Tag: Syria

شام سے متعلق تازہ ترین خبریں اور معلومات جاننے کے لئے اس ویب پیج پر آئیں

شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے سے پہلے اور بعد کی خبروں کے لئے اس پیج پر آئیں

Syria News In Urdu

  • فلسطین کے سرحدی علاقے میں جھڑپیں، اسرائیل اور شام آمنے سامنے

    فلسطین کے سرحدی علاقے میں جھڑپیں، اسرائیل اور شام آمنے سامنے

    دمشق: اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ ایرانی فورسز نے شام میں اس کی فوج پر راکٹ حملے کیے، جو اسرائیلی فوج پر براہ راست حملہ ہے، شام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے لبنانی حدود سے گزر کر ہم پر حملہ کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رات گئے جنگی طیاروں اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اس کی پوزیشن پر 20 راکٹ داغے۔

    شام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے قنطیرہ شہر کے قریب گولن کی پہاڑیوں کے مشرقی حصے میں اپنے ہدف کو نشانہ بنایا تھا جس کا شامی ایئر ڈیفنس نے جواب دیا۔

    اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چار راکٹوں کو دفاعی نظام کے ذریعے فضا میں ہی روک دیا گیا جبکہ دیگر اپنے ہدف کے قریب گرے تھے جس میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔

    روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے لبنانی فضائی حدود سے گزر کر شام کے متعدد علاقوں کو نشانہ بنایا جبکہ شامی ایئر ڈیفنس سسٹم سے اسرائیلی میزائلوں کو نشانہ بنایا گیا، تاہم لڑائی میں پہل کس نے کی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

    جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق شام میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم تیس جنگجو مارے گئے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں پانچ شامی فوجیوں کے علاوہ صدر اسد کی حمایت میں لڑنے والے اٹھارہ دیگر جنگجو بھی شامل ہیں، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

    واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ بیان دیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایران کی افواج کی شام میں موجودگی برداشت نہیں کرے گا اور اس سے قبل بھی اسرائیلی حملوں سے شام میں ایرانی شہریوں کی ہلاکت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے تاہم اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس نے ہتھیاروں کی فراہمی کو نشانہ بنایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسرائیلی وزیر نے شامی صدر بشار الاسد کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی

    اسرائیلی وزیر نے شامی صدر بشار الاسد کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی

    تل ابیب: اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ کے وزیر نے کہا ہے کہ اگر شام نے اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے ایران کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تو اسرائیل شامی صدر کو قتل کرسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیر برائے توانائی یووال اسٹائنٹز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ابھی تک شام کی خانہ جنگی میں ملوث نہیں ہوا ہے لیکن ایرانی سرگرمیوں پر ہمیں تشویش ہے۔

    انھوں نے بالکل واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اسرائیل پر حملہ ہوتا ہے تو اسد کو جان لینا چاہیے کہ یہ ان کا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔‘‘

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسد اپنی سرزمین امریکا کے خلاف حملوں کے لیے ایران کو استعمال کرنے دے گا تو اس صورت میں بھی اسے شام کا حکمران نہیں رہنے دیا جائے گا۔

    میڈیا کی طرف سے جب اسرائیلی وزیر سے بشارالاسد کے قتل کے الفاظ کے سلسلے میں وضاحت دریافت کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ہاں اسد کو اپنے خون سے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ یہ کوئی تجویز نہیں بلکہ ذاتی رائے ہے۔

    ایران شام کو جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

    واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر کا یہ بیان ان مبینہ رپورٹس کے بعد آیا جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام خود کو ایران یا اس کے پراکسیز کی طرف سے میزائل حملوں کے لیے تیار کررہے ہیں۔ ایران نے شام میں اپنی فوجی تنصیبات پر حالیہ فضائی حملوں کا انتقام لینے کا عزم کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اس کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔

    تاہم اسرائیل نے ان حملوں کی تصدیق کی نہ ہی تردید، یہ ضرور کہا کہ ان حملوں سے شام میں ایران کی مورچہ بندی رک جائے گی۔ واضح رہے کہ اسرائیلی میڈیا نے ملکی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے یہ خبریں نشر کی تھیں کہ ایران شام کی حدود سے اسرائیلی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایران شام کو جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

    ایران شام کو جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

    بیت المقدس: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران شام کو جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے جو اسرائیل کے لیے خطرہ ہے، ایران کا مقابلہ بعد میں کرنے کے بجائے جلد کرلیا جائے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، نیتن یاہو نے کہا کہ ہم ایرانی جارحیت کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں خواہ اس کے لیے کسی بھی تنازع میں داخل ہونا پڑے۔

    اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ایران پر چڑھائی نہیں چاہتے مگر کسی بھی منظر نامے کے لیے تیار ہیں، اسرائیل پڑوسی ملک شام میں ایران کے مستقل عسکری وجود کو کسی طور درگزر نہیں کرے گا۔

    نیتن یاہو کے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات پر غور کررہے ہیں کہ ان کا ملک 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجائے یا نہیں۔

    یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے سخت مخالفوں میں سے تھے، جس کی رو سے ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں اُٹھانے کے عوض تہران کی یورینیم افزودگی پر روک لگانا لازم قرار دیا گیا۔

    گزشتہ ہفتے نیتن یاہو نے انکشاف کیا تھا کہ ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق اسرائیلی انٹیلی جنس کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کے حوالے سے اپنی سابقہ کوششوں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم اس پر کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، ایران کا اعتبار کرنا ممکن نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکی فوج شام سے کبھی نہیں جائے گی، سربراہ فرانسیسی فوج

    امریکی فوج شام سے کبھی نہیں جائے گی، سربراہ فرانسیسی فوج

    پیرس: فرانسیسی فوج کے سربراہ فرانسوا لیوکوانٹا نے کہا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ امریکی فوج داعش کا خاتمہ کرنے سے پہلے شام سے واپس جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سربراہ فرانسیسی فوج نے کہا کہ داعش کو شکست دینا میری اولین ترجیح ہے، اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ امریکیوں کے ساتھ ہمارا شام میں رہنا ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ داعش کو شکست دئیے بغیر امریکی ملک چھوڑیں گے، اپنے ملک کی اسپیشل ٹاسک فورس کو شام میں تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    سربراہ فرانسیسی فوج کا کہنا تھا کہ ہم اسپیشل ٹاسک فورس سمیت داعش کے خاتمے کے لیے ہر طریقہ بروئے کار لائیں گے، فرانس عمومی طور پر میدان جنگ میں اپنی ایلیٹ فورس کے استعمال سے متعلق تفصیلات ظاہر نہیں کرتا۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا

    فرانسیسی فوجی قیادت کی جانب سے پیش کردہ اندازوں کے مطابق داعش کے دو ہزار جنگجوں تنظیم کے آخری گڑھ میں مورچہ زن ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے انکشاف کیا تھا کہ پیرس نے شام میں اپنی اسپیشل ٹاسک فورس کی کمک بھیجی ہے۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ شام سے اپنی فوج کی واپسی کے اعلانات کرچکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ فوج کا کام داعش کو شکست دینا تھا جو ہماری فوج نے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے کا معائنہ

    شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے کا معائنہ

    دمشق: کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے (او پی سی ڈبلیو) کی جانب سے شامی شہر دوما میں کیمیائی ہتھیار کے استعمال سے متعلق چھان بین کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں واقع شہر دوما میں روس کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اسی واقعے کے حوالے سے ’او پی سی ڈبلیو‘ نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور نمونے اکھٹے کیے۔

    روس کا عالمی ماہرین کودوما میں جانےکی اجازت دینے کا اعلان

    عالمی میڈیا کے مطابق شامی شہر دوما میں مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیقات کی خاطر یہ معائنہ کار وہاں پہنچے، اور اس چھان بین کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ سات اپریل کو ہونے والے حملے میں آیا کسی ممنوعہ کیمیکل مواد کا استعمال کیا گیا تھا یا یہ محض جھوٹے دعوے ہیں۔

    دوسری جانب ترجمان او پی سی ڈبلیو کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ سے نمونے اکھٹے کر لیے ہیں، تاہم اس حوالے سے  لیبارٹری میں معائنہ کیا جارہا ہے، تین سے چار ہفتوں میں رپورٹ مرتب کر لی جائے گئ جس کے بعد واضح ہوگا کہ آیا کیمیائی ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہے یا نہیں۔

    غیر ملکی ایجنٹس نے شام میں کیمیائی حملے کا ڈرامہ رچایا: روسی وزیر خارجہ

    خیال رہے کہ رواں ماہ 7 اپریل کو شام کے علاقے دوما میں کیمائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت درجنوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے بعد ازاں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے حملے کا الزام براہ راست روس پر عائد کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • "شاید شام بطور ریاست قائم نہ رہے”: روس نے اندیشہ ظاہر کردیا

    "شاید شام بطور ریاست قائم نہ رہے”: روس نے اندیشہ ظاہر کردیا

    ماسکو: روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریبکوف نے کہا ہے کہ شام کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، اور ہم یہ نہیں جانتے کہ شام بطور ریاست قائم رہے گا یا نہیں، خطے کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے روس کے خبر رساں ایجنسی کا انٹریو دیتے ہوئے کیا، نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کی سرزمین کی وحدت برقرار رہنے سے متعلق کیا پیش رفت سامنے آئی اس کا علم نہیں، شام کی صورت حال کا بھرپور جائزہ لے رہے ہیں۔

    سرگئی ریبکوف کا شام کی کشیدہ صورت حال اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے روسی صدر کی ملاقات سے متعلق کہنا تھا امریکا کی جانب سے روسی صدر ولادی میرپیوٹن کو دورے کی دعوت دی گئی ہے، شام کی صورت حال پر موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

    امریکی میزائل گرانےکےروسی دعوے میں کوئی حقیقت نہیں‘ ڈانا وائٹ

    خیال رہے کہ شام کے سلسلے میں امریکا اور روس کے مابین کشمکش کے حوالے سے عالمی تجزیہ نگار اس بات کی نشان دہی کرچکے ہیں کہ امریکا اور اتحادیوں کے حملوں میں احتیاط سے کام لیا جاتا ہے تا کہ روسی فوج کا جانی نقصان نہ ہو۔

    روسی صدر، ٹرمپ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس جائیں گے

    یاد رہے کہ گذشتہ روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا جائیں گے، انہوں نے اس دورے سے متعلق تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے صدور نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی تصادم کے مرحلے کی طرف نہ جانے پر سو فی صد اتفاق کرلیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

    دمشق : شامی حکومت نے فرانس کی جانب سے صدر بشار الااسد کو دیا گیا اعلیٰ ترین ایوارڈ لوٹاتے ہوئے کہا ہے کہ’بشارالااسد کے لیے امریکا کے غلام اور حامی ممالک کے ایوارڈ سجانا اعزاز کی بات نہیں‘.

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام نے صدر بشار الااسد کو فرانس کی جانب سے دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ فرانس کو واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسے کسی ملک کا تحفہ یا انعام نہیں رکھوں گا جو امریکا کا غلام ہو‘۔

    شام نے ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب کچھ روز قبل فرانسیسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ بشار الاسد سے ایوارڈ واپس لینے کے لیے ’انضباطی کارروائی‘ جاری ہے۔

    شامی صدر بشار الاسد نے شام میں موجود رومانیہ کے سفارت خانے کے ذریعے ایوارڈ فرانس کو واپس کیا ہے۔

    شام کے صدر بشار الاسد کو فرانس کا اعلیٰ ترین ایواڈ سنہ 2001 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار سنبھالنے پر سابق فرانسیسی صدر جیکس شراک کی جانب سے دیا گیا تھا۔

    شام کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’شامی وزارت خارجہ نے فرانس کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کو دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ جمہوریہ فرانس کو واپس کردیا ہے‘۔


    فرانس کا شامی صدر کو بڑے سِول اعزاز سے محروم کرنے کا فیصلہ


    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ شامی صدر کے لیے امریکا کے غلام ممالک اور حامیوں کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی ایوارڈ سجاکر رکھنا اعزاز کی بات نہیں ہے، کیوں کہ امریکا پوری دنیا میں دہشت گردی کا معاونت کار اور موجد ہے‘۔

    واضح رہے کہ فرانس کی جانب سے ہر سال فرانس کے لیے خدمات انجام دینے والے، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور آزادی صحافت کے لیے کوششیں کرنے والے 3000 افراد کو اعلیٰ ترین ایوارڈ لیجئین ڈی اونر دیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں فرانس نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر دوما میں مبینہ کیمیائی بم حملوں کے رد عمل میں شام کی تنصیبات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • امریکی میزائل گرانےکےروسی دعوے میں کوئی حقیقت نہیں‘ ڈانا وائٹ

    امریکی میزائل گرانےکےروسی دعوے میں کوئی حقیقت نہیں‘ ڈانا وائٹ

    واشنگٹن : ترجمان پینٹاگون ڈانا وائٹ کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کومعلوم ہونا چاہے دنیا کیمیائی ہتھیاروں کو برداشت نہیں کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پینٹاگون ڈانا وائٹ نے کہا کہ شام کے حوالے سے امریکہ، اتحادی ممالک اب بھی الرٹ ہیں، کوئی عندیہ نہیں کہ بشارالاسد مزید کیمیائی حملے کرنے والے ہیں۔

    ترجمان پینٹاگون کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کو معلوم ہونا چاہے دنیا کیمیائی ہتھیاروں کو برداشت نہیں کرے گی۔

    ڈانا وائٹ کا کہنا تھا کہ روس شام پر میزائل حملوں کے بعد منفی مہم چلا رہا ہے، امریکی، اتحادی میزائل شام میں ٹھیک نشانے پرلگے تھے، امریکی میزائل گرانے کے روسی دعوے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

    امریکہ اوراس کےاتحادیوں کوشام پرحملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے‘ روسی سفیر

    خیال رہے کہ 14 اپریل کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام پرکیے گئے فضائی حملے پر روس نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائی کا حساب دینا ہوگا۔

    بعدازاں 15 اپریل کو نیٹو کے جنرل سیکریٹری جینزاسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ جب تک شام کی موجودہ قیادت ہے حملے رکنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

    امریکہ شام پردوبارہ حملے کے لیے تیار ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ

    یاد رہے کہ رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بشارالاسد کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شام نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو امریکہ اس پردوبارہ حملے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

    امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام پرحملہ کردیا

    واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون کے ساتھ شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام کے اندر خوں آشام ’مغربی تکون‘ کے حملے نئے نہیں!

    شام کے اندر خوں آشام ’مغربی تکون‘ کے حملے نئے نہیں!

    سات سال ہوچکے ہیں‌، اس بات کو کہ شامیوں‌ کی زندگی ایک خوں آشام درندے کے پنجوں میں‌ پھڑ پھڑا رہی ہے۔ یہ بات کہنے کو بہت آسان ہے لیکن بھیانک سچ ہے کہ شام کے اندر انسانی زندگی کی ارزانی اس قدر بڑھ چکی ہے جس قدر کوئی شخص آسانی سے سانس لیتا ہے۔ 2011 سے شام کی زمین پر موت مسلسل گر رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مطابق شام پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک چار لاکھ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ شام کی ایک آزاد ریسرچ تنظیم کے مطابق 2016 میں یہ تعداد پانچ لاکھ ہوچکی تھی۔

    عالمی میڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی چل رہی ہے۔ یہ یورپی میڈیا کا بدترین دھوکا ہے جس نے دنیا کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف روس اور بشار الاسد حکومت مل کر رہائشی علاقوں پر بمباری کررہے ہیں، دوسری طرف مقامی داعش لوگوں کو آرٹلری سے نشانہ بنارہی ہے، اغوا کر رہی ہے، اور تیسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جو فضائی حملے کرکے ہزاروں شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ یہ بدقسمت شامیوں پر ایک مسلط کردہ تباہی ہے جس نے ایک عظیم انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک اس تباہ کن جنگ میں 61 لاکھ شامی بے گھر پھر رہے ہیں اور 48 لاکھ دوسروں ممالک کی طرف ہجرت کرکے پناہ حاصل کرنے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ جن علاقوں کا محاصرہ کیا گیا ہے ان میں دس لاکھ سے زائد انسان زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ ان سات برسوں میں سوا لاکھ شامی یا تو قید کیے جاچکے ہیں یا لاپتا ہوچکے ہیں۔

    شام کے اس افسوس ناک پس منظر میں روس، امریکا اور اتحادیوں کا کردار بہت نمایاں اور ظلم کی حدوں کو پار کرچکا ہے، بالخصوص امریکا، برطانیہ اور فرانس کا تکون ایک ایسے جھوٹ کے پیچھے چل رہا ہے جس کے بارے میں دنیا بھی جان چکی ہے لیکن وہ خاموش ہے۔ جب برطانیہ کی خاتون وزیر اعظم تھیریسا میری مے نے شام کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے برطانوی افواج کو امریکہ اور فرانس کے ساتھ شامی کیمیائی ہتھیاروں کے اڈوں پر فضائی حملوں میں شامل ہونے کا حکم دیا تھا تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب برطانیہ اس بدقسمت خطے کے لیے اپنی بے رحمانہ پالیسی کا اظہار کر رہا تھا۔

    یہ ایک ایسا عمل تھا جس کے بارے میں وزیر اعظم کو یقین تھا کہ اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تو یہ کوشش ناکام ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انھیں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی طرف سے غضب ناک ردعمل کا سامنا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جب عالمی طاقتیں تزویراتی حوالے سے فیصلے کرتی ہیں تو عارضی طور پر جمہوری اداروں کو ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں۔

    شام کی جنگ اپنی خوفناک صورت میں جاری رہے گی، برطانوی وزیر خارجہ

    سوال یہ ہے کہ بد قسمت ملک شام میں اس مغربی تکون کے تباہ کن حملوں کا مقصد کیا تھا؟ کیا انھیں امید تھی کہ بشارالاسد اپنا رویہ تبدیل کردے گا؟ یقیناً ایسا کچھ نہیں تھا۔ مغرب کے سر پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جو خوف جنون بن کر سوار ہے وہ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار نہیں بلکہ بیرل بم اور گولیاں لوگوں کی اموات اور معذوریوں کا سبب بن رہی ہیں۔

    مغربی تکون کے حالیہ حملوں کے بارے میں اگر یہ سوال کیا جائے کہ ان سے شام کی صورت حال میں کیا تبدیلی آئے گی تو جواب صرف ایک ہی ہوگا، یعنی کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ شاطر امریکا کی حکمت عملی رہی ہے کہ الفاظ اور عمل کے درمیان واضح امتیاز کو گڈ مڈ کرکے سازشی تھیوریوں کو سر ابھارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ گزشتہ ایک برس میں بشار حکومت نے مبینہ طور پر کئی کلورین گیس حملے کیے ہیں لیکن امریکا نے ان پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پینٹاگان نے ہمیشہ بہت احتیاط سے کام لیا ہے کہ شام میں روسیوں کا کوئی جانی نقصان نہ ہو، لیکن اسے شامی باشندوں کی بے پناہ اموات پر کوئی فکر نہیں ہے۔

    امریکا کے پاس حملوں کے لیے بے شمار اہداف ہیں لیکن وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بناکر خاص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی دیکھیں کہ امریکا اور روس کی طرف سے زبردست پروپیگنڈا جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ روس کہتا ہے کہ کیمیائی حملے امریکی ایجنٹ کرتے ہیں اور امریکا الزام لگاتا ہے کہ سابقہ روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو روس نے برطانوی سرزمین پر مارا اور اس نے حالیہ امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ بریگزٹ سے لے کر یوکرین تک روس کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست ہے۔

    آج شام پر حملے کے لیے برطانیہ اور فرانس ایک ایسے امریکی صدر کی پکار پر ان کی طرف دوڑ کر گئے ہیں جو عورتوں کے حوالے سے بدنام ہے، ماضی میں بھی یہ ایک ایسے ہی امریکی صدر کی آواز پر اتحادی بنے تھے جب عراق میں صدر صدام حسین کو تخت سے اتارنا تھا۔ یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے۔ امریکا بین الاقوامی سلامتی کی دہائی دیتا ہے اور مفروضہ خطرات سے ڈراتا ہے، اور پھر کہتا ہے کہ ان خطرات سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ یورپی حکومتیں اپنی پارلیمنٹس کو یا تو بائی پاس کرکے یا دھوکا دے کر امریکا کے ساتھ اتحاد کرلیتی ہیں۔ تباہی و بربادی کے بہت سارے برس گزر گئے اور اس مخصوص خطے میں انسانی جانیں ارزاں ہی نظر آرہی ہیں۔

  • نائن الیون حملوں میں ملوث جرمن نژاد دہشت گرد گرفتار

    نائن الیون حملوں میں ملوث جرمن نژاد دہشت گرد گرفتار

    دمشق : امریکی شہر نیویارک میں سنہ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث شامی نژاد جرمن عسکریت پسند کو شمالی شام سے گرفتار کرلیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ میں واقع ملک شام کے شمالی حصّے سے کرد فورسز نے ایک شامی نژاد جرمن شہری کو گرفتار کیا ہے جو سنہ 2001 میں امریکا کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملوں میں ملوث ہے۔

    کرد فورسز کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ جرمنے سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ عسکریت پسند کی شناخت محمد حیدر زمّار کے نام سے ہوئی ہے، گرفتار شدت پسند سے تفتیش جاری ہے۔

    کرد فورسز کے کمانڈر نے میڈیا کو بتایا کہ حیدر زمّار القائدہ کا رکن ہے جس نے سنہ 2001 میں امریکا میں دہشت گردی میں استعمال ہونے والے مسافر بردار طیاروں کو ہائی جیک کرنے والے دہشت گردوں کو بھرتی کیا تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق حیدر امّار امریکا میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد مراکش میں روپوش ہوگیا تھا، جسے بعد میں امریکی سی آئی اے نے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کرنے کے دو ہفتوں بعد ہی شامی حکام کو سونپ دیا گیا تھا۔

    جسے بعد میں شام کی اعلیٰ عدلیہ نے سنہ 2007 میں حیدر زمّار کو مصر کی اخوان المسلمون کا رکن ہونے کے جرم میں 12 برس قید کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کردیا تھا۔

    شامی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے 4 سال بعد ہی شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی، جس کے بعد جیل میں موجود متعدد شدت پسند قید سے فرار ہوگئے تھے یا انہیں رہا کردیا گیا۔

    جیل سے رہا ہونے والے بیشتر قیدیوں نے رہائی کے بعد شامی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے والے گروہ دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

    کرد فورسز کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ حیدر زمّار قید سے فرار ہونے کے بعد شام کی شدت پسند تنظیم کے باقاعدہ رکن کی حیثیت سے حکومت کے خلاف مسلح کرروائیاں کرتا رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔