Tag: supreme court

  • پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش، نوجوت سنگھ  سدھو کے خلاف انتقامی اقدام

    پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش، نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف انتقامی اقدام

    نئی دہلی : پاکستان آنا اوردوستی کا ہاتھ بڑھانا سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کا جرم بن گیا، عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد وطن واپس لوٹنے والے سدھو  پر 20 سالہ پرانا ٹریفک حادثے کا مقدمہ کھول دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش سابق بھارتی کرکٹرنوجوت سنگھ کا بڑا جرم بن گیا، وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد سے بھارتی انتہاپسندوں کی جانب سے نفرت اور تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    ایک اور انتقامی اقدام کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ میں سدھو کیخلاف بیس سالہ پرانا سڑک حادثے کا مقدمہ کھول دیا گیا، بھارتی سپریم کورٹ نے 1998 میں ہونے والے ٹریفک حادثے میں ایک شخص کی ہلاکت سے متعلق کیس میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔

    خیال رہے 1998 میں سدھو اور ان کے دوست روپیندر سنگھ ساندھو کی گاڑی کی زد میں آکر ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا، درج مقدمے میں عدالت نے سدھو کو باعزت بری کردیا تھا۔

    اب متاثرہ افرادکی درخواست پر دوبارہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

    مزید پڑھیں : پاکستان کرتاپور کا راستہ کھولنے کو تیار ہے، بھارت خیرسگالی کاجواب دے، سدھو

    خیال رہے کرتارپور بارڈر پر نوجوت سنگھ سدھونے مودی سرکار کو پاکستان کی خیرسگالی کا جواب خیرسگالی سے دینے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

    سدھو کا کہنا تھا کہ اپنے دوست اور پاکستان کے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرنے کے لئےالفاظ نہیں ہیں، یہ پہل اتنی جلدی ہوئی کہ اس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔

    واضح رہے بھارت کے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے عمران خان کی حلف برداری میں شرکت اور آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ مختصر ملاقات کی تھی، ملاقات میں آرمی چیف نے نوجوت سنگھ سدھو سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا، خیریت دریافت کی اور گلے بھی ملے۔

    جس کے بعد بھارتی میڈیا اور انتہا پسند آگ بگولہ ہوگئے تھے، مشتعل افراد نے سدھو کے پوسٹر اور پتلے کو آگ لگائی گئی جبکہ انتہا پسند جماعتوں نے بھارت کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے، جس میں سدھو کے پتلے کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا۔

  • سابق آئی جی پنجاب نے پاکپتن واقعے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    سابق آئی جی پنجاب نے پاکپتن واقعے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    اسلام آباد: سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے ڈی پی او پاکپتن کے معاملے پر تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 24 اگست کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پی ایس او کے ذریعے پولیس افسران کو رات دس بجے طلب کیا۔

    رپورٹ کے مطابق مانیکا فیملی کے دوست احسن اقبال جمیل وزیراعلیٰ کی دعوت پر دفتر آئے اور واقعات کی شکایت کی، انہوں نے پولیس کی جانب سے خاور مانیکا کی بیٹی کا ہاتھ پکڑنے اور دھکے دینے کی بھی شکایت کی۔

    ڈی پی او پاکپتن نے آرپی او اور وزیراعلیٰ کے سامنے پراعتماد طریقے سے اپنی پوزیشن واضح کی، ڈی پی او نے احسن اقبال جمیل سے کہا کہ اگر پیغامات کا مطلب کسی کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنا ہے تو میں نہیں جاؤں گا، ڈی پی او لوگوں کے ڈیروں پر نہیں جاتے۔

    سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ آئندہ وزیر اعلیٰ کسی پولیس افسر کو براہ راست طلب نہ کریں، اگر کسی افسر سے متعلق کوئی معاملہ ہو تو اسے آئی جی پنجاب کے ذریعے طلب کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کی تھی۔

  • بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا

    بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا

    نئی دہلی : بھارتی سپریم کورٹ نے  ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق ہم جنس پرستوں کو برابری کا حق حاصل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز ہم جنس پرستی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے کے نکال کر قانوناً جائز  قرار  دے دیا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’برطانیہ کے دور حکومت میں نافذ کیی گئی قانون دفعہ 377 شہری کی انفرادی آزادی کے خلاف ہے جبکہ ہر فرد کو اس کا بنیادی حق حاصل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ مقدمے کی سماعت چیف جسٹس دیپک مشرا اور جج اندو مالہوترا سمیت پانچ رکنی بنچ کی۔

    بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’جنسی رجحان کسی بھی شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور اس بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا اظہار آزادی کے حق سے متصادم ہے‘۔

    سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں کہا کہ ’بھارت کے آئین نے ہم جنس پرستوں کو دوسرے شہریوں کی مانند برابری کا حق دیا ہے اس کو چھینا نہیں جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی دور میں نافذ ہونے والی دفعہ 377 کے تحت ایک ہی صنف کے دو افراد کا آپس میں جنسی تعلق قائم کرنا جرم تھا، جس کی سزا 10 برس قید تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بھارت میں مذکورہ قانون کے ذریعے ٹرانس جینڈر اور ہم جنس پرستوں کو پریشان کیا جاتا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    خیال رہے کہ سنہ 1993 میں دفعہ 377 کے قانون کو چیلنج کیا گیا تھا جس پر 24 سال بعد فیصلہ آیا، ہائی کورٹ نے 2009 میں مذکورہ قانون کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ہی صنف کے افراد کا آپس میں تعلق قانونی قرار دیا تھا جبکہ سنہ 2013 میں سریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا سمیت 25 ممالک ایسے ہیں جو ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے چکے ہیں، جبکہ 76 ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی جرم ہے اور بعض ممالک میں ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔

  • پاکستان منی لانڈرنگ میں ٹاپ تھری ملکوں میں سے ہے، رپورٹ

    پاکستان منی لانڈرنگ میں ٹاپ تھری ملکوں میں سے ہے، رپورٹ

    اسلام آباد : فارن بینک اکاؤنٹ کیس میں اسٹیٹ بینک  نے انکوائری  رپورٹ میں کہا کہ پاکستان منی لانڈرنگ میں ٹاپ تھری ملکوں میں سے ہے جبکہ   5027پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادوں کا انکشاف کیا گیا ۔

    تفصیلات کے مطابق فارن بینک اکاؤنٹ کیس میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی ، رپورٹ میں انکوئری کا دائرہ یو کے اور یو اے ای سے آگے بڑھانے کی سفارش کی گئی اور کہا گیا ہے کہ اثاثے واپس لانے والی کمیٹی کا دائرہ اختیار عالمی قانون کے تحت باہمی معلومات تک بڑھایا جائے۔

    اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ میں پاکستان کا نام لیاگیا، پاکستان منی لانڈرنگ میں ٹاپ تھری ملکوں میں سے ہے۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق 150 بلین ڈالرز کی پرائیویٹ پراپرٹیز منظرعام پر آئیں، دبئی میں 16-2015 میں 135 بلین درہم چھپائے گئے، یو اے ای، یو ایس اے، یو کے، سوئٹزر لینڈ، ہانگ کانگ پناہ گاہیں ہیں، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 5366افراد نے اثاثے ظاہر کیے، اسکیم کے ذریعے 8.1بلین یو ایس ڈالرز کی جائیدادیں سامنے آئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا فارن اکاؤنٹس انکوائری میں سست روی کی وجہ کمزور نظام ہے، انکوائری میں تاخیرکی وجہ انٹرنیشنل قوانین بھی ہیں۔

     5027 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، رپورٹ

    دوسری جانب جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 110 ارب روپے مالیت کی 5027 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، بیرونی ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں کا تخمینہ150 ارب ڈالرز ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ سے ریکارڈ کی تفصیلات درکارہیں، ایف آئی اے اب تک 54 فوجداری انکوائریاں درج کرچکا ہے، دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ نہ ملنے سے تحقیقات تعطل کا شکار ہیں۔

    ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق 626 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادیں فرسٹ سورس سےپتہ چلیں جبکہ 7614 جائیدادیں سائبرانٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر سامنے آئیں، جائیدادوں کی ریکوری کیلئے باہمی قانونی تعاون کی درخواست کرنا ہوگی۔

    مزید پڑھیں : منی لانڈرنگ کیس ، بیرون ملک جائیداد رکھنے والے 200 افراد کی فہرست طلب

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کو 3منی لانڈرنگ سورس کاملک قرار دیا ہے۔

    خیال رہے منی لانڈرنگ کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بیرون ملک جائیداد رکھنے والے 200افراد کی فہرست طلب کرلی جبکہ منی لانڈرنگ کرنے والےڈھائی سو افراد کے کوائف بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔

  • ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں آئی جی پنجاب پولیس، رضوان گوندل، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگرافراد پیش ہوئے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام، سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور پی آر او نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔

    آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ افسران کوآئندہ بغیراجازت وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے واقعے کے وقت ہی افسران کوکیوں نہیں روکا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ توکہتے ہیں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، ڈی پی او کے تبادلے کی فائل بھی دکھائیں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا زبانی حکم دیا گیا تھا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ رات ایک بجے کہاں سے تبادلے کا حکم دیا۔

    انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حاکم کے حکم کی تعمیل کر دی، کیا آپ نے رضوان گوندل اورآرپی او سے ملاقات کا پوچھا؟۔

    آئی جی سید کلیم امام نے کہا کہ خاتون سے بد تمیزی پررضوان گوندل نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے افسران سے واقعات سے متعلق معلومات چھپائیں، تبادلہ انتظامی فیصلہ تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ رات ایک بجے زبانی کرنے کی کیا ضرورت تھی، بتائیں کس انکوائری کی روشنی میں تبادلے کا حکم دیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ تبادلےکا فائل ورک زبانی احکامات کے بعد ہوا، کرائم ڈائری دیکھ کربہت سے فیصلے رات کو کرتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرکورات ایک بجے احکامات دیے تھے، بطورایس ایس پی اسلام آباد میرا تبادلہ رات 2 بجے ہوا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احسن جمیل گجرکے خلاف کیا کارروائی کی، آپ کون ہوتے ہیں پولیس کوحکم دینے والے جس پر احسن جمیل گجر نے جواب دیا کہ خاورمانیکا کے بچوں کا ان آفیشل گارڈین ہوں۔

    احسن جمیل گجر نے بتایا کہ میں نےکسی تبادلے کا نہیں کہا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کوچیمبرمیں کہا تھا سچ بولیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او کو یغام بھیجا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

    آئی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی اونے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرےتے ہوئے کہا کہ کیا بطورکمانڈرآپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زبانی ٹرانسفرکے احکامات کیوں دیےتھے؟ ہمیں فائل دکھائیں، آئی جی نے جواب دیا کہ میں خود کوعدالت کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔

    احسن گجر نے کہا کہ بچے دباؤمیں تھے، افریقا میں مشترکہ دوست کوفون آیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افریقا سے یاد آئی ایس آئی کے کرنل کدھرہیں؟۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔

    چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک شہری ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکرجھوٹ مت بولیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلا کرذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ ہم ایف آئی آردرج کرائیں گے۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندان نے عدالت میں کہا کہ احسن گجرنے کہا تھا پیغام بھیجا تھا آپ نےعمل کیوں نہیں کیا؟ کہا انگریزدورمیں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنردیکھتا تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ آرپی او ساہیوال نے عدالت میں کہا کہ میں رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کیوں نہ وزیراعلیٰ پر62 ون ایف کا اطلاق کریں، وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے کہا میں نے اچھی نیت سے پولیس کوبلوایا۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا آپ حیات ہیں احسن گجرآپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے؟ جس پر خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجرفیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے۔

    خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے پولیس کوڈانٹا پولیس نے معافی مانگی، میرے پاؤں پکڑے گئے میں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگو۔

    انہوں نے عدالت میں کہا کہ بدتمیری کی گئی میری بیٹی کوبلوا کرپوچھ لیں، کمرہ عدالت میں خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس اہلکارنے بدتمیزی کی ایکشن ہوگا، سمجھ سےبالاترہے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی۔

    پی ایس او وزیراعلیٰ پنجاب حیدر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اورآر پی او کو وزیراعلیٰ نے چائے پر بلانے کا کہا، ڈی پی اوکے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔

    ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں کہا کہ آئی جی سید کلیم امام کے کہنے پرڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔

    رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس او حیدر نے کہا وزیراعلیٰ نے کہا ڈی پی اوکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سی ایس او حیدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایسا کہا؟ جس پرسی ایس او نے جواب دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جےآئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعلیٰ کو62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کوطلب کرکے پوچھا جائے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ دائیں بائیں اوردرمیان سے جھوٹ بولاجا رہا ہے، آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خود مختارہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی۔

    انہوں نے سوال کیا کہ احسن گجرکون ہے اس کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے، وہ کیسے وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گیا، معاملے کی تحقیقات کرائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں قبائلی روایت نہیں جمہوریت ہے، انہوں نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیوں فون کرکے مداخلت کی؟۔

    کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ میں اوررضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کراؤں گا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگراختیار حاصل ہے توذاتی مداخلت والے آپ کون ہوتے ہیں، کرنل طارق نے کہا کہ رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ایک غیرمتعلقہ شخص نے مداخلت کی۔

    عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کے پہلو پر انکوائری اور وزیراعلیٰ کے چیف سیکیورٹی افسر عمر کو احسن جمیل کی مداخلت کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ انکوائری میں رضوان گوندل اورآرپی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھیں، وزیراعلیٰ کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پررپورٹ پیش کی جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل آج سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاور مانیکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت میں ہی بات کروں گا، عدالت سے قبل میڈیا سے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا تھا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا تھا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے 30 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

  • سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    اسلام آباد :  سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت میں  چیف جسٹس نے خاور مانیکا اور جمیل گجر کو پیرکو طلب کرلیا اور کہا حاضرنہ ہوئے تو پھر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے ۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔

    سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    آئی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

    سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا، مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپر نہیں دیکھنا تھا۔

    رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔

    سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔

    وفقے کے بعد سابق ڈی پی اوپاکپتن رضوان گوندل ازخود نوٹس کیس کی شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او کھڑے ہیں، ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہورہا، خاور مانیکا نے کہا بیٹی کو اسکول سے پک کرنا ہے،3 بجے سے پہلے لاہورنہیں چھوڑسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آرپی اوساہیوال اوررضوان گوندل کل تک بیان حلفی جمع کرائیں اور احسن جمیل گجراوردیگر پیرکوعدالت میں حاضر ہو، احسن جمیل گجرکی حاضری کوآئی جی نےیقینی بنانا ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا 62 ون ایف پر فیصلوں کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پڑھ کرآئیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر عدالتی فیصلوں کا اسکوپ کتنا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا احسن جمیل گجرکو پیار سے لائیے گا، احسن جمیل گجر پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر اگلالائحہ عمل دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کیا تھا اور ساتھ ہی پنجاب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

    اس سے قبل اپوزیشن پارٹیوں‌ نے الزام لگایا تھا کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا۔

    حکومت پنجاب کا موقف تھا کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمود کو ڈی پی اوپاکپتن تعینات کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    واقعے کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتا رہا، باربار کہا گیا ڈیرے پر جاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کے ذریعے کمیٹی کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔

  • لاء کالجز اصلاحات: 3 سالہ ایل ایل بی کا یہ آخری سال ہے‘ سپریم کورٹ

    لاء کالجز اصلاحات: 3 سالہ ایل ایل بی کا یہ آخری سال ہے‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاء کالجزاصلاحات کیس کا فیصلہ سنا دیا، 11 یونیورسٹیز کے علاوہ کوئی یونیورسٹی لاء کالج کا الحاق نہیں کرسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے لاء کالجز اصلاحات کیس کا فیصلہ جاری کردیا، فیصلہ جسٹس عمرعطا بندیال نے پڑھ کرسنایا۔

    عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ 11 یونیورسٹیز کے علاوہ کوئی یونیورسٹی لاء کالج کا الحاق نہیں کرسکتی، 31 دسمبر2018 کے بعد ایل ایل بی 5 سال کا ہوگا، 5 سالہ ایل ایل بی سالانہ سمسٹرکی بنیاد پر ہوگا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لاء کالجز میں شام کی کلاسز ختم اور جج لاء کالج میں پڑھا سکتا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کالجزکا یونیورسٹیزسے الحاق کا فیصلہ ایچ ای سی کرے، ایچ ای سی، پاکستان بار کونسل 6 ہفتے میں پیشرفت مکمل کرکے رپورٹ دیں۔

    عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ فیصلے کے مطابق پاکستان بارکونسل سے منظوری نہ لینے والے کالجزمعطل سمجھے جائیں، پاکستان بارکونسل، ایچ ای سی کے متاثرہ براہ راست عدالت سے رجوع کریں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لاء کالجزکا معیاری تعلیم فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے، لاء گریجویٹ کے لیے انٹری ٹیسٹ ایچ ای سی لے گا۔

    چیف جسٹس نے ملکی جامعات کوکسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک دیا

    یاد رہے کہ رواں سال 20 جنوری کو چیف جسٹس نے ملکی جامعات کو کسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک دیا تھا اور یونیوسٹیوں کے وائس چانسلرز کو لاء کالجز کی انسپکشن کا حکم دیا تھا۔

  • دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر،  ڈیم فنڈ میں اب تک کتنی رقم جمع ہوگئی

    دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر، ڈیم فنڈ میں اب تک کتنی رقم جمع ہوگئی

    کراچی : دنیا بھر سے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے عطیات کا سلسلہ جاری ہے ،اب تک مجموعی طور پر جمع ہونے والی رقم ایک ارب 58 کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے  ویب سائٹ پر دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے جمع ہونے والی رقم کی تفصیلات جاری کردیں، جس کے مطابق 6 جولائی سے 28 اگست تک مختلف بینکوں میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے کھولے جانے والے اکاؤنٹس میں ایک ارب 58 کروڑ 47 لاکھ 65 ہزار 924 روپے جمع ہوئے۔

    ڈیم فنڈز میں شہریوں نے بینکوں کے ذریعے ایک ارب 52 کروڑ سے زائد روپے جمع کرائے ، اس کے علاوہ مختلف موبائل کمپنیوں کے ایس ایم ایس سسٹم کے تحت 5 کروڑ سترہ لاکھ روپے جمع کرائے ہوئے۔

    یاد رہے کہ 6 جولائی کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے احکامات اور فنڈز قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

    فنانس ڈویژن نے ایک قدم مزید اور بڑھاتے ہوئے دیامربھاشا ڈیم فنڈز قائم کرنے کیلئے مختلف اداروں کو خط ارسال کیا تھا، جس میں آڈیٹر جنرل، کنٹرولرجنرل اکاؤنٹس، اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان اور دیگر اداروں کے حکام سے لوگوں کی رقوم اسٹیٹ بینک اورنیشنل بینک کی برانچزمیں جمع کرانے کا انتظامات کے حوالے سے اقدامات کرنے کا کہا گیا تھا۔

    عد ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سب سے پہلے ڈیموں کی تعمیر کے لئے دس لاکھ روپے کا عطیہ جمع کرایا تھا پھر میئر کراچی اور پیر پگارا نے ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی تھی اور وسیم اختر نے اپنی اور کے ایم سی افسران کی طرف سے ایک ایک لاکھ روپے فنڈ عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    مسلح افواج نے ڈیموں کی تعمیر کے کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تینوں مسلح افواج کے افسران 2دن کی تنخواہ فنڈ میں جمع کرائیں گے۔

    چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے 15 لاکھ جبکہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور اداکار حمزہ علی عباسی سمیت ملک میں بسنے والے دیگر لوگوں نے بھی ڈیمز کی تعمیر میں حصہ ڈالا، شاہد آفریدی نے اپنی اور فاؤنڈیشن کی جانب سے 15 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا بعدازاں پاکستانی نژاد برطانوی باکسر نے بھی 10 لاکھ روپے عطیہ کیے۔

    سیکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان نے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے 14 جولائی کو اہم فیصلہ کرتے ہوئے سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام رجسٹرڈ کمپنیوں کو کمرشل سماجی ذمہ داری کے تحت ڈیموں کی تعمیر میں عطیات دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    دیامربھاشا اورمہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے قائم  فنڈ میں اب اسٹیٹ بینک و دیگر و نجی بینکوں سمیت دیگر سرکاری و پرائیوٹ اداروں کے ملازمین اور عوام نے کروڑوں روپے عطیہ کیے جس کا سلسلہ جاری ہے۔

  • سپریم کورٹ کا نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کے دوران حسین حقانی کو واپس لانے کا معاملہ ایف آئی اے سے لے کرنیب کے سپرد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میموگیٹ اسکینڈل کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ امریکا حسین حقانی کو حوالے کرنے سے انکارکرتا ہے تو کیا حل ہوگا؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں امریکا کے قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنا ہوگا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا ان کی عدالت میں جانے کے لیے ہمارے پاس کافی مواد موجود ہے؟ جس پرڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی عدالت میں نہیں جانا پڑے گا۔

    انہوں نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ محکمہ خارجہ کے شعبہ باہمی تعاون مشاورت سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کہ کرپشن کیس کے تحت حسین حقانی کی تحویل مانگی جائے، کام کے لیے نیب کا ادارہ موثر ہوگا۔

    سپریم کورٹ نے حسین حقانی کوواپس لانے کا معاملہ ایف آئی اے سے لے کرنیب کے سپرد کردیا اور اس حوالے نیب کو احکامات جاری کردیے۔

    عدالت عظمیٰ نے نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک ماہ میں ملزمان کی حوا لگی کا قانون پارلیمنٹ سے منظورکرایا جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت 3 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • پاکستان سے باہر میری کوئی جائیداد یا بینک اکاؤنٹ نہیں، آصف زرداری کا بیان حلفی

    پاکستان سے باہر میری کوئی جائیداد یا بینک اکاؤنٹ نہیں، آصف زرداری کا بیان حلفی

    اسلام آباد : سابق صدر آصف علی زرداری نے این آراو کیس میں بیان حلفی جمع کرادیا، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے باہر میری کوئی جائیداد یا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ اسلام آباد میں این آر او کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

    اس موقع پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے مقدمے میں بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، آصف زرداری کا بیان حلفی ایک صفحے پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ پاکستان سے باہر کہیں بھی میری کوئی جائیداد نہیں۔

    اس کے علاوہ میرا کوئی بینک اکاؤنٹ بھی پاکستان سے باہر نہیں ہے اور اس بیان حلفی میں جو بات کی ہے میں اس پرقائم ہوں،  مذکورہ بیان حلفی آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جمع کرایا، این آراو کے مقدمے کی آئندہ سماعت کل ہوگی۔