Tag: supreme court

  • پارلیمان نےخود سے نااہلی کی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کا سوال

    پارلیمان نےخود سے نااہلی کی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کا سوال

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، آج پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل دئیے۔

    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل کے دلائل اور ججز کے سوالات

    سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل دئیے کہ عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہے، ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں لہذا واپس بھجوایا جائے، حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سے بڑھ کر اسے ریلیف ملے، صدر نے عدالت سے پوچھا ہے کہہ ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے؟ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہوگا۔

    مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ یہ تمام سوالات اٹارنی جنرل سے متعلق ہیں، اٹارنی جنرل ان سوالا ت کا جواب دے سکتے ہیں۔ حسبہ بل فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کی رائے پر اطلاق لازم ہے۔

    وکیل ن لیگ نے کہا حکومت عدالتی فیصلے کی بجائے صدارتی ریفرنس کے ذریعے تاحیات نااہلی مانگ رہی ہے، حکومتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات مبہم اور عمومی نوعیت کے ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر عدالت اپنے 186 کے ایڈوائزری دائرہ اختیار میں صدراتی ریفرنس کی تشریح کرتی ہے تو پھر یہ صرف تشریح نہیں ہوگی بلکہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترداف ہوگا یہ محض ایک سیاسی معاملہ ہے ہارس ٹریڈنگ کو وجہ بنا کر اراکین اسمبلی کو ان کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی کی گئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آئینی پراسس کو نہیں روکا جاسکتا۔

    وکیل ن لیگ کا کہنا تھا کہ آئین میں پارٹی پالیسی سے انحراف کی گنجائش رکھی گئی فرض کریں اگر حکومت اسلام کے خلاف یا سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کرتی ہے تو کیا حکومتی اراکین منحرف نہیں ہوسکتے حقیقت یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفاد میں انحراف ہوسکتا ہے۔

    جسٹس جمال خان نے نون لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتا ہے؟ اور کیا اسمبلی عدالتی رائے کی پابند ہے؟کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے ریفرنس بھیجا ہے؟

    اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا، آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟، سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا ذکر تھا، پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہونا ہے۔

    صدارتی ریفرنس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں مفروضہ پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا، صرف چار شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی 63 اے لگے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں واپس لیے جاتے رہے ہیں، ممکن ہے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کردے، عدالت آئین پر عمل درآمد کے لیے ہے، آئین کے آرٹیکل کو موثر ہونا ہے، سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے۔

    ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف لازمی نہیں غیر اخلاقی یا کرپشن کی بنیاد پر ہو، پارٹی سے انحراف اچھے مقصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، جسٹس جمال خان نے کہا کہ تریسٹھ اے پر عمل ووٹ ڈالنے سے شروع ہو گا، صدر کو کیسے معلوم ہو کہ حکومتی جماعت کے لوگ منحرف ہورہے ہیں؟۔جسٹس مظہر عالم نے عمران خان کی پارٹی اراکین کو دی گئی ہدایات کی کاپی ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کو فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ایک پارٹی سربراہ کی ہدایت کی کاپی میرے پاس ہے۔

    جسٹس جمال خان نے کہا کہ اگر پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیا جاتا؟ عدالت منحرف ہونے کو گھناؤنا جرم قرار دے تو بھی وزیراعظم کی مرضی ہے کہ اس جرم پر ڈیکلریشن دے یا نہ دے۔

    ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ منحرف رکن کہہ سکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب منشور کے خلاف کسی اقدام پر ووٹ نہیں دوں گا، منحرف رکن کہہ سکتا ہے اسمبلی میں تھا لیکن ووٹ نہیں ڈالا۔

    دوران سماعت جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیئے کہ منحرف رکن تاحیات نااہل ہوتے تو کیا کوئی اچھے کام کے لیے انحراف کریگا،وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے پارٹی ارکان منحرف ہوں یہ لازمی نہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ہی ساتھ چھوڑ جائیں۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد جیتنے والا سیاسی جماعت میں شامل ہو تو کیا یہ عوام کیساتھ بے ایمانی نہیں ہو گی؟ کیا کامیابی کے بعد سیاسی جماعت میں آنے والے پر ارٹیکل تریسٹھ اے لاگو نہیں ہوتا؟، وکیل ن لیگ نے کہا کہ آزاد امیدوار کا پارٹی میں شامل ہونا ووٹرز کیساتھ بے وفائی ہے۔

    عائشہ گلالئی کیس کا تذکرہ
    صدارت ریفرنس کی سماعت کے موقع پر عائشہ گلالئی کیس کا تذکرہ ہوا، ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے ہر معاملے کو دیکھ کر فیصلہ دیا، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ عائشہ گلالئی کیس میں پارٹی ہدایت ثابت نہیں ہوسکی تھی، پارٹی ووٹ ڈالنے سے روکےاور رکن ووٹ ڈال دے تو بات ختم ہوجاتی ہے۔جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پالیسی کیخلاف ووٹ پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیاجاتا؟ عدالت منحرف کو گھناؤناجرم قرار دے تو بھی وزیراعظم کی مرضی ہے۔

    وکیل مسلم لیگ ن نے اپنے دلائل میں کہا کہ سینیٹ الیکشن میں نشست ہارنے پر وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا، وزیراعظم جاننا چاہتے تھے کہ پارٹی کو ان پر اعتماد ہے یا نہیں اب ریفرنس کی ٹائمنگ سے لگتا ہے صدر،وزیراعظم کیلئےکام کررہے ہیں۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند نہیں ہیں لیگی وکیل نے جواب دیا کہ صدر یقینی طور پر ایڈوائس کے پابند ہیں مگر نظر ثانی کا بھی کہہ سکتے ہیں۔

    بعد ازاں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔

  • تاحیات نااہلی کے لیے کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی، سپریم کورٹ

    تاحیات نااہلی کے لیے کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس کی سماعت کے موقع پر دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے، اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کردیا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارٹی سےانحراف کومعمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا، آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کا نہیں، اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہے، اسمبلی مدت تک نااہلی سے آرٹیکل 63اے کا مقصد پورا نہیں ہوگا، آرٹیکل 63اے کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہوگا، سوال یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں؟

    انہوں نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی 5سال یا تاحیات ہوسکتی ہے، منحرف رکن کی نا اہلی باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک بھی ہوسکتی ہے، منحرف رکن نیوٹرل ہوکر پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دے تو نااہلی مدت کا تعین نہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہے، مس کنڈکٹ پر نااہلی 5سال ہے، عدالت آرٹیکل63 اے کی تشریح کرکے نااہلی مدت کے تعین کی وجوہات بتائے۔

    اٹارنی جنرل نے منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کو4حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ منحرف رکن کوکوئی نتائج نہ بھگتنا پڑیں، منحرف رکن باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک نااہل ہوسکتا ہے، منحرف رکن 5 سال کیلئے یا تاحیات نااہل ہوسکتا ہے۔

    اٹارنی جنرل کے مطابق منحرف رکن کو آئندہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے، چوری کو اچھائی قرار نہیں دیا جا سکتا، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اختلافات تو ججز فیصلوں میں بھی کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کا مطلب انحراف کرنا نہیں ہوتا، صرف چار مواقع پر پارٹی فیصلے سےانحراف سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ رضا ربانی نے فوجی عدالت معاملے پر اختلاف رائے کیا ،انحراف نہیں۔

    جسٹس جمال خان نے کہا کہ آرٹیکل63اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں، جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہوگئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کریگا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں؟،

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈکلیریشن دے گا۔ پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔

    اس موقع پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا تعین کرنے کے لیے کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں تاہم ، آرٹیکل63پی میں وقتی نااہلی کا ذکر ہے، جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر 5سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہوگا، آرٹیکل62ون ایف کے اطلاق، نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔،

    جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ شوکاز دیکر رکن اسمبلی کا مؤقف لینے کا پابند ہے،100گناہ گارچھوڑنا برا نہیں ایک بے گناہ کو سزا دینا برا ہے، انحراف کرنے والے100چور ہوں گے لیکن ایک تو ایماندار ہوگا ہی۔

  • سپریم کورٹ کا سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سندھ ہاﺅس پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور اضافی دفعات کے مطابق کارروائی کر کے کل رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہاؤس حملے کا معاملہ اٹھایا۔

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ آپ نے ابتک عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ایف آئی آر میں متعلقہ دفعات کا اضافہ کر دیا ہے، شواہد کے مطابق دہشت گردی کا واقعہ نہیں بنتا۔

    چیف جسٹس نے کہا جن دفعات کا اضافہ کیا ہے ان کے تحت ملزمان کی گرفتاریاں کریں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نے گرفتاری کی تھی ملزمان نے ضمانتیں کرا لیں۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ وہ ضمانتیں تب ہوئیں جب ایف آئی آر میں قابل ضمانت دفعات تھیں، اضافی دفعات کے مطابق کارروائی کر کے کل رپورٹ جمع کرائیں۔

    سپریم کورٹ نے سندھ ہاﺅس پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہم نے قانون کے مطابق عملدرآمد کا حکم دے دیا ہے ،اب بھی کوئی شکایت ہے تومتعلقہ فورم پر جائیں۔

  • صدارتی ریفرنس پر سماعت : رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم کرنے کی گنجائش ہے، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہرعالم خان،جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں ، جو کھڑے ہیں لاؤنج سے سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہرنکالنا پڑے۔

    سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں ،آئی سی ٹی کوصدارتی ریفرنس میں فریق بناتے ہوئے تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردئیے۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید نے صدارتی ریفرنس پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلےہی کیس کا حصہ ہیں۔

    عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کردیئے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ایئرپورٹ جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کسی کوووٹنگ سے 48گھنٹے پہلے مہم ختم کرنےکا پابند کرتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امورکومتاثر کرنا نہیں ہوتا، وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہےکہ قانون پر عمل کریں گے، جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔.

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتےہیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھی بات ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر جوابات جمع کرائیں ، حریری جوابات پر صدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔

    عدالت نے کہا کامران مرتضیٰ نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس میں دیئے پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کا کہا، اس سلسلے میں 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ضمیر تنگ کررہا ہے تومستعفی ہو جائیں، 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ ہوا مگر اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں، آرٹیکل 63اے کےتحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں اور وزیراعظم کے الیکشن ،عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 63اے میں نااہلی کا ذکر ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 63اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،63،62 اے کوالگ الگ نہیں پڑھاجاسکتا ، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرٹیکل17 اور 18 عام شہریوں کا آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے، عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیاتھا تو اٹارنی جنرل نے کہا عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنےکی آبزرویشن دی، عدالت نے کہا مسلم لیگ بطورجماعت کام نہ کرتی اور مسلم لیگ ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو توپاکستان نہ بن پاتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63،62 کو الگ الگ نہیں، ساتھ تسلسل میں پڑھا جاسکتا ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس لئے بھی ملا کر پڑھناچاہئےکہ یہ آرٹیکلز نااہلیت کی بات کررہے ہیں تو جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ جنرل الیکشن میں عوام کے ووٹ،پارلیمنٹ میں رکن کے ووٹ میں فرق ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوام کامینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کےلیےایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ پارٹی اراکین کو، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 4 مواقع پر اراکین اسمبلی کی پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63 اے لایا گیا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں ،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو توسیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا 1985میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کووزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثرتو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایم این اے پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو نا اہل قرار پائے گا ، وزیر اعظم کی درخواست، اسپیکر ریفرنس کے بعد نااہلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے بیشتر جمہوری حکومتیں چندووٹوں کی برتری سےقائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر کا بھی کہنا تھا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تومعمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔

    عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آئین نے نااہلی کاایک طریقہ کار دیا گیا ہے، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاؤں گا، معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا فلور کراسنگ کی اجازت ترقی یافتہ ممالک میں ہے، کیا آپ پارٹی لیڈر کوبادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کوبادشاہ نہیں تولوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے ، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں لوگ پارٹی کے اندر غصے کا اظہار کرتے ہیں، رکن پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں گنجائش ہے کہ رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم نہ کیا جائے تاہم پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے والے کی اگرنااہلی ہے تواس کی مدت کتنی ہو۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ضمیرکی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نےعدم اعتماد کیا، بلوچستان میں حکومت بدل گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کےدعویدارتھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کاپابند ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈال کرشمارنہ کیا جانا توہین آمیزہے، آرٹیکل63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں ، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے تو نظام کیسے چلے گا، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا آرٹیکل 63 فور بہت واضح ہے ، آرٹیکل 63 فور کے تحت ممبر شپ ختم ہونانااہلی ہے تو اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63 فور واضح نہ ہونے کا ہے، خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی ، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا ،آرٹیکل 62 ون ایف کہتا ہے رکن کوایماندار اور امین ہونا چاہیے۔

    اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ووٹ اگر ڈالا جاسکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے، حکومت کے پاس جواب ہے توعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے، اگر اس نقطے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63اے قابل عمل نہیں ہوگا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن پر کیا انکوائری کرے گا، کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا پارٹی سے انحراف درست ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا طریقہ کار پرعمل ہوا یا نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا، کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہوگا، پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کتنے وقت تک دلائل مکمل کرلیں گے تو اٹارنی جنرل نے کہا 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کل فل کورٹ ریفرنس ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا موجودہ ریفرنس کا موجودہ اجلاس سے تعلق ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کی تشریح کرنی کرنی پڑے گی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کو اسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں، کیا اس ریفرنس پر فیصلے کی جلدی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چاہتے ہیں ووٹنگ سے قبل عدالتی رائے آجائے۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئینی اعتبار سے یہ اہم مقدمہ ہے، عدالت کی اصل ترجیح معمول کے مقدمات ہیں، کل نماز جمعہ کے بعد ایک گھنٹہ سماعت کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو عدالتی معاون بنانے کی استدعا مستردکردی اور کہا آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے، آپ کا مؤقف ضرور سنیں گے۔

    سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ، یہ اسپیکر کی صوابدید ہے۔

    خالد جاوید کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ چیلنج کر دیا جائے یا متنازع قرار دیا جائے تو ایوان میں اسپیکر کا فیصلہ حتمی ہوگا، جسے عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے مثالیں بھی موجود ہیں۔

    منحرف رکن اپنے ڈی سیٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت جا سکے گا تاہم صدراتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے منحرف رکن کی تاحیات نااہلی پر رائے لی جارہی ہے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔

  • آرٹیکل 63 اے کی تشریح : صدارتی ریفرنس کا مکمل متن

    آرٹیکل 63 اے کی تشریح : صدارتی ریفرنس کا مکمل متن

    اسلام آباد : آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ریفرنس تیار ہوگیا ہے جو آج پیش کیا جائیگا، صدارتی ریفرنس کے مسودے میں منحرف رکن کو تاحیات نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    آرٹیکل63اے کی تشریح اور صدارتی ریفرنس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ضمیر بیچنے والوں پر آرٹیکل 63 کے ساتھ 62 ون ایف لاگو کیا جائے، ماضی کی طرح آج پھر فلور کراسنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت عروج پر ہے۔

    مسودے کے متن کے مطابق کئی ارکان نے میڈیا پر فخریہ انداز میں اپنے انحراف کا اعتراف کیا ہے، آئین کے تحت منتخب نمائندے ذاتی مفاد کی تکمیل کیلئے آزاد نہیں۔

    سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ منحرف رکن کو کسی بھی مرحلے پر ووٹ کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے، منحرف رکن مستعفی نہ ہوتو اسے تاحیات نااہل اور اپیل کےحق سے محروم کیا جائے۔

    مسودے میں کہا گیا ہے کہ منتخب اسمبلی نمائندوں کو پارٹی پالیسی سے اختلاف کا حق ہے لیکن انحراف کا نہیں، منحرف رکن کیخلاف 63اےکی تشریح تک اس کا ووٹ متنازع قرار دیا جائے۔،

    صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل63اے کی”امانت اورخیانت”کے تناظر میں قانونی تشریح کی درخواست کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بارہا فلور کراسنگ کو ناسور قرار دے چکی ہے۔

    مسودے کے متن کے مطابق آرٹیکل62 ،63اے کی واضح تشریح ووٹوں کی خریدوفروخت بند کردے گی، آرٹیکل63اےکے تحت عبوری نااہلی نظام کیلئے زیادہ نقصان دہ ہے۔

    منتخب نمائندے کیلئے انحراف پر تاحیات نااہلی کی سزا ہونی چاہیے، آرٹیکل63اےمیں منحرف رکن کو صرف نشست سے محروم کیا جاسکتا ہے، منحرف رکن پر دوبارہ الیکشن لڑنے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔

    تاحیات نااہلی نہ ہونے کے باعث یہ ارکان انحراف پر ڈھٹائی دکھا رہے ہیں، عدالت کو آئینی شقوں کی قوی اور بامقصد تشریح کرنا ہوگی، سپریم کورٹ آرٹیکل63،62اور17اے کی دوٹوک تشریح کرے۔

    فلور کراسنگ، انحراف، ووٹ کی خرید وفروخت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جائے، فلور کراسنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی مثالیں ریفرنس کا حصہ ہیں۔

    پارٹی منشور پر منتخب رکن کا انحراف جمہور کےاعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، سیاسی جماعتیں منتخب نمائندوں کے مفاد میں قانون سازی کرتی ہیں۔

  • ایم سی بی نجکاری کیس : سپریم کورٹ سے نیب کی استدعا مسترد

    ایم سی بی نجکاری کیس : سپریم کورٹ سے نیب کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ایم سی بی کی نجکاری کے خلاف کی جانے والی نیب کی اپیل پر سماعت ہوئی، اس موقع پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو 3ماہ میں دائرہ اختیار پر فیصلے کا حکم دے دیا

    عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ فیصلہ کرے کہ ایم سی بی نجکاری کی تحقیقات کا اختیار نیب کو ہے یا نہیں؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانا نے ہائی کورٹ کا حکم امتناعی ختم کرنے کی استدعا کی جس پرسپریم کورٹ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب دائرہ اختیار پر فیصلہ ہوگا تو حکم امتناع ازخود ختم ہو جائے گا۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانا نے نجکاری کیخلاف انکوائری سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی، ایم سی بی کی نجکاری خلاف ضابطہ ہوئی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ نیب لوکل کمیشن سےغیرحاضر رہا، سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ دائرہ اختیار کا ہے کیس کے میرٹ کا نہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ مسلسل 6 سال سے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

  • کم عمر بچے کو تحفے میں دی گئی جائیداد واپس لی جا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    کم عمر بچے کو تحفے میں دی گئی جائیداد واپس لی جا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    اسلام آباد: کیا کم عمر بچے کو والد کی جانب سے تحفے میں دی گئی جائیداد واپس لی جا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں اہم فیصلہ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں جائیداد گفٹ کرنے سے متعلق ایک اہم کیس کا فیصلہ جاری ہوا ہے، جس میں عدالت نے قرار دیا کہ والد کی جانب سے کم عمر بچوں کو تحفے میں دی گئی جائیداد واپس نہیں لی جا سکتی۔

    عدالتی کاغذات کے مطابق مظفرگڑھ کے ایک رہائشی کو 5 سال کی عمر میں والد نے 859 کنال زمین تحفے میں دی تھی، جس پر سوتیلے بھائی عابد حسین نے اس سے باپ کی تحفے میں دی گئی زمین واپس لینے کے لیے دعویٰ دائر کیا تھا۔

    سپریم کورٹ کا آرڈیننس کے اجرا سے متعلق تاریخی فیصلہ

    لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے عابد حسین کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا، جس پر انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ نے بھی عابد حسین کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ والد کی جانب سے تحفے میں دی گئی زمین کے لیے انتقال کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، اسلامی تعلیمات کے مطابق تحفے میں دی گئی چیز واپس لینا بدترین عمل ہے۔

  • خاتون اسمگلر کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، جج کا اظہار برہمی

    خاتون اسمگلر کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، جج کا اظہار برہمی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے 50سالہ خاتون چرس اسمگلر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کردی، جج کا کہنا تھا کہ وکیل صاحب چھوٹے ایشو چھوڑیں قانونی بات بتائیں۔

    سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے موقع پر ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ خاتون کو بلاوجہ مقدمے میں شامل کیا گیا، قانون کے مطابق سیمپل نہیں لیا گیا۔

    مذکورہ دلیل پر جسٹس قاضی امین نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب چھوٹے ایشو چھوڑیں قانونی بات بتائیں، جرم سنگین ہوگا تو قانون بھی سخت بنیں گے۔

    جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ منشیات کا معاملہ معاشرے کیخلاف بڑا جرم کہلاتا ہے، ہم ججز لوگ مریخ سے اٹھ کر نہیں بنتے اسی نظام سے آگے آتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کیس جھوٹا ہے اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ پیکٹ ایسا نہیں ویسا نہیں تھا، فیئر ٹرائل کیلئے ملزم کو بھی فیئر ہونا ضروری ہے۔

    جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ججز سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، وکیل نے پھر کہا کہ ملزمہ کو پھنسانے کیلئے جھوٹا کیس بنایا گیا ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے وکیل کو مخطاب کرتے ہوئے پوچھا کہ وکیل صاحب 24 کلو ہیروئن کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ مختلف ممالک میں مختلف قیمت ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمہ نیویارک میں گرفتار ہوئی یا پاکستان میں؟ معاشرے کیلئے ہم ججز کی ذمہ داری ہے، نارکوٹکس کے مقدمات میں تباہی ہو رہی ہے۔

    جسٹس قاضی محمد امین کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو ملزمان کے لئے جنت بنا دیا گیا ہے، ایسے مقدمات میں کوتاہی پر محرر کیخلاف پرچے ہوں گے۔،

    اپیل کی سماعت کے موقع پر ایڈیشنل پراسیکیوٹرعابد مجید نے بتایا کہ خاتون ہونے کی وجہ سے ملزمہ کو رعایت مل چکی ہے، کیمیکل لیبارٹری رپورٹ میں مثبت ہے۔

  • سراج درانی کے خلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، سپریم کورٹ

    سراج درانی کے خلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کی درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس عائشہ ملک کی سربراہی میں ہوئی۔

    اس موقع پر اسپیکر سندھ اسمبلی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل سراج درانی مالدار گھرانے سے ہیں ان کے لیے اثاثے بنانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ نیب نے سراج درانی کی آمدنی کا حساب سال 2007 سے لگایا، سراج درانی نے ٹیکس گوشوارے 2007 سے جمع کرانے شروع کیے تھے۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا مطلب آمدن صفر ہونا نہیں ہوتا، سراج درانی اور ان کے اہل خانہ 1985 سے 900ایکڑ کے وارث ہیں۔

    اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سراج درانی نے1985 سے2008 تک کتنا پیسہ کمایا؟ حیران کن بات ہے2008 تک پیسہ کماتے رہے اور یکدم خرچ کرنا بھی شروع ہوگئے؟ سراج درانی پیسہ جمع کرتے رہے توعلم ہوگا کہ کتنےجمع کیے اور کتنے خرچ کیے؟

    اس کے جواب میں ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی نے 4کنال کے دو گھر 1998 میں فروخت کیے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فروخت کیے گئے گھروں کی مالیت کا بھی تو علم نہیں ہے۔

    وکیل اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ سراج درانی کے پاس کئی سو تولہ سونا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سونا خریدنا سرمایہ کاری نہیں ہوتی، امیر لوگ سونا پیسے کی سکیورٹی کے لیے خریدتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ امیرلوگ تو شادیوں میں بھی کلو کے حساب سے سونا ڈالتے ہیں، بظاہر سراج درانی کے خلاف نیب کا کیس بہت مضبوط ہے، رکن اسمبلی بننے کے بعد سراج درانی کے اثاثوں میں تیزی سےاضافہ ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ گھر کو جیل قرار دینے کا مطلب ہے کہ سراج درانی بہت بااثر شخصیت ہیں، ملک کا نظام ایسا ہے جو بااثر افراد کو مکمل سہولت دیتا ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سراج درانی کو ضمانت نہ دیں تو بھی وہ گھر میں ہی ہیں، نیب کو سراج درانی کے جیل جانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ نیب ٹرائل مکمل ہونے تک سراج درانی کے اثاثے منجمد کرسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سراج درانی کا نام ای سی ایل میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے، امریکا میں کرپشن ملزمان کو ٹریکر لگایا جاتا ہے تاکہ نظر رکھی جاسکے۔

    عدالت نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کل تک سوچ کر مؤقف سے آگاہ کرے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے تک کییے مؤخر کردی۔

  • مونال ریسٹورنٹ سیل کرنے سے متعلق فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    مونال ریسٹورنٹ سیل کرنے سے متعلق فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ سیل کرنے سے متعلق فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مونال ریسٹورنٹ کی سیل کرنے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی ، وکیل مونال مخدوم علی خان نے کہا سی ڈی اے نے تحریری حکم سے پہلے ہی مونال کو سیل کر دیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے جو کچھ ہو چکا ہے اسے فی الحال واپس نہیں کرسکتے، جس پر وکیل مونال نے کہا کہ سی ڈی اے اور مونال کا تنازع سول عدالت میں زیر التواہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نےمقدمہ زیر التواہونے کے باوجودفیصلہ سنا یا۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ نے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر فیصلہ کیا ؟ جس پروکیل مخدوم علی خان نے بتایا شواہد ریکارڈ کئےبغیر ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نےفیصلہ جاری کیا، مونال ریسٹورنٹ تو کیس میں فریق ہی نہیں تھا۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے سوموٹو لے کر مونال کوسیل کرنےکاحکم دیا،مونال سیل کرنےکی استدعا کسی درخواست گزارنےنہیں کی تھی۔

    عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

    یاد رہے 11 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیرقانونی تعمیرات اور ‏تجاوزات کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران مونال ریسٹورنٹ کو سیل کر کے ہوٹل خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔