Tag: supreme court

  • تحریک انصاف گلگت بلتستان کی نگران حکومت کوعدالت میں چیلنج کریگی

    تحریک انصاف گلگت بلتستان کی نگران حکومت کوعدالت میں چیلنج کریگی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مسلم لیگ نواز کی جانب سے گلگت بلتستان میں قبل از انتخابات دھاندلی کی شدید مذمت کرتے ہوئے گورنر سمیت نگران حکومت کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    ان خیالات کا اظہارچیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ نواز گلگت بلتستان میں قبل از انتخابات دھاندلی کیلئے بھرپور کوشاں ہے جس کیلئے مسلم لیگی وزیر کو گورنر جبکہ قراقرم بنک کے ملازم کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر تعینات کیا گیا ہے۔

    تاہم تحریک انصاف مسلم لیگ کی اس بد دیانتی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ایسے متنازعہ انداز میں انتخابات کے انعقاد کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز نے عام انتخابات میں تاریخی دھاندلی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا اگر وفاقی حکومت عدالتی کمیشن قائم نہیں کرتی تو بھی دھاندلی کے ناقابل تردید شواہد قوم کے سامنے آئیں گے۔

    سینٹ انتخابات سے قبل اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان نے سینٹ انتخابات کے دوران خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت پر زور دیا۔

    چیئرمین تحریک انصاف نے وفاقی وزیر خزانہ اور حکمران جماعت کی قیادت کے بیرون ملک موجود اثاثوں کاذکر کرتے ہوئے دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرنے والوں کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھنے کا مطالبہ بھی کیا۔

  • سپریم کورٹ:21ویں ترمیم پر جواب کے لئے24فروری تک مہلت

    سپریم کورٹ:21ویں ترمیم پر جواب کے لئے24فروری تک مہلت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں پر جواب کے لئے چوبیس فروری تک ملہت دے دی ، اکیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ اٹھارویں ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی نمٹانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔

    اکیسویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی،  سپریم کورٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم کی سماعت کے لئے فل کورٹ کی تشکیل اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بھی اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کے ساتھ ہی کیجانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل اور تین صوبوں کو جواب دینے کے لئے مزید دس روز کی مہلت دے دی گئی جبکہ کے پی کے نے اپنا جواب جمع کروا دیا ہے۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں اٹھارہویں ترمیم کے خلاف بھی درخواستیں موجود ہیں، جو چار سال سے زیرِ التوا ہیں، ان میں بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا سوال اٹھایا گیا ہے، عدالت ان درخواستوں کی سماعت بھی موجودہ درخواستوں کیساتھ ہی کرے گی کیونکہ کہ ان دونوں درخواستوں میں یہ سوال مشترک ہے۔

    انھون نے کہا کہ عدالت جائزہ لے گی کہ کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور کیا عدالت ان ترامیم کا جائزہ لے سکتی ہے اور کیا یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں یا نہیں۔

    ان ریمارکس کے ساتھ عدالت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں، مقدمے کی مزید سماعت چوبیس فروری تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں اور اٹھارویں ترمیم میں بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہونے کا سوال مشترک ہے۔

  • اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کی سماعت آج

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کی سماعت آج

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج ہوگی، چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ سماعت کرے گا۔

    لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے وفاق اور چاروں صوبوں سے جواب طلب کیا تھا، کے پی کے حکومت نے اپنا جواب جمع کروادیا ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔

    فوجی عدالتیں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی تناظر میں مقدمات کے جلد فیصلوں اور گواہوں کی حفاظت کے پیش نظر قائم کی گئی ہے۔

    جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام نہیں بلکہ ایک عارضی نظام ہے، جو اسی ترمیم کے تحت دو سال میں خود ہی ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اسے آئین یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار دینا درست نہیں لہذا فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔

    پاکستان بار نے آج ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام پر یومِ سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • سپریم کورٹ کل ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست کی سماعت کرے گا

    سپریم کورٹ کل ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست کی سماعت کرے گا

    اسلام آباد: اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ کرے گا۔

    لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے وفاق اور چاروں صوبوں سے جواب طلب کیا تھا۔

    کے پی کے حکومت نے اپنا جواب جمع کروادیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔
    فوجی عدالتیں ملک میں برھتی ہوئی دہشت گردی کی تناظر میں مقدمات کے جلد فیصلوں اورگواہوں کی حفاظت کے پیش نظر قائم کی گئی ہے۔

    جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام نہیں بلکہ ایک عارضی نظام ہے جو اسی ترمیم کے تحت دو سال میں خودہی ختم ہوجائے گا اس لیے اسے آئین یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار دینا درست نہیں لہذا فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔

    دریں اثنا سپریم کورٹ اور پاکستان بار کی جانب سے الگ درخواستیں دائرکردی گئی ہیں جبکہ پاکستان بار نے کل ملک بھرمیں فوجی عدالتوں کے قیام پر احتجاجا یوم سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • کراچی میں 6سال کے دوران 398لاوارث لاشیں ملیں

    کراچی میں 6سال کے دوران 398لاوارث لاشیں ملیں

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے رپورٹ جمع کرادی، کراچی میں پانچ سال میں تین سو اٹھانوے لاوارث لاشیں ملیں۔

    سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے صوبوں کو لاپتہ افراد کے بارے میں مکمل رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، سندھ کی جانب سے صوبائی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے رپورٹ عدالت عظمی میں جمع کرائی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں پانچ سال میں تین سو اٹھانوے لاوارث لاشیں ملیں، جن میں تین سو چار لاشوں کی شناخت ہوسکی جبکہ چورانوے لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔

    لاشوں کی شناخت کیلئے چوراسی اشتہار دیئے گئے ہیں جبکہ چھ لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرایا گیا، دو ہزار دس میں چورانوے میں سے اکتیس لاشوں کی شناخت ہوئی۔

    دو ہزار بارہ میں 80لاشیں ملیں اور 69کی شناخت ہوئی اور 2014میں 65لاشیں ملیں اور 44کی شناخت ہوئی۔ 2010سے2015تک 398لاشیں ملیں، جن میں سے 304کی شناخت ہوئی۔

  • پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی،حامد خان

    پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی،حامد خان

    اسلام آباد : تحریک انصاف نےاکیسویں ترمیم کےعمل میں شرکت نہیں کی،حامد خان نےسپریم کورٹ کوآگاہ کردیا،کہتےہیں پٹیشن کی اگلی سماعت تک فوجی عدالتوں کاکام کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پٹیشن کی سماعت کی۔ جسٹس گلزار نےلاہور بار کے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی بھی اس ترمیم میں شریک تھی

    جواب میں  حامد خان کا کہنا تھاکہ وہ یہاں ہائی کورٹ بار کے وکیل کی حیثیت سے موجود ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی۔

    عدالت کےباہر میڈیا سے گفتگو میں لاہور بار کے حامد خان کاکہنا تھا کہ پٹیشن کی آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کا کام شروع کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

    لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحفظ میں ناکام رہیں شفقت چوہان کامزید کہنا تھا کہ آئین میں غیر آئینی ترمیم کی گئی ہے۔

  • سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کی سماعت ہوئی، عدالت عظمیٰ نے وفاق اور چاروں صوبوں سے پندرہ روز میں تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔

    جسٹس گلزار نے لاہور بار کے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی بھی اس ترمیم میں شریک تھی، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں ہائی کورٹ بار کے وکیل کی حیثیت سے موجود ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی۔

    واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار و دیگر کی جانب سے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ میں جسٹس گلزار اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔

    عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں لاہور بار کے حامد خان کا کہنا تھا کہ پٹیشن کی آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کا کام شروع کرنا مناسب نہیں ہوگا، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحفظ میں ناکام رہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ آئین میں غیر آئینی ترمیم کی گئی ہے۔

  • اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت28جنوری کو ہوگی

    اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت28جنوری کو ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف لاہورہائی کورٹ بار کی درخواست کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دے دیا ہے۔

    جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ درخواست کی سماعت اٹھائیس جنوری کو کرے گا۔

     آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو کوئی ایسی ترمیم کرنے کا اختیار حاصل نہیں جو انسانی حقوق کے منافی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو۔

     لاہور ہائی کورٹ بار نے ملٹری کورٹس کے قیام اور اکیسویں آئینی ترمیم آئین کے منافی ہونے کے بنا پر کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

  • کالعدم تنظیموں کے نام ویب سائٹس پر جاری کئے جائیں، سپریم کورٹ

    کالعدم تنظیموں کے نام ویب سائٹس پر جاری کئے جائیں، سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تمام کالعدم تنظیموں کے ناموں کی فہرست اور متعلقہ قوانین کی تشہیر ویب سائٹ پر کی جائے۔

    قانونی کتب سے متعلق مقدمے کی سماعت کےدوران جسٹس جواد ایس خواجہ کو ان کے معاون نے بتایا کہ وزارت قانون اور وزارت داخلہ کی ویب سائٹس پر کالعدم تنظیموں کی حوالے سے کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ کل کسی صحافی پر مقدمہ ہوجائے تو وہ یہ کہے گا کہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ فلاں تنظیم کالعدم ہے، اگر تمام تنظیموں کے نام اور ان کے خلاف قوانین تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کرکے ویب سائٹ پر جاری کردی جائیں تو نہ صرف دنیا ان سے باخبر ہوجائے گی بلکہ پاکستان پر سے ان کی سرپرستی کا الزام بھی ختم ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ دفترخارجہ کی ترجمان نے میڈیا بریفنگ میں بتایا ہے کہ جماعت الدعوۃ سمیت دیگرتنظیمیں اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی کی فہرست میں شامل ہیں، رکن کی حیثیت سے پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کاپابند ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کےخلاف کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کےمطابق ہونی چاہئیں،پاکستان تمام دہشت گردگروپوں کے خلاف کارروائی کررہاہے۔

  • سپریم کورٹ کے ججزز نے ملٹری کورٹ کی مخالفت کردی

    سپریم کورٹ کے ججزز نے ملٹری کورٹ کی مخالفت کردی

    اسلام آباد: جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں مقدمات میں تاخیر پر حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرے عدلیہ کو مورد الزام نہ ٹھہرائے۔

    سپریم کورٹ کے مختلف مقدمات میں جسٹس آصف سعیدکھوسہ، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا بیان تکلیف دہ ہے۔ ملٹری کورٹس کے قائم کی ضرورت نہیں تھی ملٹری کو رٹس میں اعلی عدلیہ سے زیادہ قابل اور اہل جج نہیں ہوں گے۔ عدالت کا کام صرف سزا دینا نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔

    جیل اصلاحات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جیل کے انتظامی معاملات دیکھنا حکومت کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔ عدلیہ نے یہ نوٹس حکومت کو جگانے کے لیے ہی لیا تھا، وزیراعظم کا بیان پڑھ کر دکھ ہوا، ملک میں سترہ لاکھ مقدمات زیرسماعت ہیں جبکہ ججوں کی تعداد صرف چوبیس سو ہے، حکومت سے مزید ججوں کو تعینات کرنے کو کہا جائے تو فنڈ اور اسٹاف کی کمی کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔

     اٹارنی جنرل کی جانب سے اصلاحات کی یقین دہانی پر مقدمے کی کارروائی نمٹا دی گئی جبکہ جھوٹے مقدمات کے اندراج کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر مقدمات کی سماعت میں تاخیر ہوتی ہے یا ایک لاکھ مقدمات میں سے چونسٹھ ہزار بری ہوجاتے ہیں تو یہ استغاثہ کی کمزوری ہے۔ ضرورت انتظامی اصلاحات اور عدالتوں کے مسائل حل کرنے کی ہے۔

    عدالت نے ناقص چالان کی بنیاد پر اب تک بری ہونے والے ملزمان کی تعداد ، پیش کیے گئے نامکمل چالان کی تعداد اور ایسے چالان پیش کرنے والوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کی رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت چھبیس جنوری تک ملتوی کردی۔