Tag: Symptoms

  • شیزو فرینیا کیا ہے؟ علامات، وجوہات اور علاج

    شیزو فرینیا کیا ہے؟ علامات، وجوہات اور علاج

    شیزو فرینیا ذہنی امراض کی ایک قسم ہے جس میں مبتلا افراد کو لایعنی آوازیں سنائی دیتی ہیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ ایک تصوراتی دنیا میں محسو س کرتا ہے۔

    شیزو فرینیا غیر معمولی بیماری نہیں ہے، وراثت میں اس بیماری کے پائے جانے سے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت یا نوجوانی میں عموما 18 سے53سال کی عمر کے درمیان شروع ہوتی ہے۔ عورتوں اور مردوں میں اس کا تناسب برابر ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں یوگا کے ماہر یوگی نعیم نے اس بیماری سے چھٹکارے کیلئے کچھ کار آمد ٹپس بتائیں جن پر عمل کرنے سے شیزو فرینیا کے مریضوں کو کافی حد تک افاقہ ہوسکتا ہے۔

    یوگی نعیم نے بتایا کہ اس بیماری سے متاثرہ افراد اپنے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں اور تنہائی پسند ہوتے ہیں، شیزو فرینیا کا لفظی مطلب منقسم دماغ ہے۔ اس بیماری کی وجہ احساس کمتری بھی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ انسان کے دماغ سے جو رگیں جسم تک آتی ہیں ان بیلنس کرنے کیلئے ایک بہت اہم مشق ہے جو ضرور کرنی چاہیے، وہ یہ کہ انگلیوں کو ایک مخصوص طریقے موڑیں اور پھر ناک پر ایک انگلی رکھ سانس اندر لیں اور پھر ناک کی دوسری جانب انگلی رکھ کر سانس باہر نکالیں۔

    یوگی نعیم نے بتایا کہ کوشش کریں کہ ناک سے سانس لے کر پھیپڑوں کی ہوا ناک سے ہی نکالی جائے بصورت دیگر اس کے نقصانات یہ ہیں کہ منہ میں چھالے ہوسکتے ہیں اور وقت سے پہلے آپ کے دانت گر سکتے ہیں۔

  • کورونا وائرس کی ایک اور بڑی علامت سامنے آگئی

    کورونا وائرس کی ایک اور بڑی علامت سامنے آگئی

    یوں تو کورونا وائرس کی علامات میں بخار کا چڑھنا اترنا، سانس پھولنا، منہ ذائقہ نہ ہونا، جسم میں درد اور نزلہ زکام کھانسی وغیرہ شامل ہیں لیکن اب نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی علامات میں نظام ہضم متاثر ہونا بھی شامل ہے۔

    کورونا وائرس کے حوالے سے بہت ہی عام علامت پھیپھڑوں اور سانس کی تکلیف ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا میں صرف یہی واحد بیماری کا اشارہ کافی نہیں۔

    کورونا وائرس ہمارے پھیپھڑوں سے لے کر دل سمیت ہمارے اہم اعضا پر بہت خطرناک اثرات مرتب کرتا ہے اور ڈاکٹرز جس حوالے سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں اس کا تجربہ مریض کو وائرس کے ختم ہونے کے کافی بعد ہوتا ہے۔

    ان ہی میں سے ایک تباہ کن اثر ہمارے نظام ہضم کے اہم افعال میں خرابی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کا شکار ہونے والے 53 فیصد مریضوں میں نظام ہضم کی کم ازکم ایک علامت وبا کے دوران سامنے آجاتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق  اس حوالے سے معدے اور نظام ہضم میں پیدا شدہ علامات یا اس کے اثرات کورونا وائرس کی شدت اور پیچیدگیوں کی صورت میں بھی سامنے آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    اس سلسلے میں بیماری کی ابتدا میں چند لوگ بھوک کی کمی اور کھانے سے عدم رغبت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بعض مریض بے چینی، تھکاوٹ اور بھوک نہ لگنے جیسی صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    دراصل کورونا وائرس نظام ہضم کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ غیر معمولی طور پر بھوک نہ لگنا اب اس وبا کی اہم علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے غیر ارادی طور پر وزن میں بھی کمی آتی ہے۔

  • الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں نیورولوجسٹ ڈاکٹر عبدالمالک نے شرکت کی اور اس مرض کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ ڈیمینشیا یا نسیان بڑھاپے میں لاحق ہونے والا عام مرض ہے اور الزائمر اس کی ایک قسم ہے جو زیادہ خطرناک ہے، روٹین کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونا اور معمولی چیزوں کو بھول جانا ڈیمینشیا کی علامت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 60 سال کی عمر کے افراد کی آبادی میں 7 فیصد کو ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ 80 سال کے افراد میں یہ 15 فیصد تک ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر مالک نے بتایا کہ ڈیمینشیا اور الزائمر کی ابتدائی علامات مشترک ہیں، جیسے معمولی چیزیں بھول جانا، روٹین کی عادات میں تبدیلی آنا، جیسے اگر کوئی شخص ساری زندگی ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا ہو اور اچانک وہ اس سے لاپرواہ ہوجائے تو یہ الارمنگ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات یادداشت کے مسائل غذائی بے قاعدگی سے بھی جڑے ہوتے ہیں جیسے وٹامن ڈی 12 کی کمی یادداشت کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے ایسی علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کیا جائے۔

    ڈاکٹر مالک کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ افراد کا خیال رکھنے والوں کو اس حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں موجود بزرگوں کو توجہ سے دیکھ بھال کرسکیں۔

  • وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے شوگر یا ذیابیطس کی 4 نئی علامات کی طرف اشارہ کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ علامات آپ میں ظاہر ہورہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ برائے شوگر نے شوگر بڑھنے کی 4 علامات کی طرف توجہ دلائی ہے، شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے شوگر کے مطابق ذیابیطس کی پہلی علامت پیاس کا زیادہ محسوس ہونا ہے، انسان شعوری طور پر شدید پیاس محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حلق بھی خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بدستور بڑھتی چلی جاتی ہے، اگرچہ آپ روزانہ 2 لیٹر پانی پیتے ہوں۔

    دوسری علامت پیشاپ کا زیادہ آنا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں شوگر بڑھ چکی ہے، کیونکہ جسم زائد گلوکوز پیشاپ کے ذریعے نکالنے لگ جاتا ہے۔

    تیسری علامت تھکاوٹ ہے، شوگر بڑھ جانے کے بعد انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جو آرام یا نیند کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خون سے گلوکوز کی مقدار خلیوں تک جب نہیں پہنچتی تو اس سے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ کی علامتوں میں جسم کا بے جان محسوس ہونا، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، مایوسی یا افسردگی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر ایسی علامات آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ محسوس ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    چوتھی علامت چڑچڑا پن ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ایک پیچیدہ مرض ہے، اس کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، انسولین کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔

    شوگر ہونے کی وجوہات میں کھانے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، ناقص اور تلے ہوئے پکوان، یا ایسے کھانے جن میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہو شوگر کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں شوگر عموماً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی نقل وحرکت اور وراثتی جینیات سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

  • مونگ پھلی کی الرجی: علامات، احتیاط اور علاج

    مونگ پھلی کی الرجی: علامات، احتیاط اور علاج

    مونگ پھلی کی الرجی نہایت احتیاط کی متقاضی ہوتی ہے، اس کی معمولی سی مقدار بھی خطرناک ردعمل کا باعث بن سکتی ہے اور الرجی کا حملہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق حال ہی میں بچوں میں مونگ پھلی کی الرجی یا اینفیلیکسس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ماہرین کے مطابق بالغ افراد یا بچوں میں مونگ پھلی سے الرجی ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

    اس کی حساسیت اگر ہلکی بھی ہو تو اس کا خطرہ مستقبل میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

    علامات

    مونگ پھلی کھانے کے کچھ دیر بعد اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے، اس کی ممکنہ طور پر یہ علامات ہوسکتی ہیں۔

    مونگ پھلی کے کھانے سے جلد پر خارش، سرخ پن یا سوجن ہو جاتی ہے، منہ اور گلے یا ان کے آس پاس خارش بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسہال، پیٹ میں درد، متلی یا قے کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔

    مونگ پھلی کھانے سے گلے میں تنگی محسوس ہوتی ہے، سانس میں تکلیف بھی ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے کھانے سے ناک کے بہنے کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔

    اینفیلیکسس کی علامات

    شدید الرجی یا اینفیلیکسس ایک ہنگامی صورتحال ہے، اس کی علامات میں گلے میں سوجن جو سانس لینا دشوار کر دے، بلڈ پریشر میں شدید کمی (جھٹکا)، تیز نبض اور چکر آنا یا ہوش ختم ہونا شامل ہیں۔

    وجوہات

    مونگ پھلی کی الرجی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کا مدافعتی نظام غلطی سے مونگ پھلی کے پروٹین کو کسی نقصان دہ چیز کے طور پر شناخت کرتا ہے۔

    مونگ پھلی کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ رابطے مدافعتی نظام کو خون کے دھارے میں روگسوچک کیمیکلز جاری کرنے کا سبب بنتے ہیں، مونگ پھلی کے نقصانات مختلف طریقوں سے ہوسکتے ہیں۔

    مونگ پھلی یا اس میں شامل کھانے کی اشیا سے براہ راست رابطہ، کبھی کبھی جلد سے براہ راست رابطہ الرجک رد عمل کو متحرک کرسکتا ہے، مونگ پھلی کا آٹا یا کھانا پکانے کے دوران اس کا تیل استعمال کرتے وقت سانس لینے کی صورت میں بھی الرجک ردعمل ہوسکتا ہے۔

    مونگ پھلی کی الرجی میں خطرے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔

    بچوں میں خاص طور پر نوزائیدہ بچوں میں کھانے کی الرجی زیادہ پائی جاتی ہے۔ جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے، آپ کا نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور آپ کے جسم میں ایسی کھانوں پر رد عمل ظاہر کرنے کا امکان کم ہوتا ہے جو الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

    کچھ بچے بڑے ہوتے ہی مونگ پھلی کی الرجی سے چھٹکارا پاتے ہیں تاہم اس کا امکان بھی موجود ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یہ دوبارہ ہوجائے۔

    اگر کسی کو پہلے ہی ایک کھانے سے الرجی ہے تو دوسرے کھانے سے الرجی پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے، اسی طرح الرجی کی ایک اور قسم کا ہونا، جیسے بخار وغیرہ کھانے کی الرجی پیدا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    بچاؤ کیسے کیا جائے؟

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات کی تصدیق کے مضبوط ثبوت موجود ہیں کہ 4 سے 6 ماہ کی عمر میں خطرے سے دو چار بچوں کی خوراک میں مونگ پھلی شروع کرنے سے کھانے کی الرجی پیدا ہونے کے خطرے میں 80 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

    مونگ پھلی کی الرجی پیدا ہونے کا خطرہ ان بچوں میں ہوتا ہے جو ہلکے سے شدید ایگزیما، انڈے کی الرجی یا دونوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کی غذا میں مونگ پھلی شامل کرنے سےقبل اپنے بچے کے ڈاکٹر سے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرلیں۔

    مونگ پھلی سے الرجی کا شکار افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کے کھانوں میں مونگ پھلی نہ ہو، پروسسڈ شدہ کھانے کی اشیا پر ہمیشہ لیبل پڑھیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان میں مونگ پھلی یا ان کی کوئی مصنوعات نہ ہو۔

  • کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    لندن: برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار افراد کو اس کی علامات کا 6 ماہ تک سامنا ہوسکتا ہے، لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار بیشتر افراد کو کووڈ کی علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا ہے اور ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں 56 ممالک کے 3 ہزار 762 افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا جو جون سے قبل کووڈ 19 کا شکار ہوئے تھے اور ان میں بیماری 28 دن سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی تھی۔

    تحقیق کے ابتدائی نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تحقیق میں شامل 93 فیصد افراد بیماری کے 6 سے 7 ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    اس سروے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ انہیں 205 میں سے کسی علامت کا سامنا تو نہیں۔

    تحقیق میں 40 فیصد سے زائد افراد نے دماغی دھند اور مسلز میں تکلیف جیسی علامات کی شکایت کی، جس میں کوئی بہتری اتنے عرصے میں نہیں آئی، محققین کے مطابق لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    رواں ماہ ہی برطانیہ کے محکمہ شماریات نے لانگ کووڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔

    سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی جس کے بعد کھانسی، سر درد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔

    اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔

  • کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    گزشتہ ایک سال میں کووڈ 19 کی مختلف علامات سامنے آچکی ہیں، کچھ ماہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 کی مختلف علامات کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چند ماہ پہلے سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کے مائیکلسن سینٹرز کنورجنٹ سائنس انسٹیٹوٹ ان کینسر نے ایک تحقیق کی جس میں ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں سامنے آنے والی علامات کی ترتیب بیان کی تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی کون سی علامت پہلے نمودار ہوتی ہے اور کون سی بعد میں ہوتی ہے۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ان 55 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت نے چین میں 16 سے 24 فروری کے دوران اکٹھا کیا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی علامات دیگر امراض جیسے فلو سے ملتی جلتی ہیں مگر ان میں فرق پیدا کرنے والا عنصر علامات کی ترتیب ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار ہی ممکنہ طور پر وہ پہلی علامت ہے جو کووڈ 19 کے بالغ مریضوں میں سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

    محققین کے مطابق مریض کو 104 یا اس سے زیادہ کا بخار ہوسکتا ہے، مگر کئی مریضوں کو کبھی بخار کا سامنا ہی نہیں ہوتا، اس لیے دیگر علامات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار کے بعد کھانسی اور مسلز میں کھنچاؤ اور تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے، کھانسی عموماً خشک ہوتی ہے، جس میں بلغم نہیں بنتا، جس کے ساتھ جسم یا مسلز میں تکلیف کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کووڈ 19 کی روایتی علامات ہیں، مگر اس کے ساتھ نظام ہاضمہ کے مسائل کا سامنا بھی مریضوں کو ہوتا ہے، جیسے متلی اور قے۔

    عام طور پر لوگ ان علامات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور تحقیق کے مطابق نظام تنفس کی اوپری نالی کی علامات کے ساتھ ساتھ متعدد مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے، قے اور متلی جیسی شکایات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    عام طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہیضے کی علامت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔

    تاہم کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف مسائل جیسے تھکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے، اس کو جاننے کے لیے ابھی تحقیقی کام جاری ہے۔

    کووڈ 19 کی ایک اور عام علامت بھی ہے مگر انفرادی طور پر اس کا تجربہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔

    یعنی روایتی علامات بخار، کھانسی، قے اور سانس لینے میں مشکلات سے ہٹ کر اس مرض کی ایک سب سے غیر معمولی علامت چکھنے اور سونگھنے کی حس ختم ہوجانا ہے، جو نظام تنفس کی علامات سے پہلے بھی نمودار ہوسکتی ہے یا سب سے آخر میں بھی نظر آسکتی ہے۔

    فلو کے مریضوں کو کبھی اس علامت کا سامنا نہیں ہوتا اور اس طرح یہ کووڈ 19 کی ایک منفرد نشانی ہے۔

    یعنی اگر اوپر درج اکثر علامات کا سامنا ہو تو یہ کووڈ 19 کا اشارہ ہوسکتا ہے، جس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کروا لینا چاہیئے یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

  • بچوں میں کرونا وائرس کی اہم علامت کون سی ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کی اہم علامت کون سی ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے اور بچوں اور بزرگوں سمیت ہر عمر کے افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے بچوں میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی ایک اہم علامت کے بارے میں بتایا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حال ہی میں آئر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر بچوں میں بدہضمی کووڈ 19 کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہیضہ اور الٹیوں کی شکایت بچوں میں وائرس کی اولین علامات ہوسکتی ہیں، اس وقت برطانیہ میں بچوں میں کرونا وائرس کی علامات میں تیز بخار، مسلسل کھانسی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی مشاہدے میں آئی ہیں۔

    کوئنز یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا کہ نظام ہاضمہ کے مسائل ممکنہ طور پر بچوں میں کووڈ 19 کی اہم ترین علامت ہوتی ہے، تحقیق میں کیا گیا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ کھانسی، سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلیوں سے زیادہ ہیضہ اور الٹیاں کووڈ 19 کی اہم علامت ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے برطانیہ بھر میں 990 سے زائد بچوں کے ٹیسٹ کیے گئے جن کی عمریں 2 سے 15 سال کے درمیان تھی، نتائج میں 68 بچوں میں اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا اور ممکنہ طور پر وہ پہلے ہی کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے۔

    50 فیصد بچوں نے علامات کو رپورٹ کیا تھا جن میں سے 19 فیصد ہیضے، الٹیوں اور پیٹ درد سے متاثر ہوئے تھے، محققین کا کہنا تھا کہ متعدد بچے اس موسم سرما میں بہتی ناک اور چھینکوں کے شکار ہوں گے مگر یہ کوئی علامت نہیں۔

    اس سے قبل ڈھائی لاکھ کے قریب بچوں پر کنگز کالج لندن کی ایک تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ بالغ افراد کے برعکس بچوں میں کھانسی، کووڈ 19 کی عام علامت نہیں بلکہ نظام ہاضمہ کے مسائل زیادہ عام ہوتے ہیں۔

  • کرونا وائرس: 80 فیصد مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں

    کرونا وائرس: 80 فیصد مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا کاری وار جاری ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد میں اس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    اس حوالے سے سب سے پہلے جنوری میں چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن وزیر ما شیاﺅوی نے بتایا تھا کہ اس وائرس کے شکار 80 فیصد افراد میں ایک سے 14 دن تک کوئی علامات سامنے نہ آنے کا امکان ہوتا ہے اور اس دوران یہ کسی دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے وائرس کو پھیلنے سے روکنا مشکل ہو رہا ہے جبکہ اس کے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے کی صلاحیت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

    بعد ازاں امریکا کے محکمہ صحت سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ بڑی تعداد میں اس کا شکار افراد میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اور 25 فیصد کیسز میں ایسا ہو سکتا ہے۔

    اس کے بعد آئس لینڈ میں محققین نے بتایا تھا کہ کرونا وائرس کے 50 فیصد سے زائد کیسز ایسے تھے جن میں علامات نظر نہیں آئیں اور کیسز کی تصدیق ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹیسٹنگ کے دوران ہوئیں۔

    اس کے بعد ایک اور رپورٹ میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا تھا کہ سنگاپور کے محققین نے متعدد ایسے کیسز کی نشاندہی کی ہے جس میں وائرس بغیر علامات ظاہر کیے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوا۔

    اب مزید 2 حالیہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے اکثر مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ڈاکٹر ریڈ فیلڈ کے مطابق ایسے بغیر علامات والے مریض وائرس کو پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر علامات ظاہر ہونے سے 48 گھنٹے پہلے ان سے وائرس صحت مند افراد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ان کے بقول اس سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکا بھر میں یہ وائرس بہت زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے کیونکہ علامات سے پاک مریض اس میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں فیس ماسک کے استعمال کی اہمیت از حد بڑھ جاتی ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال ضرور کیا جائے تاکہ نہ صرف ایسے ممکنہ مریضوں سے حفاظت کی جاسکے جن میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، بلکہ اگر وہ خود بھی اس کا شکار ہوچکے ہیں تو لاعلمی میں اسے دوسروں تک نہ پہنچائیں۔

  • کورونا وائرس علامات ظاہر نہ ہونے کے باوجود منتقل ہوجاتا ہے

    کورونا وائرس علامات ظاہر نہ ہونے کے باوجود منتقل ہوجاتا ہے

    اس وقت دنيا بھر میں کورونا وائرس کے بارے میں معلومات کا سیلاب رواں ہے، کووڈ انیس کا سبب بننے والے اس مہلک وائرس کا خوف لوگوں میں بڑھتا جارہا ہے، اس کے سدباب کیلئے سائنسدان دن رات کوششوں میں مصروف ہیں۔

    سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ کورونا وائرس علامات ظاہر کیے بغیر بھی متاثرہ فرد سے دوسروں میں منتقل ہوسکتا ہے۔
    اور اس حقیقت کے نیتجے میں اس کے پھیلاﺅ کی روک تھام زیادہ بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔

    ووہان کی 20 سالہ لڑکی نے خاندان کے پانچ افراد میں اس وائرس کو منتقل کیا جبکہ وہ خود جسمانی طور پر کبھی بیمار نہیں ہوئی تھی۔

    کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے یورپی ملک نے دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں آبادی کے زیادہ بڑے حصے کو ٹیسٹ کرنے کے بعد دریافت کیا کہ 50 فیصد مریضوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت اور چین کے مشترکہ مشن نے ایسے انفیکشنز کی شرح نہ ہونے کے برابر اور وائرس کے پھیلاؤ کا غیراہم ذریعہ قرار دیا تھا۔

    مختلف تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ کورونا وائرس اس وقت بھی ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے، جب مریض میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوتی۔

    جاپان میں ایک تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ حال ہی میں وائرس سے متاثر ہونے والا مریض دوسرے فرد میں اس انفیکشن کو5 دن کے اندر  ہی منتقل کرسکتا ہے جو کہ اس وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی مدت سے کم ہے۔

    اس کے علاوہ چین میں رپورٹ ہونے والے تمام کیسز کا تجزیہ کرتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ1.2 فیصد افراد میں علامات ظاہر ہوئے بغیر کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔