Tag: supreme court

  • اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لئے مقرر

    اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لئے مقرر

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سماعت کے لئے مقرر کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ کے کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گا، کیس کی سماعت منگل کے روز ہو گی.

    واضح‌ رہے کہ اسحاق ڈارکی وطن واپسی کے لئے وزارت خارجہ نے برطانوی ہائی کمیشن کوخط لکھ رکھا ہے.

    وزارت خارجہ اسحاق ڈارکی وطن واپسی سےمتعلق برطانوی جواب سے سپریم کورٹ کا آگاہ کرے گی.

    عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری خزانہ، اور پراسیکیوٹر نیب کو نوٹس جاری کرکے طلب کیا ہے. ڈی جی ایف آئی اے اور اسحاق ڈار کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں.


    نیب نے اسحاق ڈار، سعد رفیق، انوشہ رحمان اور ثنا اللہ زہری کے خلاف تفتیش کی منظوری دے دی


    یاد رہے کہ گذشتہ دونوں‌چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرصدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہوا تھا، جس میں سابق وزرا اور اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات کی منظور دی گئی.

    اس اہم اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق آئی ٹی منسٹر انوشہ رحمان، سابق چیئرمین پی ٹی اےاسماعیل کے خلاف تحقیقات کی مظوری دی گئی تھی.

  • این آئی سی ایل کیس: سپریم کورٹ نےدرخواست گزار پر 30 ہزار جرمانہ عائد کردیا

    این آئی سی ایل کیس: سپریم کورٹ نےدرخواست گزار پر 30 ہزار جرمانہ عائد کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں این آئی سی ایل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ملک کو سفارش کے عذاب سے نجات دلائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں این آئی سی ایل کیس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہے، پھرایک اوردرخواست کیوں آگئی؟۔

    سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ درخواست آئی عدالت نے تاثردیا ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوئی تاثرنہیں دیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل اورآپ کے ذہن میں بلا جواز یہ تاثر آگیا، ہم درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی سپریم کورٹ میں ایسی درخواست کی، عدالت نے درخواست گزارکو30 ہزار روپے جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں دینے کا حکم دے دیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ملک کو سفارش کےعذاب سے نجات دلائیں گے، اب سفارش کرانے کے کلچرکو ختم ہونا چاہیے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

  • چیف جسٹس کی نواز شریف کیخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    چیف جسٹس کی نواز شریف کیخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دے دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسکے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شریف خاندان کے خلاف نیب عدالت میں زیر سماعت العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت نے احتساب عدالت کو ریفرنس نمٹانے کے لئے مزید پانچ ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ آخری بار توسیع دے رہے ہیں، اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی، اگر اسی مدت میں احتساب عدالت نے فیصلہ نہ کیا عدالت کے جج سے پوچھیں گے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے بار بار چھ ہفتوں تک مہلت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کی مہلت دی۔

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ کے سپریم کورٹ میں کیسز کو دسمبر تک ملتوی کروا دیتے ہیں، آپ چاہیں تو ہفتے اور اتوار کو بھی ریفرنسز پر کام کر سکتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے یہ وہ کیس ہے جس نے دو بھائیوں میں تلخی پیدا کی، خواجہ حارث نے کہا کہ ایک بار تو میری بات بھی مان لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ آپکی بات مانی لیکن یہی تاثر دیا گیا کہ ہم نے آپ کی بات نہیں مانی۔

    مزید پڑھیں : العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز، ٹرائل مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن ختم

    عدالت نے احتساب عدالت کو سترہ نومبر تک ریفرنس نمٹانے کی آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس مدت میں فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

    خیال رہے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مہلت پانچویں بار ختم ہوگئی، جس کے بعد احتساب عدالت نے مزید مہلت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی چار بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالتِ عظمیٰ نے نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • لوگ چیخ چیخ کر مر جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا، اب سب ججز کا احتساب ہوگا، چیف جسٹس

    لوگ چیخ چیخ کر مر جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا، اب سب ججز کا احتساب ہوگا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثا‌‌ر نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ججز کا احتساب بھی شروع ہو چکا، سب ججز کا احتساب ہو گا، لوگ چیخ چیخ کرمررہےہیں انصاف نہیں مل رہا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ بے ہائی کورٹس کی ذیلی عدالتوں کے سپروائزری کردار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ون نے سات ہزار کیس نمبٹانے ہیں ججز سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں بیس کیس نمبٹائے ہیں کم کیسز کے فیصلے کرنے والے ججز کے خلاف بھی آرٹیکل دو سو نو کے تحت کاروائی ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اب بہت ایکٹو ہے ججز کا احتساب بھی شروع ہو چکا ہے، لوگ چیخ چیخ کر مر جاتے ہیں مگر انہیں انصاف نہیں ملتا ہے، لوگ تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں کسی کو کوئی فکر نہیں۔

    بنچ کے سربراہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اپنی سپروائزری ذمہ داریوں میں ناکام نظر آتی ہائیکورٹس کی نگران کمیٹیاں ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھ رہیں، ہر ججز کو گاڑی چاہیے، بنگلہ چاہیے مالی چاہیے، مراعات چاہیں۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ہم ہائیکورٹ کی نگران کمیٹیوں کے ججز کو چمبر میں بلا کر انکی کارکردگی پوچھیں، اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہائیکورٹ کے سپروائزری کردار سے مطمئن نہیں تو آپ کیا کہیں گے۔

    جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مظفر گڑھ کے ایک ڈسٹرکٹ جج نے پوچھنے پر بتایا کہ انہوں نے بائیس کیسوں کا فیصلہ کیا ہےاب کام نہ کرنے والے ججز کے خلاف بھی مس کنڈکٹ کی کارروائی ہو گی۔

    یاد رہے گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیزصدیقی کو عہدے سے ہٹائے جانے کی سفارش صدرِ پاکستان عارف علوی کو بھجوائی گئی تھی، جس کے بعد صدرِ مملکت عارف علوی نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی منظوری دی تھی۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران قومی اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

    جسس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے متنازعہ خطاب پر جسٹس شوکت عزیز کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت بھی طلب کی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ الزامات کے ثبوت حاصل کریں۔

  • این آر او کیس ، آصف زرداری کےاثاثوں کی تفصیل اورحلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع

    این آر او کیس ، آصف زرداری کےاثاثوں کی تفصیل اورحلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع

    اسلام آباد : سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے اثاثوں کی تفصیل اورحلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرادیا گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل صفائی سےمکالمے میں کہا فاروق نائیک اپنی پارٹی کوبتادیں منصف کبھی کسی کی پارٹی نہیں ہوتا، فاروق نائیک نے جواب دیا کیا کریں جی، اتنا سمجھاتے ہیں زرداری،بلاول اور میں خود بھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں این آر او کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں آصف زرداری کے اثاثوں کی تفصیل اورحلف نامہ جمع کرادیا گیا ۔

    چیف جسٹس نے وکیل صفائی فاروق نائیک سے مکالمے میں کہا وکیل صاحب اب توآصف زرداری کاحلف نامہ جمع ہوچکا ہے،ملک قیوم کاحلف نامہ کیوں جمع نہیں ہورہا۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ فاروق نائیک اپنی پارٹی کوبتادیں منصف کبھی کسی کی پارٹی نہیں ہوتا، جس پر فاروق نائیک نے جواب دیا کیا کریں جی، اتنا سمجھاتے ہیں زرداری، بلاول اور میں خود بھی ۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہوسکتا ہے این آراو سے متعلق درخواست کو سماعت کیلئے منظور نہ کریں، ہوسکتا ہے عدالت اس معاملے کو شاید آگے مزید نہ بڑھائے، آئندہ سماعت پردرخواست قابل سماعت ہونےنہ ہونےکافیصلہ کریں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی آئین کےآرٹیکل چار کے پابند ہیں، جوعبوری حکم نامے ہم دے چکے ہیں ان پرعمل کرائیں گے، عبوری حکم ناموں کو کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا۔

    مزید پڑھیں : این آر او کیس، آصف زرداری اور بچوں‌ کے اثاثوں‌ کی تفصیلات طلب

    مقدمے کی مزید سماعت سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے آصف زرداری سےپھر گزشتہ 10سال کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کیں تھیں اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم برقرار رکھا تھا جبکہ سابق صدر کی بے نظیر بھٹو کے اثاثوں کی تفصیلات نہ مانگنے کی نظرثانی اپیل منظور کرلی تھی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ آصف زرداری تفصیل دینے سے کیوں شرما رہے ہیں؟ بعض سوالات براہ راست آصف زرداری سے پوچھیں گے، ممکن ہےان کے پاس تمام سوالات کے جواب ہوں۔

    وکیل آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ دالت محترمہ شہید کا ٹرائل نہ کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے توبہ توبہ محترمہ کے ٹرائل کا سوچ بھی نہیں سکتا، اثاثے مانگنا ٹرائل کرنا نہیں ہوتا، تشنگی ہے محترمہ کی شہادت کا درست ٹرائل نہیں ہو سکا، محترمہ کی شہادت کاٹرائل آصف زرداری کے دور میں ہوا۔

    وکیل نے استدعا کی تھی عدالت 10 کی بجائے 5سال کے اثاثے کی تفصیل مانگ لے، عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی 5 سالہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

  • تھر کول منصوبہ ناکام، عوامی پیسے کا ضیاع ہوا: چیف جسٹس

    تھر کول منصوبہ ناکام، عوامی پیسے کا ضیاع ہوا: چیف جسٹس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں تھر کول منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبہ مکمل ناکام ہوا، عوامی پیسے کا ضیاع ہوا۔ عدالت نے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق بھی جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صحرائی علاقے تھر میں جاری تھر کول منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سائنسداں ڈاکٹر ثمر مبارک نے عدالت میں بتایا کہ 2015 میں 8 میگا واٹ بجلی شروع ہوگئی، تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئلے سے منسلک منصوبہ بنا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ تعریف نہ کریں، ہم آڈٹ کروائیں گے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کتنا پیسہ ملا کیا کام ہوا؟۔

    ثمر مبارک نے بتایا کہ 2009 میں منصوبے کی لاگت 8.8 ارب تھی، 2 سال میں منصوبہ مکمل ہونا تھا، 2012 میں فنڈنگ شروع ہوئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبہ ناکام ہوگیا؟ جس پر ڈاکٹر ثمر نے کہا کہ منصوبہ ناکام نہیں ہوا بلکہ پیسے نہیں ملے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 3 ارب سے زائد خرچ کر کے 8 میگا واٹ بجلی پیدا ہوئی، چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟

    ڈاکٹر ثمر نے کہا کہ 8 میگا واٹ کے بعد پیسے نہیں ملے، چوکیدار اور ملازمین تک کو پیسے نہیں ملے۔ سابق وزیر احسن اقبال نے فنڈنگ روک دی۔

    چیف جسٹس نے کہ کہ آپ نے کہا پاکستان مالا مال ہوگیا، بتائیں پاکستان مالا مال ہوا؟ تھر کی بجلی کہاں ہے؟ مکمل تحقیقات اور جانکاری کے لیے کمیٹی بنائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ کس نے کہا غلطی کی، اتنا پیسہ کہاں گیا؟ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ اقتصادی، توانائی اور سائنسی ماہرین کو شامل کرنا پڑے گا۔ ’ثمر مبارک صاحب منصوبہ مکمل ناکام ہوا، عوامی پیسے کا ضیاع ہوا‘۔

    عدالت نے منصوبے کا ریکارڈ سلمان اکرم راجہ اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی معاونین ریکارڈ کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کے اراکین تلاش کریں۔

    عدالت نے منصوبے کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق بھی جواب طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ میں مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔

  • عوام سے التجا کرتا ہوں منرل  واٹر پینا بند کر دیں، چیف جسٹس

    عوام سے التجا کرتا ہوں منرل واٹر پینا بند کر دیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار نے عوام سے التجا کی کہ منرل واٹرپینا بند کر دیں، نلکے کا پانی ابال کر پئیں، اللہ کے فضل سے کچھ نہیں نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے قوم سے منرل واٹر نہ پینےکی درخواست کردی۔

    چیف جسٹس نے کہا عوام سے التجا کرتا ہوں منرل واٹرپینا بند کردیں، نلکے کا پانی ابال کر پئیں،اللہ کےفضل سےکچھ نہیں نہیں ہوگا۔

    جسٹس ثاقب ںثار نے ریمارکس میں کہا منرل واٹر کمپنیاں زمین سے پانی نکال کربوتلیں بھرتی ہیں،منرل واٹرکمپنیاں چھوٹی بوتل32روپےمیں بیچ رہی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کمپنیز کا سالانہ منافع ایک بلین سے زائد ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے منرل واٹر کمپنیوں کے وکیل سے کہا اعتزازصاحب آپ جرمنی،ناروےکی مثالیں نہ دیں، وہاں کے دریاؤں میں پانی بہت ہے۔

    چیف جسٹس نے اعتزازاحسن سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے لاہور میں بورنگ کریں تو پانی کتنےفٹ پرآتاہے، اعتزازاحسن نے جواب دیا جی چار سو فٹ پر پانی آتاہے ۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا اس سے نیچے پتھر اور چٹانیں ہیں، جس سے پانی نہیں نکلتا، آپ چاہتےہیں لاہور اورشیخوپورہ کا پانی سکھا دیں، منرل واٹر کمپنیاں مفت میں پانی بھرتی ہیں، لوگ بالٹیاں لے کر بیٹھے رہتے ہیں ان کے نلکوں میں پانی نہیں آتا۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید ریمارکس میں کہا جعلی پانی بیچا جارہا ہے، اربوں گیلن پانی لے کر لاکھوں روپے بھی نہیں دیے گئے، ہم پانی بیچنے والی کمپنیوں کی ٹربائنیں بند کردیتےہیں، پانی بیچنے والی کمپنیوں کو نلکے لگا کر دیتے ہیں۔

    چیف جسٹس کی منرل واٹر کمپنیوں کو ایک روپے فی لیٹر ادا کرنے کی تجویز

    چیف جسٹس نے منرل واٹر کمپنیوں کو ایک روپے فی لیٹر ادا کرنے کی تجویز کرتے ہوئے کہا منرل واٹر کمپنیوں کو تجویز پسند ہے تو بتائیں ورنہ کمپنیاں بند کریں، ایک پیسہ ادا کرکے 92روپے فی لیٹر بیچنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اربوں گیلن پانی استعمال کرکےاربوں کما گئے، بدلے میں عوام کو مہنگے پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا، کوئی پیسہ ادا نہیں کیا اور زیر زمین پانی استعمال کرگئے، میری تو لوگوں سے اپیل ہے، منرل واٹر والا پانی استعمال نہ کریں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا بےچاری عوام بالٹی اور لوٹا لیے پانی کے لیے دربدرپھرتی ہے، خدا کے لیے بوتلوں کا پانی نہ پیاجائے، یہ کمپنیاں توایک روپے فی لیٹر بھی دینے کو تیار نہیں، ہمارا ہی پانی بوتلوں میں بھرکر ہمیں ہی بیچا جاتا ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے جن لوگوں نے ہماری زمینوں کو بنجر کیا ان کا پانی کا استعمال بند کریں، سروس اسٹیشنز پر میٹھے پانی سے گاڑیاں دھوئی جارہی ہیں، جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ایک کار پر 400 لیٹر پانی خرچ ہوتاہے، سیمنٹ انڈسٹری کےلئے 5ہزارفی کیوسک قیمت نافذہوگئی ہے۔

    سپریم کورٹ نے پانی کے ریٹ اور ان پر چارجز عائد کرنے کے لیے قانون سازی کا حکم دے دیا ، عدالت نےحکم منرل واٹرکمپنیوں کی رضامندی سے جاری کیا ۔

    عدالت نے کہا صوبائی اور مرکزی حکومتیں اس سلسلےمیں قانون سازی کریں اور 3ہفتے میں عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت3 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    گذشتہ سماعت میں بھی چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ منرل واٹر کمپنیوں کی طرف سے فی لیٹر اعشاریہ دو پیسے کی ادائیگی کوئی ریٹ نہیں، کم از کم نرخ 50 پیسے یا 1 روپیہ فی لیٹر ہونا چاہیے،چیف جسٹس نے کہا کہ پانی ملک کا سب سے بڑا عطیہ ہے جو مفت میں دیا جا رہا ہے

  • گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد :چیف جسٹس نے نیب سے ایم ڈی پی ایس او کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق رپورٹ 4 ہفتے میں طلب کر لی اور کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تیل، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا گزشتہ سماعت پر چوہدری سرور کو بلایا گیا، چوہدری سرور کو قیمتوں اورتعیناتیوں کا معاملہ دیکھنے کو کہا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سےڈالرکہاں چلاگیاہے، مہنگائی ہے کہ پکڑ میں نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ایس او میں تعیناتیاں سابق حکومت نے کیں،اقرباپروری ہوئی، ایل این جی کی درآمدات سے متعلق بھی شکایات تھیں، ایل این جی کی درآمد سے متعلق نیب انکوائری کر رہا ہے۔

    وکیل پی ایس او نے کہا قیمتوں کے تعین کے لیے پیپرا مددگار ہوسکتا ہے، پیپرا ایک ماہ کے بجائے 15 کا ٹینڈر دے تو فرق آسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر ایک پیسے کا بھی فرق ہو تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کرمعاملہ دیکھ لیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے وکیل پی ایس او سے استفسار کیا کہ سابق حکومت نےکون سی غیر قانونی تعیناتیاں کیں؟ جس کے جواب میں وکیل پی ایس او نے بتایا کہ سابق حکومت نےصرف ایم ڈی پی ایس اوکی تعیناتی کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا ایم ڈی کی تنخواہ کیا تھی ہمیں بتائیں ، جس پر وکیل پی ایس او نے کہا ایم ڈی کی ماہانہ تنخواہ 37لاکھ روپےتھی، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کیا یہ ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی، ہم نے ایم ڈی کو بلایا تھا کیا وہ آئے ہیں؟

    وکیل کا کہنا تھا کہ 3نام بھیجے گئےاس میں سے حکومت نےعمران الحق کومنتخب کیا، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا تنخواہ اورمراعات کا کیا تعین ہے، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہ اورمراعات مارکیٹ ریٹ پردی جاتی ہیں، سابق ایم ڈی 2012 میں ریٹائر ہوئے، 12 لاکھ دیے جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا نیب کو کیس دیکھنا چاہیے،اس کی رفتار سست ہے رفتار تیز کرے ، 4 ہفتے کے اندرتحقیقات مکمل کریں اورعدالت کو آگاہ کریں۔

    پی ایس اوکی آڈٹ فرم کےپی ایم جی کوادا43 لاکھ کم کرکے15 لاکھ کردیے گئے جبکہ ایل این جی معاملے کی ان چیمبر بریفنگ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

  • جج بریٹ کیوانوف نے شدید مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ کا حلف اٹھالیا

    جج بریٹ کیوانوف نے شدید مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ کا حلف اٹھالیا

    واشنگٹن : امریکی صدر کے نامزد جج بریٹ کیوانوف نے شدید مخالفت اور جنسی ہراسگی الزامات کے باوجود سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ کے لیے نامزد متنازع جج بریٹ کیوانوف نے خود پر لگائے گئے جنسی ہراسگی کے الزامات کے باوجود اکثریت رائے سے جج تعینات ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹ میں ریپبلیکن کے 50 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ  سے ڈیموکریٹ کے 48 اراکین نے ٹرمپ کے متنازع نامزد جج کی منظوری کے خلاف ووٹ دیئے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی سیکیورٹی ایجنسی ایف بی آئی کی جانب سے متنازع جج پر جنسی ہراسگی الزامات کی مسلسل 11 گھنٹے تحقیقات ہوئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جس کے بعد سینیٹرز نے شش و پنج کے عالم میں بریٹ کیوانوف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی فتح ہے جو نومبر میں ہونے والے امریکا کے وسط مدتی انتخابات میں اثر دکھائے گی۔

    واضح ہے کہ ٹرمپ کے نامزد جج کی تعیناتی سے قبل ہزاروں امریکی شہریوں کی جانب سے دارالحکومت واشنگٹن میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے، پولیس نے سینیٹ آفس کی عمارت میں داخل ہونے والے 302 مظاہرین کو حراست میں بھی لیا تھا۔

    یاد رہے کہ کچھ روز قبل بریٹ کیوانو پر کچھ روز قبل ایک خاتون پروفیسر نے جنسی طور پر ہراساں کرنے الزام لگایا تھا، جس کے بعد ایف بی آئی نے نامزد جج بریٹ کیوانوف کیخلاف تحقیقات شروع کردی تھی۔

    ڈاکٹر کرسٹین بلیسی فورڈ کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں بریٹ کیوانوف نے 36 برس قبل سنہ 1980 میں ایک تقریب کے دوران شراب نوشی کی کثرت کے باعث مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جج کی تعیناتی سے متعلق ووٹنگ کے دوران بھی مظاہرین کی جانب سے ’شیم‘ کے نعرے لگائے جارہے تھے۔

  • ہم کیسے مسلمان ہیں کہ نعلین پاک کی بھی حفاظت نہیں کرسکتے؟ جسٹس ثاقب نثار

    ہم کیسے مسلمان ہیں کہ نعلین پاک کی بھی حفاظت نہیں کرسکتے؟ جسٹس ثاقب نثار

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر ہم نعلین مبارک کی حفاظت نہیں کرسکتے تو کس بات کے مسلمان ہیں؟ یہ کسی مسجد سے جوتی چوری کا معاملہ نہیں۔

    یہ بات انہوں نے بادشاہی مسجد سے نعلین مبارک چوری کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہی، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بادشاہی مسجد سے نعلین مبارک چوری ہونے کے معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کی۔

    سپریم کورٹ نے ڈی جی اوقاف کو کل بروز اتوار طلب کرلیا ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ہم نعلین مبارک کی حفاظت نہیں کرسکتے تو کس بات کے مسلمان ہیں؟ یہ کسی مسجد سے جوتی چوری کا معاملہ نہیں ہے، معلوم نہیں نعلین پاک کی کتنی بے حرمتی ہو رہی ہوگی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے کس کو اوقاف کی وزارت دی ہے؟ جس کے جواب میں نمائندہ محکمہ اوقاف نے کہا کہ محکمہ کا ککوئی صوبائی وزیرنہیں ہے معاملات کو ڈی جی اوقاف خود دیکھتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی اوقاف کو کل بروز اتوار عدالت میں طلب کرلیا۔