Tag: talk about

  • 31 مارچ کے بعد آخری 5 اوور شروع ہونگے، بابر اعوان

    31 مارچ کے بعد آخری 5 اوور شروع ہونگے، بابر اعوان

    وزیراعظم کے مشیر بابر اعوان نے کہا ہے کہ 31 مارچ کے بعد آخری 5 اوور شروع ہونگے اور ہم سرپرائز دیتے رہیں گے ۔

    وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کیخلاف غیر ملکی فنڈڈ قرارداد آئی ہے، بڑے پیمانے پر باہر کا پیسہ استعمال ہورہا ہے، اس بار ڈالر اور پاؤنڈز استعمال ہو رہے ہیں۔ انصاف کا ایوان سپریم کورٹ ہے اس لئے چیف جسٹس کے سامنے خط رکھنے کی تجویز ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ والےجہلم سے پنڈی تک منہ چھپا کر بھاگے، اپوزیشن مل کر بھی ایف نائن پارک کو نہیں بھر سکی لیکن ہم سرپرائز دیتے رہیں گے۔

    بابر اعوان نے مزید کہا کہ 31مارچ کے بعد آخری 5 اوور شروع ہونگے، اراکین اسمبلی اس دن ایوان میں نہیں جائیں گے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن منحرف اراکین کو لالچ دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ نااہلی کچھ عرصے کی ہوگی۔

  • مودی ’فلم ڈائریکٹر‘ کے قدموں میں گر پڑے

    مودی ’فلم ڈائریکٹر‘ کے قدموں میں گر پڑے

    اروند کیجریوال نے متنازع بھارتی فلم پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی فلم ڈائریکٹر کے قدموں میں گرپڑے ہیں۔

    وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے بجٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے متنازع بھارتی فلم دی کشمیر فائلز کو بی جے پی کی جانب سے ٹیکس فری قرار دینے پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ بی جے پی کے لوگ کشمیر فائلز کو ٹیکس فری قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اسے آپ ٹیکس فری کیوں کرارہے ہو وویک اگنی ہوتی کو بول دو یوٹیوب پر ڈال دے گا سب فلم دیکھ لیں گے اور فری ہی فری ہوجائے گی۔

     انہوں نے کہا کہ اگر 8 سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی کسی ملک کے وزیراعظم کو فلم کے ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری کے قدموں میں گرنا پڑے تو اس کا مطلب کہ وزیراعظم فیل ہے اس نے کوئی کام نہیں کیا۔

    کیجریول نے مزید کہا کہ کشمیری پنڈت کے نام پر کوئی فلم بنا کر کروڑوں کما گیا اور بی جے پی کو پوسٹر لگانے کا کام دے دیا ہے،

    اروند کیجریوال نے کہا کہ ایک فلم بنٹی اور ببلی تھی اس میں نعرہ تھا کہ ہمارے مطالبات پورے کرو اور مطالبے کا پتہ ہی نہیں تھا اس کے ساتھ ہی انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ 56 انچ کا سینہ ہوتا ہے لیکن اب تو مان لو کہ 56 انچ کا سینہ نہیں ہے سب جھوٹ ہے۔

  • وزیراعظم تحریک عدم اعتماد میں کتنے ووٹ لیں گے، پی پی رہنما کا دعویٰ

    وزیراعظم تحریک عدم اعتماد میں کتنے ووٹ لیں گے، پی پی رہنما کا دعویٰ

    سعید غنی نے عدم اعتماد سے متعلق بڑا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ عمران خان 120 ووٹ بھی نہیں لے سکیں گے۔

     وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ ہم شروع سے پرامید ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی اور یقین ہےکہ عمران
    خان 120 ووٹ بھی نہیں لے سکیں گے۔

    سعید غنی نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو میں مارشل لا کی صورتحال بالکل نہیں سمجھتا ہوں۔ عمران خان رسمی طور پر کچھ دن کیلیے ہی وزیراعظم رہ گئے ہیں۔ وہ ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، وہ انارکی پھیلانے کے بجائے توبہ کریں اور لوگوں سے معافیاں مانگیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن احتجاج کرتی ہے وہ سمجھ میں آتا ہے اور ٹھیک ہے لیکن دنیا میں حکومتیں کہیں بھی احتجاج کیلیے نہیں جاتیں۔

    سعید غنی نے مزید کہا کہ نیب کا ادارہ بند ہونا چاہیے اور انتقامی کارروائیاں کرنیوالے نیب افسران کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

     

  • امریکی دانشور مودی کی ہندو انتہا پرستی پرپھٹ پڑے

    امریکی دانشور مودی کی ہندو انتہا پرستی پرپھٹ پڑے

    امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا ہے کہ مودی حکومت منظم طریقے سے بھارت کو ہندو نسل پرست ریاست میں تبدیل کررہی ہے۔

    بھارت میں ہندو توا کی سوچ نے وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا دشوار کردیا ہے کبھی گائے کے نام پر تو کبھی دیش بھکتی اور اب حجاب کے نام پر مسلمانوں کیخلاف ہندو نسل پرست حکومت کی سرپرستی میں مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔

    بھارت میں اس ہندو ازم کی انتہا پسند سوچ کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں جن میں حالیہ اضافہ امریکی دانشور نوم چومسکی کا ہے جنہوں نے مودی حکومت کی مسلمان مخالف پالیسیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

    اپنے ایک بیان میں نوم چومسکی نے کہا ہے کہ بھارت میں اسلامو فوبیا نے انتہائی مہلک شکل اختیار کرلی ہے جس نے وہاں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمانوں کو ایک مظلوم اقلیت میں تبدیل کردیا ہے۔

    نوم چومسکی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت منظم طریقے سے بھارت کی سیکولر جمہوریت کا خاتمہ کرکے اسے ایک ہندو نسل پرست ریاست میں تبدیل کررہی ہے۔

    انہوں نے مقبوضہ کمشیر کی صورتحال کا موازنہ فلسطین سے کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خوفناک جرائم کی ایک طویل تاریخ ہے، ہندو قوم پرست مودی حکومت نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے۔

  • کیفی اعظمی کیسے والد تھے؟ شبانہ اعظمی کی محبت سے لبریز کہانی

    کیفی اعظمی کیسے والد تھے؟ شبانہ اعظمی کی محبت سے لبریز کہانی

    اداکارہ شبانہ اعظمی کا کہنا ہے کہ انکے والد کیفی اعظمی ان کے لیے ایک اسپیشل انسان تھے جن سے انہیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ ملا

    شبانہ اعظمی بالی ووڈ کی ایسی اداکارہ ہیں جنہیں اداکاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے تو ان کے والد کیفی اعظمی بھی برصغیر کے نامور شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں نہ صرف عشق ومحبت کو اپنا موضوع بنایا بلکہ سماجی تفریق کے خلاف انقلابی نظمیں بھی کہیں۔

    تم جو اتنا مسکرا رہے ہو، آج سوچا تو آنسو بھر آئے، گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو جیسے شہرہ آفاق کلام کے خالق کیفی اعظمی  اپنی بیٹی شبانہ اعظمی کے لیے ایک عام باپ نہیں تھے بلکہ یہ ایک استاد شاگرد جیسی نوعیت کا خاص رشتہ تھا جس سے شبانہ کو دنیا کو سمجھنے اور پرکھنے میں مدد ملی۔

    ان کا کہنا تھا کہ میرے والد میرے ہیرو تھے جو عام والد کی طرح نہیں بلکہ اسپیشل تھے جن سے انہیں دنیا کو سمجھنے میں مدد ملی، وہ حقوق نسواں کے سچے علمبردار تھے، والد سے ہی انہیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس ملا۔

    انٹرویو میں شبانہ نے اپنے والدین کے مابین تعلق کے بارے میں بھی کھل کر بتایا، ان کا کہنا تھا کہ عشق میں چاند تاروں کو توڑ لانے جیسے وعدے عام ہیں لیکن ان کے والدین شوکت اعظمی اور کیفی اعظمی کا رشتہ ان وعدوں سے بھی بڑھ کر تھا، والدہ بے حد رومانٹک تھیں اور انہیں والد کیفی اعظمی نے اپنی نظم سے راغب کیا تھا، ان کے مابین محبت وخلوص کا اثر میری زندگی پر بھی پڑا اور آج 37 سالوں کے بعد بھی میں اپنے شوہر جاوید اختر سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں جتنا شادی کے وقت کرتی تھی۔

    شبانہ نے اپنے والد کے آخری ایام کے حوالے سے بتایا کہ کیفی اعظمی نے اپنے آخری دن اپنے آبائی گاؤں ‘‘میزوان’’ میں گزارے اور ہنستے مسکراتے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اپنے والدی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے شبانہ اعظمی نے کہا کہ ان کی شاعری میں جو بات مجھے اچھی لگتی تھی وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں کبھی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا، اپنی انقلابی نظموں میں بھی انہوں نے شدت اور جوش کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ ‘‘وقت نے کیا کیا حسین ستم’’ اور ‘‘کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے’’ جیسے گیتوں میں بھی الفاظ کی سادگی، جذبات کی شدت اور تڑپ تھی، جو نمایاں دکھائی دی۔

    انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کو ڈیڈی کے بجائے ہمیشہ ابا ہی کہتی تھے، ابا ہمیشہ سے دوسروں سے الگ ہی تھے، وہ دیگر بچوں کے والد کی طرح دفتر یا کسی کام پر نہیں جاتے تھے اور نہ ہی عموماْ ٹراوزر یا شرٹ پہنتے تھے، میں نے انہیں 24 گھنٹے کاٹن کے کرتا پاجامے میں ہی ملبوس دیکھا، ان کی انگلش ہمیشہ سے ہی خراب تھی۔

    شبانہ اعظمی نے اپنے انٹرویو میں یہ دلچسپ بات بھی بتائی کے وہ اسکول میں اپنی سہیلیوں سے والد کے بارے میں جھوٹ بھی بولتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ میرے والد ایک شاعر تھے لیکن زمین پر شاعر کا مطلب کسی کے لیے ایک تمغہ جو کوئی کام نہ کرتا ہو اس لیے میں اپنی اسکول کی دوستوں سے اپنے والد کا تعارف ایک بزنس مین کے طور پر کرایا ہوا تھا،

    پھر ایسا ہوا کہ ابا فلموں کے لیے لکھنے لگے اور میری ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے والد نے میرے ابا کا نام کسی اخبار میں پڑھا تھا، چالیس طلبہ کی کلاس میں میں اکیلی تھی جس کے والد کا نام اخبار میں شائع ہوا تھااس دن مجھے احساس ہوا کہ میرے ابا اسپیشل ہیں۔

    شبانہ اعظمی نے اپنے والدین سے متعلق انمول جذبات کا اظہار ایک غیر ملکی ویب سائٹ‌ ای ٹائمز کو انٹرویو میں‌کیا۔