Tag: Symptoms

  • کرونا وائرس کے شکار میاں بیوی کا انوکھا اقدام

    کرونا وائرس کے شکار میاں بیوی کا انوکھا اقدام

    انگلینڈ میں ایک جوڑے نے حکام کی جانب سے کرونا وائرس کا ٹیسٹ نہ کیے جانے کے بعد خود کو گھر میں قید کرلیا، جوڑے میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہورہی ہیں۔

    لیور پول کے رہائشی اس جوڑے کا کہنا ہے کہ ان کا ایک دوست چین سے واپس لوٹا تھا اور وہ اس سے ملنے گئے تھے۔

    43 سالہ گرے ویلز اور اس کی 37 سالہ اہلیہ لینی کا کہنا ہے کہ انہیں 10 دن قبل کرونا وائرس جیسی علامات ظاہر ہوئیں جن میں گلے کی سوزش اور سانس لینے میں تکلیف شامل تھی۔

    گرے کا کہنا ہے کہ اس نے ایمرجنسی ہیلپ لائن پر کال کر کے حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا، انہیں کہا گیا کہ 72 گھنٹوں کے اندر ان کے گھر پر ہی ان کے ٹیسٹ لے لیے جائیں گے لیکن 3 دن گزرنے کے باجود ابھی تک کوئی ان کے گھر پر نہیں آیا۔

    دونوں کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات کے تحت انہوں نے خود کو گھر میں قید کرلیا ہے تاکہ وہ دوسروں میں وائرس پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔

  • کورونا وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟؟

    کورونا وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟؟

    دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 3600 سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو گزشتہ ماہ دسمبر میں چین سے شروع ہوا اوراب دنیا کےسو سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔

    چین کے شہر ووہان سے اس جان لیوا وائرس کے پھیلنے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے جنوری میں گلوبل پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا اور جب سے ہی اس کے بارے میں جاننے اور اس کے تدارک کے لیے سائنسدان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔

    حالیہ تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس بہت تیزی سے پیش رفت کرتا ہے، جرمنی کی یونیورسٹیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دریافت کرلیا ہے یہ وائرس کس وقت سب سے زیادہ پھیلتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج  سے یہ بات سامنے آئی کہ آخر کیوں یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں، تاہم محققین نے اس کو آن لائن شائع کیا ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ یہ وائرس مختلف مراحل میں کس طرح اور کن ذرائع سے پھیلتا ہے۔

    محققین نے وائرس کے شکار نو افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا جن کا علاج میونخ کے ایک اسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی، یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار بھی نہیں تھے۔

    محققین نے ان کے تھوک، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا۔ مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے۔

    مریضوں کے خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    ان میں وائرس کے متعدی ہونے کا عمل 10 یا 11 ویں دن تک عروج پر پہنچتا ہے جبکہ معتدل مریضوں میں پانچ دن کے بعد اس عمل کی شدت میں بتدریج کمی آنے لگتی ہے اور 10 ویں دن ممکنہ طور پر یہ مریض اسے مزید پھیلا نہیں پاتے۔

  • لو بلڈ پریشر کی علامات جانیں

    لو بلڈ پریشر کی علامات جانیں

    خون کے بہاؤ کا عمل نارمل رہنا از حد ضروری ہے، جس طرح ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، اسی طرح کم فشار خون یا لو بلڈ پریشر بھی جسم کو نقصان پہنا سکتا ہے۔

    اکثر افراد لو بلڈ پریشر کی علامات سے ناواقف ہوتے ہیں، اس پر قابو پانے کے لیے اس کی علامات جاننا ضروری ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں کون سی علامات لو بلڈ پریشر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ڈی ہائیڈریشن

    لو بلڈ پریشر کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے جبکہ ڈی ہائیڈریشن بھی لو بلڈ پریشر کی وجہ بن سکتا ہے۔ مستقل لو بلڈ پریشر رہنے کی وجہ سے پانی کی کمی سنگین صورت اختیار کرسکتی ہے۔

    بینائی دھندلانا

    لو بلڈ پریشر کے سنگین سائیڈ افیکٹس میں سے ایک بینائی دھندلانا ہے، یہ نہ صرف خوفناک تجربہ ہوتا ہے بلکہ اس کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں۔

    سر چکرانا

    کافی دیر تک بیٹھ کر اچانک اٹھنے پر سر چکرا جانا بھی لو بلڈ پریشر کی علامت ہو سکتی ہے۔

    توجہ مرکوز نہ ہو پانا

    لو بلڈ پریشر کی وجہ سے آپ کو توجہ مرکوز کرنے میں بھی مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں دماغ تک خون نہیں پہنچ رہا ہوتا۔

    دھڑکن تیز ہونا

    خون کا بہاؤ بہت زیادہ ہو یا بہت کم ہو تو دونوں صورتوں میں دل کو خون پمپ کرنے کے لیے اضافی کام کرنا پڑتا ہے جس سے دل پر بوجھ پڑتا ہے، اسی وجہ سے دھڑکن تیز ہوسکتی ہے۔

    تھکاوٹ

    ہر وقت تھکاوٹ طاری رہنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم یہ لو بلڈ پریشر کی علامت بھی ہوتی ہے۔

  • بریسٹ کینسر: تیزی سے فروغ پاتا مرض

    بریسٹ کینسر: تیزی سے فروغ پاتا مرض

    چھاتی کا سرطان یا بریسٹ کینسر خواتین کو اپنا شکار بنانے والا مرض ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق رواں عشرے میں اس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ مرض بڑی عمر کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں تک کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کو بریسٹ کینسر سے آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے جسے بریسٹ کینسر کی علامت گلابی ربن کی نسبت سے پنک ٹوبر کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے لیے فیصل مسجد گلابی رنگوں سے روشن

    حال ہی میں جاری کردہ ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے براعظم ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے اور ہر 9 میں سے 1 خاتون عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اس کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار خواتین اس مرض کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

    لیکن یاد رہے کہ اگر اس مرض کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرلی جائے تو یہ قابل علاج ہے اور اس سے متاثرہ خاتون علاج کے بعد ایک بھرپور زندگی جی سکتی ہے۔

    بریسٹ کینسر کی آگاہی کے حوالے سے اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر ماہرین سے گفتگو کی اور مرض کی وجوہات اور علاج کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

    بریسٹ کینسر کے حوالے سے بنیادی معلومات

    چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کے بارے میں جاننے کے لیے سب سے پہلے ان بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

    اس سرطان کی سب سے بڑی وجہ ہارمونل تبدیلیاں ہیں، لہٰذا ماہانہ ایام میں کسی بھی قسم کی بے قاعدگی اور غیر معمولی کیفیات یا چھاتی کے ارد گرد کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی کینسر کا ابتدائی اشارہ ہوسکتی ہے، لہٰذا انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بریسٹ کینسر کا امکان 45 برس کی عمر کے بعد بڑھ جاتا ہے جب مینو پاز کا دور شروع ہوجاتا ہے یعنی ماہانہ ایام آنے بند ہوجاتے ہیں۔

    چھاتی کے کینسر کے اسپیشلسٹ کو اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ اونکولوجسٹ مرض کی تشخیص، چیک اپ اور علاج بذریعہ دوا کر سکتا ہے۔ کسی بھی سرجری یا آپریشن کی صورت میں اس کینسر کے سرجن الگ ہوتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے کروایا جانے والا ٹیسٹ میمو گرافی کہلاتا ہے۔

    بریسٹ کینسر کی علامات

    چھاتی کے سرطان کی سب سے بڑی علامت تو اوپر بیان کردی گئی ہے یعنی ماہانہ ایام میں بے قاعدگی یا تبدیلی، اور چھاتی کے ارد گرد کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی چھاتی کے کینسر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں اس کی مزید علامات یہ ہیں۔

    ماہانہ ایام کے دنوں میں یا اس سے قبل چھاتی میں درد محسوس ہونا

    ہر وقت تھکاوٹ

    نظام ہضم میں گڑبڑ

    مزاج میں تبدیلی

    مندرجہ بالا کیفیات ہارمونل تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور یہ بریسٹ کینسر سمیت کسی بھی مرض کی علامت جیسے ذیابیطس یا کسی اور کینسر کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔

    خاص طورپر توجہ دینے والی علامات

    بریسٹ کینسر کی طرف واضح اشارہ کرنے والی علامات یہ ہیں۔

    جسم کے مختلف حصوں یا سر میں درد رہنا۔

    وزن کا بڑھنا۔

    چھاتی یا بغل میں گلٹی اور اس میں درد محسوس ہونا۔

    چھاتی کی شکل اور ساخت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی آنا۔

    دونوں چھاتیوں کے درمیان کسی بھی قسم کا فرق۔

    چھاتی کی جلد میں جھریاں یا گڑھے پڑنا۔

    چھاتی کی جلد پر کسی باریک تہہ کا بننا۔

    بغل اور بازوؤں کے اوپری حصے میں درد بھی اس کی علامت ہوسکتا ہے۔

    چھاتی، بغل یا بازوؤں کے اوپری حصوں پر زخم بن جانا اور ان سے مواد بہنا۔

    چھاتی کی پستان سے مواد کا بہنا یا تکلیف ہونا۔

    کیا بریسٹ کینسر جان لیوا ہے؟

    ایک عام خیال پایا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار خواتین یا تو جان کی بازی ہار جاتی ہیں یا پھر کینسر کو ختم کرنے کے لیے ان کی کینسر کا شکار چھاتی کو سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے جس کے بعد ان کا جسم عیب دار ہوجاتا ہے۔

    تاہم اس سلسلے میں جامشورو کے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی (نمرا) کے ڈائریکٹر اور معروف اونکولوجسٹ ڈاکٹر نعیم لغاری اور ضیا الدین اسپتال کی بریسٹ کینسر سرجن ڈاکٹر لبنیٰ مشتاق نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور اس مرض اور اس کے طریقہ علاج کے بارے میں آگاہی دی۔

    میمو گرافی یا الٹرا ساؤنڈ؟

    ڈاکٹر نعیم لغاری کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر کی شرح صرف بڑی عمر کی خواتین میں ہی نہیں بلکہ نوعمر لڑکیوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ کم عمر لڑکیوں کی میمو گرافی نہیں کی جاتی بلکہ ان کا الٹرا ساؤنڈ کیا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق’ سب سے پہلے بریسٹ کینسر کا سبب بن سکنے والی اولین وجہ یعنی گلٹی کا بذریعہ الٹرا ساؤنڈ جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ یہ نہایت بے ضرر ہوتی ہے اور دواؤں سے ختم ہوجاتی ہے، بعض دفعہ اسے معمولی نوعیت کے آپریشن کے ذریعے جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔ ہاں اگر اس گلٹی کے کینسر زدہ گلٹی میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہو تو گلٹی کے ساتھ چھاتی کا کچھ حصہ بھی نکال دیا جاتا ہے تاکہ اس سے متاثر ہونے والے آس پاس کے خلیات اور ٹشوز بھی جسم سے باہر نکل جائیں‘۔

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق کینسر ہوجانے کی صورت میں بھی پوری چھاتی کو نہیں نکالا جاتا بلکہ چھاتی کا صرف اتنا حصہ بذریعہ سرجری نکال دیا جاتا ہے جو کینسر زدہ ہوتا ہے۔

    بریسٹ کینسر کے مختلف اسٹیج

    ضیا الدین اسپتال کی سرجن ڈاکٹر لبنیٰ مشتاق کے مطابق بریسٹ کینسر کے 4 اسٹیجز یا مرحلے ہوتے ہیں جنہیں ٹی این ایم یعنی ٹیومر نوڈز میٹاسس کہا جاتا ہے۔

    پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ چھاتی میں موجود ہر گلٹی کینسر زدہ نہیں ہوتی۔ بعض گلٹیاں معمولی اقسام کی بھی ہوتی ہیں جو دواؤں یا سرجری کے ذریعے جسم سے علیحدہ کردی جاتی ہیں۔

    چھاتی میں موجود وہ گلٹی جو کینسر زدہ ہو طبی زبان میں ٹی 1، ٹی 2، ٹی 3 یا ٹی 4 کہلائی جاتی ہے۔ ٹی ٹیومر کے سائز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2 سینٹی میٹر یا اس سے چھوٹی گلٹی ٹی 1، 2 سے 5 سینٹی میٹر کے درمیان گلٹی ٹی 2، جبکہ 5 سینٹی میٹر سے مزید بڑی گلٹی ٹی 3 کے زمرے میں آتی ہے۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق کینسر زدہ گلٹی ہونے کی صورت میں سرجری اور کیمو تھراپی تمام اقسام کے اسٹیجز میں علاج کا حصہ ہیں۔ پہلے یا دوسرے اسٹیج پر بھی اسے سرجری کے ذریعے نہ صرف نکالا جاتا ہے بلکہ بعد ازاں مریض کی کیمو تھراپی بھی کی جاتی ہے۔

    تیسرے اسٹیج میں کینسر چھاتی کے علاوہ آس پاس کے اعضا کے خلیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق کینسر کا چوتھا اسٹیج وہ ہوتا ہے جس میں کینسر کے خلیات جسم کے اہم اعضا جیسے جگر، پھیپھڑے، ہڈیوں یا دماغ تک پھیل جاتے ہیں۔

    اس میں ڈاکٹرز صرف مرض کو ایک حد تک محدود رہنے، اور مریض کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے دوائیں دے سکتے ہیں تاہم یہ کینسر جڑ سے نہیں نکالا جاسکتا۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کا کہنا تھا کہ چوتھے اسٹیج کے کینسر میں بھی لوگ سالوں تک جی سکتے ہیں تاہم اس کے لیے مضبوط قوت مدافعت اور زندگی جینے کی امنگ ہونا ضروری ہے۔ کمزور قوت مدافعت کے مالک افراد یا زندگی سے مایوس ہوجانے والے عموماً اس اسٹیج پر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر کی عمومی وجوہات

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق بریسٹ کینسر کی سب سے پہلی وجہ تو عورت ہونا ہے کیونکہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح کہیں زیادہ ہے۔

    بریسٹ کینسر کا سبب بننے والی دیگر وجوہات یہ ہیں۔

    دیر سے شادی ہونا۔

    اولاد نہ ہونا یا 30 سال کی عمر کے بعد ہونا۔

    بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا۔

    مینو پاز یا برتھ کنٹرول کے لیے کھائی جانے والی دوائیں بھی بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر رہا ہو تو عموماً یہ مرض آگے کی نسلوں میں بھی منتقل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ جن خواتین کی خاندانی تاریخ میں بریسٹ کینسر ہو انہیں بہت زیادہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کر کے اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکے۔

    بہت زیادہ چکنائی والی غذائیں کھانا۔ ڈاکٹر نعیم کے مطابق غیر صحت مند چکنائی اور جنک فوڈ ہمارے جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھاتا ہے جو جسم کے اندرونی نظام کو درہم برہم کر کے بریسٹ کینسر سمیت متعدد اقسام کے کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    بریسٹ کینسر جان لیوا کیوں بنتا ہے؟

    ایک تحقیق کے مطابق چھاتی کے سرطان کو اگر ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرلیا جائے تو مریض کے صحت یاب ہونے کا امکانات 90 فیصد تک ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر نعیم کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ ’یہ ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے جس پر خواتین بات کرنے سے شرماتی اور گریز کرتی ہیں لہٰذا وہ اپنی تکالیف کو برداشت کرتی رہتی ہیں اور جب حالت خراب ہونے پر انہیں اسپتال لایا جاتا ہے تو ان کا مرض آخری اسٹیج میں داخل ہوچکا ہوتا ہے‘۔

    بعض پسماندہ علاقوں کی خواتین اگر مردوں کو بتا کر ڈاکٹر کے پاس جانے کا مطالبہ کر بھی لیں تو مرد حضرات اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے گریز کرتے ہیں اور خواتین ڈاکٹرز کی تلاش کی جاتی ہے جو نہایت کم ہیں۔

    ان کے مطابق ان کے پاس میمو گرافی ٹیسٹ کے لیے آنے والی خواتین یا تو خود تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خود مختار ہوتی ہیں یا پھر ان کے مرد تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تب ہی وہ اس مرض کی خطرناکی کو سمجھ کر اس کے علاج کے لیے آتے ہیں۔

    بریسٹ کینسر نفسیاتی مسائل کا بھی سبب

    ڈاکٹر نعیم لغاری کے مطابق بریسٹ کو خواتین کی خوبصورتی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا سرجری کے بعد جب ان کی چھاتی یا اس کا کچھ حصہ جسم سے نکال دیا جاتا ہے تو خواتین اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتی ہیں اور نفسیاتی مسائل خصوصاً احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق بریسٹ کینسر کی سرجری سے گزرنے والی خواتین کی ذہنی کونسلنگ کے لیے ماہر نفسیات بھی مریضہ کا علاج کرنے والی ٹیم کا حصہ ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں کچھ خواتین اس عیب کو چھپانے کے لیے مصنوعی چھاتی کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس صورت میں مصنوعی چھاتی امپلانٹ بھی کی جاتی ہے جو جسم کے لیے کسی بھی صورت مضر نہیں ہوتی۔ سرجریوں سے گھبرائی ہوئی خواتین مزید ایک اور سرجری سے بچنے کے لیے ایسی مصنوعی چھاتی کا استعمال کرتی ہیں جو لباس کے ساتھ استعمال کی جاسکے۔

    مردوں میں بریسٹ کینسر

    شاید آپ کو علم نہ ہو لیکن بریسٹ کینسر کا امکان مردوں میں بھی ہوتا ہے تاہم اس کی شرح بے حد کم ہے۔ بریسٹ کینسر چونکہ ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے نمو پاتا ہے لہٰذا یہ تبدیلیاں مردوں میں بھی ہوسکتی ہیں جو ان میں بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 ہزار مردوں میں سے صرف 1 مرد کو بریسٹ کینسر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

    بریسٹ کینسر سے بچنے کی احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق یوں تو بریسٹ کینسر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے تاہم بعض اوقات احتیاطی تدابیر بھی اس مرض کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کھلے اور ڈھیلے لباس استعمال کریں۔ بہت زیادہ فٹنگ والے لباس چھاتی پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

    گہرے رنگوں خصوصاً سیاہ رنگ کے زیر جامہ کو استعمال نہ کریں۔ گہرا رنگ سورج کی تابکار روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے چھاتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    رات سونے سے قبل زیر جامہ اتار دیں۔ رات میں بھی زیر جامہ کا استعمال چھاتیوں تک آکسیجن نہیں پہنچنے دیتا جبکہ سانس لینے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

    اپنے بچوں کو 2 سال کی عمر تک اپنا دودھ پلانا بریسٹ کینسر سے خاصی حد تک تحفظ دے سکتا ہے۔

    متوازن اور صحت مند غذائیں جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، مچھلی اور انڈے وغیرہ کا استعمال کریں۔ جتنا ممکن ہو جنک فوڈ سے پرہیز کریں۔

    صحت مند طرز زندگی اپنائیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ ایسی ورزش جس سے پورا جسم حرکت میں آئے ہفتے میں 2 سے 3 بار لازمی کریں۔

  • ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    مچھروں کے باعث پیدا ہونے والے مرض ڈینگی کا اگر ابتدائی مراحل میں علاج نہ کیا جائے تو وہ مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتی ہے۔

    پاکستان ڈینگی کے شکار سرفہرست 10 ممالک میں سے ایک ہے اور خشک موسم میں ان مچھروں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے بچنے کے طریقے

    ڈینگی کو بعض اوقات کسی دوسرے مرض کی غلط فہمی میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور علاج میں تاخیر کردی جاتی ہے جس کے بعد یہ جان لیوا بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار کی 4 اقسام ہیں اور ان چاروں میں ایک ہی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ان علامات کے فوری طور پر ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کرنا مرض کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈینگی وائرس سے بچیں

    وہ علامات کیا ہیں، آپ بھی جانیں۔

    سر درد

    ڈینگی بخار کی سب سے پہلی علامت شدید قسم کا سر درد ہے جو مریض کو بے حال کردیتا ہے۔

    تیز بخار

    ڈینگی کا وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی مریض کو نہایت تیز بخار ہوجاتا ہے۔ 104، 105 یا اس سے بھی زیادہ تیز بخار کی وجہ سے جسم کے درجہ حرارت میں نہایت تیزی کے ساتھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    جوڑوں میں درد

    اس مرض میں مریض کو پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید درد کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔

    خراشیں

    ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑ جاتی ہیں اور جلد کھردری ہو کر اترنے لگتی ہے۔

    متلی اور قے

    ڈینگی کے باعث ہونے والا تیز بخار متلیوں اور الٹیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔

    غنودگی

    ڈینگی بخار کے دوران مریض کا غنودگی میں رہنا عام بات ہے۔

    خون بہنا

    جب ڈینگی بخار اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے تو مریض کے ناک اور مسوڑھوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

    خون کے خلیات میں کمی

    ڈینگی وائرس خون کے خلیات پر حملہ کرتا ہے جس سے ایک تو نیا خون بننا بند یا کم ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں بخار کے دوران اگر کوئی چوٹ لگ جائے اور خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔

    ڈینگی کے مریض میں خون کے خلیات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے مستقل خون کی منتقلی ضروری ہے۔

    ڈائریا

    سخت بخار کے باعث مریض کو ڈائریا بھی ہوسکتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات خارج ہوسکتے ہیں۔ یوں پہلے ہی ڈینگی سے بے حال مریض مزید ادھ موا ہوجاتا ہے۔

    فشار خون اور دل

    ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ڈینگی کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دھڑکن کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاﺅ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاﺅ کیلئے احتیاطی تدابیر

    کراچی : کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں گرمی کی شدید لہر برقرار ہے، محکمہ موسمیات نے گرمی کی شدید لہر سے خبردار کردیا، جو لوگ گھر سے باہر زیادہ وقت گزارتے ہیں اُن کو ہیٹ اسٹروک کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

    موسمِ گرما کے سخت دن نا صرف ماحول کو غیر آرام دہ بناتے ہیں بلکہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بھی بڑھا دیتے ہیں، جو مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔


    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات


    گرم ا ور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیئے بغیر مخنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا


    ہیٹ اسٹروک کی علامات


    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج روک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا


    کسی کو ہیٹ اسٹروک ہو جائے توکیا کیا جائے


    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔ مریض کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں، مریض کو پنکھے کے قریب کردیں، یا کسی چیز سے پنکھا جَھلیں۔ مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔


    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی اہم تدابیر


    گرمیوں میں ہیٹ اسٹروک کے امکانات ہوتے ہیں چنانچہ اس سے بچنے کےلئے تدابیر بھی اپنانی چاہیے تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے روزانہ کم از کم تین لیٹر پانی تو لازمی پینا چاہیے، خاص طور پر پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھنا چاہیے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس کا استعمال کرنا چاہیے، گرم اشیاء، چائے، کافی کا استمال کم کیجئے ۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    ڈھیلے اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کاٹن جیسے ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے، اگر آپ مچھروں کے کاٹنے کے وقت باہر ہوں، تو پوری پینٹیں اور بند جوتے پہنیں۔

    اگر آپ شام کے وقت پارک میں جائیں، تو جرابیں ٹخنوں سے اوپر چڑھائیں، اور شرٹ پینٹ کے اندر اڑس لیں۔

    گرم اشیاء اور الکوحلک مشروبات سے پرہیز کریں

    گرم اشیاء، چائے، کافی کا استمال کم کیجئے، جب الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کرنا چاہیے، کولڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ایسی چیزیں جو آپ کو دھوپ سے محفوظ رکھیں

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاوجہ گھروں سے نہ نکلیں، زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہیں، باہر نکلیں تو سر ڈھانپ کر رکھیں، اگر نکلنا بھی ہے تو گیلے کپڑے سے سر اور جسم ڈھانپ کر نکلیں اور اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ کے بعد پانی پیئے جبکہ ایک اسپرے بھی رکھنا چاہیے، جس میں عرقِ گلاب، یا پیپرمنٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملایا جائے، جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    سن بلاک کا استعمال کریں

    اس میں کوئی شک نہیں کہ دھوپ وٹامن ڈی کا بہت اچھا ذریعہ ہے، لیکن الٹراوائیلٹ شعاعوں کا نقصان شدید اور طویل مدتی ہوسکتا ہے، جب بھی آپ باہر ہوں، تو اپنے جسم کے کھلے حصوں پر سن اسکرین لگائیں۔ اسے اپنے پورے جسم پر گھر سے باہر نکلنے سے کم از کم تیس منٹ پہلے لگائیں۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین نے شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    طبی ماہرین کے مطابق کیفین اور تیل سے بھرپور چیزیں، اور تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دینی چاہیئں۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دینا چاہیے، خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھانے چاہیئں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، آم، کینو، خربوزہ، گاجر، وغیرہ۔

    اس موسم میں خاص طور پر گھر میں پکے ہوئے تازہ اور صاف ستھرے کھانے کھانے چاہیئں۔ گھر میں کھانے کو درست درجہ حرارت پر رکھنا چاہیے، اور جتنا ہوسکے، باہر کا کھانا کم سے کم کریں۔ تھوڑی سی بھی لاپرواہی مختلف اقسام کے انفیکشن ہوسکتے ہیں لہٰذا کھانے اور پینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز کریں

    نیگلیریا فولیری کو گرم پانی بہت پسند ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ سوئمنگ پول میں کلورین اچھی طرح شامل ہو، یا پھر کم گہرے اور گرم پانی والی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اجتناب کریں۔

    اس لاعلاج اور ہلاکت خیز مرض سے صرف بچا ہی جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک کے کلپ خریدیں، اور اپنا سر پانی سے اوپر رکھیں تاکہ پانی کو ناک میں جانے سے بچایا جا سکے۔

    اگر ہم یہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تو گرمی سے ناصرف بچا جا سسکتا ہے بلکہ صحت کو بھی متوازن رکھا جا سکتا ہے۔