Tag: supreme court

  • نا اہلی کیس: عمران خان بری/ جہانگیر ترین نا اہل قرار، تفصیلی فیصلہ

    نا اہلی کیس: عمران خان بری/ جہانگیر ترین نا اہل قرار، تفصیلی فیصلہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کی استدعا مسترد کردی‘  جبکہ جہانگیر خان ترین کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے‘ عمران خان پر لندن فلیٹ‘ بنی گالہ اور جہانگیر ترین پر زرعی اراضی ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی کیس کا فیصلہ سنادیا، عدالت نے جہانگیر ترین کے خلاف دائر کردہ درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے دیا۔

    مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری

    سپریم کورٹ نے مذکورہ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ80 صفحات پرمشتمل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جہانگیرترین کو دو نکات پر نااہل کیا گیا ہے، انہوں نےملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے جھوٹ بولا۔

    جہانگیرترین نےآف شورکمپنی اوراس کےاثاثے کو بھی چھپایا، انسائیڈرٹریڈنگ سے متعلق ایس ای سی پی تحقیقات کرچکا ہے، جہانگیرترین انسائیڈر ٹریڈنگ کرنے پر70.81ملین جرمانہ دے چکے ہیں۔

    درخواست بد نیتی پر مشتمل ہے ، عدالت 

    فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ حنیف عباسی کا درخواست دائر کرنا بد نیتی پر مشتمل ہے، درخواست گزار مسلم لیگ ن کا نمایاں رکن ہے، مذکورہ درخواست نوازشریف کیخلاف کیس پر کاؤنٹر بلاسٹ ہے۔

    ججز کا اپنے ریمارکس کہنا تھا کہ معاشرے میں صداقت ہو تو اس قوم میں آئین کی حکمرانی ہوتی ہے، حکومت میں بددیانت لوگ ہوں تو وہ قوم جلد بھٹک جاتی ہے، حکومت صرف ایگزیکٹو کانام نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ بھی اس کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ریاستیں جہاں ایماندار لوگ نہیں ہوتے وہ پیچھے کی جانب بھاگتی ہیں، ریاستی ڈھانچہ ایمانداری اورایماندارلوگوں پرقائم ہوناچاہئیے۔

    واضح رہے کہ تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق درخواست مسلم  لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے  دائرکی گئی تھی ۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عمران خان نے گوشواروں میں اپنے لندن فلیٹ اور آف شورکمپنی ظاہرنہیں کی، اس کے علاوہ انہوں نےبنی گالہ کی جائیداد بھی ظاہرنہیں کی، دوسری جانب جہانگیر ترین پر زرعی اراضی کی آمدنی درست ظاہرنہ کرنے کا الزام ہے۔


    عدالتی فیصلے کے مرکزی نکات


    سپریم کورٹ نے عمران خان کی نا اہلی کے لیے حنیف عباسی کی جانب سے دائر کردہ درخواست مسترد کردی ہے جبکہ جہانگیر ترین کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اس مقدمے میں متاثرہ فریق نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن اثاثوں کی چھان بین کاپابند ہے‘ الیکشن کمیشن غیرملکی فنڈنگ کی تحقیقات کرےگا۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی بد نیتی ثابت نہیں ہوئی ‘ ان پر اپنی آف شور کمپنی ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔

    عدالت کے مطابق عمران خان نےلندن فلیٹ ایمنسٹی اسکیم میں ظاہرکردیاتھا۔ وہ ’عمران خان نیازی سروسز‘ کے شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹرنہیں تھے۔ حنیف عباسی کی درخواست میرٹ پر خارج کی گئی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنے بیان میں مشکوک ٹرم استعمال کیے، یہ بھی کہا گیا کہ جہانگیرترین سماعت میں سوالات کے  درست جوابات نہیں دے رہے تھے‘ آف شورکمپنیاں ان کی ملکیت ہیں۔ اسی سبب وہ انسائیڈرٹریڈنگ کےجرم کے مرتکب ہوئے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جہانگیرترین نے ڈرائیوراور باورچی کے نام پرجائیدادیں رکھیں اور انہوں نےاعتراف جرم کیااورجرمانہ بھی اداکیا۔ بطور وفاقی وزیر جہانگیر ترین نے اپنا اثرو رسوخ اختیار نہیں کیا۔ ان کے قرضے شیئر ہولڈر بننے سے پہلے معاف ہوئے۔

    سپریم کورٹ نے استسفارکیا کہ’سوال یہ ہےکہ کیااعتراف پرنااہلی جرم بنتی ہے؟‘ زرعی ٹیکس کم دینے پرنااہلی کی استدعا کی گئی۔ جہانگیر ترین کے خلاف زرعی ٹیکس پرکارروائی نہیں کرسکتے، زرعی ٹیکس کامعاملہ متعلقہ فورم پرزیر التواہے۔


    مقدمےکا فیصلہ دوپہر دوبجے سنایا جاناتھا‘ تاہم اس میں کچھ تاخیر ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک صفحے پر ٹائپنگ کی غلطی تھی جس کے سبب تمام 250صفحات دوبارہ پڑھنے پڑ گئے۔

    تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پر لندن میں خفیہ  پراپرٹی رکھنے کا بھی الزام تھا۔ حنیف عباسی نےپی ٹی آئی پربیرون ملک سے فنڈز لینے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی اور یہ سماعت58پیشیوں میں مکمل کی گئی۔

    مزید پڑھیں : عدالت میں جمع کروائی گئی ایک بھی دستاویز غلط ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا: عمران خان

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کو ہاٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اوران  کے کیسز میں بہت فرق ہے، سپریم کورٹ میں 60 دستاویزات جمع کروائیں، ایک بھی غلط ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔

    مزید پڑھیں : نااہلی کیس کا جو بھی فیصلہ آیا تسلیم کروں گا، جہانگیر ترین

    تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر ترین کا اے آروائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں کہنا تھا کہ کہ احتساب سے خوفزدہ نہیں ہیں، عدالت نے نااہلی کیس جو بھی فیصلہ دیا اُسے من و عن تسلیم کروں گا۔

     چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق درخواست پر فیصلہ 14 نومبر  کومحفوظ کیا تھا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل کا کہنا تھا  کہ عمران خان کے 2002 کے اثاثوں میں غلطی ہو سکتی ہے، غلط بیانی نہیں کی جبکہ حنیف عباسی کے وکیل کادعویٰ تھا کہ عمران خان نےجھوٹ بولا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ تمام مواد دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عمران خان نااہلی کیس، فیصلہ آج سنایا جائے گا

    عمران خان نااہلی کیس، فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد: غیرملکی فنڈنگ سے متعلق عمران خان نااہلی کیس میں سپریم کورٹ آج دو بجے اپنا اہم فیصلہ سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق عمران خان الیکشن لڑنے کے اہل ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ آج ہوگا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کی اہلیت کا فیصلہ بھی سنایا جائے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 14 نومبر کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عمران خان نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

    عمران خان کے وکیل کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے 2002 کے اثاثوں میں غلطی ہو سکتی ہے، مگر ان کی جانب سے کسی مرحلے پر عدالت سے غلط بیانی نہیں کی گئی۔ دوسری جانب حنیف عباسی کے وکیل کی جانب سے عمران خان پر غلط بیانی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

    سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت تمام دستاویزات دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔

    یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور زرداری میرے دائیں بائیں بیٹھیں گے: طاہر القادری

    یاد رہے کہ عمران خان فیصلہ اپنے خلاف آنے کی صورت میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر جہانگیر ترین قصور وار ٹھہرے، تو اُنھیں پارٹی سے الگ کر دیں گے۔

    تجزیہ کار اس فیصلے کو عمران خان کے سیاسی سفر کا اہم ترین فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • حدیبیہ پیپرز مل کیس،جسٹس مظہرعالم خیل کی رخصت کے باعث سماعت جمعے تک ملتوی

    حدیبیہ پیپرز مل کیس،جسٹس مظہرعالم خیل کی رخصت کے باعث سماعت جمعے تک ملتوی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرز مل کیس کی سماعت پینچ رکن جسٹس مظہرعالم خیل کی رخصت کے باعث جمعے تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرزمل کیس کی سماعت کی، دوران سماعت جسٹس مشیرعالم نے نیب وکیل کو ہدایتکی کہ آئندہ سماعت پردلائل شواہد تک محدودرکھیں، عدالت کو منی ٹریل اوراپیل میں تاخیرمیں مطمئن کرنا ہوگا۔

    نیب پراسیکیوٹر عمران الحق کا جواب میں کہنا تھا کہ تمام منی ٹریل موجود ہے، منی ٹریل کی تفصیلات تکنیکی حکام پیش کریں گے۔

    جسٹس مشیر عالم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کے میرٹ کاجائزہ لینا ٹرائل کورٹ کا کام ہے، ضرورت پڑی تو تکینکی ماہر کو بھی سن لیں گے، اصل رکاوٹ تاخیر سےاپیل دائر کرنا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپزمل کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی ، سماعت بینچ رکن جسٹس مظہرعالم خیل کی رخصت کے باعث ملتوی کی گئی۔

    گزشتہ روزڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب نے اپیل کے حق میں دلائل دیے تھے، نیب وکیل کی کمزور تیاری پر جسٹس قاضی فائز نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا نیب کومزیدتحقیقات کیلئے پچاس سال لگ جائیں گے۔ ہمارےساتھ کھیل نہ کھیلیں، حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے، سپریم کورٹ بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں، سپریم کورٹ جےآئی ٹی نے کچھ کیا نہ آپ نے کچھ کیا۔


    مزید پڑھیں : حدیبیہ کیس: نیب کی بنائی گئی کہانی باربارتبدیل ہورہی ہے‘ سپریم کورٹ


    دوسری جانب نیب نے جسٹس ریٹائرڈشاہ خاور کو اسپیشل پراسیکیوٹر نیب مقرر کیا تھا، شاہ خاورحدیبیہ ریفرنس کیس میں نیب کی پیروی کریں گے۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔

    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے جبکہ حدیبیہ کیس کےحوالےسے چیئرمین نیب کوبھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا ۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ حدیبیہ ریفرنس سترہ سال پہلےسن دوہزارمیں وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان پرنیب نےدائرکیاتھا۔انہوں نےبیان میں نوازشریف کے دباؤپرشریف فیملی کے لیے ایک ارب چوبیس کروڑ روپےکی منی لانڈرنگ اورجعلی اکاؤنٹس کھولنےکااعتراف کیاتھا۔

    شریف برادران کی جلاوطنی کے سبب کیس التواءمیں چلا گیا تھا ۔ سنہ 2011 میں شریف خاندان نے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا‘ عدالتِ عالیہ نےاحتساب عدالت کوکیس پرمزیدکارروائی سےروکا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی سماعت کل 11 بجے تک ملتوی کردی، عدالت نے نیب سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرجسٹس مشیر عالم نے ریماکس دیے کہ جس بنیاد پرسماعت ملتوی کرانا چاہتے ہیں یہ کوئی نکتہ نہیں ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیوں نہ آپ کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں۔

    ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجوربھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ نیب کے پراسیکیوٹرعمران الحق دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیا ملزم پر اگست 2007 سے پہلے ٹرائل چلا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ملزم پاکستان میں نہیں تھا۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ ملزم کے پاکستان آنے کا انتظار کرتے رہے جس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیا ملزم کو پا کستان آنے سے روکا گیا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیا حکومت نے روکا، حکومت مزاحمت کر رہی تھی، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نہیں حکومت نے نہیں روکا تھا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نیب نے 2000 میں ریفرنس فائل کیا، ملزم 2007 میں واپس آیا اورابھی تک آپ نے کچھ نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ آپ ایک دستخط کے لیے 2 سال پھنسے رہے جس پر پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پرا سٹے آرڈر دیا گیا۔

    عمران الحق نے کہا کہ درخواست 17 اکتوبر 2011 میں دائر کی گئی، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ معاملہ سرد خانے میں کیوں رکھاگیا؟۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ کیا ملزمان کراچی میں زیرحراست تھے، جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ کیا اٹک قلعےمیں عدالت بھی ہے۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایا گیا کچھ وجوہات ہوں گی جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ وجوہات میرے علم میں نہیں ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کوئی حکم نامہ ہوگا جس کے تحت کیس جیل میں چلایا گیا ہوگا، ہارون پاشا کوبری کیا گیا لیکن وجوہات نہیں لکھیں، اس وقت پاکستان کوکون سی حکومت چلارہی تھی۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹوپرویزمشرف تھے، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزم اٹک میں تھا تو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کیا جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے، مفرور کا تو سنا تھا جلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا، نیب کے وکیل عمران الحق نے جواب دیا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف خود ملک سے باہر گئے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریماکس دیے کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے ریماکس دیے کہ کیا کل حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی۔

    جسٹس قاضی فائز نے ریما کس دیے کہ کیا نیب نے جلاوطنی کی سہولت کار ی پر کارروائی کی، عمران الحق نے جواب دیا کہ نواز شریف جیل کی کسٹڈی میں تھے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک میں واپس آئے، جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ اگرنوازشریف خود گئے تھے توواپسی کے لیے درخواست نہ دینا پڑتی۔

    جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزمان کی وطن واپسی پرگرفتارکیوں نہیں کیا گیا، عمران الحق نے جواب دیا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتاری کا حکم دے سکتی تھی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اصل ریفرنس کیا تھا، شکایت کس کی تھی، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے دباؤ کیسے ہوا اس پردلائل دیں۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ پہلے کیس کودوبارہ کھولنے پردلائل دیں پھرمیرٹ پر دیں، نیب کے وکیل عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناماکیس میں سپریم کورٹ نے حدیبیہ کا تعلق کہا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ نیب موقف کے مستقبل میں سنجیدہ نتائج نکلیں گے، کیا یہ ایک خطرناک مثال نہیں ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ پاناما نہ ہوتا توپھرکیا آپ نے کچھ نہیں کرنا تھا، پاناما فیصلے کاآپریٹوحصہ پڑھیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ پانامافیصلےمیں حدیبیہ سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا، لکھا گیا ہے جب نیب اپیل دائرکرے تودیکھا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ نے حکم دیا توہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔

    جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ اقلیتی رائے ہم پرلازمی نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہم آپ سےکہہ چکے ہیں اقلیتی فیصلہ نہ پڑھیں۔

    عدالت نے نیب سے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ اکاؤنٹس کھلوانےکے لیے کون گیا تھا؟ منیجرنے کسی کے کہنے پرکسی اورکے نام پراکاؤنٹس کیسے کھولے۔

    سپریم کورٹ نے نیب سے سوال کیا کہ کیا بینک منیجرکوبھی ملزم بنایا گیا ہے، عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ کل سوالات کےجوابات پیش کریں۔

    خیال رہے کہ نیب کی جانب سے دو روز قبل سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس کے حتمی ریفرنس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 8 اے کی عبوری نقل پیش کی گئی جس میں حدیبیہ ریفرنس کی نقل بھی شامل تھی۔


    حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا


    نیب نے احتساب عدالت کی جانب سے سنے گئے حدیبیہ ریفرنس کا ریکارڈ بھی عدالت میں جمع کرایا اور ساتھ ہی چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار اور 1999 سے اب تک ہونے والے تمام چیئرمینز کی تقررری کی فہرست جمع کرائی۔

    سپریم کورٹ میں نیب نے نوازشریف کے وزیراعظم رہنے اور پرویز مشرف کی جانب سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کی ٹائم لائن بھی جمع کرائی۔

    یاد رہے کہ لاہورہائی کورٹ نے 2014 میں تکنیکی بنیاد پرحدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کالعدم قراردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسلام آباد: سپریم کورٹ کا اورنج لائن ٹرین منصوبہ جاری رکھنےکاحکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے اورنج لائن منصوبے سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اکتیس شرائط کے ساتھ اورنج لائن ٹرین منصوبے پر کام کرنے کی اجازت دےدی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں 5رکنی بینچ  نے اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس شیخ عظمت سعید،جسٹس مقبول باقر ، جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منیرعالم بھی شامل تھے۔

    سماعت میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے اورنج لائن منصوبے سے متعلق 11تاریخی مقامات پرکام روکنے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل منظور کرلی۔

    سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو اورنج لائن ٹرین منصوبہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تاریخی مقامات کے تحفظ کیلئے اقدامات کی ہدایت بھی کی۔

    سپریم کورٹ نے اورنج لائن منصوبے پر کام کے لئے اکتیس شرائط لگائی ہیں، حکمنامے کے تحت پنجاب حکومت تاریخی ورثے کومحفوظ بنائے گی۔

    اعلی عدالت نے حکم دیا کہ لاہور کے گیارہ تاریخی ورثوں کیلئے دس کروڑ کا فنڈمختص کیا جائے، فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانےکیلئےماہرین کی کمیٹی ایک سال تک کام کرے۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے ثقافتی ورثےکاتحفظ یقینی بنانے کیلئے آئی جی پنجاب کو پابند بنایا گیا ہے جبکہ تین ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی خصوصی کمیٹی کی معاونت کرےگی۔

    عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اورنج لائن ٹرین منصوبہ کیس پر 17 اپریل 2017 کو تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔


    مزید پڑھیں : اورنج لائن منصوبہ: لاہور ہائیکورٹ نے تاریخی عمارتوں کے قریب تعمیرات سے روک دیا


    یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو لاہور شہرکے تاریخی مقامات کے قریب اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تعمیرات روکنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد  پنجاب حکومت اور پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں داخل کیں تھی۔

    عدالت نے شالا مار باغ، چوبرجی ، گلابی باغ، ایوان اوقاف، جی پی اوبلڈنگ، بدھو کا آوہ، مزار دائی انگہ، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ سمیت 11 تاریخی عمارتوں کی 200 فٹ کی حدود میں تعمیرات کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا

    حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت 11 دسمبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملز کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریفرنس تکنیکی بنیادوں پرخارج کیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اصل ریفرنس کہاں ہے جس پرنیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اصل ریفرنس میرے پاس نہیں ہے۔ جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ اصل ریفرنس کا ہونا ہمارے لیے ضروری ہے۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے جواب دیا کہ جےآئی ٹی نے بھی کافی شواہد جمع کیے ہیں، عدالت نے جےآئی ٹی رپورٹ کا والیم 8 طلب کر لیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ آپ کوتمام ریکارڈ جمع کرانا چاہیے تھا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے کس والیم میں حدیبیہ کا ذکرہے۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمزایکٹ کا سہارا لیا گیا جبکہ شریف خاندان کے پاس غیرقانونی رقم موجود تھی۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کرکے پیسہ بیرون ملک بھیجا گیا، تمام وائٹ کی گئی رقم حدیبیہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ میرٹ ہم دیکھیں گے، نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسحاق ڈارکے ذریعے جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے گئے۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کی آمدن کم اوراثاثےزیادہ ہیں، ریفرنس کے دوران اسحاق ڈارکا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ ریفرنس میں لکھا ہے نوازشریف کوزبردستی باہربھیجا گیا، ریفرنس میں دوسری جگہ لکھا ہے نوازشریف بیرون ملک چلے گئے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ نیب کی نظرمیں نوازشریف خود گئے یا بھیجےگئے جس پرنیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ پرویزمشرف کے حکم پرنوازشریف کو بیرون ملک بھیجا گیا۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی پرویزمشرف سےڈیل ہوئی تھی جس پر عدالت نے ریماکس دیے کہ کسی کوجبری بیرون ملک بھیجنا یاعدالت سے فرارالگ چیزیں ہیں۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 6 سال ریفرنس دفترداخل رہا، ملزمان کی واپسی پرمقدمہ دوبارہ شروع ہوا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ 2008 میں عدالت نے ازسرنو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیا چیئرمین نیب کےدستخط سےریفرنس دائرہوا۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے جواب دیا کہ دوبارہ ریفرنس دائرنہیں کیا جاسکا، ملزمان کی واپسی پرمقدمہ دوبارہ شروع ہوا۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نوازشریف جلا وطن کب ہوئے، عدالت نے ریماکس دیے کہ اس سے پہلے 9 ماہ ملزمان ملک میں رہے، ٹرائل مکمل کیوں نہ ہوا۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ ریفرنس دائرکرکے مکمل نہ کرنا اورملزم کو ٹارچرکرنا انصاف نہیں ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا نیب کے قانون میں کوئی ٹائم فریم ہے۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ نیب قانون کے تحت ایک ماہ میں ریفرنس دائرکرنا ہوتا ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہوسکتا ہے متعلقہ عدالت نے درست فیصلہ کیا ہو۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ 27مارچ 2000 سے 10 دسمبر2000 تک کچھ نہیں ہوا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کیا نوازشریف پرویزمشرف پربھی اثراندازہوئےتھے۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نوازشریف کی واپسی پربھی حکومت پرویزمشرف کی تھی، 27 نومبر2007 کونوازشریف آئے، نیب پھر9 ماہ خاموش رہا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ 9 ماہ بعد نیب نے ریفرنس بحالی کی درخواست دی، ملزم مفرورہوا تو کیس مختلف ہوتا ہے۔

    انہوں نے ریماکس دیے کہ عدالت نےقانونی معیارکابھی جائزہ لیناہے، ریفرنس کے وقت کیا شریف خاندان اقتدارمیں تھا؟۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شریف خاندان کا اثرورسوخ 2014 میں پیدا ہوا اور اسی سال ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کیا۔

    عمران الحق نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے نیب کوازسرنوتحقیقات سےروکا تھا، جسٹس مشیرعالم نے ریماکس دیے کہ ریفری جج نے2 میں سے ایک جج کے فیصلے سے متفق ہونا تھا۔

    نیب اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفری جج نےایک جج کا فیصلہ بھی کالعدم قراردیا تھا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ریفرنس طویل مدت کےلیے زیرالتوا نہیں رکھا جاسکتا۔

    جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ آپ سمجھے اپیل دائرہوگی اورہم حکم جاری کردیں گے، ،نیب اسپیشل پراسیکیوٹرعمران الحق نے کہا کہ پاناما کیس میں عدالت نے جےآئی ٹی بنائی۔

    عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کے بعد اپیل دائرکی جس پرجسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ ہم پاناماکیس نہیں سن رہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نےجواب دیا کہ پاناما کیس کا حدیبیہ کیس سے براہ راست تعلق ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس سےمتعلق شکایت کس نےدرج کرائی جس پر،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہوسکتا ہے کسی مخبرکی اطلاع پرتحقیقات ہوئی ہوں۔

    جسٹس فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ حدیبیہ پیپرزملز1999 تک خسارے میں تھی، جسٹس مشیرعالم نے نیب پراسیکیوٹرکو ہدایت کی کہ اصل ریفرنس پردلائل دیں۔

    نیب پراسیکیوٹرعمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پرمیری تیاری نہیں ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ حدیبیہ میں کس نوعیت کا فوجداری جرم ہوا بتایا جائے۔

    عدالت نے ریماکس دیے کہ کیس میں نیب قانون کے سیکشن 9 کی کون سی شق لاگو ہوتی ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس میں حکومتی یاسرکاری رقم کا کہیں ذکرنہیں ہے۔

    عمران الحق نے جواب دیا کہ نیب قانون کے سیکشن 9 کی ذیلی شق 5 کا اطلاق ہوتا ہے، کیس آمدن سےزائد اثاثوں کا ہے، عدالت نے ریماکس دیے کہ آپ کیس فائل تک محدود رکھنا چاہتےہیں توآپ کی مرضی ہے۔

    سپریم کورٹ نےٹرائل کورٹ کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا، جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ فی الحال ریفرنس کےمیرٹ پرجانےکی ضرورت نہیں ہے، یہ بتائیں ملزمان کب اورکیسے مقدمات پراثراندازہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ ریفرنس کےمیرٹ پرفیصلہ کرنا احتساب عدالت کا کام ہے، ایک ملزم عباس شریف انتقال کرچکے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کےفیصلےسے پہلےعباس شریف کا انتقال ہوا، شریف خاندان نے اپیل میں ترمیم بھی نہیں کی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہا کہ بتانا ہوگا نیب کے چیئرمین اتنے کمزورکیوں ہوتے ہیں، ریفرنس بناتے وقت چیئرمین نیب کون تھا، چیئرمین نیب کی تقرری کا پہلےطریقہ کیا تھا اوراب کیا ہے۔

    سپریم کورٹ نے نیب کواصل شکایات اوراس کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ملزمان کب اورکس عوامی عہدے پررہے۔

    چیئرمین نیب کی تقرری کا سابق اورموجودہ طریقہ کارسمیت احتساب عدالت کی کارروائی کی تفصیلات اورحکم نامےبھی عدالت نے طلب کرلیے۔

    عدالت نے نیب سے 2008 میں مقدمہ بحال کرنے کی درخواست طلب کرنے کے ساتھ نیب کوحدیبیہ پیپرزکا اصل ریفرنس جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ بتایا جائےغیر معینہ مدت کے لیےسماعت کیوں ملتوی ہوئی، نیب نےدستاویزات جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس دیے کہ سب کچھ توآپ کےپاس موجود ہے جس پر نیب اسپیشل پراسیکیوٹرجواب دیا کہ بہت ساریکارڈ وفاقی حکومت کے پاس بھی ہے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرزملزکیس کی سماعت11دسمبرتک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرٹرائل کورٹ اورچیئرمین نیب کے تقررکا تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے رواں ماہ 10 نومبر کو نیب کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرزملزریفرنس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔


    حدیبیہ پیپرزملزکیس ، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سماعت سے معذرت کرلی


    بعدازاں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا تھا اور 25 نومبر کو سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

    نیب کی جانب سے دائر درخواست میں نا اہل وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو فریق بنایا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ لاہورہائی کورٹ نے 2014 میں تکنیکی بنیاد پرریفرنس کالعدم قراردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےفیض آباددھرنےپر حکومتی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی، جسٹس قاضی فائز نے کہا بتایاجائےدھرنے کے پیچھے کون ہے، دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی۔ دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیض آباد میں دھرنے کے خلاف ازخودنوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی، جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈنڈااٹھاکراحتجاج،اسلامی تعلیمات میں کہاں لکھاہے، دین اسلام تو امن کا درس دیتا ہے ، کیا اسلامی تعلیمات پرعمل مسلمانوں کافرض نہیں، دھرنے میں استعمال ہونیوالی زبان کیایہ اسلام ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آرہا معاشرہ کیسے چلے گا، اتنی کوریج کیوں دی جارہی ہے، پیمرا کہاں ہے، کیا اسلامی تعلیمات میں 2 رائے ہوسکتی ہیں، اسلام میں گفتگوکاآغازالاسلام علیکم سےہوتاہے، ہم جن اداروں پرپیسہ لگارہےہیں ان کاکیا کردار ہے، مغرب کا پروپیگنڈا ہےکہ اسلام تلوار سے پھیلا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس میں کہا کہ اسلام آباد میں کنٹینرز کا خرچہ کون بھررہا ہے، قانون کےرکھوالے پرتشددکیا گیا کیونکہ اس نےوردی پہنی تھی، اسلامی تعلیمات میں جبر کا ذکر نہیں ، ڈنڈے کےزورپراچھی بات بھی بری لگتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تصادم کاخطرہ ہے اس لئے حکومت احتیاط کررہی ہے، مذاکرات کا عمل جاری ہے، ہم تشدد روکنے کی کوشش کررہے

    عدالت نے سوال کیا کہ دھرنےوالوں کی سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی، دھرنے والوں کوچائے کون دے رہا ہے، پیشگی اطلاع کے باوجودپنجاب حکومت نے کارروائی نے کی۔


    مزید پڑھیں :  سپریم کورٹ کا فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس


    اٹارنی جنرل نے جب یہ کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم دھرنے والوں کو بھیجا، تو عدالت نے کہا کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والےکریں گے، کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے معاملات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہی حال رہاتو آئندہ فیصلےعدالتوں کے بجائے سڑکوں پرہوں گے۔

    اعلی عدالت نے دھرنے کےاخراجات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ بتایا جائے بتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنے پراخراجات کیا آئے اور اب تک کتنا خرچہ ہوا، کون کیا کررہاہےہے عدالت کو بتایا جائے، ٹیکس دینے والے عوام کواخراجات کاعلم ہوناچاہئے۔

    جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں نامناسب زبان استعمال ہورہی ہے، ختم نبوت کی بات کرنیوالے خود دین الٰہی پرعمل نہیں کررہے، ایک بچےکی موت ہوئی تو دھرنےوالوں کوتوبہ کرلینی چاہئے تھی۔

    سپریم کورٹ کا استفسار کیا کہ حکومت معاملے پر خاموش ہے، دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹھوس اقدامات کرنے والے ہیں آپ کو چیمبرمیں بتاسکتاہوں، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ چیمبرمیں نہ بتائیں سربمہر لفافے میں تفصیلات بتادیں ہوسکتا ہے معاملے کو پبلک کرنے سے اس کااثرزائل ہو۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی آپ کوسربمہرلفافےمیں تفصیلات فراہم کردوں گا، جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کی رپورٹ ماضی کےاقدامات سےمتعلق ہیں، مستقبل کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا۔

    عدالت میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں، آپ کو یہاں بیٹھ کرنظرنہیں آسکتے، کچھ اقدامات خفیہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے دھرنے والوں کی تعدادبڑھ نہیں رہی، مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں الگ ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ دھرنے پر اخراجات کی تحقیقات آپ نےکیوں نہیں کی، یہ اخراجات کون ادا کرے گا قومی خزانہ توعوام کاہے، یہ اخراجات دھرنےوالوں سے ہی وصول کرنےچاہئیں، کیا آپ نے کوئی اقدامات اٹھائے۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ابھی تک نہیں مگر یہ پوائنٹ نوٹ کرلیاہے۔

    سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی اور کہا کہ کون لوگ ہیں،کہاں کام کرتے ہیں ،بینک اکاؤنٹس کہاں ہیں، اکاؤنٹ منجمد کیوں نہیں ، دھرنےوالوں کے 4نام بتادیئےیہ توسب کوعلم ہے، عدالت کوبتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے، دھرنا کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، آپ حق پر ہیں تو معذرت خوانہ اندازاختیارنہ کریں۔

    جسٹس قاضی فائز نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں، تصدیق کریں دھرنےکافائدہ کس کوہورہاہے، دعا کرتے ہیں اللہ سب کوہدایت دے، کئی مسلم ممالک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں فیض آباددھرناازخودنوٹس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد میں دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، آئی جی اسلام آباد،آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا،جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمار کس دیئے کہ دھرناآرٹیکل 14، 15 اور19 کی خلاف ورزی ہے۔


    مزید پڑھیں : اسلام آباد دھرنا: وزیر داخلہ کی عدالت سے مزید 2 دن کی مہلت طلب


    خیال رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں دھرنے کا سولہواں روز ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود حکومت دھرنے والوں کو نہ ہٹا سکی،  مذاکرات کےکئی دور ناکام ہوئے جبکہ علما و مشائخ کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔

    دھرنے کے شرکاء وزیر قانون کےاستعفٰی سے کم پر تیارنہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ بنا ثبوت کے وزیر سے استعفٰی نہیں لے سکتے۔ 

    گذشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ نے وزرات داخلہ کوایک بارپھر دھرنا ختم کرانے کی ہدایت کی تھی، جس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت سے اڑتالیس گھنٹے کا وقت لیاتھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عدلیہ کا دہرا معیار سامنے آرہا ہے: نواز شریف

    عدلیہ کا دہرا معیار سامنے آرہا ہے: نواز شریف

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کا دہرا معیار سامنے آرہا ہے۔ ہمارے لیے کچھ اور، اور دوسروں کے لیے کچھ اور معیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف نے ایک بار عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چین سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ’میں خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کی بات کر رہا ہوں، دھرنوں کا سلسلہ 2014 سے چل رہا ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے کچھ اور، اور ان کے لیے کچھ اور معیار ہے۔ اصول ایک جیسے ہونے چاہیئیں۔ ہمارے لیے فیصلے جلد آتے ہیں، ان کے لیے نہ جانے کب آنے ہیں؟

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا دہرا معیار سامنے آرہا ہے۔ ’سیسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے الفاظ فیصلوں میں لکھے گئے، یہ سب عدلیہ کو زیب نہیں دیتا‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ دھرنوں کے باوجود ملک نے ترقی کی۔ بجلی آئی، بے روزگاری ختم ہوئی، جی ڈی پی ریٹ کہاں پہنچ گیا۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، ہم نے جو کام کیے پورا پاکستان تسلیم کر رہا ہے۔ ’تاہم عدلیہ کے فیصلوں کی وجہ سے معیشت پر ضرب پڑی‘۔

    انہوں نے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک سرکاری گاڑیوں میں جلوس کے ساتھ دھرنے میں پہنچتے رہے۔ عمران خان، جہانگیر ترین اور علیم خان کے کرپشن اسکینڈل سامنے آئے۔

    بعد ازاں پیشی سے واپسی پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان صرف جمہوریت سے ہی ترقی کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ اب آمروں کو تحفظ دینے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی سے گلہ ہے کہ انہوں نے آمریت کے کالے قانون کی حمایت کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا، اداروں سے جواب طلب

    سپریم کورٹ نے دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا، اداروں سے جواب طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وزارت دفاع، وزارت داخلہ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کو جواب داخل کرانے کا حکم دے دیا، مذہبی جماعت کے دھرنے کے حوالے سے تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔

    تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنے کو ختم نہ کرانے پر سیکرٹری دفاع و داخلہ سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ عوام کے بنیادی حقوق کےلئے کیا اقدامات کئے گئے؟

    سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی چند شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، ریاستی ادارے مفلوج ہوچکےہیں، عوام کو دفاتر، اسکول اورعدالتوں میں جانے میں شدید مشکلات کا سامناہے۔

    ایمبولینس اور مریضوں کو اسپتال جانے کی بھی اجازت نہیں، دھرنے کے باعث آرٹیکل14،15 اور19کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔


    مزید پڑھیں: ختم نبوت سے متعلق تحفظات پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، پیر نظام الدین جامی


    حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دھرنے کے شرکاء گالم گلوچ اورگندی زبان استعمال کر رہےہیں، دھرنے میں استعمال کی گئی زبان کی کون سی شریعت اجازت دیتی ہے، موجودہ صورتحال عوامی اہمیت اورانسانی حقوق کا معاملہ ہے، آرٹیکل15،9اور25اے کے تحت دیئے گئےحقوق سلب کیے جارہے ہیں۔

    عدالت موجودہ صورتحال کے پیش نظر آرٹیکل184(3)کے تحت از خود نوٹس لے رہی ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع، وزارت داخلہ انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی کو بھی جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

  • سپریم کورٹ کا فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس

    سپریم کورٹ کا فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فیض آباد میں دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، آئی جی اسلام آباد،آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا،جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمار کس دیئے کہ دھرناآرٹیکل 14، 15 اور19 کی خلاف ورزی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیض آباد میں دھرنے کا نوٹس لے لیا، جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع اور داخلہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اور آئی جی اسلام آباد،آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا جبکہ پنجاب ،اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جرنلز کو بھی نوٹس جاری کئے۔

    سپریم کورٹ نے متعلقہ افسران سے جمعرات تک جواب طلب کرلیا ہے، سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بتایا جائے عوام کے بنیادی حقوق کیلئے کیااقدامات کئے۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کون سااسلام ہےکہ راستے بندکردئیےجائیں، کون سی شریعت ایسی زبان کےاستعمال کی اجازت دیتی ہے، دھرنا آرٹیکل چودہ ، پندرہ اورانیس کی خلاف ورزی ہے۔

    سپریم کورٹ نے نوٹس وکیل کے التوا کی درخواست پر لیا۔

    سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام کردار اور الفاظ کے ذریعے پھیلا، اسلام کو کبھی زوربازو پرنہیں پھیلایاگیا۔


    مزید پڑھیں : اسلام آباد دھرنا: وزیر داخلہ کی عدالت سے مزید 2 دن کی مہلت طلب


    خیال رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں دھرنے کا سولہواں روز ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود حکومت دھرنے والوں کو نہ ہٹا سکی،  مذاکرات کےکئی دور ناکام ہوئے جبکہ علما و مشائخ کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔

    دھرنے کے شرکاء وزیر قانون کےاستعفٰی سے کم پر تیارنہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ بنا ثبوت کے وزیر سے استعفٰی نہیں لے سکتے۔ 

    گذشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ نے وزرات داخلہ کوایک بارپھر دھرنا ختم کرانے کی ہدایت کی تھی، جس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت سے اڑتالیس گھنٹے کا وقت لیاتھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔