Tag: supreme court

  • اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری پر اتحادی سربراہان کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ

    اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری پر اتحادی سربراہان کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ

    اسلام آباد: اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے اہم معاملے پر اتحادی سربراہان کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری پر مشاورت کی گئی اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرری ہونی چاہیے۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ تینوں رہنماؤں میں جوڈیشل کمیشن سے متعلق آئین و قانون میں ترمیم پر بھی مشاورت کی گئی، پارلیمانی کمیٹی کو مزید با اختیار بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    فارق ایچ نائیک کو تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے، ذرائع نے بتایا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر بھی غور کیا گیا۔

    ٹیلیفونک بات چیت میں پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کا صرف پوسٹ آفس کا کردار ختم کرنے اور پارلیمانی کمیٹی کو مزید با اختیار بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا اور توہین عدالت کے قانون میں ترامیم پر بھی مشاورت کی گئی۔

    ذرائع نے بتایا کہ عدالتی اصلاحات کا مسودہ قانون تیار پر بھی اتفاق رائے پایا گیا۔

  • دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    رواں سال 14 اور 18جنوری کو بالترتیب صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔

    دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے تقریباً ایک ماہ بعد تک دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاریخ نہ دیئے جانے پر 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایک اور بحث نے جنم لیا کہ صدر کو یہ اختیار ہے بھی یا نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، اسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ نے الیکشن کے التواء پر ازخود نوٹس لیا۔

    چیف جسٹس کا از خود نوٹس

    22فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ

    پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جے یو آئی ایف نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ میں شامل دو ججوں، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ججوں کو بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے، جنہوں نے بعد ازاں بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    اس کے بعد سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے مزید دو ججز علیحدہ ہوگئے، 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

    ازخود نوٹس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو پنجاب میں الیکشن انتخابات کیلئے30 اپریل سے7 مئی تک کی تاریخیں تجویز کی تھیں۔

    الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کردیے

    سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر کی جانب سے تاریخیں تجویز کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری کیا اور اس کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم پھر اچانک بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امن و امان کی صورتحال سازگار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے آڈر میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کرسکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست

    الیکشن کمیشن کے اس اقدام کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی، 27مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔

    28مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم - Pakistan - Dawn News

    29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

    30مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بنچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔

    31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تین رکنی ججز کی سماعت کا فیصلہ محفوظ

    اس تین رکنی بینچ نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد 3 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 4 اپریل کو سنایا اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں معمولی ردوبدل کیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت ای سی پی کے وکیل کا ججز سے مکالمہ</h3

    قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عرفان قادر نے کہا کہ پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔

    بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی، عرفان قادر

    اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں؟

    ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2ججز کے نوٹ کیخلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، جواباً چیف جسٹس نے فوری کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

    ون مین شو کس کو کہا گیا ہے؟

    وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا؟ تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا

    ایک موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو نہیں مانا تھا، راجہ پرویز والے معاملے میں خط لکھ کر سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی گئی، نظریہ ضرورت بہت اچھی چیز تھی، ہم تواس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔

    اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل

    کیس کی سماعت کے آغاز میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پر آٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، تاہم بینچ سے متعلق ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔

    اٹارنی جنرل صاحب!! بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہوجائیں گی۔

    پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    نیوی اور ایئر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔

    ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ کا بیان

    مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیانات دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر اعتبار ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض اور دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا بیان

    عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا۔ چیف جسٹس نے ان دریافت کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملیں گے تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔

     سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟چیف جسٹس

    چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔

  • آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا، وزیر اعظم کا عدالتی فیصلے پر شدید رد عمل

    آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا، وزیر اعظم کا عدالتی فیصلے پر شدید رد عمل

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے التوا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے دو صوبوں میں انتخابات کے التوا کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کرنے والے عدالتی فیصلے کو عدل و انصاف کا قتل قرار دے دیا ہے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ آج 4 اپریل ہے اور شہید ذوالفقارعلی بھٹو کا جوڈیشل قتل آج ہی ہوا تھا، آج چار اپریل کو 72 گھٹنے میں جو کارروائیاں ہوئیں وہ بھی عدل و انصاف کا قتل ہے۔

    وزیر اعظم نے فیصلے کو مسترد کرنے والے اپنے واضح رد عمل میں کہا "سپریم کورٹ کے فیصلے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔”

    انھوں نے کہا شہید ذوالفقارعلی بھٹو 1973 کے آئین کے بانیوں میں شامل ہیں، ان کی تاریخی خدمت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل جوڈیشل تھا، فیصلہ کرنے والے ججز میں سے ایک نے بعد میں اس کا ذکر کیا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے اور معمولی تبدیلی کے ساتھ انتخابی شیڈول بحال کر دیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں گے، کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کرائے جائیں، حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے گی اور انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے۔

    وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا

    دوسری طرف وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے پنجاب میں الیکشن سے متعلق فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اقلیتی ہے۔

  • عدالت نے سازشی قوتوں کو دفن کردیا، شاہ محمود قریشی

    عدالت نے سازشی قوتوں کو دفن کردیا، شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے سازشی قوتوں کو دفن کردیا۔

    دو صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کو آج اپنا سر فخر سے اٹھا کر چلنا ہے، ایسےلوگ موجود ہیں جو ڈرتے نہیں اور قوم کو امید دیتے ہیں، وکلاء برداری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، وکلا برادری نے عدالت اور چیف جسٹس کا بھرپور ساتھ دیا۔

    شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے متعلق گفتگو میں کہا کہ عمران خان پر حملے ہوئے ، شدید تنقید کی گئی لیکن وہ ڈرا نہیں اور جھکا نہیں، وہ چٹان کی طرح ڈٹا رہا، عمران خان نے ہمارے دلوں سے بھی خوف کا بت توڑ دیا ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ آئیں ایسا ماحول پیدا کریں کہ جس میں صاف وشفاف الیکشن ہوسکیں، ہماری ذاتی لڑائی نہیں ہے، آپ جائیں لوگوں کے سامنے اپنا مؤقف رکھیں، آخری فیصلہ عوام کا ہی ہوگا۔

    شاہ محمود قریشی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کا نواسہ مارشل لاء کی دھمکیاں دے رہا ہے، بھٹو اور زرداری کی پیپلزپارٹی میں یہی فرق ہے، محسن نقوی اب بس کردیں اور ملک میں شفاف انتخابات ہونے دیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی اسمبلی میں الیکشن کیس کا فیصلہ سنادیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا 8اکتوبر کو الیکشن کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کا کوئی آئینی و قانونی اختیار نہیں تھا۔

    عدالت کے مطابق آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ معمولی تبدیلی کے ساتھ جاری کرتے ہوئے انتخابی شیڈول بحال کردیا۔

     

  • حکومت آئین اور وکلاء سے خوفزدہ ہے، فواد چوہدری

    حکومت آئین اور وکلاء سے خوفزدہ ہے، فواد چوہدری

    اسلام آباد : تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت عدالت کو کام کرنے سے روک رہی ہے کیونکہ یہ آئین سے خوفزدہ ہے۔

    یہ بات انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہی، انہوں نے کہا کہ وکلاء آئین اور سپریم کورٹ سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں، جنہیں روکا جارہا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت ہر اجتماع سے خوفزدہ ہے، وکلاء کو روکنے کیلئے رکاوٹیں غیرضروری ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اپنی عدلیہ کا ساتھ دینے پر ریاست کو وکلاء کا شکرگزار ہونا چاہیے، حکومت آئین سے خوفزدہ ہے اور عدالت کو کام کرنے سے روک رہی ہے،

    دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر وکلاء چیف جسٹس آف پاکستان سے اظہار یکجہتی کیلئے جمع ہوگئے، سینیٹر اعظم سواتی بھی وکلاء کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر موجود ہیں، ججز کی سپریم آمد پر وکلاء نے ان کے حق میں نعرے بازی کی۔

  • سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس کا اختلافی نوٹ جاری

    سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس کا اختلافی نوٹ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس میں جسٹس شاہد وحید نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے فیصلے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے جسٹس شاہد وحید نے اپنا اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔

    اختلافی نوٹ میں جسٹس شاہد وحید نے کہا ’’ازخود نوٹس میں وہ باتیں زیر بحث لائی گئی ہیں جو کیس کا حصہ ہی نہیں تھیں، 20 اضافی نمبر دینے کے معاملے پر اٹارنی جنرل اور پی ایم ڈی سی جواب جمع کرائیں۔‘‘

    جسٹس شاہد وحید نے مزید کہا ’’بنچ کی تشکیل پر کوئی معاملہ تھا تو چیف جسٹس کو بھیجا جا سکتا تھا، بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے، ازخود نوٹس نمبر 4-2022 میں قرار دے چکا چیف جسٹس ہی بنچز بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ججز بنچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں اٹھا سکتے، ججز کو بنچ کی تشکیل پر اعتراض تھا تو وہ کیس سننے سے معذرت کر سکتے تھے۔

  • ازخود نوٹس، سپریم کورٹ کا مخصوص مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم

    ازخود نوٹس، سپریم کورٹ کا مخصوص مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس اور آئینی اہمیت کے حامل مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حافظ قرآن کو میڈیکل داخلے میں 20 اضافی نمبرز دینے سے متعلق ایک کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کیا ہے کہ رولز بنائے جانے تک 184/3 کے تمام کیسز کو روک دیا جائے۔

    9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ آئین اور رولز چیف جسٹس کو اسپیشل بنچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔

    فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، لیکن سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں۔

    ججز نے فیصلہ کیا کہ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے، فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ہے، جسٹس شاہد وحید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

    قومی اسمبلی میں‌ عدالتی اصلاحات کا بل منظور

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، چیف جسٹس کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ فیصلے میں پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید پر پابندی کو بھی آئین اور اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔

  • سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگ لی

    سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگ لی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگ لی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس آف پاکستان نے اہم ریمارکس دیے۔

    چیف جسٹس نے کہا سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں، عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے خاموش رہ کر سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا فیئر پلے ہو تو اسپورٹس مین سامنے آتے ہیں جنگجو نہیں، غصے کوکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کرائے گا، کوئی سینئر عہدیدار یقین دہانی کرائے تو مناسب ہوگا۔

    انھوں نے کہا عدالتی کارروائی کا مقصد ریاستی کام کو آئین کے مطابق رکھنا ہے، عدالتی کارروائی کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں، الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں، دو وزرائے اعلیٰ نے اچھا یا برا اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا، آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھانا پڑتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ اور دفاع سے حالات میں بہتری کے لیے کم سے کم وقت پوچھ کر عدالت کو بتایا جائے، انتخابات 2 دن میں بھی ہو سکتے ہیں، اگر ایک دن میں ممکن نہ ہوں۔

    واضح رہے کہ عدالت نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالتی حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، دہشت گردی کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے، پیسے اور سیکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا حکومتی معاونت مل جائے تو الیکشن کروا سکتے ہیں۔

  • عمران خان کی کوئی مقبولیت نہیں صرف پروپیگنڈا ہے، راناثناءاللہ

    عمران خان کی کوئی مقبولیت نہیں صرف پروپیگنڈا ہے، راناثناءاللہ

    اسلام آباد : وزیر داخلہ راناثناءاللہ نے کہا ہے کہ اختلافی نوٹ کے معاملے پر پارلیمنٹ نے کردار ادا نہ کیا تو قوم معاف نہیں کرے گی، عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے ان کی مقبولیت کو پروپیگنڈا قرار دیا۔

    سپریم کورٹ اسلام آباد کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2جج صاحبان کا اختلافی فیصلہ آیا ہے اگر اس معاملے پر پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو اسے قوم کبھی معاف نہیں کریگی۔

    پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے حوالے سے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ صرف دو صوبوں میں الیکشن ہوئے تو انارکی پھیلے گی اس کے تو نتائج کے ذمہ دار ہم نہیں ہونگے، عمران خان کی کوئی مقبولیت نہیں ہے یہ محض پروپیگنڈا ہے، یہ فتنہ والی بات ہے وہ شخص 2014سے ملک میں فتنہ پھیلا رہا ہے، ہم میں جب تک ہمت ہے اس چیز کو روکیں گے۔ اس طرح کے الیکشن ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔

    حکومتی بل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات کی قانون سازی آج ہوجائے گی، ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ سے انصاف ملے، ہم چاہتے ہیں ملک کی سیاست میں رواداری، رول آف لا کیلئے عدالت اپنا کردار ادا کرے، عدالت عظمیٰ کے کردار سے ہی بیلنس آئے گا۔

    سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو فیصلہ ہوا اس کو ایک طرف تین دو کا تو دوسری طرف چار تین کا فیصلہ کہا جارہا ہے، یہ بھی معزز ججزہی فرما رہے ہیں، اگر یہ اندر کا معاملہ تھا تو اندر رہتا، اب یہ باہر آگیا ہے تو باہر کا معاملہ ہے، یہ معاملہ کلیئر ہونا چاہیے، کہا گیا کہ یہ اندرونی معاملہ ہے، یہ معاملہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ نہیں ہوسکتا، اس معاملے سے پوری قوم منسلک ہے، ابہام دور ہونا چاہیے، جو فل کورٹ ہی دور کرسکتا ہے، یہ معاملہ بھی فل کورٹ کی طرف لے جائیں تاکہ معاملہ حل ہو۔ ،

    رانا ثناءاللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز سے توقع رکھتے ہیں وہ عدلیہ میں اصلاحات کی قانون سازی کے مرحلے پر قوم کی رہنمائی کریں گے، اس معاملے کواس انداز میں سلجھائیں گے کہ سارے فریق مطمئن ہوں، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پیچھے مورل اتھارٹی ہے۔

    وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی نے کل صحیح وقت پر کردار ادا کیا ہے، یہ ہمارا فرض تھا جو ہم نے ادا کیا ہے، ہماری سمجھ کے مطابق الیکشن کمیشن کو تاریخ آگے کرنے کا حق ہے، جس طرح الیکشن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا، ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ اور شفاف طریقے سے ہونےچاہئیں، 50فیصد نشستیں تو پنجاب میں ہیں۔

  • پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کی عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش

    پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کی عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش

    اسلام آباد: پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ روانگی کے دوران پولیس کی سرزنش کی، وہ سیکرٹریٹ میٹرو اسٹیشن کے قریب سے پیدل سپریم کورٹ جا رہے تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیدل چلنے کے دوران سیکیورٹی اہل کار کے عام عوام کو روکنے پر برہم ہو گئے، انھوں نے اہل کاروں سے کہا کہ کسی کو نہ روکیں، سب کو جانے دیں۔

    اہل کاروں کی سرزنش کے بعد وہ فٹ پاتھ کے راستے پیدل سپریم کورٹ کی جانب روانہ ہو گئے، واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روزانہ معمول کے مطابق ججز رہائش گاہ سے سپریم کورٹ پیدل آتے جاتے ہیں۔