کوئٹہ: چیمبر آف کامرس کوئٹہ نے کہا ہے کہ ٹیکس ترمیمی آرڈیننس آئین کے دفعات سے متصادم ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ نے ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس پر تحفظات سے متعلق صدر پاکستان کو مراسلہ بھیج دیا ہے۔
کیو سی سی آئی نے مراسلے میں کہا ہے کہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس قانونی کاروبار پر قدغن اور آئین کے دفعات سے متصادم ہے، محمد ایوب مریانی نے کہا ٹیکس آرڈیننس پارلیمانی بحث کے لیے پیش کیا گیا، نہ ہی ہم سے اس بابت مشاورت کی گئی ہے۔
انھوں نے مراسلے میں کہا آرڈیننس کو فوری طور پر واپس لے کر اس بابت اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، آرڈیننس کی وجہ سے بلوچستان میں رہی سہی کاروباری سرگرمیاں اور سرمایہ کاری بھی ختم ہو جائے گی۔
مراسلے میں انھوں نے مطالبہ کیا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اور چیئر مین ایف بی آر ٹیکس آرڈیننس سے متعلق تحفظات دور کریں۔
ملک بھر کے دکان دار ایف بی آر کے نافذ کردہ ’تاجر دوست‘ ٹیکس کو ملک میں معاشی تباہی کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
پاکستام میں تاجروں کی مختلف تنظیموں نے ایف بی آر کے ’تاجر دوست اسکیم‘ اور منہگائی کے خلاف شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کیا ہے، تاجروں کے مطابق ’ٹی ڈی ایس‘ کے تحت ٹیکس کی شرح 1200 روپے مقرر کی گئی تھی، مگر تاجروں کو 60 ہزار روپے کے ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس بھیجے جا رہے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دکانداروں اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے لازمی رجسٹریشن سے متعلق مسودہ اسکیم کا نفاذ کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے دکانداروں پر یہ ٹیکس آئی ایم ایف کے دباؤ میں نافذ کیا گیا ہے، پاکستان کی مجموعی پیداوار 375 ارب ڈالر ہے جب کہ ٹیکس جمع کرنے کی شرح 10 فی صد ہے۔
ایف بی آر کی اس اسکیم کے تحت شاپنگ مال سمیت تمام چھوٹی، بڑی دکانوں پر تاجر دوست اسکیم میں رجسٹریشن کا نفاذ ہوگا۔
آپ اپنی فیملی کے ساتھ ویک اینڈ پر کچھ اچھا وقت گزارنے کے لیے ڈنر پر ریسٹورنٹ جاتے ہیں اور وہاں آپ سے بھاری بل وصول کیا جاتا ہے، اور آپ بہ خوشی ادا کر کے گھر لوٹ جاتے ہیں۔
ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے والے صارفین یہ دیکھنے کی زحمت کبھی نہیں کرتے کہ جو بل ان سے لیا جا رہا ہے، اس میں شامل ٹیکسز کی نوعیت کیا ہے۔ بے شک، ہمیں بس کھانے سے مطلب ہوتا ہے، اور بل تو آخر میں ادا کرنا ہی ہوتا ہے، چاہے کتنا بھی کیوں نہ ہو ۔
اس ویڈیو میں ہم ایک ایسے ٹیکس کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں جو سندھ ریونیو بورڈ کے نام پر لیا جا رہا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے رپورٹر ندیم جعفر بھی اس پر ایک چشم کشا ویڈیو رپورٹ تیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی اس رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایک طرف شہریوں کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ انھیں بل میں شامل ٹیکسوں کے بارے میں کوئی پروا نہیں ہے، دوسری طرف ریسٹورنٹس مالکان اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
چین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں ان پر واضح کیا ہے کہ کسی بھی تجارتی جنگ میں کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے روز سے ہی میکسیکو، کینیڈا اور چین سے آنے والی تمام درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی عائد کر دیں گے۔
اس بیان کے رد عمل میں منگل کے روز چین نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تجارتی جنگ میں کوئی کامیاب نہیں ہوگا، واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے کہا چین یہ سمجھتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کا اقتصادی اور تجارتی تعاون فریقین کے لیے فطری طور پر فائدہ مند ہے۔
کینیڈا نے بھی ٹرمپ کو یاد دہانی کرائی کہ اس کا امریکا کے لیے توانائی کی ترسیل میں کتنا بنیادی کردار ہے، کینیڈا کی نائب وزیر اعظم کرسٹیا فریلینڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری تعلق متوازن اور متبادل نفع پر مبنی ہے، بالخصوص امریکی کارکنان کے حوالے سے۔‘‘ انھوں نے باور کرایا کہ اٹاوا حکومت امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ ان امور کو زیر بحث لائے گی۔
واضح رہے کہ منگل کی شام ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ 20 جنوری کو اقتدار میں آتے ہی پہلے روز سے میکسیکو اور کینیڈا سے امریکا آنے والی تمام درآمدات پر 25 فی صد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دیں گے، اور چین سے آنے والی درآمدات پر عائد کسٹم ڈیوٹی میں 10 فی صد کا اضافہ کر دیں گے، تاکہ ان تینیوں ممالک کو غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کا سلسلہ روکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
بتایا جا رہا ہے کہ اپنے اقتصادی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ٹرمپ کے پاس موجود ہتھیاروں میں کسٹم ڈیوٹی ایک بنیادی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے، تاہم کئی اقتصادی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ نمو کو نقصان پہنچائے گا، اور اس سے افراط زر کا اوسط بڑھ جائے گا، اس لیے کہ ان اضافی اخراجات کا بوجھ آخر کار صارفین پر ہی آئے گا۔ لیکن منتخب صدر کی قریبی شخصیات نے باور کرایا ہے کہ کسٹم ڈیوٹی سودے بازی کے لیے ایک مفید کارڈ ہے۔
واشنگٹن: امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو، کینیڈا اور چین کو نئے ٹیکسز کی دھمکی دے دی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ میکسیکو، کینیڈا اور چین امریکا میں غیر قانونی امیگریشن اور نشہ آور دوا فینٹینل کے بہاؤ کو روکنے کے لیے تسلی بخش کام نہیں کر رہے ہیں۔
ٹروتھ سوشل پر ٹرمپ نے کہا کہ محصولات اس وقت تک لاگو ہوں گے جب تک کہ میکسیکو اور کینیڈا منشیات کے بہاؤ اور غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے مزید کچھ نہیں کرتے، کیوں کہ ہزاروں لوگ اس سے گزر کر آ رہے ہیں۔
تاہم ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے پر عمل کیا تو الیکٹرانکس سے لے کر کاروں اور ایندھن تک ہر چیز پر امریکیوں کو زیادہ ادائیگی کرنا پڑے گی، نیشنل ٹیکس پیئرز یونین کے رہنما برینڈن آرنلڈ نے کہا ’’ہم ٹیکس میں بڑے پیمانے پر اضافے کی بات کر رہے ہیں، جس سے امریکی کاروبار اور امریکی صارفین بری طرح متاثر ہوں گے۔‘‘
نیشنل ٹیکس پیرز یونین نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ’’اگر ہم میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فی صد ٹیرف لگا دیں گے تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے، بلکہ وہ ہماری کمپنیوں پر حملہ کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ٹرمپ کی دھمکی پر میکسیکو کے صدر نے جوابی حملہ کرنے کا وعدہ کیا، اور امریکی اشیا پر محصولات کی دھمکی دی اور کہا کہ میکسیکو سرحدی گزرگاہوں پر کریک ڈاؤن کرے گا۔
اسلام آباد: ایف بی آر ریکوریز میں ناکام ہو گیا ہے، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں ناقص کارکردگی کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق 3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب روپے کی ریکوری نہیں ہو سکی، 1173 ٹیکس دہندگان کی آمدنی پر درست حساب نہ ہونے سے 104 ارب کا نقصان ہوا۔
ایف بی آر کے پاس متعدد نان ریکوریز کی وصولی کے لیے حتمی ڈیڈ لائن نہیں ہے، 519 ٹیکس دہندگان نے سروسز کی فراہمی، سپلائی اور کنٹریکٹس پر 41 ارب ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں دیا۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی چوری پر ایف بی آر کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریفنڈ میں فراڈ پر اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
رپورٹ کے مطابق 2604 ٹیکس دہندگان پر لیٹ پیمنٹ ڈیفالٹ سرچارج نہ لگنے سے 11 ارب ریکور نہیں ہوئے، ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی جانب سے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے سے 9 ارب کا نقصان ہوا۔
آڈیٹر جنرل کی جانب سے گزشتہ برسوں کے دوران بھی نان ریکوریز کی نشان دہی کی گئی تھی۔
کراچی : سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ میں نئے ٹیکس لگنے سے سب سے برا حال تنخواہ دار طبقے کا ہوا ہے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ سب پر برابر کا ٹیکس لگتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تنخواہ دار طبقے پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس لگایا گیا ہے۔
محمد زبیر نے کہا کہ ایک تو ٹیکس لگا دیا اوپر سے سرچارج بھی لگا دیا گیا، ٹیکس پر سرچارج ہی لگانا تھا تو براہ راست ٹیکس ہی بڑھا دیتے، ایگری کلچر ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا؟۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار یا مڈل کلاس طبقہ موجودہ حکومت کو پسند نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر تنخواہ دار یا مڈل کلاس لوگ پی پی اور ن لیگ کو پسند نہیں کرتے۔
بجلی کی قیمتوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں20فیصد مزید اضافہ ہوگا، آج100روپے کا بل آتا ہے تو مطلب پھر120روپے کا بل آئے گا، لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ بلوں میں کس مد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔
،
ان کہنا تھا کہ جس قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں میں ان کی مخالفت کرتا ہوں، ٹیکسز کی بھرمار کے بعد بھی ریونیو ویسا ہی ہے تو پھر ان کا کیا فائدہ ہے۔
سابق گورنر سندھ نے کہا کہ یہ اس حکومت کا تیسرا بجٹ ہے، حکومت نے اپنے اخراجات کم ہی نہیں کیے اور ٹیکسز کی بھرمار کردی۔
اصلاحات کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کہاں ہیں، توانائی ریفارمز کہاں ہیں،اداروں کی نجکاری کے معاملات کہاں ہیں، موجودہ حکومت نے جو اپنا کام کرنا تھا وہ کہاں ہے؟
محمد زبیر نے بتایا کہ دوسال پہلے ڈسٹری بیوشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں لوگوں کو لگایا گیا، ایک سال بعد پتہ چلا کہ اداروں نے مزید خسارہ کردیا ہے۔
اب یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بورڈ لگائے تھے اس کو تبدیل کریں گے، دوسال پہلے بورڈ لگاتے وقت میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے تھے، جو اقدام دو سال پہلے کیا گیا آج اس کو تبدیل کررہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
سابق گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی سیاسی ترجیحات ہیں اسی لیے ایسے اقدامات کیے گئے جو نقصان کاباعث بنے، اقدامات ایسے کررہے ہیں جیسےابھی حکومت ملی ہے اوراقدامات کرینگے۔
محمدزبیر نے وزیر اعظم شہبا شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں شبانہ روزمحنت کرکے آگےبڑھیں گے، شبانہ روز محنت سے پہلے ایسے اقدامات اٹھاتے کہ عوام پربوجھ کم ہوتا۔
گزشتہ دور حکومت کی بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ عوام پر دو سال پہلے2022کے بجٹ میں بھی بوجھ ڈالا گیا اور کہا کہ ایک سال کی بات ہے، اب سال2023کے بجٹ میں بھی کہا گیا کہ ایک سال کی بات ہے حالت بہتر ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب2024کے بجٹ میں بوجھ ڈال رہے ہیں جبکہ معیشت کی گروتھ نہیں ہے، مڈل کلاس کی قوت خرید تو بالکل ختم ہوگئی ہے، ساڑھے10کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔
اسلام آباد : وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر مہر بخاری کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسز سے بچا کر دونوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کیلئے فنڈز کہاں سے اٹھا کر کہاں لے گئے ہیں، پہلی مرتبہ کیپسٹی بلڈنگ اور اسکل ڈیویلپمنٹ پرکام کرینگے، ہمیں معیشت سےمتعلق ایک مستحکم راستے پر چلنا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نفاذ بطور ہنگامی اقدام رکھا گیا ہے، جہاں ریونیو شارٹ فال ہوگا تو تب پی ڈی ایل کا اطلاق ہوگا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ساڑھے9فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح سے یہ ملک نہیں چل سکتا،اگر اسی شرح سے ملک چلانا ہے تو ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگانا ہونگے، ہم نے رواں سال تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز نہیں لگائے۔
نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں
نان فائلر سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ نان فائلرز کو جس طرف لے کر جارہے ہیں انہیں فائلر بننا ہوگا، بڑے فیصلے نہیں کریں گے تو معیشت کو بہتر کرنا مزید مشکل ہوجائے گا،
ملک میں نان فائلرز ہونے ہی نہیں چاہئیں۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ اسٹرکچرل سائٹ پر انکم ٹیکس، سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ایک سمت میں لے جانا ہے، ریونیو کے حصول کیلئے ہمیں یہ اقدامات لازمی کرنا ہوں گے،
محمد اورنگزیب کے مطابق تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کا استثنیٰ6 لاکھ پر برقرار رکھا گیا ہے،
غیر تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس45فیصد کرنے کی تجویز ہے، ہمیں محدود مدت کیلئے کچھ اقدامات کرنا تھے۔
عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح12فیصد پر آچکی ہے،ہم عوام کی قوت خرید بڑھائیں گے، مہنگائی کا ہمیں بھی ادراک ہے، کابینہ ارکان نے کہا ہے کہ ہم تنخواہ نہیں لیں گے۔
تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کو دے دینی چاہئیں
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو ہر کاروبار سے نکالنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ تمام چیزیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ میں دے کر اسی سیکٹر کو آگے رکھا جائے، جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ وزیراعظم نے پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
غیر ضروری محکمے بند کرنے کی تجویز
انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ دے دیں، وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو بااختیار بھی ہوگی، کمیٹی غیر ضروری محکموں اور اداروں کو بند کرنے کی تجاویز دے گی، دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سے ادارے پرفارم کررہے ہیں اور کون سے نہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے صوبوں سے مشاورت شروع کردی ہے سب اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ایک ہی کشتی میں ہم سب سوار ہیں ایسا نہ ہو پوری کشتی ہی ڈوب جائے۔
ٹیکس روینیو مزید بڑھائیں گے
وزیر خزانہ کے مطابق فیصلہ ہوگیا ہے کہ ڈسکوز کے بورڈ ممبران پرائیویٹ سیکٹر سے ہوں گے، رواں سال30فیصد ریونیو بڑھادیا، آئندہ سال38فیصد تک بڑھائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائی معاملات میں خود سے فیصلے نہیں لیے جا سکتے، ان مشاورت ضروری ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہوگا، صوبوں کیساتھ مشاورت شروع کی ہے اور اسی کو آگے لے کر چلیں گے۔
جاری منصوبوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی سندھ کی پالیسی سے وفاق کو سیکھنا چاہیے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پرسندھ حکومت کی تعریف کرتا ہوں۔
سرکاری ملازمین کی پنشن
سرکاری ملازمین کی پنشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پر کام کررہے ہیں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی جاری ہے، پنشن کھربوں روپے میں ہے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، کوشش کریں گے پنشن کو فنڈڈ کیا جائے۔
وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ مہنگائی اب آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگئی ہے، ہم نے اس کی کمر نہیں تو کم از کم ٹانگ ضرور توڑ دی ہے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کی بجٹ کے حوالے سے کی جانے والی خصوصی ٹرانسمیشن میں میزبا وسیم بادامی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
ن لیگ کے مرکزی رہنما نے کہا کہ کچھ سیکٹر میں ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تو اس کا سخت ردعمل آتا ہے تاہم حکومت کیلئے یہ بات اہم ہے کہ ٹیکس نظام میں بہتری کیسے لانی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ایک روپیہ بھی مزید ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، ایسے لوگوں پر مزید ٹیکس لگانے سے اجتناب کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ریئل اسٹیٹ سیکٹر بغیر ٹیکس کے چل رہا ہے، ریئل اسٹیٹ گروتھ اور انویسٹمنٹ کا بڑا سورس ہے یہ ایک نشہ بن چکا ہے، اس شعبے پر ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں تو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ریاست اور اداروں کو مضبوط کرنا ضروری ہے، حکومت کو ایف بی آر کی اخلاقی اہمیت کو بھی دیکھنا پڑے گا۔
مختلف اداروں کی نجکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ اس وقت پرائیوٹائزیشن کا عمل بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت مختلف بین الاقوامی ماحول میں اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے، ہمیں باہر سے سرمایہ کاری لانی ہے یا خود جنریٹ کرنی ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پاکستان استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے اس کی ایک مثال اسٹیٹ بینک کا کل کا فیصلہ بھی ہے، کل اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو ڈیڑھ فیصد کم کیا، ماہ مئی میں مہنگائی کی شرح 11.8فیصد کے اعداد و شمار آئے ہیں جو خوش آئند ہے۔
کراچی: ایف بی آر نے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 12 ارب 91 کروڑ سے زائد کی ٹیکس ریکوری کرلی۔
تفصیلات کے مطابق ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیرز یونٹ( ایل ٹی پی ) کراچی نے سول ایوی ایشن کے اکاونٹ منجمد کر کے 12 ارب 91 کروڑ سے زائد روپے کی ریکوری کر لی ہے جس کے بعد سی اے اے کے اکاؤنٹس بحال کردیے گئے۔
ذرائع ایف بی آر کے مطابق ٹیکس ریکوری سی اےاے کے نیشنل بینک میں موجود 11 اکاؤنٹس سے کی گئی ہے، سی اے اے نے ایڈوانس ٹیکس مد میں 12 ارب سے زائد ٹیکس جمع نہیں کرایا تھا جس کے بعد ایف بی آر نے ٹیکس عدم ادائیگی پر سی اے اے کو ڈیفالٹر قرار دیکر اکاؤنٹس منجمد ککر دیے تھے۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ترجمان نے اس حوالے سے کہا کہ ٹیکس کا معاملہ تھوڑا تکنیکی اور مشکل تھا، وزارت قانون، ایف بی آر، سی اے اے میں بات جاری تھی۔
ترجمان نے کہا کہ ایئرپورٹ اتھارٹی، سی اے اے کے الگ قانون کے باعث معاملہ پھنسا ہوا تھا، اب ایف بی آر نے 12 ارب سے زائد کی ٹیکس ریکوری کے بعد اکاؤنٹس بحال کردیے۔