Tag: Survive

  • کسی پرہجوم جگہ پر بھگڈر مچ جانے کی صورت میں کیسے جان بچائی جاسکتی ہے؟

    کسی پرہجوم جگہ پر بھگڈر مچ جانے کی صورت میں کیسے جان بچائی جاسکتی ہے؟

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں ہیلووین کی تقریبات کے دوران گزشتہ دنوں ایک بہت ہی پرہجوم علاقے میں رات کے وقت بھگدڑ مچ جانے سے 150 سے زائد افراد ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ایسا آخر کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ انسانوں کے اس بہت بڑے ہجوم میں شامل افراد کے ذہنوں پر تب کیا گزر رہی تھی؟ اگر کوئی انسان کبھی خود کو ایسی کسی صورتحال میں پائے، تو اسے کیا کرنا چاہیئے اور کیسا رد عمل ظاہر کرنا چاہیئے؟

    ہجوم کی نفسیات کے ماہرین نے ماضی میں بھگدڑ کے ایسے واقعات کے سائنسی مطالعوں سے حاصل کردہ آگہی اور نتائج کی روشنی میں اس حوالے سے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔

    سوئٹزر لینڈ کی سینٹ گالن یونیورسٹی میں ثقافتی اور سماجی نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر آنا زِیبن نے کہا کہ سیئول میں نظر آنے والی صورتحال 2010 کی لو پریڈ کے موقع پر مچنے والی اس بھگدڑ سے کافی مماثلت رکھتی تھی، جو جرمنی میں ایک دہائی قبل دیکھنے میں آئی تھی۔

    تب جرمنی میں اس فیسٹیول میں بہت زیادہ بھیڑ تھی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

    اس اجتماع کے ماحول اور وہاں موجود انسانوں کے رویوں کے بارے میں کی گئی ریسرچ نے، جو خود ایسوسی ایٹ پروفیسر آنا زِیبن نے مکمل کی تھی، یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہاں جو کچھ ہوا اور شاید جنوبی کوریا میں بھی، اس سے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر خوف و ہراس نہیں پھیلا تھا۔

    پروفیسر کا خیال یہ ہے کہ کسی بھی بھگدڑ کے واقعے میں موجود افراد کو اکثر سمجھ ہی نہیں آتا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے اور کسی بھی وقت کچھ بہت غلط ہونے والا ہے، پھر جب انہیں اس کا ادراک ہوتا ہے تو تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

    سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ کی ایک یونیورسٹی کے کمپیوٹیشنل سوشل سائنس کے پروفیسر ڈرک ہیلبِنگ پروفیسر آنا زِیبن کی اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہجوم کی لائی ہوئی تباہی کے بارے میں ایک وسیع نظریہ یہی ہے کہ ایسا کسی فیسٹیول یا ہجوم کے شرکا میں پائی جانے والی بے چینی اور ان میں خوف و ہراس پھیلنے کے نتیجے میں ہی ہوتا ہے، ایسے میں انسانی جسم کے ہارمون ایڈرینالین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ نتیجتاً ان میں بھاگنے، جھگڑنے اور دست و گریباں ہونے کی جبلت متحرک ہو جاتی ہے۔

    ان کے مطابق ایسے میں لوگ خوف کے باعث بری طرح بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی راہ میں آنے والے دیگر انسان بھی روندے جاتے ہیں۔

    پروفیسر ہیلبِنگ کا کہنا ہے کہ ذہنی کیفیت یا نفسیاتی حالت سے زیادہ جسمانی قوتوں کا استعمال کراؤڈ ٹربولینس یا ہجوم کی ہنگامہ خیزی کی وجہ بنتا ہے۔

    ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیئے؟

    بھگدڑ کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور آنا زِیبن کے بقول اکثر ایسی کسی بھگدڑ کا احساس ہوتے ہوتے بہت دیر ہو جاتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ اس کی ایک نشانی، جو ممکنہ طور پر بھگدڑ کے آغاز یا اس کے امکان کی پیش گوئی کر سکتی ہے، یہ ہوتی ہے کہ ہجوم میں شامل افراد تمام سمتوں میں بے قابو ہو کر ہلنا جلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بھیڑ میں زیادہ دباؤ کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اگر آپ خود کو اس نوعیت کی کسی صورت حال میں پاتے ہیں، یا آپ کو جن حالات کا سامنا ہو وہ ایک کرش ایونٹ کے آغاز کا احساس دلانے لگیں، تو آپ کو چاہیئے کہ آپ فوری طور پر وہاں سے باہر نکلنے کی حکمت عملی تلاش کریں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ کچلے جانے جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، مگر اس ڈر سے مدد کے لیے نہیں چیختے کہ کہیں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس نہ پھیل جائے۔
    لیکن ان کے بقول یہ غلط حکمت عملی ہے کیونکہ اس قسم کی کوئی بھی اطلاع جلد از جلد بلند آواز میں ہر کسی تک پہنچانے سے ہجوم میں کچلے جانے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

  • 32 ویں منزل سے گرنے والی بلی زندہ کیسے بچ گئی؟

    32 ویں منزل سے گرنے والی بلی زندہ کیسے بچ گئی؟

    امریکی شہر نیویارک میں ایک بلی 32 منزلہ عمارت سے نیچے گر پڑی، لوگوں کا خیال تھا کہ بلی زندہ نہیں ہوگی مگر وہ سانس لے رہی تھی البتہ زخمی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں نے اسے جانوروں کے اسپتال پہنچایا۔

    ڈاکٹر کے مطابق بلی کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا تھا اور اس کے پنجوں کے ناخن ٹوٹ گئے تھے۔ صرف 2 دن بعد بلی بھلی چنگی ہو کر اپنے مالک کے ساتھ گھر چلی گئی۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بلندی سے گرنے کے باوجود بلی کیسے محفوظ رہی؟ آج ہم بلی کی اسی قدرتی صلاحیت کے بارے میں آپ کو بتائیں گے جو کئی مواقعوں پر اس کی جان بچاتی ہے۔

    شرارتیں اور بھاگ دوڑ کرتے ہوئے معصوم بلیوں کا گرنا روزمرہ کا معمول ہے، ہر بار گرتے ہوئے وہ اپنی ٹانگوں کا رخ زمین کی طرف کر لیتی ہے یعنی گرنے کے بعد پہلے اس کے پاؤں زمین سے ٹکراتے ہیں۔ بہت کم کہیں سے گرنے کے بعد کسی بلی کی موت واقع ہوتی ہے۔

    اگر وہ کسی جگہ سے الٹی یعنی پشت کے بل گرے تب بھی زمین پر وہ سیدھی یعنی ٹانگوں کے بل پر ہی پہنچتی ہے۔ بلیوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ گرنے کے دوران ہوا میں ہی اپنے جسم کا رخ بدل کر ٹانگوں کا رخ زمین کی طرف کر لیتی ہیں۔

    لیکن ٹانگوں کے بل زمین پر گرنا ہر دفعہ کارآمد نہیں ہوتا خصوصاً اس وقت جب بلی بہت زیادہ بلندی سے نیچے گر رہی ہو۔

    اس بارے میں جاننے کے لیے ماہرین نے 100 ایسی بلیوں کے گرنے کا جائزہ لیا جو 2 سے لے 32 منزلوں تک ہر قسم کی اونچائی سے گر چکی تھیں۔

    ماہرین نے ایک اور انوکھی تکنیک دریافت کی۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر بلی 7 منزلوں تک کی اونچائی سے گرے تب تو وہ ٹانگوں کے بل ہی گرتی ہے، لیکن اگر وہ اس سے زیادہ بلندی سے گر پڑے تو وہ اپنی ٹانگوں کو پھیلا لیتی ہے اور پیٹ کے بل زمین پر گرتی ہے۔

    پیٹ کے بل گرنے سے پسلی کی ہڈی ٹوٹنے یا پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے تاہم ٹانگ ٹوٹنے سے محفوظ رہتی ہے اور معصوم بلی کی جان بھی بچ جاتی ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ بلی چاہے 32 ویں منزل سے گرے یا ساتویں منزل سے، اسے لگنے والے زخم ایک جیسے ہوتے ہیں یعنی انتہائی اونچائی سے گرنے کے بعد بھی بلی کو زیادہ چوٹیں نہیں آتیں۔

    لیکن خیال رہے کہ اگر آپ اس مضمون کو پڑھ کر اپنی پالتو بلی کو اونچائی سے گرانے کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ نہایت احمقانہ اور بے رحمانہ خیال ہے، پالتو بلیاں دیگر بلیوں کی نسبت ذرا زیادہ نازک مزاج ہوتی ہیں اور ہوسکتا ہے آپ کا کھیل کھیل میں کیا جانے والا تجربہ انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچا جائے۔

  • گاڑی کے نیچے آنے سے کیسے بچا جائے؟

    گاڑی کے نیچے آنے سے کیسے بچا جائے؟

    آج کل کی تیز رفتار زندگی میں تیز دوڑتی گاڑیوں سے بچنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب آپ خود بھی جلدی میں سڑک پار کر رہے ہوں۔

    ایک پروفیشنل اسٹنٹ وومین ٹیمی بیئرڈ ایک ایسا طریقہ بتاتی ہیں جس میں گاڑی کے ایکسیڈنٹ میں کم سے کم نقصان ہو سکتا ہے۔

    گاڑی سے تصادم صرف چند سیکنڈز یا لمحوں کا کھیل ہوتا ہے اور اس مختصر سے عرصے میں بہت کم لوگ فوری طور پر اپنے بچاؤ کی تدبیر کر پاتے ہیں۔

    ویسے تو سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی کے سامنے سے ہٹ جانا ہی بچاؤ کا سب سے بہترین حل ہے تاہم ایسے موقع پر حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور سامنے کھڑا شخص کچھ بھی نہیں کر پاتا۔

    مزید پڑھیں: ٹریفک حادثے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    ٹیمی بیئرڈ کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ خود کو سامنے سے آتی گاڑی کی زد میں پائیں اور تصادم یقینی ہو تو ایسی صورت میں گاڑی کے قریب آتے ہی اچھل کر اس کے بونٹ پر سوار ہوجائیں۔

    گو کہ اس طریقے میں بھی چوٹ لگے گی تاہم یہ اس سے کم ہوگی جو گاڑی سے تصادم کی صورت میں لگے گی اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روڈ ایکسیڈنٹ کی صورت میں اگر آپ خود کو بالکل ٹھیک ٹھاک محسوس کریں تب بھی ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔

    ہوسکتا ہے ایکسیڈنٹ میں آپ کو کوئی اندرونی زخم لگا ہو جو کچھ دیر بعد ظاہر ہو۔ ایسا اندرونی زخم جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔