Tag: supreme court

  • نئی گج ڈیم تعمیر کیس ، سندھ حکومت نےجواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

    نئی گج ڈیم تعمیر کیس ، سندھ حکومت نےجواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

    کراچی : سندھ حکومت نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا، جس پر عدالت نے سندھ حکومت کے جواب کا جائزہ لیں گے ، آئندہ سماعت پر تمام فریقین پیش ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، چیف سیکرٹری سندھ ، سیکرٹری خزانہ اور آبپاشی عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت سندھ حکومت نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے نئی گاج ڈیم کہ تعمیر پر کبھی اعتراض نہیں کیاسندھ حکومت نے کبھی نہیں چاہا ڈیم کی تعمیر میں تاخیر ہو۔

    ان کا کہنا تھا نئی گج ڈیم کی مکمل فنڈنگ وفاقی حکومت نے کرنی ہے، سندھ حکومت نے ڈیم کے لیے زمین کا حصول،سیٹلمنٹ اور سیکورٹی کے معاملات کو دیکھنا ہے، سندھ حکومت پہلے سال کےلیے اپنے ذمہ 188 ملین دینے کو تیار ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی وفاقی حکومت کو پی سی ون، پی سی ون نظر ثانی کے مطابق ڈیم کی تعمیر پر اقدامات کا حکم دیا جائے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا ڈیم کی ٹوٹل 47 ارب لاگت سے سندھ حکومت نے 1899 ملین دینے ہیں، سندھ حکومت نے 1899 ملین روپے کا انتظام کر لیا ہے، ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرانا حقائق کے منافی ہے، گومل زیم ڈیم اور میرانی ڈیم سمیت دیگر مثالیں موجود ہیں جن کی تعمیر وفاقی حکومت نے کی۔

    عدالت نے کہاکہ سندھ حکومت کے جواب کا جائزہ لیں گے اور آئندہ سماعت پر تینوں افسران کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے رویے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سندھ کو طلب کر لیا تھا۔

    مزید پڑھیں : نئی گج ڈیم تعمیر کیس ، سپریم کورٹ سندھ حکومت پربرہم

    جسٹس عظمت سعید کا ریمارکس میں کہنا تھا چیف سیکرٹری بیان دیدیں کہ دادوکی زمین سیراب کرنےکی ضرورت نہیں، سندھ حکومت کہہ دے دادو کے عوام کو پانی ضرورت نہیں، سندھ والوں کو پانی نہیں چاہیے تو انکی مرضی، چیف سیکرٹری کے بیان کے بعد احکامات پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا ہر گزرتے دن کیساتھ ڈیم کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، سندھ حکومت پھر کہے گی پانی نہیں ملتا تو کوکا کولا پی لیں۔

    یاد رہے مارچ میں سپریم کورٹ نے نئی گج ڈیم کی فوری تعمیر کاحکم دیا تھا، جسٹس گلزار نے وفاقی اور سندھ حکومتوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا تیس سال سے نئی گج ڈیم کامعاملہ چل رہاہے، ہر سال پیسہ مختص ہوتاہے، جوضائع کردیا جاتا ہے ، سندھ حکومت کوآخرمسئلہ کیاہے۔

    خیال رہے ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا نئے گج ڈیم کا منصوبہ وفاقی حکومت کا ہے، اصل لاگت 9 ارب روپے تھی، پروجیکٹ کی نظر ثانی شدہ لاگت 16.9 ارب روپے تھی جبکہ دوبارہ نظر ثانی شدہ لاگت 47.7 ارب ہوگئی ہے۔

  • ماحولیاتی آلودگی کیس: سپریم کورٹ نے سیکرٹری ماحولیات کو طلب کرلیا

    ماحولیاتی آلودگی کیس: سپریم کورٹ نے سیکرٹری ماحولیات کو طلب کرلیا

    اسلام آباد: ماحولیاتی آلودگی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی انتہائی اہم مسئلہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی آلودی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پربرہمی کا اظہار کیا۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں ماحولیاتی کمیشن سے تعاون نہیں کر رہیں، جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی انتہائی اہم مسئلہ ہے۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے زہر پھیل رہا ہے، زہریلا پانی ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت سو رہی ہے ؟، عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں ہو رہی۔ سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری ماحولیات کو طلب کرلیا۔

    یاد رہے کہ 14 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ یونٹس نے ابھی تک آلودگی روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ رپورٹ دیں، ہمیں مفصل اورجامع رپورٹ دی جائے تاکہ صورتحال واضح ہوسکے۔

  • سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکس بحال کردیے

    سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکس بحال کردیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل فون کارڈ پرتمام ٹیکسزبحال کر دیے.

    تفصیلات کے مطابق اب 100 روپے کے کارڈ پر100 روپے کا بیلنس نہیں ملے گا، موبائل فون کارڈ پرتمام ٹیکسز بحال ہوگئے، عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے 12جون کوجاری حکم امتناع واپس لے لیا.

     سماعت کےدوران ریمارکس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ قانون میں لکھاہے کہ ٹیکس وہی دے گا، جس پر لاگو ہو، قانون کےمطابق ٹیکس دینے یا نہ دینےکافیصلہ عوام پر چھوڑا گیا ہے، ایسا لگتا ہےکہ قانون کےذریعےہم جھوٹ بولنےکی ترغیب دے رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ 3 مئی کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے موبائل کارڈ کے ریچارج پر رقم کی کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام موبائل کمپنیوں کو نوٹس جاری کئے تھے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ 100روپے کے کارڈ یا بیلنس پر 40 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں، اتنا زیادہ ٹیکس کس قانون کے تحت اورکس مد میں لیا جاتا ہے؟

    خیال رہے کہ پاکستان میں موجود موبائل فون کمپنیاں 100 روپے کے ری چارج پر 40 روپے کی کٹوتی کرتی تھیں جس میں سروس چارجز اور ٹیکس کی رقم شامل تھے، صارفین کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ کمپنیوں کی جانب سے کٹوتی پر جواب طلب کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: موبائل فون صارفین کو سو روپے کے کارڈ پر سو روپے کا بیلنس ملتا رہے گا

    یاد رہے چیف جسٹس آف پاکستان نے 11 جون کو موبائل فون کارڈز پر وصول کئے جانے والے ٹیکسز معطل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کمپنیوں کو دو روز کی مہلت دی تھی۔ اس سے قبل سماعت میں سپریم کورٹ نے موبائل کارڈ ز پر کئی قسم کے ٹیکس پیسہ ہتھیانے کا غیر قانونی طریقہ قرار دیا تھا۔

    چیف جسٹس کے حکم کے بعدموبائل کمپنیوں نے 100 روپے کے کارڈ پر 100 روپے کا بیلنس دینے کا اعلان کرتے ہوئے متعلقہ محکمے کو کمپنیوں کے ساتھ مل کر فریم ورک تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے 20 مئی کی ڈیڈ لائن دے دی

    سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے 20 مئی کی ڈیڈ لائن دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے بیس مئی کی ڈیڈ لائن دے دی، عدالت نے تین تعمیراتی کمپنیوں سےایک ایک کروڑ کی گارنٹی طلب کرتے ہوئےکہامقررہ وقت میں کام مکمل نہ ہواتوگارنٹی ضبط کرلی جائے گی، جسٹس گلزار نے وارننگ دی کہ کنٹریکٹر کام  نہیں کرتے  تو انہیں جیل میں ڈالوادیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ کیس کی سماعت کی ، سپریم کورٹ نے 3 تعمیراتی کمپنیوں سے ایک ایک کروڑ کی گارنٹی طلب کرتے ہوئے کہا 20 مئی تک کام مکمل نہ ہوا تو گارنٹی ضبط کر لی جائے گی۔

    عدالت کا جسٹس ریٹائرڈ جمشید اور جسٹس عبد الستار اصغر میں سے کسی ایک کو ٹیکنیکل کمیٹی کا سربراہ بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے موجودہ سربراہ جسٹس زاہد حسین کام جاری رکھنا چاہتے ہیں تو پنجاب حکومت اس پر بھی غور کرے۔

    عدالت نے پراجیکٹ ڈائریکٹر فضل حلیم پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا پراجیکٹ ڈائریکٹر کی وجہ سے کام تاخیر کا شکار ہوا ہے، جسٹس گلزار احمد کنٹریکٹر کام نہیں کرتے تو انہیں اٹھا کر پھینک دیں جیل میں ڈال دیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا پراجیکٹ ڈائریکٹر تعمیراتی کمپنیوں سے بلیک میل ہورہے ہیں، تینوں تعمیراتی کمپنیاں ایک ارب کی گارنٹی دیں، مقررہ تاریخ تک کام مکمل نہ ہونے پر گارنٹی ضبط ہوگی۔

    مزید پڑھیں : اورنج لائن ٹرین: سپریم کورٹ نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ، سیکریٹری فنانس کو طلب کرلیا

    جسٹس گلزار نے اورنج ٹرین منصوبے کی رفتار پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ کچھ کر نہیں رہے،ڈیڈ لائن پرڈیڈ لائن مانگ رہےہیں، آپ نےپہلے بھی گارنٹی دی اور بیان حلفی پورا نہیں ہوا، تو نعیم بخاری کا کہنا تھا اگر اب ڈیڈلائن مکمل نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں، جس پر جسٹس گلزار نے کہا منصوبے کےحوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہوں۔

    وکیل تعمیراتی کمپنی نعیم بخاری نے کہا ایک ارب کی گارنٹی نہیں دے سکتے، آپ میرے موکل کو جیل بھیج دیں، دو ارب کی گارنٹی پہلے دے چکے ہیں، ڈیڑھ ارب روپے کے واجبات باقی ہیں، میٹرو ٹرین پر خطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا یہ قومی مفاد کا منصوبہ ہے، جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا منصوبے پر تعمیراتی کام کی کوالٹی چیک کرنے کا کوئی میکنزم ہے یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ پراجیکٹ دھڑام سے نیچے آگرے، جس پر پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا ہمارے کنسلٹنٹ تعمیراتی کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    بعدازاں جسٹس گلزار احمد اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تکمیل کے لئے بیس مئی کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ، سیکریٹری فنانس اور چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا سزائے موت کے دو قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا سزائے موت کے دو قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے شک کا فائدہ دے کر سزائے موت کے دو قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا، ملزمان نے سزائے موت کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دو ملزمان کی سزائے موت کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

    وکیل اپیل کنندگان نے کہاکہ پہلے مرحلے میں ملزمان کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں کیا گیا،ایف آئی آر نامعلوم افراد کے نام پر درج کی گئی،بعد میں سزا یافتہ ملزمان محمد اویس اور شبیر احمد کو شامل تفتیش کیا گیا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے شک کا فائدہ دے کر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دےدیا۔

    یاد رہے کہ ملزمان پر الزام تھا کہ 23 اکتوبر 2005 کو دو بھائیوں نعیم اور ندیم کا قتل کیا،پولیس نے ملزمان کو 23 نومبر 2005 کو گرفتار کیاایڈیشنل سیشن جج ساﺅتھ کراچی نے ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی اور ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا۔

    مزید پڑھیں :  چیف جسٹس نے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم کو بری کردیا

    بعد ازاں ملزمان محمد اویس اور شبیر احمد نے سزائے موت کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ کے آغاز میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے  شک کا فائد ہ دیتے ہوئے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم صوفی بابا کو بری کردیا تھا ،  ملزم بہرام عرف صوفی بابا پر خودکش بمبار تیار کرنے کا الزام تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا خود کش حملہ کرنے والا بچہ درحقیقت خود نشانہ بنتا ہے ، ملزم کے بیان کے مدنظر پولیس نے کوئی ثبوت نہیں دیا، ملزم خود کش حملےکے موقع پر موجود نہیں تھا، ملزم کے خلاف پراسیکوشن نے کوئی ثبوت نہیں دیے۔

  • سپریم کورٹ، دہشت گردی کی تعریف سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ

    سپریم کورٹ، دہشت گردی کی تعریف سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے دہشت گردی کی تعریف سےمتعلق کیس کافیصلہ محفوظ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں7رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

    اس موقع پر چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ انسداددہشت گردی قانون میں ابہام ہے، انسداد دہشت گردی قانون کی وسیع تشریح کرنی پڑے گی۔

    انھوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت عدم تحفظ پھیلانا دہشت گردی ہے، ہر جرم سےعدم تحفظ پھیلتا ہے، اگر کسی محلےمیں چوری ہوتو پورا محلہ عدم تحفظ کاشکارہوتا ہے، جرم عدم تحفظ کی نیت سے کیا جائےتو یہ دہشت گردی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ ابھی تک دہشت گردی کی تعریف نہیں کر سکا، انشاءاللہ ہم دہشت گردی کی تعریف کریں گے۔

    چیف جسٹس نے “دہشت گردی کی تعریف” کے تعین کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے دیا

    انھوں نے مزید کہا کہ ہرسنگین جرم دہشت گردی نہیں ہے، انسداد دہشت گردی عدالتوں میں تو عام مقدمات کا بھی ٹرائل ہورہا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے سنگین مقدمات میں میڈیا کے غیر ذمے دارانہ رویہ کا بھی ذکر کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ طاقت کےذریعے اپنے خیالات دوسروں پرتھوپنا بھی دہشت گردی ہے۔

    اس موقع پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جرم کے نتائج سےنیت کونہیں جانچا جا سکتا۔

  • نیب کسی بھی ملزم کوپیشگی اطلاع کےبغیرگرفتارکر سکتاہے ،  سپریم کورٹ

    نیب کسی بھی ملزم کوپیشگی اطلاع کےبغیرگرفتارکر سکتاہے ، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب کےگرفتاری کے اختیار پر تحریری فیصلے میں کہا نیب کسی بھی ملزم کوپیشگی اطلاع کےبغیرگرفتارکر سکتاہے ، نیب کو یہ اختیار نیب آرڈیننس 1999 دیتا ہے، ہم نیب سےاختیارات کےغلط استعمال کی امید نہیں رکھتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب کےگرفتاری کے اختیار کی تشریح کر دی، جس میں کہا گیا نیب کسی بھی ملزم کو پیشگی اطلاع کے بغیرگرفتار کر سکتاہے، اگرنیب کے پاس ٹھوس شواہد ہوں توگرفتاری کامکمل اختیا رہے، ایسی گرفتاری کے لئے پیشگی اطلاع شرط نہیں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے تحریری فیصلہ صادر کیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے ہم نیب سےاختیارات کےغلط استعمال کی امیدنہیں رکھتے، نیب کو یہ اختیار نیب آرڈیننس1999دیتاہے، نیب آرڈیننس کے تحت اس کے اختیار کو محدود نہیں کیاجاسکتا۔

    مزید پڑھیں : نیب اب فَیس کو نہیں کیس کو دیکھتا ہے: چیئرمین نیب

    یاد رہے چیئرمین نیب نے واضح کیا تھا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اب اس بات کو نہیں دیکھا جائے گا کہ کون کتنا اہم ہے اور کتنے بڑے عہدے پر فائز ہے، کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر فرائض انجام دیے جا رہے ہیں، سب نے مل کر نیب کو ملک کا معتبر ادارہ بنا دیا ہے۔

    اس سے قبل چیئرمین نیب نےقوانین میں متوقع تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے 90 دن کےبجائے15دن کے ر یمانڈ کی تجویز پر تنقید کی تھی، انھوں نے کہا کہ یہ کوئی چوری یاڈکیتی کاکیس نہیں، جو 15دن میں حل کر لیاجائے۔

    جاوید اقبال کا کہنا تھا یہ وائٹ کالرکرائم ہے، جسے ڈھونڈنا اتناآسان نہیں، اگر وائٹ کالر کرائم لاہور سےشروع ہو، تو خلیجی ریاستیں اورپھر امریکامیں پلازےخریدلیے جاتے ہیں، وہ رقم منی لانڈرنگ سے وہاں پہنچائی جاتی ہے۔

    چیرمین نیب نے کہا تھا کہ نیب ملزمان کی گرفتاری کیلئے کسی امتیازی پالیسی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ بلا امتیاز، ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق مبینہ ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔

  • عدالتی فیصلے کے بعد نوازشریف کی کوٹ لکھپت جیل سے ضمانت پر رہائی

    عدالتی فیصلے کے بعد نوازشریف کی کوٹ لکھپت جیل سے ضمانت پر رہائی

    لاہور: مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کو روبکار موصول ہونے کے بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نوازشریف کے وکیل نے ضمانتی مچلکے جمع کرائے جس کے بعد سابق وزیراعظم کی رہائی کا روبکار جیل سپرٹنڈنٹ کو ارسال کیا گیا۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری روبکار لے کر جیل پہنچے، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ضمانت کے لیے 50 ، 50 لاکھ کے 2 مچلکے جمع کراچکے، روبکار لانا سرکاری اہلکاروں کا کام ہے وہ خود ہی لے کر آئیں گے‘۔

    کوٹ لکھپت جیل کے سپرٹنڈنٹ کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد نوازشریف کو جیل سے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔سابق وزیر اعظم کے محافظوں کا دستہ اور  لیگی کارکنان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

    قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھائی کی رہائی سے قبل اپنی رہائش گاہ روانہ ہوگئے تھے۔ نوازشریف کو وی آئی سیکیورٹی میں رہائش گاہ منتقل کیا جائے گا جبکہ کارکنان کی خواہش تھی کہ جلوس کی صورت میں انہیں جاتی امرا لے جایا جائے۔

    سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ

    قبل ازیں سپریم کورٹ کی جانب  سے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا گیا جسے  چیف جسٹس آ صف سعیدکھوسہ نے تحریر کیا۔

    تحریری فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم کو چھ ہفتے ضمانت پر رہا کیا گیا، اس دوران نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھ ہفتے کی مقررہ مدت ختم ہونے کے بعدضمانت ازخود منسوخ ہوجائے گی اور اگر اُس کے بعد نوازشریف نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو گرفتار کیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ نے نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی بھی عائد کی جبکہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضمانت میں توسیع کی درخواست کے ساتھ سرنڈر کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔ تحریری فیصلہ کے مطابق نواز شریف کی ضمانت کے لیے 4 شرائط عائد کی گئیں، جس کے تحت وہ  دورانِ ضمانت ملک کے کسی بھی اسپتال سے اپنا علاج کراسکتے ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر ضمانت کے دوران اپیل خارج ہوئی تو گرفتاری کا فیصلہ عدالت کرے گی، علاج کی غرض سے مختصر مدت کے لیے ضمانت کی استدعا مناسب ہے۔

  • نوازشریف کی ضمانت پر رہائی:  سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    نوازشریف کی ضمانت پر رہائی: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نوازشریف کی سزا معطلی پر تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم کو چھ ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، نواز شریف ملک سے باہر بھی نہیں جا سکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے العزیزیہ ریفرنس میں گرفتار سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی حوالے سے ضمانت کی درخواست پر صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نوازشریف کی ضمانت چھ ہفتے کیلئے منظور کی جاتی ہے، چھ ہفتے بعد ضمانت ازخود منسوخ ہوجائے گی۔

    اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے، چھ ہفتے بعد نواز شریف نے خود کو قانون کے حوالے نہ کیا تو انہیں گرفتار کیا جائے گا، ضمانت میں توسیع کی درخواست کے ساتھ سرنڈر کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔

    تحریری فیصلہ کے مطابق نواز شریف کی ضمانت کیلئے چار شرائط عائد کی گئی ہیں، وہ دوران ضمانت ملک بھر میں کہیں سے بھی علاج کراسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: نوازشریف کی درخواست ضمانت 6 ہفتے کے لیے منظور، سزا معطل

    دوران ضمانت اپیل خارج ہوئی تو گرفتاری کا فیصلہ عدالت کرے گی، علاج کے لئے مختصر مدت کیلئے ضمانت کی استدعا مناسب ہے، چار صفحات پرمشتمل فیصلہ چیف جسٹس آ صف سعیدکھوسہ نے تحریر کیا۔

  • سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی درخواست ضمانت پرسماعت 15 دن کے لیے ملتوی

    سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی درخواست ضمانت پرسماعت 15 دن کے لیے ملتوی

    اسلام آباد: سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی درخواست ضمانت پرسماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ مجموعی طور پر کتنی بھرتیاں کی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی درخواست ضمانت پرسماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران وکیل نیب نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اکرام نے قواعد کے خلاف بھرتیاں کیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا بھرتیوں کے اشتہارات دیے گئے تھے؟، وکیل پروفیسر اکرام نے بتایا کہ تمام بھرتیوں کے اشتہارات دیے گئے تھے۔

    وکیل نیب نے کہا کہ 369 بھرتیوں کا الزام عائد کیا گیا، جوبھرتیاں قانون کے مطابق تھی اس پر ریفرنس نہیں بنایا۔

    جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزاراشتہارات کا کہہ کرپھرچکردے رہا ہے؟ مجموعی طور پر کتنی بھرتیاں کی گئیں؟۔

    نیب تفتیشی افسر نے بتایا کہ پروفیسر اکرام کے دور میں 1744 بھرتیاں کی گئیں، 369 بھرتیوں کا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت اجازت دے کہ تمام بھرتیوں کا ریکارڈ جمع کراسکیں، عدالت عظمیٰ نے بھرتیوں کا ریکارڈ جمع کرانے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کردی۔