Tag: Symptoms and treatment

  • منہ کا کینسر : علامات کیا ہیں ؟ علاج کیسے کرایا جائے؟

    منہ کا کینسر : علامات کیا ہیں ؟ علاج کیسے کرایا جائے؟

    کینسر ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر ہی ایک انجانا سا خوف طاری ہوجاتا ہے جس کے انتہائی مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس کے باوجود نوجوانوں کی بڑی تعداد گٹکا، مین پوری اور دیگر گلی سڑی اشیاء نشے کی صورت میں کھا جاتے ہیں۔

    اس قسم کے نشے کرنے سے منہ کا کینسر ہونا کوئی انہونی بات نہیں اس کی بےشمار مثالیں اسپتالوں میں داخل مریضوں کی صورت میں موجود ہیں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں کنسنلٹنٹ ڈینٹل سرجن ڈاکٹر فراز نواز نے منہ کے کینسر کی ابتدائی علامات اور اس کے علاج کے حوالے سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ منہ کے کینسر کی ابتدائی علامات میں منہ کھلنے میں دقت پیش آتی ہے، گٹکا و چھالیہ کھانے والے افراد کے منہ پر ابتداً چھوٹا سا چھالا بنتا ہے۔

    ڈاکٹر فراز نواز نے بتایا کہ یہ چھالا بننے کے بعد بتدریج منہ میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر رسولی بن جاتا ہے، اسے پری کنڈیشنڈ کینسر بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ کھانا کھاتے ہوئے منہ میں زیادہ مرچیں محسوس ہوتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ مریض اورل کینسر کی طرف جارہا ہے، اگر 20 دن تک یہ صورتحال رہے تو فوری طور پر صرف ’میکسیلو فیشل سرجن‘ سے رابطہ کریں۔

  • پھیپھڑوں کا کینسر، علامات اور علاج

    پھیپھڑوں کا کینسر، علامات اور علاج

    پھیپھڑوں کا کینسر اس بیماری کی سب سے مہلک قسم ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال، زیادہ لوگ چھاتی، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کے کینسر سے موت کے منہ میں جاتے ہیں۔

    اگرچہ تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے لیکن تمباکو نوشی نہ کرنے والوں میں بھی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں۔ پھیپھڑوں کا کینسر ابتدائی مراحل میں غیر علامتی ہوتا ہے لیکن ایکسرے کے ذریعے اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

    جو لوگ تمباکو نوشی کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں ان میں 20-30 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے جب کہ دوسرے ہینڈ سگریٹ نوشی کے ماحول میں رہنے والوں کو غیر تمباکو نوشی کرنے والوں کے مقابلے میں 16سے 19فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو ایسے ماحول سے دور رہتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پھیپھڑوں کا کینسر، کینسر سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر پھیپھڑوں کے کینسر کی وجوہات کی بات کی جائے تو سگریٹ نوشی، ماحولیاتی آلودگی، کارخانوں اور گھروں سے نکلنے والا دھواں اس کا ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ ایسبیسٹس اور پتھر کاٹنے سے پیدا ہونے والے فضلہ بھی پھیپھڑوں کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

    علامات
    پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے جسم میں درد رہتا ہے، خاص طور پر سینے اور پسلیوں میں درد رہتا ہے، بھوک نہ لگنا، مسلسل تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرنا بھی پھیپھڑوں کے کینسر کی علامات ہیں۔

    گلے میں انفیکشن، گھرگھراہٹ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ہوسکتی ہے جبکہ دیگر علامات میں وزن میں کمی، سوجن لمف نوڈس اور کھردرا پن شامل ہیں۔

    تشخیص

    سینے کا ایکسرے لینا تحقیقات کے پہلے مراحل میں سے ایک ہے جب کوئی شخص ایسی علامات کی اطلاع دیتا ہے جو پھیپھڑوں کے کینسر کی تجویز کرسکتے ہیں۔ پھیپھڑوں کا کینسر اکثر سینے کے ایکسرے پر تنہا پلمونری نوڈول کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، بہت سی دوسری بیماریاں بھی یہ شکل دے سکتی ہیں۔

    جب پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کی بات آتی ہے، تو آپ کو کینسر کی مخصوص سیل قسم یہ کس حد تک پھیل چکا ہے، اور اس شخص کی مجموعی صحت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    علاج

    ایسے معاملات میں جہاں کینسر دوسرے اعضاء میں پھیل گیا ہو، اسے میٹاسٹیٹک پھیپھڑوں کا کینسر کہا جاتا ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر کے عام علاج میں فالج کی دیکھ بھال، سرجری، کیموتھراپی اور ریڈی ایشن تھراپی شامل ہیں۔ علاج مکمل طور پر پھیپھڑوں کے کینسر کے مرحلے پر منحصر ہے۔

  • برین ٹیومر کیسے ہوتا ہے؟ علامات اور علاج

    برین ٹیومر کیسے ہوتا ہے؟ علامات اور علاج

    اگر آپ کو اکثر چکر آتے ہیں یا ہر وقت سر درد رہتا ہے، اگر کوئی کام کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں تو ان علامات کو بالکل نظر انداز نہ کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ علامات دماغ میں ٹیومر کی ہوں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ نیورو سرجن ڈاکٹر محمد رافع نے برین ٹیومر کی علامات اور اس کے علاج کے بارے میں ناظرین کو آگاہی فراہم کی۔

    انہوں نے بتایا کہ برین ٹیومر یا دماغ کی رسولی کے دو آپشنز ہوتے ہیں پہلا پرائمری اور دوسرا سکینڈری۔ جب سر میں ٹیومر بننا شروع ہوتا ہے تو کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن جیسے جیسے یہ بڑا ہونا شروع ہوتا ہے تو تکلیف کا احساس ہونے لگتا ہے اور سکینڈری اسٹیج میں جگر گردوں چھاتی اور پھیپھڑے کے امراض کے بعد کینسر کے خلیے پھیل کر دماغ تک پہنچتے ہیں۔

    ڈاکٹر محمد رافع کا کہنا تھا کہ جب دماغ کی رسولی بڑھنے لگتی ہے تو علامات واضح ہونا شروع ہوجاتی ہیں جن میں جن میں بولنے میں دشواری محسوس کرنا، نظر کی کمزوری، جسم کو متوازن رکھنے میں دشواری، ہر وقت متلی یا الٹی کا احساس ہونا، مستقل سر درد، ہمیشہ تھکاوٹ محسوس کرنا، ہاتھ ،پیروں میں سنسناہٹ، چیزیں بھول جانا شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جب ٹیومر پھیلتا ہے تو یہ دماغ میں موجود جسم کو جوڑنے والے اعصاب کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے فالج کا حملہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کا واحد علاج سرجری ہے، برین ٹیومر کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

  • بڑھتی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات اور اس کا علاج

    بڑھتی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات اور اس کا علاج

    بڑھتی عمر میں ہائی بلڈ پریشر ایک اہم مسئلہ ہے جسے معمولی سمجھنا یا علاج میں سستی کا مظاہرہ کرنا بہت بڑی تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔

    بلڈ پریشر یا ’بی پی‘ کیا ہے؟

    دل کی دھڑکن میں بےترتیبی۔ پیشاب میں خون آنا، سینے، گردن یا کانوں پر دباؤ اور اس سے ہٹ کر بھی کئی بار لوگوں کو کچھ ایسی علامات کا سامنا ہوتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر سے منسلک ہوسکتی ہیں۔

    ہمارے دل کی دھڑکن جسم میں خون کی گردش اور مطلوب توانائی اور آکسیجن مہیا کرتی ہے، اس گردش کے دوران نسوں کی دیواروں پر دباؤ پڑتا ہے اس دباؤ کی کیفیت کم ہو یا زیادہ یہی بلڈ پریشر ہے۔

    اسے جاننے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر سے اس کا باقاعدہ معائنہ کروائیں۔ جب بی پی کی پیمائش ہوتی ہے تو اسے دو اعداد میں لکھا جاتا ہے مثلاً 120/80 ایم ایم ایچ جی یا 80 نیچے اور 120اوپر ہو یہی نارمل بلڈ پریشر ہے۔

    ہائی بلڈ پریشر کیا ہے؟

    اگر ہمارا نیچے کا بلڈ پریشر 90 اور اوپر کا 140 ہو یا اس سے زائد ہو اور یہ کیفیت کئی دنوں تک برقرار رہے تو آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے یا اگر دونوں میں سے ایک عدد بھی زیادہ ہو تو ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر سےہم اپنے آپ کو بیمار محسوس نہیں کرتے لیکن یہ خطرناک ہے۔اگر اس کو کم نہ کریں تو یہ دل،خون کی نسوں اور دوسرے اعضاء کو برباد کر سکتا ہے اور سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

    ہائی بلڈ پریشر میں بہتر غذا

    دراصل ہماری خوراک ہی ہماری دشمن بن جاتی ہے کیونکہ ہم بے احتیاطی میں وہ سب غذائیں لیتے رہتے ہیں جو مضر صحت ہوتی ہیں مثلاً ہمیں سب سے پہلے نمک کی مقدار کم سے کم کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ عموماً ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو نمکین غذاؤں اور کچا نمک کھانے سے رغبت ہوا کرتی ہے۔اگر ہائی بلڈ پریشر روکنا ہے تو نمک کو تقریباً خوراک سے زائل کرنا ہو گا۔ نمک کا توڑ کرنے والی چند غذاؤں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

    چقندر
    ہائپر ٹینشن نامی جریدے میں ماہرین غذائیت کی شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ چقندر کاجوس پینے سے بلڈ پریشر میں کمی ہوسکتی ہے ۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہماری خوراک میں ا یسی سبزیاں استعمال کی جائیں جن میں نائٹریٹ شامل ہوتو ہم آسانی سے دل کی صحت کو بہتر کر سکتے ہیں ۔ دماغی طاقت کے لیے مفیدمسلز کو زیادہ آکسیجن کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چقندر دماغ کو بھی زیادہ آکسیجن پہنچا تاہے .اس کو سلاد یا جوس کی شکل میں استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔

    ٹماٹر
    ٹماٹر میں لائکوپین موجود ہوتا ہے اور یہ جزو بلڈ پریشر کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ روزانہ کی خوراک میں کچی سلاد شامل کرکے خراب کولیسٹرول کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

    انڈے کی سفیدی
    اپنے دن کا آغاز اچھے ناشتے سے کرنا ضروری ہے اور اسے طرز زندگی میں شامل کرنا اور بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دن کے آغاز میں ہمارے جسم کو پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید تحقیق زردی کو بھی نقصان دہ قرار نہیں دیتی مگر کم از کم ایک انڈے کی سفیدی تو کھائی جاسکتی ہے۔

    تربوز
    موسم گرما میں بلاناغہ ہر روز تھوڑا سا تربوز خالی پیٹ کھانا مفید ہے، تربوز دوران خون کو کنٹرول اور بلڈ پریشر کو معمول میں رکھتا ہے۔

    کشمش
    خشک میوے کا کوئی موسم نہیں ہوتا بس اعتدال سے اور کم مقدار میں گرمیوں میں بھی استعمال کیا جائے تو صحت برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ کشمش کی تھوڑی سی مقدار ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کر سکتی ہے۔گرمیوں میں کشمش کے چند دانے کھانے سے صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔

    سبز سبزیاں
    گوشت مرغی کا ہو یا بھیس کا ہائی بلڈ پریشر میں نقصان دہ ہوتا ہے۔اگر دل چاہتا ہے تو مقدار کم کر دیں اور ہر کھانے کے وقت یقینی بنائیں کہ آپ کی آدھی پلیٹ سبزیوں سے بھری ہو۔ سبز رنگ کی سبزیاں معدنیات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں خاص کر ہمیں میگنیشیئم اور آئرن درکار ہوتا ہے جو ان سبزیوں کا خاص جزو ہیں۔ اور اگر ان سبزیوں کو ادرک اور لہسن کے ساتھ تیار کیا جائے تو بہتر ہے۔

    صبح کے اوقات میں چہل قدمی 

    اس کے علاوہ روزانہ کھلی فضا میں 10 سے 15 منٹ صرف گہری سانسیں لینے سے بلڈ پریشر نارمل ہوتا ہے تاہم نوٹ کر لیں کہ آپ نے ایک منٹ میں تقریباً 6 بار سانس لی۔چھوٹے سانس لینے سے جسم میں سوڈیم جمع ہوتا ہے جبکہ گہری اور آہستہ سانس لینے سے آکسیجن زیادہ مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ورزش کے لئے وقت نکالیں اور بلڈ پریشر کی مانیٹرنگ کرتے رہیں۔

  • ڈیمینشیا : ڈپریشن کی علامات اور علاج، مگر کیسے؟

    ڈیمینشیا : ڈپریشن کی علامات اور علاج، مگر کیسے؟

    ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گفتگو کی تھیراپی ڈیمینشیا کے مریضوں میں ڈپریشن کی علامات میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے جو ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے جن کو انسداد ڈپریشن ادویات فائدہ نہیں پہنچاتی ہیں۔

    ڈیمینشیا کے مریض عموماً الجھن اور ڈپریشن محسوس کرتے ہیں لیکن ان علامات کا علاج کیسے کرنا ہے اس نے ماہرین کو الجھائے رکھا ہے کیوں کہ اس حالت میں استعمال ہونے والی ادویات شاید ڈیمینشیا کے مریضوں پراثر نہیں کرتی اور نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ یہ تحقیق اس لیے اہم ہے کیوں کہ یہ پہلا مطالعہ ہے جس میں دِکھتا ہے کہ نفسیاتی حربے "ٹاکنگ تھیراپی” اس لحاظ سے مؤثر ہیں اور قابلِ قدر ہیں ڈیمینشیا کے مریضوں پر ڈپریشن کی ادویات اثر نہیں کرتی۔

    یونیورسٹی کالج لندن کے محققین کی سربراہی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ تھیراپیز ممکنہ طور پر مریض کے معیارِ زندگی اور روز مرّہ کی فعالی کو بہتر کرنے میں اضافی مدد کرسکتی ہیں۔

    محققین ڈیمینشیا کے لیے کلینیکل ہدایات کو تبدیل کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں کہ ان کو بدل کر نفسیاتی تھیراپیز تجویز کی جائیں اور بالخصوص کوگنیٹِو بیہیوریل تھیراپی تجویز کی جائے۔

  • آدھے سر کا درد : چکر کیوں آتے ہیں؟ علامات اور علاج

    آدھے سر کا درد : چکر کیوں آتے ہیں؟ علامات اور علاج

    سر میں درد کا رہنا تو عام بیماری ہے ہی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں سر کے آدھے حصے میں شدید درد کی شکایت ہوتی ہے، ی ہایک بیماری ہے اور اس مرض کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    آدھے سر کے درد کو عرف عام میں درد شقیقہ بھی کہا جاتا ہے، درد شقیقہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ مردوں کی نسبت خواتین میں بکثرت پایا جاتا ہے اور ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ مرض 15 فیصد کی شرح سے دنیا بھر میں موجود ہے۔

    اس بیماری کی وجہ سے روزمرہ کے کاموں میں تاخیر اور زندگی میں اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، یہ درد عموماًکسی پریشانی کے نتیجے میں نمودار ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں دماغی امراض و اعصابی نظام کی بیماریوں کے ماہر نیورولوجسٹ پروفیسرعارف ہری کار نے سننے والوں کو درد شقیقہ کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق اہم مشورے دیے۔

    انہوں نے بتایا کہ آدھے سر کا درد خون کی شریانوں کے بڑھنے اور اعصاب سے کیمیائی مادوں کے ان شریانوں میں ملنے سے پیدا ہوتا ہے اس کے دورے کے دوران ہوتا یہ ہے کہ کنپٹی کے مقام پر جلد کے نیچے رگ پھول جاتی ہے۔

    اس کے نتیجے میں کچھ کیمیائی مادے پیدا ہوکر سوجن اور درد کے ذریعے رگ کو اور پُھلا دیتے ہیں جس سے دفاع میں اعصابی نظام متلی، پیٹ کی خرابی اور قے کا احساس پیدا کرتا ہے۔

    آدھے سر کے درد کی وجوہات میں لمبا سفر، بلند مقام پر کھڑے ہونا، تیز روشنی، بلند آوازیں، تیز خوشبو، کسی وقت کا کھانا چھوڑنا، بے خوابی اور وہ کھانا جس میں ٹیرامائن موجود ہو، شامل ہیں۔

    علاوہ ازیں اس مرض کی وجہ سے خوراک کے ہضم ہونے کا عمل بھی سست پڑ جاتا ہے، پروفیسرعارف ہری کار نے بتایا کہ لمبے سفر پر جانے سے پہلے ایک دوا کی ایک خوراک لازمی لیں اور تیز بھول نہ لگنے تک کھانا نہ کھائیں۔

  • چنبل یا ایگزیمہ : جلدی مرض سے بچنے کے آسان طریقے کیا ہیں؟ جانیے

    چنبل یا ایگزیمہ : جلدی مرض سے بچنے کے آسان طریقے کیا ہیں؟ جانیے

    جلد پر چنبل اور خارش ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے یہ جلد کے اوپر بنتی ہے اور چھوٹے چھوٹے سرخ دانوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جس کی وجہ سے جلد پر خارش ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

    یہ ایک جلدی مرض ہے۔ اگرچہ یہ ایک عام سی بیماری تصور کی جاتی ہے لیکن بعض اوقات یہ کسی اندورنی بیماری کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض جلد ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اس مرض کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں انفیکشن، جذباتی تناؤ یا کوئی صدمہ شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ فوڈ الرجی، جیولری بھی اس مرتض کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ اس میں "نیکل” ہوتا ہے، ہاتھ میں پہننے والی گھڑی، پرفیوم ، بالوں پر لگانے والا کلر، جسم ٹیٹو بنوانے سے اور سیمنٹ، چمڑے سے بھی چنبل ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس مرض میں جلد پر سوزش ہو کر جلد کی سطح صرف ( سیپ ) کی اوپر والی سطح کی طرح کھردری ہو جاتی ہے اور کبھی اس پر مچھلی کی طرح جلد کے خشک چھلکے اترتے ہیں۔

    شروع شروع میں چھوٹے چھوٹے سرخ گلابی دانے بنتے ہیں پھر ان پر چھلکوں کی تہہ جم جاتی ہے جنہیں کھرچنے سے چھلکے دور ہو جاتے ہیں کچھ وقت کے بعد پھر بڑھنے لگتے ہیں اور پھر یہ سوزش بڑھ کر کافی جگہ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مناسب تدبیر نہ کی جائے تو متاثرہ مقام کی جگہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ بڑا ضدی مرض ہے اور جلدی سے نہیں جاتا۔ سخت تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا زیادہ زور کہنیوں، بازوؤں، گھٹنوں، ٹانگوں، کھوپڑی اور کمر کے حصوں پر ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ جلد پر اس قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے پر اپنی طرف سے یا کسی کے مشورے سے خود کوئی دوا نہ لیں کیونکہ جلد کا معاملہ بہت حساس ہوتا ہے لہٰذا ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کریں۔

  • بچوں میں آئرن کی کمی، علامات اور علاج

    بچوں میں آئرن کی کمی، علامات اور علاج

    غذا میں آئرن کی کمی جسم میں خون کی کمی کی ایک عام وجہ ہے، بچے ملیریا اور پیٹ میں کیڑوں کی وجہ سے بھی خون کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    آئرن کی کمی شیرخوار اور چھوٹے بچوں میں جسمانی اور ذہنی نشوونماء کو نقصان پہنچا سکتی ہے یہاں تک کہ معمولی سی کمی بھی ذہنی نشوونما کو متاثر کرسکتی ہے۔

    کسی بھی بچے کے جسم میں اگر آئرن کی کمی ہو جائے تو اسے انیمیا کہتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں میں آئرن کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟ بچوں کی نشونمأ اور افزائش کے لیے آئرن سے بھرپور غذا لازمی ہے۔

    بچوں کو بڑا ہونے کے لیے لگاتار آئرن کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ جسم میں آئرن کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایسے بچے جو آئرن والی خوراک نہیں کھاتے یا پھر بعض بچوں کا جسم آئرن لینے سے انکار کر دیتا ہے، انہیں انیمیا ہو جاتا ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ جسم کے خلیوں کو صحیح مقدار میں آکسیجن نہیں پہنچ رہی، جس کی وجہ سے بچے کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کمزور، تھکا ہوا اور چڑچڑا محسوس کرتا ہے۔

    خون کی کمی کی علامات میں ہتھیلیوں، زبان، پلکوں کے اندر کی جانب اور ہونٹوں پر زردی کے ساتھ ساتھ تھکن اور سانس کا پھولنا شامل ہے۔

    آئرن کی کمی کیسے پورا کیا جائے؟

    آئرن کی کمی دور کرنے کے لیے بچے کو سپلیمنٹ (فیرس سلفیٹ) دینا ضروری ہے، جس کے لیے بچوں کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

    آئرن سپلیمنٹ وٹامن سی کے ساتھ دیں تو وہ جلدی ہضم ہوجاتا ہے یا پھر اسے خالی پیٹ دیاجائے۔ اگر کھانے کے ساتھ دیا جائے تو اس کا اثر کم ہو جاتا ہے، آئرن سپلیمنٹ دودھ یا دودھ سے بنی کسی شے کے ساتھ نہ دیا جائے۔

    آئرن حاصل کرنے والے فارمولے یا سیریل، گندم کی کریم، دلیہ، آئرن سے بھرے ناشتے کے سیریل، پھلیاں، کابلی چنے، مسور کی دال،پکے پکائے بین (کین کے اندر)، اوون میں پکے آلو (چھلکے سمیت)، خشک پھل، خشک خوبانی، خشک انجیر، میوے، پرون جوس، اعلیٰ قسم کا پاستا، اعلیٰ قسم کے چاول، سخت ٹوفو، گڑ کا شیرہ، بلیک اسٹریپ، بروکلی، پالک۔

    جانوروں اور پودوں سے حاصل کی گئی خوراک میں آئرن پایا جاتا ہے، جانوروں سے حاصل کیا گیا آئرن ہیمی آئرن کہلاتا ہے جبکہ پودوں سے حاصل کیا گیا آئرن نان ہیمی آئرن کہلاتا ہے۔ انسانی جسم نان ہیمی آئرن کی نسبت ہیمی آئرن کو زیادہ اچھی طرح سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ آئرن ایک معدنی شے ہے اور ہر شخص کے جسم کو اپنا کام کرنے اور ہیموگلوبن بنانے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہیموگلوبن خون میں سرخ جرثومے ہوتے ہیں جو آکسیجن کو جسم کے دوسرے حصوں میں پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

  • نمونیا کیا ہے ؟ بیماری کی علامات اورعلاج

    نمونیا کیا ہے ؟ بیماری کی علامات اورعلاج

    نمونیا پھپھڑوں اور نیچے کی سانس کی نالی میں انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے، اس کی نشانیاں اور علامات کیا ہوتی ہیں اس کے علاج کیلئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔

    نمونیا ایک خطرناک مرض ہے جس کے باعث دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سبق ویب سائٹ کے مطابق نمونیا کی مختلف علامات ہوتی ہیں، جیسے سینے میں تکلیف، سانس لینے میں دشواری، زور دار کھانسی، گلے میں درد، شدید تھکاوٹ کا احساس اور بخار وغیرہ۔

    اس کی دیگر علامات

    اس کے علاوہ نمونیا کی علامات مختلف بھی ہوسکتی ہیں، وہ نزلہ و زکام یا نظامِ تنفس کے بالائی راستے کی علامات سے مماثلت رکھ سکتی ہیں،اس کی عام نشانیاں اور علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

    تیز بخار، کھانسی، سانس کا تیز تیز چلنا یا سانس لینے میں دشواری پیش آنا، پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آتی ہوں، بھوک کا نہ لگنا، کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا، عام طور پر تھکن سے چور اور ذہنی، جِسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا اور معدہ (پیٹ) کا درد بھی اس کی علامات میں شامل ہیں۔

    نمونیا عام طور پر نزلہ یا انفلوئنزا سے شروع ہوتا ہے  جس کے بعد بیماری کے پھیپھڑوں میں گھر کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر نمونیا کسی وائرس کی وجہ سے ہوا ہو تو ابتدائی دنوں میں اس کی علامات انفلوئنزا جیسی ہوں گی۔

    اس کے بعد کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بلغم بڑھ جاتی ہے، بخار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور سانس میں تنگی شروع ہو جاتی ہے۔

    بیکٹریا سے ہونے والا نمونیا جسم کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے جس وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے، اسی طرح سانس لینے میں دشواری بھی ہونے لگتی ہے۔

    نمونیا ہونے کے اسباب

    نمونیا کسی وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ بذات خود متعدی مرض نہیں ہے البتہ اس کے جراثیم کسی دوسرے شخص کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    اگر نمونیا کسی وائرس کے نتیجے میں ہوا ہو تو یہ جراثیم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس صورت میں شدید خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔

    خطرے کے عوامل

    نمونیا کا مقابلہ ایک صحت مند انسانی جسم باآسانی کر سکتا ہے، البتہ بچوں اور بوڑھوں کے لیے اس کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی کی عادت بھی نمونیا ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔

    علاج کیسے کیا جائے؟

    ڈاکٹرز ابتدائی طور پر تو سینے کا ایکسرے تجویز کرتے ہیں جس سے پھیپھڑوں کے بارے میں صحیح معلومات ملتی ہیں۔
    وائرس کے نتیجے میں ہونے والے نمونیا کے لیے اینٹی وائرس ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔

    نمونیا سے کیسے بچا جاسکتا ہے

    بیماری سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگوانے کی تجویز دی جاتی ہے جو سب سے مؤثر حل بھی سمجھا جاتا ہے۔ نمونیا اکثر انفلوئنزا کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لیے ہر سال فلو ویکسین لگوانا ہی اس سے بچاؤ کا بہترین حل ہو سکتا ہے۔