Tag: SYRIA CONFLICT

  • شام سے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    شام سے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    واشنگٹن : امریکی صدر نے شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے متعلق کہا ہے کہ امریکی افواج کی واپسی آہستہ آہستہ ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ ’ہم اپنے فوجیوں کو اپنے فوجیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس آہستہ آپستہ گھر بھیجیں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ فوجی اہلکار انخلاء کے ساتھ ساتھ بیک وقت داعش نے لڑتے بھی رہیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ کی وضاحت نے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کے تبصرے کی تصدیق کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ شام میں تعینات تمام امریکی فوجی واپس آرہے ہیں۔

    خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انھوں نے گذشتہ ماہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے امریکی افواج کے انخلا کا حکم دیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی نمائندے بریٹ مک گرک نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے شام کے شمال میں موجود امریکا کے کرد اتحادی ترکی کے حملوں کی زد میں آ جائیں گے۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ ہم نے داعش کو شکست دے دی، اور آئندہ 30 دنوں میں امریکی فورسز شام سے نکل جائیں گی۔

    مزید پڑھیں : امریکی افواج کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کی تصدیق ہوگئی

    یاد رہے کہ 24 دسمبر کو امریکی حکام نے خانہ جنگی کا شکار ملک شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم نامے پر مستعفی ہونے والے وزیر دفاع جیمز میٹس کے دستخط کرنے کی تصدیق کی تھی۔

  • امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    دمشق : شامی حکومت نے فرانس کی جانب سے صدر بشار الااسد کو دیا گیا اعلیٰ ترین ایوارڈ لوٹاتے ہوئے کہا ہے کہ’بشارالااسد کے لیے امریکا کے غلام اور حامی ممالک کے ایوارڈ سجانا اعزاز کی بات نہیں‘.

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام نے صدر بشار الااسد کو فرانس کی جانب سے دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ فرانس کو واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسے کسی ملک کا تحفہ یا انعام نہیں رکھوں گا جو امریکا کا غلام ہو‘۔

    شام نے ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب کچھ روز قبل فرانسیسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ بشار الاسد سے ایوارڈ واپس لینے کے لیے ’انضباطی کارروائی‘ جاری ہے۔

    شامی صدر بشار الاسد نے شام میں موجود رومانیہ کے سفارت خانے کے ذریعے ایوارڈ فرانس کو واپس کیا ہے۔

    شام کے صدر بشار الاسد کو فرانس کا اعلیٰ ترین ایواڈ سنہ 2001 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار سنبھالنے پر سابق فرانسیسی صدر جیکس شراک کی جانب سے دیا گیا تھا۔

    شام کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’شامی وزارت خارجہ نے فرانس کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کو دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ جمہوریہ فرانس کو واپس کردیا ہے‘۔


    فرانس کا شامی صدر کو بڑے سِول اعزاز سے محروم کرنے کا فیصلہ


    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ شامی صدر کے لیے امریکا کے غلام ممالک اور حامیوں کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی ایوارڈ سجاکر رکھنا اعزاز کی بات نہیں ہے، کیوں کہ امریکا پوری دنیا میں دہشت گردی کا معاونت کار اور موجد ہے‘۔

    واضح رہے کہ فرانس کی جانب سے ہر سال فرانس کے لیے خدمات انجام دینے والے، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور آزادی صحافت کے لیے کوششیں کرنے والے 3000 افراد کو اعلیٰ ترین ایوارڈ لیجئین ڈی اونر دیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں فرانس نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر دوما میں مبینہ کیمیائی بم حملوں کے رد عمل میں شام کی تنصیبات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    لندن : برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تھریسا مے کو ارکان پارلیمان نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ امریکی صدر کے سامنے نہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں.

    تفصیلات کے مطابق امریکا، فرانس، اور برطانیہ کی جانب سے شام میں مبینہ کیمیائی حملوں کے جواب میں کی جانے والی فوجی کارروائی کے خلاف برطانوی رکن پارلیمنٹ اور لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن نے برطانیہ کی وزیراعظم کو کھلا خط لکھا ہے۔

    برطانوی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی خط میں لکھتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کی وزیر اعظم پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جوابدہ ہیں تو انہیں شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے پہلے اراکین پارلیمان سے مشورہ کرکے ووٹنگ کروانی چاہیے تھی‘۔

    جیریمیی کوربن کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کی وزیر اعظم کو برطانوی پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ کہ امریکی صدر کی خواہشات و مرضی کی‘۔

    انہوں نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ شام کے خلاف کی جانے والی برطانیہ، فرانس اور امریکا کی تازہ کارروائیاں قانونی طور پر مشکوک ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بات کی طرف نشاندہی کی تھی کہ تمام ممالک عالمی قوانین کے چارٹر کے مطابق چلیں‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں برطانوی وزیراعظم سے کہا کہ ’آپ نے مجھے یقن دہانی کروائی تھی کہ اٹارنی جنرل نے شام پر حملے کے حوالے واضح مشورہ دیا تھا، میں چاہوں کا گا کہ آپ آج اس منظوری کو شائع کردیں‘۔

    جیریمی کوربن نے لکھا ہے کہ ’اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ’او پی سی ڈبلیو‘ نے تاحال ڈوما میں کیمیائی حملوں کی نہ ہی تحقیق کی ہے اور نہ ہی حملوں کی تصدیق کی ہے، اس لیے یہ بات تو واضح ہے کہ تمام سفارتی اور غیر فوجی ذرائع کا مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے‘۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات بہت ضروری ہے کہ تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار(او پی سی ڈبلیو) کے تفتیش کار جو ڈوما پہنچیں گے، پہلے انہیں ان کا کام کرنے دیا جائے اور کیمیائی حملوں سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کو شائع کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی خط میں کہتے ہیں کہ ’میں آپ کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانی کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ جب تک او پی سی ڈبلیو کے تحقیق کار شام میں موجود ہیں مزید بمباری نہیں کی جائے گی۔ انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین کہ برطانیہ اقوام متحدہ کے ذریعے اس بدترین تنازعے کو روکنے کے لیے اہم سفارتی کردار ادا کرے گا، جس میں لاکھوں افراد قتل کردیئے گئے اور کروڑوں شامی شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا‘۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے جیریمی کوربن کو جمعے کی رات بلا کر شام پر کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی تھی۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے اس خط سے یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ وہ شام پر حملے کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم کی بریفنگ سے مطمئن نہیں ہیں۔


    شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا‘ برطانوی وزیراعظم


     

    واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون کے ساتھ شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دمشق: شہریوں پر کیمیائی ہتھیار سےحملہ کس نے کیا؟معاملہ مزید الجھ گیا

    دمشق: شہریوں پر کیمیائی ہتھیار سےحملہ کس نے کیا؟معاملہ مزید الجھ گیا

    دمشق: شام میں شہریوں پر حملہ کس نے کیا؟ معاملہ مزید الجھ گیا، دو روز قبل شامی شہر سراقب میں ہونے والے حملے پر متضاد دعوے سامنے آنے لگے ہیں۔

    روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کیمیائی حملہ شامی حزب اختلاف نے کیا، شامی حزب اختلاف کی جانب سے راکٹ کے ذریعے کلورین گیس کو حکومتی علاقے پر پھینکا گیا، وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے سے متعلق امریکا کو آگاہ کردیا ہے۔

    اس سے قبل شامی حزب اختلاف نے حملے کا الزام بشار الاسد حکومت پر عائد کیا تھا، کیمیائی حملے میں تیس افراد متاثر ہوئے تھے، حملے میں سات افراد کی ہلاکت کی اطلاع بھی سامنے آئی تھی۔

    syria-1

    عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق روسی ہیلی کاپٹر گرنے کے کچھ ہی دیر بعد ”سرقیب“ کے اس علاقے میں زہریلی گیس کے کنٹینر فضاءسے گرا دیئے گئے، جس سے 33عام شہری متاثر ہوئے۔ متاثرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔


     

    مزید پڑھیں : دمشق: شام میں روسی ہیلی کاپٹر باغیوں نے مار گرایا،پانچ افراد ہلاک


     

    یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہو، ماضی میں بھی ہونے والےحملوں کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے آئے ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے شام میں زہریلی گیسوں اور کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے 12ماہ کی ڈیڈلائن دی تھی جو اگلے ہفتے ختم ہونے جا رہی ہے تاہم اب تک ذمہ داران کا پتا نہیں چلایا جا سکا۔

  • شام میں بیرل بم حملوں میں 80 افراد ہلاک

    شام میں بیرل بم حملوں میں 80 افراد ہلاک

    حلب: شام میں سیکیورٹی فورسز کے باغیوں کے خلاف بیرل بم حملوں میں اسی افراد ہلاک ہوگئے،شام میں جاری تنازعے پر روس اور امریکا میں مزاکرات کا آغاز ہوگیا۔

    شام کے شہر حلب اور پالمیرا میں سیکیورٹی فورسز کے باغیوں کے خلاف حملوں میں دو روز کے دوران باغیوں اور عام شہریوں سمیت اسی افراد ہلاک ہوگئے،حملوں میں ممنوعہ بیرل بموں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

    دوسری جانب شام کے مسئلے پر روس اور امریکا میں مزاکرات کا آغاز ہوا ہے جس میں آپسی ٹکراؤ سے بچاؤ کے لیے بات چیت کی گئی ۔

    امریکہ نےروس کی شام میں عسکری سرگرمیوں میں اضافے پر خدشات کا اظہارکیاہے جبکہ روس کا کہناہے کہ عسکری سرگرمیوں میں اضافہ داعش کے پیش نظرکیا گیا ہے۔