Tag: swat valley

  • صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

    صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

    سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

    ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

    سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

    یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

    اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.

  • طالبان حملے کے بعد پہلی بار ملالہ یوسف زئی کی سوات  آمد

    طالبان حملے کے بعد پہلی بار ملالہ یوسف زئی کی سوات آمد

    سوات : نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی طالبان کے حملے کے بعد پہلی دفعہ سوات پہنچ گئیں، جہاں وہ اپنے آبائی گھر اور اسکول جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد بذریعہ ہیلی کاپٹر اسلام آباد سے سوات پہنچیں ، والد، والدہ اوربھائی سمیت وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب بھی ان کے ہمراہ ہیں، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتطامات کئے گئے ہیں۔

    ملالہ یوسف زئی والدین اور بھائی کے ہمراہ آبائی گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہوگئیں اور اہلخانہ کےساتھ خوبصورت لمحوں کی یادیں تازہ کیں اور گھر میں تصویریں کھنچوائیں۔

    گذشتہ روز اے آر وائی کے پروگرام سوال یہ ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملالہ کا کہنا تھا کہ ہرانسان کومرضی کےمطابق زندگی گزارنےکاحق ہے، بچوں کی تعلیم پاکستان کیلئے بہت اہم ہے، ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا آگے جارہی ہے ہمیں بھی آگے جانا ہوگا۔

    ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈاکٹرز نے حملے کے بعد سرجری کر کے جان بچائی، وطن واپس آکر بہت اچھا محسوس کررہی ہوں اور پاکستان میں تعلیم کے لیے جو کام جاری ہے اُسے بڑھانا چاہتی ہوں، سیاست کا کوئی شوق نہیں اس کے بغیر بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔


    مزید پڑھیں :  سیاست کا کوئی شوق نہیں اس کے بغیر بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، ملالہ یوسف زئی


    پاکستان کی بہادر بیٹی کا کہنا تھا کہ ’سوات کےلوگوں نے طالبان کے خلاف اور امن کے لیے آواز اٹھائی، مجھ پر حملہ ہوا تو پہلی سرجری پاکستانی ڈاکٹرز نے کی جس کی وجہ سے میری جان محفوظ رہی، آپریشن کرنے والے خود حیران تھے کہ میں زندہ کیسے بچ گئی۔

    یاد رہے کہ 29 مارچ کو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی 6 سال بعد اپنے والدین کے ہمراہ چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں تھیں، پاکستان میں قیام کے دوران ملالہ اہم شخصیات سے ملاقات اورکئی تقریبات میں شرکت کریں گی۔

    نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی ،ملاقات میں وزیراعظم نے ملالہ کی تعلیم کے فروغ کیلئے کی گئی کوششوں کو سراہا تھا۔


    مزید پڑھیں : ملالہ یوسف زئی کی 6 سال بعد پاکستان آمد


    واضح رہے 2012 میں مینگورہ میں ملالہ یوسف زئی پر اسکول سے گھر جاتے ہوئے طالبان نے حملہ کردیا تھا، جس میں وہ شدید زخمی ہوئی تھیں، ابتدائی طورپر ملالہ کو پاکستان میں ہی طبی امداد دی گئی تاہم بعد میں انہیں برطانیہ کے اسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔

    امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کے علاوہ متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والی 20 سالہ ملالہ اس وقت برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں۔

    ملالہ یوسف زئی 3 سال تک دنیا کی بااثرترین شخصیات کی فہرست میں شامل رہیں جبکہ ان کو کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی دی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔