Tag: supreme court

  • راستے بند کرنا غیر قانونی، سپریم کورٹ کا سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم

    راستے بند کرنا غیر قانونی، سپریم کورٹ کا سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے، انھوں نے حکم دیا کہ رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے بھی تجاوزات ہٹائی جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق کے سی آر منصوبے کے متاثرین کی درخواست پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی، عدالت نے حکم دیا وفاقی، صوبائی، مقامی حکومتیں اور ادارے اپنے قبضے تین دن میں ختم کریں، تین دن بعد تمام انکروچمنٹ متعلقہ ادارے مسمار کر دیں، اور اس کا خرچ بھی مجاز افسر کی جیب سے لیا جائے، کوئی یونیفارم پرسن قانون سے مبرا نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکار جہاں انکروچمنٹ کرتی ہے، وہاں زیادہ سزا ہونی چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل سے مخاطب ہو کر کہا آپ دیکھتے نہیں؟ گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس و دیگر ادارے سب نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سیکیورٹی ایشوز ہیں، بم حملے ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تو چلے جائیں کہیں اور، خالی کر دیں یہ جگہ، کہیں محفوظ جگہ چلے جائیں، عوام پر تو حملے ہوں اور آپ محفوظ رہیں؟ یہ کہاں کا قانون ہے؟ اگر زیادہ ڈر لگتا ہے تو مضافاتی علاقے میں جا کر بیٹھ جائیں، لیکن سیکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہ کریں، جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہیں، میئر بھی آئے تھے، کہاں ہیں؟

    چیف جسٹس نے کہا بتائیں جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا گیا؟ کے ایم سی سے مخاطب ہو کر کہا آپ کیوں نہیں ہٹاتے رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے تجاوزات؟ ہٹائیں یہ سب، چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیے یہ بھی ہٹائیں، بعد میں معاوضہ دیجیے گا۔۔ انھوں نے کہا گورنر ہاؤس کے اندر رکھ دیں کنٹینرز باہر کیوں رکھتے ہیں؟ عوام کو پریشان کرتے ہیں، اگر سپریم کورٹ کے سامنے انکروچمنٹ ہے تو وہ بھی توڑ دیں، وفاقی و صوبائی حکومت قانون سے بالا تر نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کر رہی ہے، 3 دن میں تمام تجاوزات ختم کر کے رپورٹ پیش کی جائے، کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے، راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیر قانونی ہے۔

  • بھٹو کی پھانسی: سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے دی

    بھٹو کی پھانسی: سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی، عدالت نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے قرار دیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، اور ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

    سپریم کورٹ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کی تھی، آج بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے سناتے ہوئے کہا تاریخ میں کچھ ایسے کیسز ہیں جو خوف یا فیور کے نتیجے میں متاثر ہوئے، جب تک غلطیوں کو تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کر سکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ اپنی رائے سے آگاہ کر رہی ہے، اس صدارتی ریفرنس میں پانچ سوال اٹھائے گئے، یہ سوال کیا گیا کہ کیا فیئر ٹرائل ہوا تھا یا نہیں؟ بینچ کی رائے ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا، بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

    رائے میں کہا گیا کہ ججز قانون کے مطابق ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، ہم ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا اور سزا آئین کے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، لیکن ریفرنس میں پوچھا گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، کیوں کہ ذوالفقار بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

    عدالت نے کہا چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اس لیے فیصلہ اسلامی اصولوں کے مطابق تھا یا نہیں اس پر رائے نہیں دے سکتے، عدالت نے کہا ہم اس ریفرنس میں مقدمے کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، کیس حتمی ہو چکا، ایڈوائزری اختیار میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے، اس رائے کی وجوہ بعد میں جاری کی جائیں گی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی، بلاول بھٹو، فاروق ایچ نائیک، میاں رضا ربانی بھی روسٹرم پر موجود تھے، تحریری رائے میں کہا گیا کہ ججز قانون کے مطابق بلا خوف و خطر لوگوں کو انصاف دینے کے پابند ہیں، چند مقدمات سے عوام میں تاثر گیا کہ خوف یا رعایت انصاف فراہمی پر اثر انداز ہوئی ہے، ماضی کے غلط اقدامات کو خود احتسابی کے تحت کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے، اور ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کیے بغیر درست سمت کا تعین نہیں کر سکتے۔

    عدالت نے یہ بھی کہا کہ نگراں حکومت کا ریفرنس واپس نہ لینا عوامی اہمیت کا معاملہ ہونا طے کرتا ہے، کسی حکومت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھیجا ریفرنس واپس نہیں لیا۔

  • سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دے دیا

    سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر  نقوی نے استعفیٰ دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر  نقوی نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا، میرے لئے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر سماعت ہے، جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات تھے، اس کے علاوہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔

  • حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد: حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خاتون جب بھی تقاضا کرے شوہر حق مہر کی ادائیگی کا پابند ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حق مہر کے حوالے سے فیصلہ تحریر کیا جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔

    حق مہر سے متعلق عدالت نے کہا کہ حق مہر شرعی تقاضا ہے جس کا تحفظ ملکی قوانین میں بھی موجود ہے، حق مہر  ادائیگی کا وقت نکاح نامہ میں مقرر نہ ہو تو بیوی کسی بھی وقت اپنے شوہر سے تقاضا کرسکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں بیوی کو حق مہر کے حصول کیلئے مقدمہ دائر کرنا پڑا جو 6 سال بعد سپریم کورٹ پہنچا، عدالتوں نے غیر ضروری اپیلیں دائر کرنے پر شوہر کو جرمانہ عائد نہیں کیا، غیر ضروری اپیلوں پر جرمانہ کیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، غیرضروری اپیلیں دائر کرنے سے عدالتی نظام مفلوج ہوتا جارہا ہے۔

    سپریم کورٹ نے بیوی کو حق مہر میں تاخیر پر خاوند پر 1 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا اور خالد پرویز کی اہلیہ ثمینہ کو حق مہر کی ادائیگی کے حکم کیخلاف اپیل خارج کر دی۔

    سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ بلاوجہ کی مقدمہ بازی ختم کرنے کیلئے عدالتوں کو جرمانہ کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

  • عمران خان نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

    عمران خان نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عمران خان نے ایڈووکیٹ حامد خان کی وساطت سے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خلاف آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔

    عمران خان نے درخواست میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور اعظم خان سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 245 کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دے۔

    سابق وزیر اعظم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دے، اور ایم پی او کے تحت کارکنان کی گرفتاریاں غیر آئینی قرار دے کر انھیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

    درخواست کے ذریعے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی بھی چیلنج کر دی گئی ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلینز کا کورٹ مارشل غیر قانونی قرار دے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے، عدالت تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے، یہ سارا ڈراما نواز شریف اور مریم نواز کا رچایا گیا ہے، انھوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ عمران خان آپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، جب کہ عمران خان نے ہمیشہ اداروں کا احترام کیا اور ساتھ کھڑے رہے۔

    درخواست میں وفاقی حکومت، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

  • سپریم کورٹ کا مولانا ہدایت الرحمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا مولانا ہدایت الرحمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مولانا ہدایت الرحمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے، تین لاکھ کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور ہوئی۔

    جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، وکیل کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری کو چیلنج کیوں نہیں کیا گیا؟

    جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا ہدایت الرحمان پر پولیس اہل کار کے قتل پر اکسانے اور اعانت کا الزام ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ہدایت الرحمان پر اکسانے کا الزام ہے، اُن کی تحریک پانی کی فراہمی سے متعلق ہے۔

    واضح رہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کو قتل کے الزام میں 13 جنوری 2023 کو گوادر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

  • کیا کل پنجاب میں عام انتخابات ہوں گے؟

    کیا کل پنجاب میں عام انتخابات ہوں گے؟

    سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو عام انتخابات کرانے کا فیصلہ سنادیا تو ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالتی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد ہوسکے گا؟

    سپریم کورٹ کا14مئی کو پنجاب بھر میں انتخابات کرانے کا حکم تاحال برقرار ہے، کیا کل الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پرعمل درآمد کروائے گا؟ کیا کل پنجاب میں پولنگ ہوگی؟

    عدالت عظمیٰ نے 4 اپریل کو الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔

    واضح عدالتی احکامات کے باوجود حکومت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے فنڈز دیئے اور نہ ہی پنجاب میں انتخابات کیلئے سیکیورٹی فراہمی کیلئے کسی قسم کے اقدامات کیے گئے۔

    اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے اب تک ووٹرز لسٹیں جاری کیں اور نہ ہی بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہوسکی، تاہم الیکشن کمیشن پولنگ اسٹاف کی ٹریننگ کا مرحلہ مکمل کرچکا ہے۔

    چیف جسٹس قراردے چکے90دن کی آئینی حد سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، چیف جسٹس اپنے ریمارکس میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں عدالت کو اپنے فیصلے پرعمل درآمد کروانا ہے، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کو 15 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

     

  • سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کے براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کے براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیئرمین پیمرا کے براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے چیئرمین پیمرا کی لائسنس معطلی کے اختیار کے خلاف پی بی اے کے حق میں فیصلہ کر دیا۔

    سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ چیئرمین پیمرا کے پاس کسی براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار قانونی طور پر درست نہیں، اس لیے چیئرمین پیمرا کے براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کا اختیار کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے کہا پیمرا آرڈیننس سیکشن 13 واضح ہے کہ چیئرمین یا کوئی ایک شخص لائسنس معطل نہیں کر سکتا، براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطل کرنے کے لیے شرائط موجود ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ پیمرا میں براڈ کاسٹ میڈیا لائسنس معطلی کا اختیار کس کے پاس ہے؟ یہ واضح نہیں ہے، رولز بننے سے قبل یہ واضح نہیں کہ لائسنس معطل کون کرے گا۔

    تحریری فیصلے کے مطابق پیمرا نے 156 ویں اجلاس میں لائسنس معطلی سمیت اختیارات چیئرمین پیمرا کو تفویض کیے، پی بی اے نے چیئرمین پیمرا کو لائسنس معطل کرنے کا اختیار تفویض کیا جانا چیلنج کیا، پیمرا وکیل چیئرمین پیمرا کو اختیارات تفویض کرنے کی خاطر خواہ وجوہات پیش نہ کر سکے۔

    واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے پیمرا کو لائسنس معطلی کے رولز فریم کرنے کا حکم دے رکھا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ 3 رکنی بینچ نے جاری کیا، 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا۔

  • گونگے بہروں کے حقوق کیلئے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    گونگے بہروں کے حقوق کیلئے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنا دیا۔

    سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے گونگے بہروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے 6صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گونگے بہروں کی کسی بھی قسم کی ٹرانزیکشن ان کے قریبی عزیز کی موجودگی میں ہوگی، گونگے بہرے افراد اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ نارمل افراد کی طرح نہیں کرسکتے۔

    جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم افراد منفرد ہوتے ہیں، ایسے افراد کو ذہنی طور پر معذور نہیں کہا جاسکتا، گونگے بہرے افراد اشاروں کی زبان سمجھتے اور بولتے ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد سے متعلق کوئی ٹرانزیکشن قریبی عزیز یا دوست کی موجودگی میں ہو، متعلقہ اتھارٹیز ان اصولوں پر عمل یقینی بنائے کہ قریبی عزیز کا اس ٹرانزیکشن میں مفاد کا ٹکراو نہ ہوں۔

    واضح رہے کہ قوت سماعت گویائی سے محروم فتح محمد نامی شخص نے سال 2003 میں 20 لاکھ روپے کے عوض زمین فروخت کی تھی، فتح محمد کے قریبی عزیزوں نے زمین کی فروخت کیخلاف دعویٰ کیا تھا۔

    ٹرائل کورٹ کے سول جج نے زمین کی فروخت کو فراڈ قرار دیا تھا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بحال کردیا۔

  • ججز کسی بلیک میلنگ میں نہ آئیں عوام ان کے پیچھے کھڑے ہیں، فواد چوہدری

    ججز کسی بلیک میلنگ میں نہ آئیں عوام ان کے پیچھے کھڑے ہیں، فواد چوہدری

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ججز کسی کی بلیک میلنگ میں آئے بغیر آزادانہ فیصلے کریں، اس پر عمل کرانا عوام کا کام ہے، پورا پاکستان سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑا ہے۔

    اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ امریکا کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر ہم فیصلہ دیں اس پر عمل کرانا عوام کا کام ہے، آئین کو بچانے کی ذمہ داری صرف سپریم کورٹ نہیں عوام کا بھی فرض ہے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر آئین بھی نہیں رہتا پھر عوام سے بھری ہوئی سڑکیں اور گلیاں فیصلہ کرتی ہیں، لوگ نہیں نکلتے تو کسی حقوق پر بات کرنے کا حق نہیں، ہم نےاس تحریک کوایک سال سے لیڈ کیا ہے آگے بھی کرینگے۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی داخلی سیاست مذاکرات کو نقصان پہنچا رہی ہے، مریم نواز گروپ کے خواجہ آصف، احسن اقبال اور جاوید لطیف اور دیگر اسحاق ڈار، سعد رفیق اور اعظم تارڑ کو غلط مشورے دے رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ موجودہ آئین کے ہوتے ہوئے پنجاب کے انتخابات چودہ مئی سے آگے نہیں جا سکتے، اگر آپ آگے جاتے ہیں تو اس کے لیے آئینی ترمیم چاہیے اور چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر آپ اس سے آگے جانا چاہتے ہیں تو پھر مذاکرات کرکے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی کیونکہ موجودہ آئین میں آپ مقررہ تاریخ سے آگے نہیں جا سکتے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور مریم نواز ان ججز کو اس لیے نشانہ بنا رہی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والی چیف جسٹس اور دو ججز پر مشتمل بینچ ٹوٹ جائے اور وہ اپنا فیصلہ نہ دیں۔

    مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل مریم نواز نے معزز عدلیہ کو نشانہ بنایا، سپریم کورٹ کے8ججز ن لیگ کے نشانے پر ہیں، یہ تمام مہم صرف ایک مقصد کے تحت ہورہی ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں موجودہ تین رکنی بینچ تحلیل ہو، پاکستان میں96بارایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے حق میں قرارداد پاس کرچکی ہیں۔

    فوادچوہدری نے کہا کہ مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ ان کے پاس اور بھی ویڈیوز ہیں، یہ وہ طوطا ہے جس میں شریف، زرداری فیملی کی جان پھنسی ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے گا تو ان کے 11 سو ارب روپے کے مقدمات پھر سے بحال ہو جائیں گے اس لیے ان ججز پر توجہ دی جا رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رفیق تارڑ،ملک قیوم کے زمانے سےبینچ بنوانا ن لیگ کا پرانا وتیرہ ہے، ایون فیلڈ اور اپارٹمنٹ ہی پاناما کے ثبوت ہیں،اس وقت عدل کے ادارے سے مافیاز سے مقابلہ ہے، یہ تو سپریم کورٹ کو بم مارنا چاہتے ہیں، حکومتی پے رول پر وکلاء کی کوئی حیثیت نہیں۔

    تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ مریم نواز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں حالانکہ بشریٰ بی بی کبھی کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنی سوائے اس کے کہ وہ غریبوں اور پناہ گاہوں کا دورہ کرتی ہیں، اس لیے بشریٰ بی بی کی طرف مریم کو قانونی نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ہم ان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے جا رہے ہیں۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کبھی کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنی سوائے اس کے کہ وہ غریبوں اور پناہ گاہوں کا دورہ کرتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور اور حسان نیازی کی ضمانت ہوچکی ہے، اس کےباوجود رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جارہا، سازش کے تحت عدالتی نظام کو ختم کیا جارہا ہے، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات کے پابند ہیں، عدالت صرف فیصلےنہ کرے، اپنے فیصلوں پرعملدرآمد بھی کروائے۔