Tag: Taliban talks

  • افغان جنگ کا حل سیاسی عمل میں ہے: وزیر خارجہ

    افغان جنگ کا حل سیاسی عمل میں ہے: وزیر خارجہ

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغان جنگ کا حل سیاسی عمل میں ہے، پاکستان کی کوشش ہے افغان عمل مذاکرات کو دوبارہ بحال کروائیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان طالبان کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کا 12 رکنی وفد آج دفتر خارجہ تشریف لایا، ان سے آج ایک نشست ہوئی، نشست میں افغان طالبان کی سینئر قیادت موجود تھی۔ ہم نے افغان طالبان کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا اور ان کا مؤقف بھی سنا۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود ہیں ان سے ملاقاتیں ہوں گی، کوشش ہے امریکا اور افغان طالبان مذاکرات دوبارہ بحال ہوں۔ کچھ قوتیں ہیں جو خطے میں امن نہیں چاہتیں۔ طالبان وفد کو سمجھایا مخالفین نے تو رکاوٹیں کھڑی کرنی ہے۔ افغان طالبان سے گفتگو میں کہا ہمیں خطے کا امن دیکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بہتر ماحول میں مذاکرات کے لیے تشدد کے سلسلے کو بند ہونا چاہیئے، بہتر ماحول میں افغان امن عمل کی جلد بحالی ممکن ہوسکے گی۔ معاہدہ ہو جائے تو فریقین کو اس پر عملدر آمد کا موقع ملے گا۔

    بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں کانفرنس سے خطاب کیا، اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان وفد ملا برادر کی سربراہی میں پاکستان آیا، پاکستان کی کوشش ہے افغان عمل مذاکرات کو دوبارہ بحال کروائیں۔

    وزیر خارجہ نے کہا کہ آج افغان طالبان کے ساتھ سوا گھنٹے کی مثبت نشست ہوئی، افغان طالبان سے نشست کے بعد پر امید لوٹا ہوں۔ افغان طالبان نے 40 سال کرب میں گزارے ہیں۔ پاکستان 4 دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کو سینے سے لگایا۔

    انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کا حل سیاسی عمل میں ہے، جب تک معشت ترقی نہیں کرتی روزگار پیدا نہیں ہوتا۔ بے روزگاری کا مقابلہ کرنا تو 7 سے 8 فیصد سالانہ ترقی حاصل کرنا ہوگی۔ الجھانے کی کوشش نہ کی جائے، سلجھانے والے کم ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے دنیا کے سامنے سلجھانے کی بات کی۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں اس خطے میں امن و استحکام ہو، کچھ ہوتا ہے تو اس کے اثرات پاکستان سمیت دنیا پر بھی پڑیں گے۔ آج عالمی میڈیا کا بیانیہ بھی بدل رہا ہے۔ سب کے سب پاکستان کے حق میں بول رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا میں پاکستان کا مضبوط مؤقف رکھا۔

    انہوں نے کہا کہ جب آئی ایم ایف کے محتاج ہوں گے تو دنیا آپ پر توجہ نہیں دے گی، جرمنی ایک بن سکتا ہے تو کشمیر کیوں آزاد نہیں ہوسکتا۔ 18 سے 20 کروڑ مسلمان آج بھی بھارت میں ہیں۔ بھارت اس راستے پر نہ چلے جس پر پھردقت کا سامنا ہو، مودی سرکار کا 5 اگست کا فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی۔

    وزیر خارجہ نے کہا کہ مودی یا کوئی بھارتی وزیر سرینگر میں جلسہ کر کے دکھائے، اگر کشمیری ساتھ دیں تو میں وزارت چھوڑ دوں گا۔ غلام نبی آزاد نے جو بیان کیا بہت بھیانک صورتحال ہے۔ اسلامو فوبیا کے مقابلے کے لیے انگریزی چینل لانے کا فیصلہ کیا ہے، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان مل کر انگریزی چینل لانچ کر رہے ہیں، انگریزی چینل اسلام کی تاریخ اور ہیروز کو اجاگر کرے گا۔

  • دعا ہے کہ مذاکرات کا عمل افغانستان میں امن کے لیے مددگار ثابت ہو: وزیر اعظم

    دعا ہے کہ مذاکرات کا عمل افغانستان میں امن کے لیے مددگار ثابت ہو: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ دعا ہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا عمل افغانستان میں امن کے لیے مددگار ثابت ہو۔ پاکستان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں مدد دی، دعا ہے یہ عمل افغانستان میں امن کے لیے مددگار ثابت ہو۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ دعا ہے کہ افغانستان میں 3 دہائیوں سے جاری مشکلات ختم ہوجائیں، 3 دہائیوں سے بہادر افغان عوام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔

    خیال رہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات گزشتہ روز ہوئے، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات پاکستان کے تعاون سے ہورہے ہیں۔

    امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

    افغانستان میں ترجمان امریکی سفارتخانے نے وائس آف امریکا سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکا پاکستانی حکومت کے تعاون کا خیر مقدم کرتا ہے، امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد تمام فریقین سے ملے ہیں اور مزید ملاقاتیں کریں گے۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو خط ارسال کیا تھا، خط میں امریکی صدر نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے مدد مانگ تھی۔

    بعد ازاں امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان زلمے خلیل زاد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ دورے میں زلمےخلیل زاد نے وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ سے اہم ملاقاتیں کیں تھیں۔

    امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان زلمے خلیل زاد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں افغان مفاہمتی عمل اور طالبان سے مذاکرات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا جبکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم کو نیک خواہشات کا پیغام بھی پہنچایا تھا۔

  • افغان صدر نے طالبان کے ساتھ  امن مذاکرات کے لیے کمیشن تشکیل دے دی

    افغان صدر نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کمیشن تشکیل دے دی

    جنیوا : طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کے لیے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بارہ رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے، مذکورہ کمیشن میں خواتین بھی موجود ہوں گی۔

    اس کمیشن کی تشکیل کا اعلان انہوں نے جینیوا میں افغانستان سے متعلق ہونے والی ایک بین الاقومی کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا، کمیشن کی سربراہی صدارتی چیف آف اسٹاف عبدالسلام رحیمی کریں گے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غنی نے ان بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی جن کی بنیاد پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔

    کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ہی اشرف غنی نے ان بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی جن کی بنیاد پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔

    ان میں افغانستان کے آئین کی پاسداری اور ملک کے اندرونی معاملات سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو دور رکھنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی معاہدہ کا طے پانا اب اگر کا نہیں بلکہ کب کا سوال ہے، یعنی معاہدہ ہونا و لازمی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کب ہوتا ہے۔

  • افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ طالبان سے مذاکرات کرے، خواجہ آصف

    افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ طالبان سے مذاکرات کرے، خواجہ آصف

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کو قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔

    اسلام آباد میں وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں فوجی حل کی سوچ ناکام پالیسی کی عکاسی کرتی ہے، اگر امریکا افغانستان میں مستقل امن قائم کرنا چاہتا ہے تو طالبان سے بات چیت کرے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اہتمام ہو سکتا ہے اگر امریکا عسکریت پسند گروہوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ اپنی ناکام حکمت عملی برقرار رکھے ہوئے ہے، طاقت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنا ناممکن ہے۔

    خواجہ آصف نے کہا کہ چار ملکی گروپ میں پاکستان ، چین، امریکہ اورافغانستان کے علاوہ ایسے ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیئے جو طالبان میں اثر رسوخ رکھتے ہیں۔