات سے متعلق کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے، صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی سے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے عہدے سے برخواست کیا جائے یا نہیں۔

    اس حوالے سے وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنی گریشم کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ یہ جعلی سماعت ناصرف بورنگ ہے، بلکہ یہ ٹیکس دینے والوں کے وقت اور ٹیکس کا ضیاع بھی ہے۔

  • چیف جسٹس نے بارودی مواد برآمدگی کے الزام میں قید ملزمان کی سزا ختم کردی

    چیف جسٹس نے بارودی مواد برآمدگی کے الزام میں قید ملزمان کی سزا ختم کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے بارودی مواد برآمدگی کے الزام میں قید ملزمان کو دی گئی 14 سال کی سزا ختم کر دی جبکہ دیگر دفعات میں ملزمان کی 10 سال کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے دہشت گردی کی دفعات ختم کررہےہیں لیکن ساری سزامعاف نہیں کرسکتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بارودی مواد برآمدگی کے الزام میں قید ملزمان کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، سماعت میں وکیل ملزمان نے کہا ملزمان پرکالعدم تنظیم سےتعلق کاجھوٹا الزام لگایاگیا، محمدیوسف کوتفتیش میں شامل ہی نہیں کیا گیا، ایک ملزم 63سال کا بوڑھا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے 63 سال کابوڑھاتونہیں ہوتا۔

    چیف جسٹس نے کہا جب ہم چھوٹےتھےتو40سال عمروالےکوبوڑھاسمجھتےتھےمگراب ایسا نہیں، صرف بارودی موادکی برآمدگی دہشت گردی نہیں، دیکھناہوگاکہ دھماکا خیز مواد کیوں رکھا گیا، جس پر وکیل ملزم کا کہنا تھا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم دھماکے کی پلاننگ کررہا تھا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا دہشت گردی کی تعریف سےمتعلق لارجربینچ فیصلہ دےچکاہے، بڑی مشکل سے دہشت گردی کی 20سال بعدہم نےتعریف کی، دہشت گردی کی دفعات ختم کررہےہیں لیکن ساری سزامعاف نہیں کرسکتے۔

    وکیل ملزم کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کوتھانےکےاختیارات دینےسےمسائل بڑھےہیں، سی ٹی ڈی کوصرف فورس کی حدتک رہناچاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سی ٹی ڈی کےاختیارات کامعاملہ انتظامی ہےعدالتی نہیں۔

    عدالت نے بارودی مواد برآمدگی کے الزام میں قید محمد یوسف اورمحمدیونس کودی گئی 14 سال سزاختم کر دی جبکہ دیگر دفعات میں ملزمان کی 10 سال سزا  کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو 10 سال اور 14 سال قید کی سزائیں سنائی تھیں اور لاہورہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، محمد یوسف اور محمد یونس سے 2016میں لاہورمیں بارودی موادبرآمدہواتھا۔