Tag: #syriastrikes

  • شام پر حملہ‘ برطانوی وزیراعظم سے اراکین پارلیمنٹ کے سوالات

    شام پر حملہ‘ برطانوی وزیراعظم سے اراکین پارلیمنٹ کے سوالات

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو شام پر فضائی حملہ کرنا مہنگا پڑگیا، برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے امریکا اور فرانس کے ساتھ مشترکہ فوجی کارروائی کے فیصلے پر تھریسا مے سے سوالات کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف کی گئی کارروائی پر برطانوی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے کو امریکا اور فرانس کے شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے تین ٹھکانوں پر بمباری کرنے سے پہلے ارکان پارلیمنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔

    برطانیہ کی لیبر پارٹی نےمستقبل میں ایسے کسی بھی واقعے پر ردعمل دینے کے حوالے قانون میں تبدیلی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    اپوزیشن جماعتوں کے سوالات پر تھریسا مے نے پیر کے روز ایک بیان جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’برطانوی وزیر اعظم کو قانونی طور کہیں بھی فوجی کارروائی سے پہلے پارلیمنٹ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگرچہ سن 2003 میں عراق پر حملے کے بعد سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے‘۔

    برطانوی وزیر اعظم نے شام کے مسئلے پر اسپیکر سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے تاکہ اس میں شامی مسئلے پر بحث مباحثہ کیا جاسکے۔

    برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے جنگ کے حوالے سے نئی پاور ایکٹ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے ’برطانوی حکومت ملک اور ہمارے نام پر جو کچھ کر رہی اس کے لیے وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے‘۔

    جیریمی کوربن نے مزید کہا ہے کہ ’برطانوی حکومت کو بہت ہوشیاری سے لچک دیکھاتے ہوئے کام کرنا ہوگا، تاکہ اپنے فوجیوں اور خواتین کی جانوں کی بھی حفاظت کرسکے‘۔

    دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ پریشان نہ ہوں وزیر اعظم سے سوالات کرنے کے لیے ’آپ کے پاس بہت وقت ہوگا‘۔

    خیال رہے کہ ڈوما میں کیمیائی بم حملوں کے جواب میں مغربی ممالک نے شام کے شہروں دمشق اور حمص پرجمعے اور ہفتے کی درمیانی شب فضائی کارروائی کی گئی تھی۔


    برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو،جیریمی کوربن


    یاد رہے کہ گذشتہ روز لیبر پارٹی کے سربراہ اور برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نےتھریسا مے کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر کھلا خط بھیجا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا ’وزیراعظم تھریسا مے کو ارکان پارلیمان نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ امریکی صدر کے سامنے نہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا اپنی فوجیں طویل مدت کے لیے شام میں رہنے دے، ایمانوئیل میکرون

    امریکا اپنی فوجیں طویل مدت کے لیے شام میں رہنے دے، ایمانوئیل میکرون

    پیرس : فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو راضی کرلیا ہے کہ وہ اپنی افواج کو طویل مدت کے لیے شام میں رہنے دیں اور میزائل حملوں کی تعداد کو محدود رکھیں۔

    تفصیلات کے مطابق شامی شہر دوما پر مبینہ کیمیائی حملوں کے جواب میں امریکا، فرانس، اور برطانیہ کے جانب سے شام کے متعدد شہروں میں ہفتے کے روز ٹوماہاک اسارٹ میزائیلوں سے حملہ کیا گیا تھا۔

    فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے امریکی صدر ٹرمپ کو راضی کیا ہے کہ امریکی افواج کو شام سے واپس بلانے کے بجائے طویل مدت کے لیے تعینات کریں۔

    خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ’بہت جلد امریکا شام سے اپنی فوجیں واپس بلالے گا‘۔

    یاد رہے کہ ہفتے کے روز امریکا اور اتحادیوں فرانس اور برطانیہ نے دوما پر کیمیل اٹیک کے جواب میں مشترکہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے شامی رجیم کے متعدد کیمیائی ہتھیاروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

    ایمانوئیل میکرون نے فرانسیسی نشریاتی ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نے امریکی صدر پر زور دیا ہے کہ شام پر حملوں کی تعداد کم رکھیں‘۔

    امریکا اور فرانس کے درمیان پہلے سے دوستانہ تعلقات ہیں اور شام پر مشترکہ حملے سے پہلے بھی دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔

    فرانسیسی صدر کی جانب سے دیئے گئے بیان پر وائٹ ہاوس کی ترجمان سارا سینڈر کا کہنا تھا کہ ’امریکا کا مقصد ابھی تبدیل نہیں ہوا ہے، صدر ٹرمپ نے واضح طور پرکہہ دیا ہے کہ امریکی افواج جتنی جلدی ممکن ہو واپس بلائی جائے گی‘۔

    وائٹ ہاوس کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکا دولت اسلامیہ کو کچلنے اور واپس آنے سے روکنے کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی افواج کے 2000 سے زائد فوجی مشرقی شام میں کردش اور عرب جنگوؤں (سیرین جمہوری فورس) کے اتحاد کی معاونت کرنے کے لیے موجود ہیں۔

    ایمانوئیل میکرون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے معاملے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا خواہش مند ہوں تاکہ ’شام کے مسئلے پر فوجی کارروائی کے علاوہ کوئی حل نکالا جاسکے، اسی سلسلے میں اگلے ماہ روس کے دورے پر جاؤں گا‘۔

    کیمیل ہتھیاروں کے استعمال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سیاسی تنظیم ’او پی سی ڈبلیو‘ کیمیائی حملوں کی تحقیقات کے سلسلے میں شام موجود ہے اور چند روز میں تفتیش کے لیے متاثرہ شہردوما کا دورہ بھی کرے گی۔

    روسی حکام نے بیان جاری کیا ہے کہ ’جب شامی شہردوما میں ابھی تک کسی قسم کے کیمیائی حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حملے کس نے کیے، تو پھر امریکا اور اتحادیوں نے شام کے خلاف فوجی کارروائی کیوں کی‘۔

    روسی حکام کا مؤقف ہے کہ دوما میں کوئی کیمیائی حملے نہیں ہوئے بلکہ برطانیہ نے کیمیائی حملوں کا ڈراما رچایا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام پر حملے کے تینوں اتحادیوں نے پیش کردہ نئے مسودے میں کہا ہے کہ ’تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار‘ تیس روز کے اندر کیمیائی حملوں سے متعلق اپنی رپورٹ سلامتی کونسل میں جمع کروائے۔


    شام نےدوبارہ کیمیائی حملہ کیا، توامریکا پھرمیزائل داغےگا‘ڈونلڈ ٹرمپ


    واضح رہے کہ شام اور اتحادیوں کی جانب سے دوما پرمبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں امریکا نے برطانیہ اور فرانس کے اشتراک کے ساتھ شام کی کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے روس کی شام سے متعلق قرارداد مسترد کردی ہے، یہ ہنگامی اجلاس شام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے بعد روس کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام: امریکی کارروائی امن پر حملہ ہے، روس

    شام: امریکی کارروائی امن پر حملہ ہے، روس

    ماسکو: روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام پر امریکی کارروائی عالمی امن پر حملہ ہے اس سے روس اور امریکا کے تعلقات کو مزید نقصان پہنچے گا۔

    روس کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شام پر امریکی حملہ غیر ذمہ دارانہ ہے، امریکا پہلے بھی غیر ذمہ دارانہ کارروائیاں کر کے حالات کشیدہ کرچکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شام میں امریکی مداخلت کے باعث موجودہ بحران سنگین ہوسکتا ہے کیونکہ یہ حملہ شام کی خودمختار قوم کے خلاف جارحیت ہے۔ روس نے شام کی سنگین صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

    پڑھیں: ’’ بشارالاسد کا ہر صورت ساتھ دیں گے، آپریشن جاری رہے گا، روس ‘‘

    یاد رہے تین روز قبل شام میں کیمیائی میزائل کا حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 72 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ امریکا، فرانس اور برطانیہ نے حملے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: شام میں کیمیائی حملہ انسانیت کی توہین ہے،صدرٹرمپ 

    کیمیائی حملے کے بعد اقوام متحدہ کے اجلاس میں امریکا کی نمائندگی کرنے والی خاتون نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیمیائی حملے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہیں اگر انہیں نہ روکا گیا تو امریکا خود اقدامات کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ روز شام میں حملے کا عندیہ دے دیا تھا اور رات گئے وہاں پر کروز میزائل سے حملہ بھی کیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: ’’ شام پر امریکی حملہ دلیرانہ فیصلہ ہے: سعودی عرب ‘‘

    دوسری جانب سعودی عرب نے شام پر امریکی حملے کو دلیرانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔