Tag: T2F

  • سبین محمود کو ہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    سبین محمود کو ہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    کراچی: معروف سماجی رہنما اور ٹی ٹو ایف کی ڈائریکٹر سبین کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے، انہیں 24 اپریل 2015 کو شہر قائد میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق فلاحی ادارے دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) کی ڈائریکٹر سبین محمود اپنی والدہ کے ہمراہ رات 9 بجے ڈیفنس فیز 2 میں واقع اپنے دفتر سے گھر کے لیے نکلیں تو انہیں راستے گھات لگائے نامعلوم افراد نے  باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ قتل کیا۔

    سبین محمود کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ گئیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ کے چار گولیاں لگیں جن میں سے سینے میں دو ، گردن اور چہرے پر ایک ایک گولی لگی جو انہیں بہت قریب سے ماری گئیں تھیں۔

    مزید پڑھیں: سبین محمود کے ’ٹی ٹو ایف‘ کے لیے ایک اور اعزاز

    ڈاکٹرز کے مطابق سماجی رہنما کے گردن میں لگنے والی گولی بدقسمت ثابت ہوئی اور وہی اُن کی موت کا سبب بھی بنی، سبین محمود کے قتل کا مقدمہ2 نامعلوم ملزمان کے خلاف والدہ منہاس کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، مقدمہ نمبر214/15قتل اقدام قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

    سبین محمود قتل کیس میں اہم پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب سانحہ صفورا میں ملوث آئی بی اے میں زیر تعلیم طالب علم سعد عزیز نے تفتیش کے دوران سبین محمود کے قتل کا اعتراف کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: کراچی: فوجی عدالت سے سزا پانے والے دہشتگردوں کا سندھ ہائی کورٹ سے رجوع

    سعد عزیز نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے نہ صرف سانحہ صفورا کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا بلکہ اس سے قبل سبین محمود کو بھی قتل کیا تھا اور  قتل کرنے سے قبل سماجی رہنما کی مکمل ریکی بھی کی جس کے لیے ٹی ٹو ایف کے مختلف پروگراموں میں خود شرکت کی۔

    حکومتی منظوری کے بعد سنگین جرائم میں ملوث افراد کا مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجا گیا جہاں عدالت نے سعد عزیز کو پھانسی کی سزا سنائی، آرمی چیف آف پاکستان سبین محمود کے قتل میں ملوث نوجوان کی سزائے موت کی توثیق بھی کی تاہم ملزمان نے ملٹری کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چلینج کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ سبین محمود بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے بلوچ رہنما ماما قدیرکے ہمراہ متحرک تھیں اور قتل سے قبل ان کے ادارے میں اسی حوالے سے ایک سیمینار کا بھی انعقاد ہوا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کراچی: سماجی کارکن سبین محمود کے ڈرائیور کو قتل کردیا

    کراچی: سماجی کارکن سبین محمود کے ڈرائیور کو قتل کردیا

    کراچی:  مقتول سماجی کارکن سبین محمود کے ڈرائیور غلام عباس کو قتل کردیا، سبین محمود کے ڈرائیور انکے قتل کے واقعے کے چشم دید گواہ بھی تھے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی میں مقتول سماجی کارکن سبین محمود کے ڈرائیور غلام عباس کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، پولیس کے مطابق غلام عباس نماز پڑھ کر گھر واپس آرہے تھے کہ راستے میں موٹر سائیکل سوار حملہ آروں نے اُن پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں انہیں نائن ایم ایم پستول کی دو گولیاں لگیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول غلام عباس سبین محمود قتل کیس کا عینی شاہد تھا، جو پولیس کانسٹیبل اور اینٹی کرپشن میں تعینات تھا۔

    پولیس حکام کے مطابق عینی شاہدین اورواقعاتی شہادتوں کی مدد سے ملزمان تک پہنچنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، جائے وقوع سے نائن ایم ایم کے دو خول ملے ہیں، جنہیں فرانزک لیب بھجوادیا گیا ہے، عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ سبین محمود کے ڈرائیور غلام عباس کوقتل کرنےوالا شخص تنہا تھا، جس نے غلام عباس کو گھر سے باہر بلاکر فائرنگ کی۔

    یاد رہے کہ اپریل 2015 میں سبین محمود کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا، جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ بلوچستان میں گمشدہ افراد سے متعلق ایک سیمنار میں شرکت کے بعد گھر جا رہی تھیں، فائرنگ میں ان کی والدہ زخمی ہوئی تھیں۔

    سبین محمود کے قتل کہ ایک ماہ کے بعد پولیس نے اسماعیلی برداری کی بس پر حملے کے الزام میں ملزمان طاہر حسین منہاس عرف سائیں عرف نذیر عرف زاہد، سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جون، محمد اظہر عشرت عرف ماجد اور حافظ ناصر حسین عرف یاسر کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    گرفتار ملزمان نے سانحہ صفورا اور سبین محمود کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

     راجہ عمر خطاب نے کہا کہ غلام عباس سبین پر حملے کے وقت گاڑی کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ سبین خود گاڑی چلا رہی تھیں۔