Tag: supreme court

  • سپریم کورٹ نے پٹواریوں کے زمین کے انتقال پرپابندی لگا دی

    سپریم کورٹ نے پٹواریوں کے زمین کے انتقال پرپابندی لگا دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پٹواریوں کے زمین کے انتقال پر پابندی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہری علاقوں میں پٹوار خانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے شہری علاقوں میں پٹواریوں، قانون گو اور تحصیل داروں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں زمین کی فروخت زبانی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا چاند پرچلی گئی ہے، یہاں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیوں نہیں ہوسکا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریکارڈ کہاں سے آجاتا ہے، شہروں میں توماسٹرپلان ہوتا ہے، جوعلاقے ماسٹرپلان میں نہیں آتے وہاں فروخت ایسے ہوتی ہے؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہری علاقوں میں لینڈریونیوکا ریکارڈ ہے، پٹوارخانوں کی کیا ضرورت ہے، پٹوارخانوں نے لٹ مچائی ہوئی ہے۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ شہری علاقوں میں زمین کی کوئی خرید وفروخت زبانی نہیں ہوگی، پٹوار خانے اور ریونیو ریکارڈ کے دوسرے دفاتر صرف ریکارڈ کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے جو زمین کی ٹرانسفر نہیں کرسکیں گے۔

    عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا کہ شہری علاقوں میں زمین کی خرید وفروخت رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے ہوگی اور وہاں پٹوار خانوں کی کوئی ضرورت نہیں، صرف رجسٹریشن کے ذریعے زمین منتقل ہوگی۔

  • جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس آف پاکستان نامزد، صدر مملکت نے منظوری دے دی

    جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس آف پاکستان نامزد، صدر مملکت نے منظوری دے دی

    اسلام آباد : صدر پاکستان نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا، جسٹس ثاقب نثار کی سبکدوشی کے بعد وہ اپنے عہدے کا حلف18جنوری کو اٹھائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس  ثاقب نثار کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا گیا ہے۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی چیف جسٹس کی نامزدگی کیلئے منظوری دے دی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ18جنوری کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اوروزارت قانون کے مطابق20 دسمبر2019 تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔

     جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بارے میں: 

    واضح رہے کہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ21 دسمبر 1954ء کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور جامعہ پنجاب سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے بیرون ملک سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 26 جولائی1976ء کو باقاعدہ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کئی تاریخی فیصلے سنائے، قصور میں قتل ہونے والی بچی زینب کیس میں ملزم عمران علی کو سزا ہوئی تو عمران علی کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سنایا۔

    اس کے علاوہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا گیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کو نااہل قرا ر دینے کی سفارش بھی کی تھی۔

    علاوہ ازیں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف نااہلی کیس میں بھی وہ بینچ کا حصہ تھے اور ان کے اضافی نوٹ کی وجہ سے بھی انہیں کافی شہرت ملی۔

  • سابق وزیراعلیٰ سندھ  کی ہدایت پرجنگلات کی اراضی فروخت ہوئی‘سپریم کورٹ

    سابق وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پرجنگلات کی اراضی فروخت ہوئی‘سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں جنگلات کی کٹائی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ منسوخ کیوں نہیں کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے جنگلات کی کٹائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونی قبضہ ہے توزمین کا تحفظ محکمے کی ذمے داری ہے، سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پرجنگلات کی اراضی فروخت ہوئی۔

    ایڈیشنل ایڈویکٹ جنرل سندھ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 70 ہزارایکڑاراضی غیرقانونی الاٹ کردی گئی، ایک لاکھ 45 ہزار ایکٹر پرغیر قانونی قبضہ ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت خود کہہ رہی ہے 70 ہزار ایکڑ الاٹمنٹ غیر قانونی ہے؟ ابھی تک اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ منسوخ کیوں نہیں کی گئی۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ منسوخی کا معاملہ کابینہ کو بھجوایا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الاٹمنٹ منسوخ کرنے میں 2 منٹ لگتے ہیں، آپ نے کام نہیں کرنا توبتا دیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ سیکریٹری ، وزیرجنگلات اورچیف سیکریٹری کیوں پیش نہیں ہوئے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک لاکھ 45 ہزارایکڑپرغیرقانونی قبضہ ہے اسے تو واگزارکرائیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دوماہ پہلے اپنے حکم میں کہا تھا اس ضمن میں اقدامات کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ وقفے کے بعد آپ کو بتائیں گے اس کیس کو کراچی میں کب لگانا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تمام اعلیٰ حکام کو نوٹس کریں گے، سیکریٹری ، وزیر جنگلات ا ور چیف سیکریٹری کو بلائیں گے۔

  • سپریم کورٹ میں زلزلہ فنڈ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں زلزلہ فنڈ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کورٹ میں زلزلہ فنڈ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زلزلے سے متاثر لوگ پہلے نہایت خوشحال تھے، وہ لوگ دوسروں کی مدد اورملازم رکھنے والے لوگ تھے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے زلزلہ فنڈ کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران زلزلے سے متاثر لوگ پہلے نہایت خوشحال تھے، وہ لوگ پناہ گاہوں اورخیموں میں رہنے پرمجبور ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا مدد کے لیے کھڑی ہوئی، آبادکاری کے لیے دل کھول کرپیسہ دیا، وہ پیسہ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نہیں گزشتہ حکومتوں کی بات کررہا ہوں وہ ذمہ دار ہیں۔

    وکیل متاثرین نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال 85 ارب کی رقم قومی خزانے میں گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہے رہے ہیں 83 فیصد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔

    انہوں ایرا کے نمائندے سے استفسار کیا کہ ایک منصوبہ بتا دیں جو مکمل کیا ہو جس پر ایرا کے نمائندے نے جواب دیا کہ سڑکیں بنائی، پل بنائے اور83 فیصد کام واقعی کیا ہے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ اراضی سے متعلقہ بالاکوٹ کے متاثرین کے مسائل حل ہوئے، ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ جی وہ سارے مسائل حل کردیے ہیں۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے زلزلہ فنڈ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرچیئرمین ایرا کو طلب کرلیا۔

  • سپریم کورٹ کا کابینہ کونام ای سی ایل میں شامل کرنے سے متعلق نظرثانی کاحکم

    سپریم کورٹ کا کابینہ کونام ای سی ایل میں شامل کرنے سے متعلق نظرثانی کاحکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ہفتےکے آخرتک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی

    جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق سمیت دیگر جے آئی آرکان سپریم کورٹ میں موجود تھے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان ابوطالب، پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف، لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، فرحت اللہ بابر اور دیگر بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواز ہے، یہ اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، حکومت مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواب دے گی۔

    سپریم کورٹ نےای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے وزیرداخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ای سی ایل میں نام ڈالنا اتنی معمولی بات ہے۔

    فاروق ایچ نائیک نے کیس میں پیش ہونے سے معذرت کرلی، عدالت عظمیٰ نے فاروق ایچ نائیک کی استدعا مسترد کر دی۔

    وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک مقدمے میں آصف زرداری کے وکیل تھے، جےآئی ٹی نےفاروق ایچ نائیک کوبھی ملزم بنا دیا۔

    وکیل نے بتایا کہ جےآئی ٹی کی بنیاد پرفاروق نائیک نے آصف علی زرداری اورفریال تالپور کی وکالت سے معذرت کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک کو پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے؟ وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ انورمجیداورعبد الغنی مجید کا جواب آچکا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ دونوں کی جانب سے مفصل جواب نہیں آیا، تمام دستاویزات ریکارڈ پرموجود ہیں۔

    وکیل ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ تمام متعلقہ دستاویزات مانگ رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہےانورمجید ،عبدالغنی کا جیل میں رہنے کا دل کرتا ہے، بتادیں کونسی دستاویزات چاہئیں۔

    ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ جودستاویزات درکارہیں وہ فراہم کردی ہیں، آصف علی زرداری کی جواب داخل کرانے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی گئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کتنا وقت چاہیے، چار دن کافی ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 4 روزمیں جواب داخل کرا دیں گے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ابھی صرف جے آئی ٹی رپورٹ آئی، وزرانے تبصرے شروع کردیے، چیف جسٹس نے کہا کہ 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہوگئی، سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ہمارے سیکریٹریٹ سے کوئی چیزلیک نہیں ہوئی، میڈیا نےسنی سنائی باتوں پرخبریں چلائیں۔

    سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جواب داخل کرانے کے لیے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جو عدالت نے منظور کرلی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا مراد علی شاہ سندھ کی وزارت اعلیٰ چھوڑ کربھاگ جائیں گے، کیا مراد علی شاہ کا نام اس مؤقف پرڈالا گیا۔

    وکیل جے آئی ٹی نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے کسی منتخب نمائندے کی نااہلی کی بات نہیں کی، کسی کی نااہلی کی سفارش کرنا جے آئی ٹی کا مینڈینٹ نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے کسی کی گرفتاری کی سفارش نہیں کی، گرفتاری کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مرادعلی شاہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، ان کا احترام ہونا چاہیے، جےآئی ٹی کی سفارش تھی توعدالتی حکم کا انتظارکرلیتے۔

    وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سوچے سمجھے بغیرنام ای سی ایل میں ڈال دیے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 172افراد کےنام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے جے آئی ٹی نے رجوع کیا، 26 دسمبرکوجے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے حکومت کوخط لکھا۔

    انہوں نے کہا کہ خط کی بنیاد پرنام ای سی ایل میں ڈالے گئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ احسان صادق کیا ہم نے کہا تھا نام ای سی ایل میں ڈلوائیں؟، ہم نے تونہیں کہا، یہ سب بحران آپ کی وجہ سے پیدا ہوا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خط میں یہ تاثردیا ای سی ایل میں نام عدالتی حکم پرڈالے جا رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جےآئی ٹی سربراہ نے خط لکھا توکابینہ نے وجوہات کا جائزہ لیا تھا؟۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے خط میں وجوہات کا جائزہ لیا، وجوہات کے جائزے کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ملزمان سے متعلق حکومت کوآگاہ کرنا اخلاقی فرض تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی تفصیل کس نے دی تھی، جےآئی ٹی کا کام تحقیقات کرکے رپورٹ دینا تھا۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نام ای سی ایل میں شامل کرنےکا اختیارجے آئی ٹی کوتھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جےآئی ٹی نے7 ہزار500 لوگوں کا جائزہ لیا۔

    سربراہ جےآئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ پہلے بھی لوگ ملک سے فرارہوتے رہے ہیں، تشویش تھی یہ لوگ ملک سے فرارنہ ہوجائیں، نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کردارکو دیکھ کرسفارش کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے بارے میں جےآئی ٹی نے فائنڈنگ دی جس پر جے آئی سربراہ نے بتایا کہ ٹھٹھہ شوگرمل11 کروڑ20 لاکھ میں فروخت کی گئی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کی شوگرمل تھی، جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ شوگرمل بینک سے قرض لے کرخریدی گئی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں عدالت میں کوئی حتمی فائنڈنگ نہیں دی گئی، وکیل جے آئی ٹی نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے نیک نیتی سے نام ای سی ایل میں شامل کرائے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ مرادعلی شاہ کوعلم نہیں ان کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں، وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا تک نہیں گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت آئین کا بنیادی فیچرہے، جمہوریت کوڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، گورنرراج ایسے نہیں لگے گا، جواز دینا پڑے گا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جےآئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوزکیا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خط میں جےآئی ٹی اورایف آئی اے کی رائے تھی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ خدشات کا اظہارجے آئی ٹی سربراہ کے خط سے کیا گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعلیٰ کوسفرکرنا پڑتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنا ایک دھبہ ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر راج کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں، آئین سے ہٹ کر کوئی کام ہوا تو ختم کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگے گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایم این اے، وزرا، چیف منسٹرزکے نام شامل کرنے پرغورکریں، کسی کا نام ای سی ایل میں ڈ ال دینا بہت بڑا دھبہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا نام جے آئی ٹی سفارش پرسوچ بچار کےبغیر ڈال دیا گیا، ای سی ایل کی رپورٹ حتمی نہیں اورنا ہی عدالت نے کوئی فیصلہ دیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ جےآئی ٹی نے تاثردیا ای سی ایل میں نام ڈالنے کا حکم عدالت کا ہے، خط کی آخری لائن یہ ہی ہے نام جلدی ای سی ایل میں ڈالیں رپورٹ دینی ہے۔

    وکیل مراد علی شاہ نے کہا کہ ای سی ایل نظرثانی ہونےتک وزیراعلیٰ کا نام نکالنے کا حکم دیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ حکم نہیں دے سکتی اس لیے ہم نظرثانی کی ہدایت کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جو بھی کام ہونے ہیں، آئین کے مطابق ہوں گے، کسی کو جمہوریت کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھانے دیں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پرنظرثانی کریں معاملہ کابینہ میں لے جائیں، نمایاں سیاست دانوں کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا ہے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ محض جےآئی ٹی کے خط پرنام ای سی ایل میں شامل نہ کیے جائیں، وزیراعلیٰ سندھ کووزیراعظم کے ساتھ ترکی جانا پڑے توکیا کریں گے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا جےآئی ٹی نے ٹرائل کنڈکٹ کرانا تھا، جےآئی ٹی کا مینڈیٹ اور اختیارکیا ہے، ای سی ایل میں نام ڈالنے کی سفارش کرکے تاثرعدالت کا دیا گیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیاعدالت نے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی آبزرویشن دی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سمجھ کرمرادعلی شاہ کا نام جے آئی ٹی نے ای سی ایل میں ڈلوایا۔

    سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ اسٹیٹس کونہیں دیکھا کردارکودیکھ کرنام ای سی ایل میں ڈالا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مرادعلی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مرادعلی شاہ نے باہرجانا ہے تو درخواست دیں نام نکلوا دیں گے، کابینہ کےآئندہ اجلاس میں معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جےآئی ٹی اتنا کام کرے جتنا اختیاردیا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ستائش کرسکتے ہیں تواختیارسے تجاوزپرسرزنش بھی۔

    سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ہفتےکے آخرتک جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: ملزمان کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنےکی استدعا

    دوسری جانب ملزمان انور مجید اور عبدالغنی نے سپریم کورٹ میں اپنے جمع کرائے گئے جواب میں خود کو معصوم قرار دے کر جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔

    یاد رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ نے 20 دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی

    جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری سمیت 172 افراد کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی

    بعدازاں حکومت نے رپورٹ کی روشنی میں پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے تھے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی اسامیاں پُر نہ کرنے پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی اسامیاں پُر نہ کرنے پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی اسامیاں پُر نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا گیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشیاق اے خان کی سرزنش کی.

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدلیہ مفلوج ہو جائے، نگران دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بڑھانے کی سفارش کی تھی، آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں 4 جج کام کر رہے ہیں اور کام اتنا زیادہ ہے.

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، بل کا ڈرافٹ پیش کرنا تھا، تب اپوزیشن نے مخالفت کر دی، آرڈیننس کی تجویز زیرغور تھی، لیکن اسمبلی کاسیشن چل رہا ہے.


    نجی کالجزواسپتال بزنس ہاؤسزبن چکے ہیں‘ چیف جسٹس


    اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار کو کہتا ہوں، آپ سے وضاحت مانگے یا پھر از خود نوٹس لیتا ہوں،  اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی تعداد کم ہے، ڈویژن بینچ نہیں بن سکتا، مسئلہ حل ہونا چاہیے.

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ ہائیکورٹ میں ججوں کی خالی اسامیاں فوری پوری کی جائیں‌ گی.

    یاد رہے کہ آج چیف جسٹس آف پاکستان نے  سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں تقریب سے خطاب کرتےہوئے کہا تھا کہ  عوامی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی، میرا مقصد ہمیشہ خلوص پرمبنی رہا۔

  • جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: ملزمان کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنےکی استدعا

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: ملزمان کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنےکی استدعا

    اسلام آباد : منی لانڈرنگ کیس میں ملزمان عبدالغنی مجید اور انورمجید نے جےآئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملزمان عبد الغنی اور انورمجید نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس میں انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست کی۔

    عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے پاس معاملہ نیب کوارسال کرنے کی سفارش کا جوازنہیں ہے، جے آئی ٹی کی سفارش کی منظوری دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

    ملزمان کی جانب سے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جےآئی ٹی کی ایگزیکٹوسمری اورحتمی رپورٹ کے 4 والیم فراہم کیے گئے، کن 924 لوگوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے نام فراہم نہیں کیے گئے۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ جس ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا وہ بھی فراہم نہیں کیا گیا، ایسے حالات میں جے آئی ٹی رپورٹ پرمفصل جواب دینے سے قاصرہیں۔

    ملزمان کے مطابق رپورٹ کے ساتھ کوئی مواد یا دستاویزات نہیں جو الزامات کی تائید کرے جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام میں معصوم ہیں۔

    سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت31 دسمبرکو ہوگی

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت 31 دسمبر کو ہوگی جس کے لیے آصف علی زرداری، فریال تالپور سمیت دیگر افراد کو نوٹس جاری کردیے گئے۔

  • پی آئی اے میں میٹرک اور مڈل پاس پائلٹس ہیں، سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع

    پی آئی اے میں میٹرک اور مڈل پاس پائلٹس ہیں، سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع

    اسلام آباد : جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہے کہ میٹرک سے کم تو بس نہیں چلا سکتا، یہاں جہاز اڑائے جا رہے ہیں، پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق کرکے رپورٹ جلد فراہم کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے جعلی ڈگری کیس کی سماعت کی۔ سول ایوی ایشن نے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں سے متعلق دھماکا خیز رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

    پائلٹس اور کیبن کریو کی چار ہزار تین سو اکیس ڈگریوں کی تصدیق کا عمل مکمل ہو گیا جبکہ چار سو 38 ڈگریوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے، پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے مقدمے میں چونکا دینے والے انکشافات پر مبنی رپورٹ سامنے آگئی۔

    سپریم کورٹ میں پیش کی گئی سول ایوی ایشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سات پائلٹس کی ڈگریاں جعلی پائی گئیں۔ پانچ میٹرک انڈر میٹرک ہیں، پی آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ ڈگریوں کا ریکارڈ فراہم نہ کرنے والے پچاس افسروں کو معطل کر دیا ہے۔

    رپورٹ پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پرلگا دیا گیا، ایسے افراد سے کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میٹرک سے کم تو بس نہیں چلا سکتا، یہاں جہاز اڑائے جا رہے ہیں۔ عدالت نے ڈگریوں کی تصدیق کا عمل فوری مکمل کرکے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔

    اس کے علاوہ عدالت نے پی آئی اے کوکنٹریکٹ پائلٹس بھرتی کرنے کی اجازت دیتے ہوئے پائلٹس کے لائسنسوں کی مکمل تفصیل بھی طلب کرلی۔

  • سپریم کورٹ نے ترک ایجوکیشن تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا، اکاؤنٹس منجمد

    سپریم کورٹ نے ترک ایجوکیشن تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا، اکاؤنٹس منجمد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر وزارت خزانہ کو اکاؤنٹس ترک معارف فاؤنڈیشن منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کردیا۔

    عدالت نے پی ٹی آئی سی ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا ہے کہ ترکی بھی مذکورہ تنظیم کو دہشت گرد قراردے چکا ہے، اس کے علاوہ پاکستان کے ترکی کے ساتھ برادرانہ اور دیرینہ تعلقات ہیں اور پاکستان بین الاقوامی سفارتی معاہدوں پر عملدرآمد کا پابند ہے۔

    فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت فتح اللہ گولن اوردیگر تنظیموں کو بھی دہشت گرد قرار دے اور تنظیم کے تمام اثاثے ترکی معارف فاؤنڈیشن کو منتقل کیے جائیں، مذکوہ تنظیم کے تحت چلنے والے28اسکولوں کا بندوبست معاہدوں کی روشنی میں کیا جائے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن کے اکاؤنٹس منجمند کیے جائیں، وزارت داخلہ اندراج انسداد دہشت گری ایکٹ کی سیکشن بی11کے تحت کرے جس کے بعد وزارت خزانہ اس کے تمام اکاؤنٹس ترک معارف فاؤنڈیشن منتقل کرنے کا انتظام کرے، پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن کے نام سے تمام این اوسی منسوخ ہیں، کسی دہشت گرد تنظیم کا پاکستان میں کام نہ کرنا ملک کے مفاد میں ہے۔

    فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن فاؤنڈیشن1990میں قائم ہوئی، تنظیم کے28اسکول ترک حکومت کے تعاون سے چلتے رہے، کیگ ایجوکیشنل ترکی میں ناکام فوجی حکومت کے قیام میں ملوث تھی۔

    اسلامی سربراہی کانفرنس نے فتح اللہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا، فتح اللہ تنظیم پاک ترک انٹرنیشنل کیگ ایجوکیشن کی پیرنٹ آرگنائزیشن ہے۔

  • لاہور : شادی ہالزکی بندش کے اوقات کو رات11بجے تک کیا جائے، چیف جسٹس

    لاہور : شادی ہالزکی بندش کے اوقات کو رات11بجے تک کیا جائے، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ شادی ہالز کی بندش کے اوقات کو ٹریفک کے حساب سے11 بجے کیا جائے، انہوں نے ڈی سی لاہور کو اوقات کار میں تبدیلی کا جائزہ لینے کی ہدایت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں شہر میں موجود شادی ہالوں کی بندش کے حوالے سے چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر سپریم کورٹ نے دس بجے شادی ہالزکی بندش کا نوٹس لیتے ہوئے، ڈی سی لاہور کو اوقات کار میں تبدیلی کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔

    سماعت کے دوران اپنے ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ دلہنیں تیار ہوکر گاڑی میں بیٹھی رہتی ہیں مگر شادی ہال بند ہوجاتے ہیں، گوٹے کنارے لگے کپڑے پہنے دلہنیں پریشان ہوجاتی ہیں۔

    ایک موقع پر چیف جسٹس نے ڈی سی لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع پرآپ بھی تو گوٹے کنارے لگے کپڑے پہنتی ہوں گی؟ چیف جسٹس کے مخاطب کرنے پر ڈی سی لاہور کھل کھلا کرہنس پڑیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ انتظامیہ لوگوں کے لئےآسانیاں پیدا کرے، رات دس بجے تو سڑکوں پر بھی ٹریفک ہوتا ہے، شادیوں کی وجہ سے بھی شہر بھر میں ٹریفک بھی جام رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا لاہور میں غیرقانونی شادی ہال سب بند کرنے کا حکم

    شادی ہالزکے اوقات کار کو ٹریفک کے حساب سے گیارہ بجے کیا جائے، ڈی سی لاہور نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کا ضرور جائزہ لیں گے۔