Tag: Taliban regime

  • ہیومن رائٹس واچ نے افغان سرزمین پر ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے مظالم پر رپورٹ شائع کر دی

    ہیومن رائٹس واچ نے افغان سرزمین پر ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے مظالم پر رپورٹ شائع کر دی

    ہیومن رائٹس واچ نے افغان سرزمین پر ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والے مظالم پر رپورٹ شائع کر دی ہے۔

    دنیا بھر میں اسلامی ریاست خراسان کی دہشت گردی اس وقت نمایاں ہوئی جب ماسکو کے کروکس سٹی ہال پر یہ گروہ حملہ آور ہوا، جس میں کم از کم 143 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

    گزشتہ ماہ اسلامی ریاست خراسان کے مسلح رکن نے صوبہ ہرات میں ایک شیعہ ہزارہ مسجد میں نمازیوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے، 20 اپریل کو ہزارہ برادری کی بس میں بم نصب کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور دس زخمی ہو گئے۔

    رواں سال 6 جنوری کو کابل کے ہزارہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں بس حملے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے، اسلامی ریاست خراسان نے دشت برچی کے علاقے میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی ’’کافروں‘‘ کے خلاف مہم کا حصہ ہے جہاں بھی پاوٴ انہیں مار ڈالو۔

    2015 اور 2021 کے وسط میں اسلامی ریاست خراسان کے حملوں میں کابل، جلال آباد اور قندھار میں 2 ہزار سے زائد شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے، 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اسلامی ریاست خراسان کے حملوں میں 700 سے زیادہ افراد جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں، 21 مارچ کو قندھار کے ایک بینک کے باہر گورنمنٹ ملازمین پر خودکش بم حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہوئے۔

    طویل عرصے سے خطرے سے دوچار ہزارہ برادری کو افغان حکومت کی جانب سے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، ہزارہ اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر حملے اور شہریوں پر ٹارگٹڈ حملے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، شہریوں پر جان بوجھ کر حملے جنگی جرائم ہیں جن سے جانی نقصان کے علاوہ طویل مدتی معاشی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

    اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کو چاہیے کہ افغانستان میں ہزارہ برادری اور دیگر اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور تحفظ کو یقین بنائے اور اسلامی ریاست خراسان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کریں۔

  • امریکا کا طالبان رجیم کو تسلیم کرنے سے صاف انکار

    امریکا کا طالبان رجیم کو تسلیم کرنے سے صاف انکار

    امریکا نے طالبان رجیم کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کام اور تعلیم کے حوالے سے اپنے احکامات کو تبدیل نہیں کیا، قیدیوں کی 90 فی صد شرح سیاسی لیڈران پر مشتمل ہے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹ میں طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری اینٹونی بلنکن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اسلامی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، 2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان نے ملک میں انتشار اور بد امنی کی صورت حال برپا کر دی ہے، طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ملک میں دہشت گردی کا ماحول قائم کر دیا ہے۔

    امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپوٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو بھی بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، صحافت افغان سرزمین پر ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے، طالبان کی جانب سے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے فروغ نے افغانستان کا معاشی نظام درہم برہم کر دیا ہے، افغانستان میں عوام غربت، بھوک اور افلاس کے ساتھ بڑے پیمانے پر مہلک بیماریوں کا بھی شکار ہیں، برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی طالبان نے سابق حکومت کے لیڈران کو قید کیا اور ملک پر زبردستی قابض ہو گئے ہیں۔

    امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان کا مظلوم عوام کو حراست میں لینا جاری رکھا ہوا ہے، سابق افغان حکومت سے وابستہ افراد آج جیلوں میں بھرے پڑے ہیں، طالبان افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیتے ہیں اور انھیں قانونی معاونت کے حق سے بھی محروم رکھتے ہیں، طالبان کی جانب سے حراست میں لیے جانے والے تقریباً تمام کیسز غیر منصفانہ طریقے سے عائد کیے گئے ہیں۔

    افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد کئی سابق عہدیداروں نے حراست اور انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے پڑوسی ممالک میں پناہ لی، عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان نے سابق پولیس افسران اور اہلکاروں کو حراست میں لینا جاری رکھا ہوا ہے۔

    امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ طالبان کی توجہ افغانستان کی عوام کی بھلائی پر نہیں بلکہ خطے میں دہشت گردی پھیلانے پر ہے، ماہرین کے مطابق طالبان رجیم عوام کی بہتری کے بجائے ISIS-K اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی پشت پناہی اور خطے میں دہشت گردی پھیلانے میں ملکی وسائل کا استعمال کر رہی ہے، حال ہی میں ماسکو، ایران اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تحقیقات میں ثابت ہوا کہ ان تمام حملوں کے ذمہ دار دہشت گرد افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں، عالمی اداروں کو چاہیے کہ افغانستان میں قیدیوں کے استحصال پر نوٹس لیتے ہوئے موثر عملی اقدامات کریں۔