Tag: surprising revelation

  • کیڑے بھی خودکشی کرتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ حیران کن انکشاف

    کیڑے بھی خودکشی کرتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ حیران کن انکشاف

    سائنسدانوں کے مطابق سنڈی کیڑے پر ایسا وائرس حملہ آور ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کیڑے کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

    کیٹرپلر یا سنڈی پودے کا دشمن کیڑا مانا جاتا ہے جس کے پنپنے کا ایک فطری عمل بالکل تتلی کی طرح ہوتا ہے جس میں کیٹرپلر پیوپا بنتا ہے اور پیوپا بننے کے عمل سے پہلے یہ زمین پر گر کر دھنس جاتا ہے اور پھر اس سے تتلی جیسا کیڑا برآمد ہوتا ہے۔ لیکن اکثر سنڈی کیڑے اپنا یہ حیاتیاتی چکر پورا ہونے سے قبل ہی مرجاتے ہیں جس پر ماہرین طویل عرصے سے تحقیق کررہے تھے ۔

    اس حوالے سے چین میں ہونیوالی نئی تحقیق میں ایک ایسا وائرس دریافت ہوا ہے جو اس کیڑے کے پنپنے کے عمل کو روک کر اسے موت سے ہمکنار ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔

    نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیوکلیوپولی ہیڈرووائرس (این پی وی) کی کئی اقسام کاٹن بول ورم (ہیلی کوورپا آرمیجیرا) کیٹرپلر کو متاثر کرکے اسے پودے یا درخت کی بلندی پر جانے پر مجبور کردیتے ہیں جہاں وہ بھوکا پیاسا سوکھ کر مرجاتا ہے۔

    چین کی زرعی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس حوالے سے حتمی نتیجہ اخذ کرنے کیلیے بعض تجربات کئے جس میں این پی وی اور بول ورم کے درمیان تعلق پر غور کیا ہے۔ اسے درخت کی بلندی کا مرض بھی کہا جاتا ہے جہاں کیڑا درخت کے اوپر جاکر مرجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ وائرس کیٹرپلر پر حملہ آور ہوکر اسے روشنی کی جانب راغب کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روشنی کی کشش میں پودے یا درخت کے اوپر جانا شروع کردیتا ہےاور بلند ترین مقام پر جاکر بھوک پیاس کے سبب مرجاتا ہے۔

    اس ضمن میں تجربہ گاہوں میں وائرس سے متاثر اور تندرست کیٹرپلر پر ایل ای ڈی لائٹ کے مختلف تجربات کئے گئے ہیں۔ پھر معلوم ہوا کی جیسے ہی وائرس کیڑے کو نشانہ بناتا ہے تو کیٹرپلر کے 6 اہم جین بدل جاتے ہیں اور وہ روشنی کا مختلف احساس کرنے لگتے ہیں۔

  • فرعون کے خنجر سے متعلق حیران کن انکشاف

    فرعون کے خنجر سے متعلق حیران کن انکشاف

    فرعون توتنخ آمون کے مقبرے سے ملنے والے شاہی خنجر پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ خنجر کو شہاب ثاقب کے لوہے سے تیار کیا گیا تھا۔

    توتنخ آمون جس کو توتن خامن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اٹھارواں اور آخری فرعون تھا جو آج سے 3300 سال قبل مصر پر حکمران تھا۔

    توتن خامن کا مقبرہ 1925 میں دریافت ہوا تھا جس میں سینکڑوں قدیم اشیا برآمد ہوئی تھیں جن پر مسلسل تحقیق جاری ہے، ان برآمد ہونے والی اشیا میں یہ شاہی خنجر بھی شامل ہے جس کے سونے سے بنے دستے میں موتی جڑے ہوئے ہیں اس کا پھل لوہے کا ہے جس پر سیاہی مائل نشانات پڑچکے ہیں۔

    اس خنجر پر جاپان اور مصر کے ماہرین نے مشترکہ تحقیق کی ہے اور یہ نئی تحقیق ’’میٹیورائٹس اینڈ پلینٹری سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تحقیق میں معلوم ہوا ہے اس خنجر کو تقریباْ 950 ڈگری سینٹی گریڈ پر ڈھالا گیا تھا اس کے ساتھ ہی یہ حیران کن انکشاف بھی ہوا کہ اس میں معمولی مقدار والے مادے (ٹریس مٹیریلز) ٹھیک اسی ترتیب میں ہیں کہ جیسی فولادی شہاب ثاقب میں ہوتی ہے۔

    توتنخ آمون کے شاہی خنجر اور اس شہابیے میں ٹریس مٹیریلز کی ترکیب بالکل یکساں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خنجر کی تیاری کیلیے جس جگہ سے بھی کھدائی کرکے دھات نکالی گئی تھی وہاں شاید لاکھوں کروڑوں سال قبل کوئی فولادی شہاب ثاقب ٹکرا چکا تھا۔

     

    اس سے قبل فروری 2020میں قاہرہ کے عجائب گھر اور جاپان کے چیباق انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اس خنجر کے بارے میں مزید جاننے کے لیے جدید ایکسرے اور آلات کا استعمال کیا تھا جن کے مشاہدات سے ہی ان دھبوں میں سلفر، کلورین، کیلشیئم اور زنک کی بھی معمولی مقداریں دریافت ہوئی تھیں۔

    دنیا میں لوہے کا دور شروع ہونے کے حوالے سے عموماْ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ لوہے کا زمانہ تقریباْ 1200 قبل مسیح میں شروع ہوا تھا لیکن اس خنجر میں لوہے کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب شاید دنیا کو اپنا نظریہ تبدیل کرنا پڑے کیونکہ اس خنجر کے حوالے سے تحقیق کے بعد پتہ چلتا ہے کہ شاید لوہے کے زمانے کا آغاز 1400 قبل مسیح کے آس پاس ہوچکا تھا۔

    جب کہ اس سے پہلے 2016 میں اس خنجر کے پھل پر لگے دھبوں میں نکل اور کوبالٹ دھاتوں کی معمولی مقداریں بھی دریافت ہوچکی تھیں۔

    تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون کے زمانے میں فولاد سازی کو بہت خاص ہنر سمجھا جاتا تھا اور لوہے یا فولاد سے بنے خنجروں اور تلواروں کو شاہی تحائف کا درجہ حاصل تھا۔

    زیر تحقیق خنجر کے بارے میں تاریخی ریکارڈ سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ یہ خنجر اصل میں شادی کا تحفہ تھا جو تونخ آمون کے دادا ایمن ہوتپ سوم کو ’’سلطنت میتانی‘‘ کے بادشاہ نے دیا تھا جو نسل در نسل ہوتا ہوا توتخ آمون تک پہنچا تھا۔

  • زیادہ بجلی کون کھاتا ہے؟ بٹ‌ کوائن یا پاکستان، حیران کن انکشاف

    زیادہ بجلی کون کھاتا ہے؟ بٹ‌ کوائن یا پاکستان، حیران کن انکشاف

    بٹ کوائن کے نام سے اکثریت صارفین واقف ہی ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بٹ کوائن کی مائننگ پر پاکستان کی کل سالانہ کھپت سے زیادہ بجلی خرچ ہوتی ہے۔

    یقیناً آپ بٹ خوائن کی مائننگ پر بجلی کی اتنی زیادہ کھپت کا سن کر چونک گئے ہوں گے ایک مملکت کی کل کھپت کے برابر ایک کرپٹو کرنسی پر بجلی خرچ ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

    اس حقیقت سے امریکا کی کیمبرج یونیورسٹی نے پردہ ہٹایا، تحقیقات رپورٹ میں میں بتایا گیا ہے کہ بٹ کوائن کی مائننگ پر سالانہ 121.36 ٹیرا واٹ آورز بجلی خرچ ہوتی ہے جو پاکستان کی کل کھپت سے زیادہ ہے، پاکستان کی کل سالانہ کھپت 90 ٹی ڈبلیو آورز ہے۔

    تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی اس کھپت میں اس وقت تک کمی واقع نہیں ہوسکتی جب تک بٹ کی قدر میں نمایاں کمی نہیں ہوتی۔

    اس وقت ایک بٹ کوائن کی مالیت 48 ہزار امریکی ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ روپے سے زائد بنتے ہیں اور حال ہی میں الیکٹرک کار بنانے والی معروف کمپنی ٹیسلا کے بٹ کوائن خریدنے کے اعلان نے 1.5 ارب ڈالر بٹ کوائن جیسے پر ہی لگا دئیے ہوں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے بٹ کوائن کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اس کی مائننگ بھی بڑھ رہی ہے اور بجلی کے خرچ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے جس پر قابو پانے کا بس ایک ذریعہ ہے کہ امریکا میں ہر وقت استعمال ہونے والی ڈیوائسز رات کو بند کردی جائیں جس کی مدد سے سالانہ اتنی بجلی بچے کہ پوری دنیا میں بٹ کوائن کی مائننگ کےلیے کافی ہوگی۔

    واضح رہے کہ کسی بھی کرپٹو کرنسی کو بنانے کا عمل ’مائننگ‘ کہلاتا ہے، اس عمل میں ٹرانزیکشنز کی تصدیق کے لیے بہت زیادہ کمپیوٹر کیلکولیشنز کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے یہ عمل بہت زیادہ بجلی کھاتا ہے۔