Tag: Symptoms

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے،ماہرین صحت کے مطابق اس کی علامات ڈیلٹا ویریئنٹ سے مختلف ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نے، جنہوں نے حکومتی سائنسدانوں کو کرونا کی ایک نئی قسم کی موجودگی سے خبردار کیا تھا، کہا ہے کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی علامات ڈیلٹا قسم سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔

    ساؤتھ افریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی چیئروومن ڈاکٹر اینجلیک کوئیٹزی نے بتایا کہ اومیکرون سے متاثر افراد نے بہت زیادہ تھکاوٹ، سر اور جسم میں درد، کبھی کبھار گلے کی سوجن اور کھانسی کی علامات کو رپورٹ کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیلٹا کے مقابلے میں کرونا کی اس نئی قسم سے متاثر افراد کی نبض کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس کی وجہ خون میں آکسیجن کی سطح میں کمی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کئی ہفتوں تک پریٹوریا میں ان کے پاس کووڈ مریضوں کی آمد نہ ہونے کے برابر تھی، مگر نومبر کے دوسرے عشرے میں اچانک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کی جانب سے مختلف علامات کو رپورٹ کیا گیا۔

    اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے حکومتی وزارتی ایڈوائزری کونسل کو آگاہ کیا اور لیبارٹریز نے چند دن میں نئی قسم کو شناخت کرلیا۔

    جنوبی افریقی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں بتایا کہ اس بار کووڈ کی علامات مختلف ہیں جو ڈیلٹا کی نہیں ہوسکتیں، بلکہ یہ علامات یا تو بیٹا سے ملتی جلتی ہیں یا یہ کوئی نئی قسم ہے، مجھے توقع ہے کہ اس نئی قسم کی بیماری کی شدت معمولی یا معتدل ہوگی، ابھی تک تو ہم اسے سنبھالنے کے لیے پراعتماد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس نئی قسم کا تجزیہ کیا جارہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ابھی اس کے متعدی ہونے اور بیماری کی شدت کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    عالمی ادارے نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اومیکرون کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ شروع کرنے کا بھی کہا ہے۔

    دوسری جانب جنوبی افریقی حکومت کو تجاویز دینے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بظاہر اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس سے متاثر زیادہ تر افراد میں کیسز کی شدت معمولی دریافت ہوئی ہے۔

    29 نومبر کو میڈیا بریفننگ کے دوران جنوبی افریقی ماہرین صحت نے بتایا کہ اسپتال میں داخل ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں بیماری کی شدت ماضی جیسی ہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ویکسینز ممکنہ طور پر اس نئی قسم سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں سے ٹھوس تحفظ فراہم کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ امکان ہے کہ اس ہفتے کے اختتام تک جنوبی افریقہ میں روزانہ کیسز کی تعداد 10 ہزار تک بڑھ جائے گی جو کہ گزشتہ ہفتے 3 ہزار کے قریب تھی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کیسز کی تعداد میں اضافے سے اسپتالوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے مگر لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

    ایک ماہر نے کہا کہ ابھی کیسز میں بیماری کی شدت معمولی ہے مگر ابھی اس قسم کے ابتدائی دن ہیں، جس کے دوران مریضوں میں خشک کھانسی، بخار، رات کو پسینے اور جسمانی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہورہا ہے۔

  • جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی کیا علامات ہیں؟ جانیے!

    جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی کیا علامات ہیں؟ جانیے!

    رگوں میں خون جمنے کی 6 خاموش علامات ہیں جنہیں جان کر آپ بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں کئی بار رگوں میں خون کا جمنا اچھا ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ زخمی ہو اور خون کا بہاﺅ روکنا چاہتے ہوں۔

    دوسری جانب اکثر اوقات رگوں میں خون کا جمنا یا بلڈ کلاٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پر اگر وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔

    خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    اکثر اوقات خون کا جمنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

    بلڈ کلاٹ کی علامات

    بنیادی طور پر بلڈ کلاٹ کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں جس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ جسم کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہاتھ یا ٹانگ میں بلڈ کلاٹ پر سوجن، شدید تکلیف، متاثرہ حصہ زیادہ گرم ہوجانا۔

    اسی طرح دماغ میں بلڈ کلاٹ کا نتیجہ فالج کی شکل میں نکلتا ہے جس کی علامات میں بینائی میں تبدیلیاں، seizures۔ بولنے میں مشکلات، کمزوی، چہرے، ایک ہاتھ یا ٹانگ یا جسم کے ایک حصے کا سن ہوجانا یا کسی قسم کا احساس نہ ہونا۔

  • ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا ضرور رہتا ہے، تحقیق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

    برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) اور آکسفورڈ ہیلتھ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی) کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کے لیے امریکا میں کووڈ کو شکست دینے والے 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 37 فیصد مریضوں کو بیماری کی تشخیص کے 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہورہا تھا۔

    ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر کے کووڈ کے مریضوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی مختلف علامات کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت موجود تھی۔ بیماری کی شدت، عمر اور جنس لانگ کووڈ کے امکانات پر اثر انداز ہونے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کی علامات کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جو بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہے ہوں اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح معمولی سی زیادہ ہوتی ہے۔

    لوگوں کو لانگ کووڈ کی کن علامات کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا انحصار بھی مختلف عناصر ہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر معمر افراد اور مردوں کو سانس کی مشکلات اور دماغی مسائل کی علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، جبکہ جوان افراد اور خواتین کی جانب سے سر درد، معدے کے مسائل، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑتا ہے ان میں دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند اور تھکاوٹ کا امکان دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جن افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، ان میں سردرد کی شکایت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مریضوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فلو سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں بھی اس طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا نہیں۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ فلو کے مریضوں میں بھی علامات لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کی طرح طویل المعیاد مدت تک برقرار رہتی ہیں، مگر فلو کے مریضوں کی طویل المعیاد علامات کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔

  • کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اس کے باوجود وہ بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں معمولی علامات نظر آتی ہیں۔

    ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس صورتحال کی وجہ جاننے کیلئے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور تحقیق کے بعد اس کا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب پونے دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر  اس کے حوالے سے بہت کچھ ایسا ہے جس کا علم اب تک نہیں ہوسکا۔

    اس وبائی بیماری کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ کچھ افراد اس سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور کچھ میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

    یعنی مریضوں میں مدافعتی ردعمل مختلف ہوتا ہے جس کا نتیجہ بھی مختلف شکلوں میں نکلتا ہے جیسے کچھ میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ متعدد ہلاک ہوجاتے ہیں مگر اب طبی ماہرین نے اس کا ممکنہ جواب دیا ہے۔

    امریکا کے انسٹیٹوٹ فار سسٹمز بائیولوجی کی تحقیق میں بیماری کے ردعمل میں مدافعتی خلیات کو ریگولیٹ کرنے والی میٹابولک تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ ہمیں کووڈ 19 کے حوالے سے متعدد اقسام کے مدافعتی ردعمل کا عم تھا مگر اس حیاتیاتی عمل کو اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد میٹابولک راستے کے ان ہزاروں حیاتیاتی مارکرز کا تجزیہ کیا جو مدافعتی نظام  پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مدافعتی۔ میٹابولک تبدیلیوں کے کچھ سراغ دریافت کیے جو ممکنہ طور پر بیماری کی سنگین شدت کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ مدافعتی افعال کے ان مشاہدات سے کووڈ 19 کے خلاف جسم کے دیگر ردعمل کو جاننے میں ملے گی۔ محققین نے بتایا کہ اس بارے میں سمجھنے سے ممکنہ طور پر بہتر علاج کی دریافت کا راستہ مل سکے گا جو مسائل کا باعث بننے والی مدافعتی یا میٹابولک تبدیلیوں کو ہدف بناسکے گا۔

    اس تحقیق میں خون کے 374 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو مریضوں میں کووڈ کی تشخیص کے پہلے کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے۔ پھر ان نمونوں میں پلازما اور سنگل مدافعتی خلیات کا تجزیہ کیا گیا، اس تجزیے میں 1387 جینز میٹابولک کے راستے اور 1050 پازما میٹابولائٹس سے منسلک تھے۔

    پلازما کے نمونوں میں ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت میں اضافہ میٹابولک تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے سنگل خلیے کے سیکونسنگ کے ذریعے یہ بھی دریافت کیا کہ مدافعتی خیات کی ہر اہم قسم کا اپنا مخصوص میٹابولک انداز ہوتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ میٹابولک ری پروگرامنگ مدافعتی خلیات کی اقسام سے مخصوص ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کی پیچیدہ میٹابولک ری پروگرامنگ پلازما میٹابولوم سے منسلک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہر مریض میں بیمای کی شدت اور موت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقی کام سے کووڈ کے خلاف زیادہ مؤثر علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی، مریضوں سے حاصل کیے گئے متعدد ڈیٹا سیٹس سے بیماری کے متعدد مختلف پہلوؤں کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچ بائیو ٹیکنالوجی میں شائع ہوئے۔

  • وہ علامات جو ڈیلٹا ویریئنٹ کا سبب بنتی ہیں

    وہ علامات جو ڈیلٹا ویریئنٹ کا سبب بنتی ہیں

    کئی ممالک میں اب کرونا وائرس کے زیادہ تر انفیکشن ڈیلٹا ویریئنٹ کے ہیں، فرانس میں اسی فیصد سے زیادہ کووڈ ٹیسٹ ڈیلٹا ویریئنٹ کے مثبت تھے، ڈیلٹا اکثر کووڈ نائٹین کی جدید شکل کے مقابلے میں ہلکی علامات کے ساتھ ہوتا ہے، یہ کی علامات کیا ہیں؟۔

    ڈیلٹا کی عام علامات
    برطانیہ میں ’زو کووڈ اسٹڈی‘ کے لیے ایک ایپ بنائی گئی جہاں مریض اپنی علامات کی اطلاع دیتے تھے، اس تجربے سےمعلوم ہوا کہ زیادہ تر کیسز میں علامات کافی ہلکی دکھائی دیتی ہیں، سب سےعام علامات یہ ہیں

    گلے کی سوزش
    بخار
    سر درد
    ناک کا بہنا

    الفا ویریئنٹ اور اصل کووڈ نائنٹین کے برعکس ڈیلٹا ویرینئٹ کے ساتھ کھانسی کم دکھائی دیتی ہے، یہی معاملہ ذائقہ اور بو کے ختم ہونے کا ہے جو برطانوی مریضوں نے پانچویں نمبر پر رپورٹ کیا تھا۔

    الفا ویریئنٹ کی علامات
    الفا میوٹیٹر کی سب سے عام علامات جن پر آپ کو توجہ دینی چاہیے، وہ یہ ہیں

    سردی کے ساتھ 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر بخار
    خشک یا مرطوب کھانسی
    ناک کا بہنا
    سانس میں تنگی کی علامات جیسے کھانسی، جکڑن یا سینے میں درد اور بعض اوقات سانس لینے میں دشواری۔
    درد (پٹھوں کا درد)
    بو کے احساس کا ختم ہونا یا ذائقے کا فقدان۔
    سر درد
    نظام انہضام کی مشکلات(اسہال)
    غیر معمولی تھکاوٹ (آستینیا)

    دیگر غیر معمولی علامات میں آشوبِ چشم، خارش یا منہ کے زخم کی نشاندہی کی گئی ہے جو کرونا والے شخص میں ہوسکتے ہیں۔

    اسی طرح اگر سانس میں تنگی شروع ہوجائے، تیز یا آہستہ سانس یا سوتے ہوئے سانس لینے میں تکلیف وغیرہ تو وہ بھی کرونا کی علامت میں شامل ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:کرونا مریض ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں، ماہرین کی تنبیہ

    اس کے علاوہ کرونا وائرس کی بہت سی شکلیں بغیر علامات کے ہوتی ہیں، مطلب یہ ہے کہ وہ علامات ظاہر نہیں کرتیں، ایسے غیرعلامتی کیسز کی تعداد خاص طور پر بچوں میں زیادہ ہوسکتی ہے۔

    کرونا وائرس علامات ظاہر ہونے سے پہلے متعدی ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ایک متاثرہ شخص جو علامات محسوس نہیں کرتا وہ دوسروں کو متاثر کر سکتا ہے تاہم ایک صحت مند کیریئر(شخص) کم متعدی ہے کیونکہ وہ کھانسی نہیں کرتا (وائرس کھانسی اور چھینکنے کے دوران پھیلنے والی بوندوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے)۔

  • کرونا وائرس کی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف

    کرونا وائرس کی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 کی ابتدائی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف ہوسکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے ابتدائی ایام کی علامات مختلف عمر کے گروپس مں مختلف ہوسکتی ہیں اور ایسا مردوں و خواتین کے درمیان بھی ہوتا ہے۔

    کنگز کالج لندن کی اس تحقیق میں زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے کووڈ سے منسلک سمجھی جانے والی 18 علامات بشمول سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف، ایسی کھانسی جس کا تسلسل برقرار رہے، پیٹ میں درد اور پیروں میں آبلے کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 40 سے 59 سال کی عمر کے افراد میں مسلسل برقرار رہنے والی کھانسی سب سے عام علامت ہوتی ہے جبکہ ان میں سردی لگنے کا احساس یا کپکپی جیسی علامات کی شرح 80 سال سے زائد عمر کے افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    60 سے 70 سال کے عمر کے افراد میں سینے میں تکلیف، مسلز کی غیر معمولی تکلیف اور سونگھنے کی حس سے محرومی جیسی علامات زیادہ عام ہوتی ہیں جبکہ 80 سال سے زائد عمر کے افراد میں سونگھنے کی حس سے محرومی کی علامت نظر نہیں آتی۔

    60 سے 70 سال کی عمر کے افراد کی طرح 80 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں میں بھی سینے اور مسلز کی تکلیف کی علامات عام ہوتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہیضہ، گلے کی سوجن، آنکھوں کا سوج جانا اور سردی یا کپکپی جیسی علامات کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    16 سے 39 سال کی عمر کے افراد میں سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف، پیٹ درد، سانس لینے میں دشواری اور آنکھوں کا سوج جانا ابتدائی دنوں کی عام ترین علامات ہوسکتی ہیں۔

    بخار کو کووڈ کی سب سے زیادہ عام علامت جاناجاتا ہے، مگر تحقیق کے دوران کسی بھی عمر کے گروپ کے دوران اس علامت کو ابتدائی مرحلے میں دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ مردوں کی جانب سے سانس لینے میں دشواری، تھکاوٹ، سردی لگنے اور بخار جیسی علامات رپورٹ کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح خواتین کی جانب سے سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف اور مسلسل کھانسی کو رپورٹ کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے لیے استعمال ہونے والا ڈیٹا اپریل سے اکتوبر 2020 کے درمیان اکٹھا کیا گیا تھا۔

  • گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں 34 سالہ شخص میں گرین فنگس نامی بیماری کا انکشاف ہوا ہے، یہ شخص گزشتہ 2 ماہ سے کووڈ 19 کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

    یہ گرین فنگس کیا ہے؟ اور اس نایاب انفیکشن کے خطرے سے کون متاثر ہوسکتے ہیں؟ آئیں جانتے ہیں۔

    گرین فنگس یا Aspergillosis دراصل ایک فنگل انفیکشن ہے، جو زیادہ تر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ عام پھپھوندی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس پھپھوندی کے خورد بینی اجسام کے سانس میں داخل ہونے سے متاثر ہوتے ہیں۔

    امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق زیادہ تر لوگ ان سے بیمار نہیں ہوتے لیکن جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا وہ پہلے سے پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہوں، ان کے اس انفیکشن سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جیسا کہ حال ہی میں کووِڈ سے صحت یاب ہونے والے مریض ہیں، یا پھر وہ جنہیں پہلے سے پھیپھڑوں کا کوئی مرض مثلاً دمہ یا تپ دق وغیرہ۔

    اس انفیکشن سے متاثرہ افراد کو سانس میں خرخراہٹ محسوس ہوتی ہے، ان کا سانس جلد پھولتا ہے اور کھانسی اور کبھی کبھار بخار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک بند ہونا اور بہنا، سر میں درد اور سونگھنے کی صلاحیت محدود ہو جانا بھی اس کی علامات میں شامل ہے۔

    اگر یہ دائمی صورت اختیار کر جائے تو وزن گھٹ جانے، کھانسی میں خون آنے اور تھکاوٹ محسوس ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔ بہت ہی شدید صورت اختیار کر جائے تو پھیپھڑوں سے انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ گنگس ایک سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہو سکتا یعنی یہ متعدی نہیں ہے۔

    گرین، بلیک، وائٹ اور یلو فنگس جیسے امراض نئے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ محض کرونا وائرس سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ کووِڈ 19 کے ساتھ مل کر خوب قیامت ڈھا رہے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ ماہ بلیک فنگس کے بہت سے مریض سامنے آئے تھے۔ یہ بھی بہت خطرناک مرض ہے جو آنکھوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس کی علامات میں آنکھوں کا رنگ بدل جانا، نظر دھندلا جانا، سینے میں درد اور سانس میں تکلیف شامل ہیں۔ اگر یہ شدت اختیار کر جائے تو ڈاکٹروں کو ایک یا دونوں آنکھیں یا جبڑے کا کوئی حصہ نکالنا پڑتا ہے تاکہ انفیکشن مزید نہ پھیلے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق ذیابیطس کے شکار اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد خاص طور پر اس انفیکشن کی زد پر ہیں، ان کے خیال میں کووِڈ 19 کے علاج کے لیے اسٹیرائیڈز کے استعمال نے بھی اس فنگس کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • کورونا وائرس "ڈیلٹا” کی علامات کتنی خطرناک ہیں؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    کورونا وائرس "ڈیلٹا” کی علامات کتنی خطرناک ہیں؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    بھارت میں تباہیاں پھیلانے والی کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کیا ہے اور اس کی کیا علامات ہیں؟ اس حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ یہ قسم بظاہر نزلے زکام جیسی ہے لیکن دیگر جسمانی اثرات خطرناک ہیں۔

    کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کی عام علامات بھی مختلف بھارت میں سب سے پہلے سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے شکار افراد میں کوویڈ کی علامات بھی پرانی اقسام کے مقابلے میں مختلف ہیں۔

    یہ دعویٰ برطانوی محققین نے کیا جن کے مطابق سردرد، گلے کی سوجن اور ناک بہنا اس وقت برطانیہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی ڈیلٹا قسم کی عام ترین علامات ہیں۔

    کنگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جس کے لیے زوی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ سے مدد لی جاتی ہے۔

    اس ایپ میں اکٹھا کیے گئے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا کی علامات "بگڑے ہوئے نزلے” جیسی محسوس ہوتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کوویڈ اب مختلف طرح سے کام کررہا ہے اور کسی بگڑے ہوئے نزلے جیسا لگتا ہے، لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ انہیں موسمی نزلہ ہے اور وہ باہر گھوم پھر سکتے ہیں، جو ہمارے خیال میں مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مئی سے ہم نے ایپ استعمال کرنے والے صارفین کی عام ترین علامات کو دیکھا تو وہ پہلے جیسی نہیں تھیں، اس وقت کووڈ کی سرفہرست علامت سردرد ہے جس کسے بعد گلے کی سوجن، پھر ناک بہنا اور بخار ہے۔

    خیال رہے کہ بیشتر ممالک میں کووڈ کی روایتی علامات میں بخار، کھانسی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کو عام علامات قرار دیا جاتا ہے۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے کہا کہ ڈیلٹا قسم میں کھانسی 5 ویں عام ترین علامت ہے جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی ٹاپ 10 میں بھی شامل نہیں۔

    برطانوی ماہرین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا قسم برطانیہ میں گزشتہ سال دریافت ہونے والی ایلفا قسم سے کم از کم 40 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد میں ہسپتال میں داخلے کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے اور ویکسین کی افادیت بھی کسی حد تک کم کردیتی ہے، بالخصوص پہلے ڈوز کے بعد۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے مزید بتایا ‘میرے خیال میں ہمارا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ جوان ہیں اور معتدل علامات سامنے آتی ہیں جن سے آپ کو لگتا ہے کہ وہ نزلہ زکام ہے، تو گھر پر رہیں اور ٹیسٹ کروالیں۔ زوئی ایپ کو دنیا بھر میں استعمال کرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔

    10جون کو شائع ہونے والے ڈیٹا کے مطابق برطانیہ میں ان افراد میں کووڈ کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی، خصوصاً سب سے زیادہ کیسز 20 سے 29 سال کے گروپ میں سامنے آئے ہیں جس کے بعد 0 سے 19 سال کا گروپ ہے۔

  • کورونا سے متاثرہ مریضوں میں ایک اور خطرناک علامت کا انکشاف

    کورونا سے متاثرہ مریضوں میں ایک اور خطرناک علامت کا انکشاف

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی علامات جیسے تھکاوٹ یا توانا نہ ہونے کا احساس اور ڈپریشن یہ علامات کوویڈ 19 کے مریضوں میں عام طور پر ہوتی ہیں، بالخصوص ایسے افراد میں جن میں بیماری کی شدت معمولی ہو۔

    لندن کالج یونیورسٹی کے ماہرین نے215 تحقیقی رپورٹس میں فراہم کیے جانے والے شواہد کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ کوویڈ 19 سے ذہنی صحت اور دماغی پر متعدد اقسام کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہمیں توقع تھی کہ ذہنی اور نفسیاتی اثرات کوویڈ 19 کے سنگین کیسز میں زیادہ عام ہوں گے مگر اس کے برعکس ہم نے دریافت کیا کہ کچھ علامات اس سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں زیادہ عام ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بظاہر کوویڈ 19 سے ذہنی صحت اور دماغ کا متاثر ہونا عام ہے، تحقیقی ٹیم نے30 ممالک میں ہونے والی 215 تحقیقی رپورٹس کا منظم تجزیہ کیا جن میں ایک لاکھ 5 ہزار سے زیادہ کوویڈ 19 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔ ان رپورٹس میں متعدد علامات کے بارے میں بتایا گیا تھا اور ان کے نتائج کا موازنہ ایک ڈیٹابیس سے کیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ سب سے عام ذہنی اور نفسیاتی علامات میں سونگھنے کی حس سے محرومی (43 فیصد)، کمزوری (40 فیصد)، تھکاوٹ (38 فیصد)، چکھنے کی حس سے محرومی (37 فیصد)، مسلز کی تکلیف (25 فیصد)، ڈپریشن (23 فیصد)، سردرد (21 فیصد) اور ذہنی بے چینی (16 فیصد) قابل ذکر تھیں۔

    انہوں نے اہم دماغی امراض جیسے فالج (1.9 کیسز میں) اور برین ہیمرج (0.4 فیصد) کو بھی دریافت کیا۔ اس ڈیٹا میں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کی اکثریت تھی اور مجموعی طور پر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، تاہم کچھ تحقیقی رپورٹس میں ہسپتال سے باہر موجود یعنی معمولی حد تک بیمار یا بغیر علامات والے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کوویڈ 19 کے علامات والے ایسے کیسز جن میں مریضوں کو اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا ان میں بھی ذہنی اور نفسیاتی علامات عام تھیں۔

    ایسے55 فیصد مریضوں نے تھکاوٹ،52 فیصد نے سونگھنے کی حس سے محرومی،47 فیصد نے مسلز کی تکلیف،45 فیصد نے چکھنے کی حس سے محرومی اور44 فیصد نے سردرد کو رپورٹ کیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ معمولی حد تک بیمار افراد میں بھی ان علامات کی شرح سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں جتنی ہی ہو، مگر چونکہ ان کو طبی مراکز میں رپورٹ نہیں کرنا پڑتی تو درست شرح سامنے نہیں آپاتی۔ اگرچہ علامات کی وجوہات پر تو کام نہیں کیا گیا مگر محققین نے نے چند وضاحتیں ضرور بیان کیں۔

    انہوں نے کہا کہ بیماری کے دوران دماغ میں ورم کو دریافت کیا گیا ہے جو چند علامات کی ممکنہ وضاحت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نفسیاتی عناصر بھی اس عالمی وبا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو ہوسکتا ہے کہ اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہوں۔

    جیسے کسی فرد میں کووڈ کی تشخیص کے بعد ایک کمرے تک محدود کردیا جاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے پیاروں کو دیکھ نہیں پاتا، جو ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ متعدد وجوہات ذہنی اور نفسیاتی علامات بیماری کے ابتدائی مرحلے میں کردار ادا کرسکتی ہیں جیسے ورم، دماغ تک آکسیجن کی فراہمی میں جزوی کمی اور دیگر عناصر، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف نیورولوجی اور نیوروسرجری اینڈ سائیکاٹری میں شائع ہوئے ۔

     

  • کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ تحقیق

    کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ19 کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی” دماغی دھند” کے تسلسل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کوویڈ19کی ان طویل المعیاد علامات کا جائزہ لیا گیا جن کا سامنا کورونا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اس حوالے سے محققین نے بتایا ہے کہ یہ طویل المعیاد علامات وائرس سے متاثر ہونے کے 3 ماہ بعد بھی برقرار رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں لانگ کوویڈ کے شکار 278 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے علامات کے بارے میں صحت یابی کے 2 ماہ اور پھر 6 ماہ بعد پوچھا گیا۔

    ان افراد نے 6 ماہ کے بعد دماغی علامات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا، ان کے لیے جملے بنانا، توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا تاہم یہ علامات شدید تھکاوٹ جیسی کوویڈ کی طویل المعیاد علامات کے مقابلے کم سنگین قرار دی گئیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل، مدافعتی نظام سے متعلق مسائل، تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی علامات کو سمجھ نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ 1 کے 10 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    مئی 2021 کے آغاز میں پری پرنٹ سرور میڈ آرکسیو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یاد داشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زیادہ کوویڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    محققین کے خیال میں کوویڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کوویڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

    واضح رہے کہ یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کوویڈ19 کے نتیجے میں زیادہ بیمار تو نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔