Tag: supreme court

  • چیف جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے بیوی کے قتل کے ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیوی کے قتل کے ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اہلیہ رخسانہ بی بی کے قتل کیس کے ملزم احمد علی کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیکر ساڑھے 9سال بعد بری کردیا ، عدالت نے ریمارکس دیئے مقدمے کے گواہ جائے وقوع سے میلوں دور رہتے ہیں، ٹرائل کورٹ میں قتل کے ٹھوس شواہد نہیں آئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بیوی رخسانہ بی بی کے قتل کے مقدمے میں ملزم کی بریت کی درخواست پر سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے اہلیہ رخسانہ بی بی کے قتل کیس کے ملزم احمد علی کی بریت کی اپیل منظور کر لی اور عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے کر ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے مقدمے کے گواہ جائے وقوع سے میلوں دور رہتے ہیں، ٹرائل کورٹ میں قتل کے ٹھوس شواہد نہیں آئے، اہلیہ رخسانہ کے قتل میں بچوں کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا، رخسانہ کے قتل کا مقدمہ دوسرے تھانےکی حدود میں درج کیا گیا۔

    خیال رہے ملزم احمد علی پر 2009 میں اپنی اہلیہ رخسانہ بی بی کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا تاہم ہائی کورٹ نے سزا عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔

    سپریم کور ٹ نے ایک اور قتل کے ملزم وجاہت حسین شاہ کو بری کردیا


    دوسری جانب سپریم کور ٹ نے اظہرحسین شاہ کےقتل کے ملزم وجاہت حسین شاہ کو بھی بری کردیاگیا، عدالت نے کہا میڈیکل رپورٹ کےمطابق اظہرحسین کی موت زخموں سے نہیں ، ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔

    وجاہت حسین پر   2011 منگلہ جہلم میں اظہرحسین کوقتل کرنےکا الزام تھا اور  استغاثہ ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

    مزید پڑھیں :  چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 8 سال بعد عمر قید کے 3 ملزمان کو بری کر دیا

    یاد رہے گذشتہ روزسپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد عمر قید کے تین ملزمان کو بری کر دیا، چیف جسٹس آصف کھوسہ نےفیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے کہ اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں،اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیےگواہ بنو۔

  • چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ  نے 8 سال بعد عمر قید کے 3 ملزمان کو بری کر دیا

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 8 سال بعد عمر قید کے 3 ملزمان کو بری کر دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد عمر قید کے تین ملزمان کو بری کر دیا، چیف جسٹس آصف کھوسہ نےفیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے کہ اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں،اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیےگواہ بنو۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں  سماعت میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے آٹھ سال بعد عمر قید کے تین ملزمان کو بری کر دیا اور ریمارکس دئیے اگر گواہ ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں، اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیے گواہ بنو۔

    [bs-quote quote=”اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں تو اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیے گواہ بنو” style=”style-7″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس "][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے کہا مغوی کی بازیابی پولیس کے ذریعے نہیں ہوئی، مغوی بازیاب ہونے کے چھ ماہ بعد بھی شامل تفتیش نہیں ہوا، مغوی نے چھ ماہ تک شامل تفتیش نہ ہونے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا، اس لئے ملزمان کوشک کا فائدہ دیتے ہوئےسزائیں ختم اور بری کرنے کاحکم دیا۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا مزید ریمارکس میں کہنا تھا کہ پولیس دھمکی دیتی ہے ، ہمارے پاس بہت سےنامعلوم کیس چل رہے ہیں، تمہیں بھی کیس بھی ڈال دیں گے، جس پر ملزم اسد علی کے وکیل نے کہا ملزمان کے خلاف لوگ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں، یکارڈ کے مطابق گواہان اور پولیس کے درمیان تنازعہ رہا تھا۔

    خیال رہے نصیراحمد،مظہرحسین اوراسدعلی پرمحمدصدیق کواغواکرنےکاالزام تھا ، ٹرائل کورٹ نے نصیر اور مظہر کو عمر قید اور اسد کو سزائے موت سنائی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے اسد کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جبکہ دیگرکی اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

  • سپریم کورٹ میں خدیجہ صدیقی کیس کی سماعت کل ہوگی

    سپریم کورٹ میں خدیجہ صدیقی کیس کی سماعت کل ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں خدیجہ صدیقی کیس کی سماعت 23 جنوری کو ہوگی۔

    تفصیلات سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ خدیجہ صدیقی کیس کی سماعت کل کرے گا۔

    قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پرمئی 2016 میں شاہ حسین نے خنجر کے 23 وار کیے تھے۔

    سابق چیف جسٹس کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ مبشرحسین نے ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی، ملزم شاہ حسین پر الزام تھا کہ اس نے اپنی کلاس فیلو قانون کی طالبہ پر خنجر کے 23 وار کرکے اسے شدید زخمی کردیا تھا۔

    ملزم شاہ حسین نے مجسٹریٹ کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

    شاہ حسین کی درخواست پرسیشن کورٹ نے مجسٹریٹ کورٹ کی جانب سے دی گئی 7 سال کی سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی۔

    خدیجہ کیس: چیف جسٹس نے ملزم کی رہائی کا نوٹس لے لیا

    بعدازاں خدیجہ صدیقی کیس کے ملزم شاہ حسین کو لاہور ہائی کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

  • بطورچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سنادیا

    بطورچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سنادیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف اٹھاتے ہی عدالت لگا کر ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے منشیات کے کیس میں سزا یافتہ نور محمد کی سزا میں کمی کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نئےچیف جسٹس نے جو کہا اسے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ثابت کرنا شروع کردیا، چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدکھوسہ سپریم کورٹ پہنچے تو انھیں گارڈ آف آنرپیش کیا گیا، اٹارنی جنرل انورمنصور نے روسٹرم پر آکر چیف جسٹس آصف کھوسہ کو خوش آمدید کہا ، چیف جسٹس آصف سعید کی عدالت میں غیرملکی مہمان بھی موجود تھے۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنا پہلا مقدمہ میانوالی کے رہائشی نور محمد کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل کو سنا اور ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سنادیا۔

    ۔ عدالت نے منشیات کے کیس میں سزا یافتہ نور محمد کی سزا کے خلاف درخواست مسترد کردی اور ہائی کورٹ کا فیصلہ بر قرار رکھتے ہوئے نور محمد کی سزا کو برقرار رکھا، جسٹس منصورعلی شاہ بنچ کاحصہ تھے۔

    عدالت نے کہا کہ اس کیس میں گواہ سرکاری ملازمین تھے جن کی ملزم سے کوئی ذاتی عناد نہ تھی اور کیمیکل لیبارٹریز نے بھی منشیات کے نمونہ جات کی تصدیق کی تھی۔

    ملزم نور محمد 21 سو گرام چرس کے ساتھ میانوالی میں پکڑا گیا تھا، ملزم کو ماتحت عدالت نے 5 اگست 2016 کو 4 سال 6 ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ بر قرار رکھا تھا۔

    دوسرے مقدمے میں عدالت نے چیک ڈس آنر کے مقدمہ میں ملزم خالد محمود کو ضمانت پر رہا کردیا گیا جبکہ تیسرے مقدمے میں عدالت نے ضمانت منسوخی کیس میں قاسم جان کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تین مقدمات کی سماعت کر کے عدالتی کارروائی ختم کی اور بنچ میں شامل مہانوں اور عدالت میں بیٹھے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امید ہے آپ کا ویک اینڈ اچھا گزرے گا۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف لیتے ہی اپنی سرکاری گاڑی سے سی جے پی ون کی نمبر پلیٹ بھی ہٹادی۔

    مزید پڑھیں : جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا

    یاد رہے آج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ملک کے 26 ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیا۔

    گذشتہ روز فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ زیر التوامقدمات کا قرض اتاروں گا، فوج اورحساس اداروں کاسویلین معاملات میں دخل نہیں ہوناچاہیئے، ملٹری کورٹس میں سویلین کاٹرائل ساری دنیامیں غلط سمجھا جاتاہے،کوشش کریں گےسول عدالتوں میں بھی جلدفیصلےہوں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ بطورچیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنےکی کوشش کروں گا،جعلی مقدمات اور جھوٹےگواہوں کیخلاف ڈیم بناؤں گا۔

  • گلگت بلتستان اورآزاد کشمیرکی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘ سپریم کورٹ

    گلگت بلتستان اورآزاد کشمیرکی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد: گلگت بلتستان آئینی حقوق کے معاملے پرسپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اختیارات گلگت بلتستان میں بھی نافذ العمل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان آئینی حقوق کے معاملے پر فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلے میں کہا کہ بھارت اورپاکستان زیرانتظام علاقوں کوزیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کوگلگت کوبنیادی آزادی دینے کا پابند کیا، گلگت بلتستان آرڈر2018 کے تحت مقننہ اورانتظامی ادارے قائم کیے گئے۔

    عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کی عدالتیں گلگت بلتستان کونسل کی قانون سازی پرنظرثانی کرسکتی ہیں، گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ سپریم ایپلیٹ کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پاکستان میں چیلنج کیے جاسکتے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی آرڈیننس میں ترامیم تجویز کی ہیں۔

    فیصلے کے مطابق وفاق کی سفارش پر صدر پاکستان مجوزہ عدالتی حکم کو نافذ کریں، آرڈر میں کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی، ترمیم صرف آئین کے آرٹیکل 124 میں درج طریقے کے مطابق ہو سکتی ہے۔

    عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات گلگت بلتستان میں بھی نافذ العمل ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پارلیمنٹ حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ آئین کے تحت جائزہ لے سکتی ہے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تاریخی فیصلہ ہے، گلگت بلتستان کے شہریوں کومبارکباد پیش کرتا ہوں، گلگت بلتستان بار کے نمائندوں نے چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا۔

  • سپریم کورٹ نےشیخ زید اسپتال وفاقی حکومت کے حوالے کردیا

    سپریم کورٹ نےشیخ زید اسپتال وفاقی حکومت کے حوالے کردیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے 18 ویں ترمیم کے تحت شیخ زید اسپتال کی منتقلی کا معاملہ نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے شیخ زید اسپتال کی منتقلی سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔

    عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شیخ زید اسپتال کسی قانونی اقدام کے بغیر صوبے کے حوالے کیا گیا، اسپتال کی منتقلی کے لیے مطلوبہ قانونی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ معاملے میں 18 ویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی، وفاقی حکومت اسپتال بنانے اور چلانے کا اختیار رکھتی ہے، حق زندگی کا معاملہ ہے جو کسی کا بھی بنیادی حق ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے3 اسپتال اورمیوزیم غیرقانونی طور پرصوبائی حکومتوں کے حوالے کیے گئے، اسپتالوں اور میوزیم کا انتظام 90 دن میں وفاقی حکومت کومنتقل کیا جائے۔

    عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اگر 90 دن میں منتقلی نہ ہوسکے توصوبہ وقت میں توسیع کی درخواست دے سکتا ہے، وفاق متعلقہ اسپتالوں کے گزشتہ ایک سال کے اخراجات صوبوں کوادا کرے۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی قانون اس اسپتال کی وفاق کی واپس منتقلی سے نہیں روک سکتا، وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے اختیارات میں توازن ہونا چاہیے۔

    فیصلے کے مطابق مجوزہ ترمیم شدہ آرڈر وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھجوایا جائے، مجوزہ آرڈرمیں آرٹیکل 124 کے طریقہ کارکے بغیرکوئی ترمیم نہیں ہوگی، نہ ہی اسے ختم کیا جاسکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جا سکے گا۔

    عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق مجوزہ آرڈر میں سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت کومحدود نہیں کیا جاسکتا، آرڈر میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم یا تبدیلی ہوتی ہے توعدالت عظمیٰ پرکھ سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ نے 18 ویں ترمیم کے تحت اسپتال کی منتقلی کا معاملہ نمٹاتے ہوئے شیخ زید اسپتال وفاقی حکومت کے حوالے کردیا۔

  • جعلی اکاؤنٹس کیس: عمل درآمد بینچ بنانے کا حکم جاری، عدالت کا تفصیلی فیصلہ

    جعلی اکاؤنٹس کیس: عمل درآمد بینچ بنانے کا حکم جاری، عدالت کا تفصیلی فیصلہ

    اسلام آباد : عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے تفصیلی فیصلہ میں کہا ہے کہ  نئےچیف جسٹس نیب رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے عمل درآمد بینچ تشکیل دیں ، نیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور دیگر کےخلاف تحقیقات جاری رکھے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کاتحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے،25صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الحسن نے تحریر کیا۔

    فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی اپنی تحقیقات مکمل کرکے فوری طور پر نیب کو بھجوائے گی، جے آئی ٹی کے تمام ممبران نیب کو مزید تحقیقات میں معاونت کریں گے، جے آئی ٹی نامکمل معاملات کی تحقیقات جاری رکھے گی، نیب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اپنی تحقیقات مکمل کرے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر تحقیقات میں جرم بنتا ہو تو احتساب عدالت میں ریفرنس فائل کئے جائیں، نیب ریفرنس اسلام آباد نیب عدالت میں فائل کئے جائیں، چیئرمین نیب مستند ڈی جی کو ریفرنس کی تیاری اور دائر کرنے کی ذمہ داری دیں، مستند افسران پر مشتمل ٹیم ریفرنسز کی پراسیکیوشن کے لئے تشکیل دی جائے۔

    تفصیلی فیصلے کے مطابق نیب اپنی 15روزہ تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، نیب رپورٹ کا جائزہ سپریم کورٹ کا عمل درآمد بینچ لے گا، نئےچیف جسٹس نیب رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے عمل درآمد بینچ تشکیل دیں۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں رکھنے سے ان کے کام میں مسائل پیدا ہوں گے، ان کی نقل وحرکت میں رکاوٹ ہوگی، لہٰذا بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کا نام فی الحال ای سی ایل سے نکالا جائے۔

    نیب کو بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کے خلاف تحقیقات میں رکاوٹ نہیں ہوگی تاہم نیب مراد علی شاہ، بلاول بھٹو اور دیگر کےخلاف تحقیقات جاری رکھے، دونوں رہنماؤں کے خلاف شواہد ہیں تو ای سی ایل میں نام کیلئے وفاق سے رجوع میں رکاوٹ نہیں۔

    جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ کرپشن، منی لانڈرنگ، کمیشن اور  سرکاری خزانے میں بے ضابطگیوں کا ہے، شواہد، مختلف دستاویز پر مبنی جے آئی ٹی رپورٹ پر کیس بنتا ہے،  جے آئی ٹی کے مطابق یہ معاملہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھی ہے، جے آئی ٹی کی سفارشات پر نیب کارروائی کرے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے وکلاء عدالت کو متاثر کن دلائل نہیں دے سکے، چند وکلاء نے تسلیم کیا  کہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، جے آئی ٹی نے تحقیقات میں سنگین جرائم کی نشاندہی کی ہے، نیب کو جعلی منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کیلئے دو ماہ کا وقت دیاجاتا ہے۔

    تفصیلی فیصلہ کے مطابق فاروق ایچ نائیک ان کے بیٹے انورمنصوراور ان کے بھائیوں کے نام رپورٹ میں ہیں، متعلقہ افراد کے نام صرف فیس کی وجہ سے ہیں تو نیب تحقیقات کرے۔

    نیب متعلقہ افراد سےمتعلق جےآئی ٹی کے شواہد پر تحقیقات کرے، جرم ثابت نہ ہونے پر ہی نام جے آئی ٹی اور ای سی ایل سے نکالے جائیں، شواہد ملنے پر نیب ان افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔

  • سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ میں کہا جناح اسپتال کراچی کاکنٹرول وفاق کے پاس ہی رہے گا، درخواست مسترد ہونے کی وجوہات سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹھارہویں ترمیم آئینی اختیارات کیس میں مختصر حکمنامہ پڑھ کر سنایا، عدالت نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ جناح ہسپتال کراچی کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا درخواست مسترد ہونے کی وجوہات سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی اور کیس نمٹا دیا۔

    سپریم کورٹ نے اٹھاریویں آئینی ترمیم کے تحت جناح اسپتال کراچی کے انتظامی اختیار کی منتقلی کے حوالے سے فیصلہ سات جنوری کو محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ کیا وفاقی حکومت اتنی بے اختیار ہوتی ہے کہ صوبے میں ہسپتال نہیں بنا سکتی ، چونتیس ارب روپے خرچ کرنے کے بعد وفاقی حکومت اسپتال کیوں نہیں چلا سکتی۔

    سینٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جناح ہسپتال اور این آئی سی وی ڈی کو ریسرچ ہسپتال کے زمرے میں ڈال کر وفاق کو نہیں دیا جا سکتا،جناح اسپتال میں ریسرچ صرف مریضوں اور دوائیوں کے ریکارڈ پر مشتمل ہے،اصل تحقیق کے لیئے کوئی رقم مختص نہیں۔

    خیال رہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی تھی، اس وقت صدرِ مملکت کے عہدے پر آصف علی زرداری متمکن تھے، اس ترمیم کے بعد صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہوگئے تھے اور وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔

    تحریکِ انصاف کی حکومت اٹھارویں ترمیم پر جزوی تنقید کی تھی، ایک ماہ قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے تعلیم اور  صحت کا معیار گرا ہے، اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں بہتر بنایا جا رہا ہے۔

  • تہرے قتل کا معاملہ: سپریم کورٹ کا 3 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم

    تہرے قتل کا معاملہ: سپریم کورٹ کا 3 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم

    اسلام آباد:ام رباب چانڈیو کے خاندان کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ آئندہ 15 دنوں میں ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے ام رباب چانڈیو کے خاندان کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران ام رباب نے بتایا کہ میہڑ میں ہمیں خطرات کا سامنا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس سے ملزمان نہیں پکڑے جاتے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پولیس نے اے ٹی سی حیدر آباد میں چالان جمع کرا دیا ہے، مقدمہ منتقلی کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ سندھ ہائی کورٹ 15 دنوں میں درخواست کا فیصلہ کرے، آئندہ 15 دنوں میں ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے، ٹرائل 3 ماہ میں مکمل کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ملزم سردار خان چانڈیو کو ضمانت دے دی گئی تھی، ٹرائل کورٹ 3 ہفتوں میں ضمانت منسوخی کا فیصلہ کرے۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ام رباب اور خاندان کو مکمل سیکیورٹی دی جائے، مفرور افراد کو گرفتار کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کا ٹرائل 3 ماہ میں مکمل کرنے کے ساتھ ہر مہینے پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 12 دسمبر کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے تہرے قتل کیس میں آئی جی سندھ کو طلب کرتے ہوئے قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ 17 جنوری 2018 کو ضلع دادو کے تعلقہ میہڑ میں 3 افراد کے قتل کے خلاف سردار خان چانڈیو اور اس کے بھائی برہان چانڈیو سمیت 7 افراد کے قتل کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروایا تھا۔