Tag: Tehreek-e-pakistan

  • اردو زبان کا تحریک پاکستان میں کیا کردار تھا ؟

    اردو زبان کا تحریک پاکستان میں کیا کردار تھا ؟

    تاریخ گواہ ہے کہ ہر عہد میں مسلمانوں نے دیگر مذاہب اور نظریے کے ماننے والوں کی نسبت تعداد میں کم ہونے کے باوجود اپنی منفرد شناخت برقرار رکھی، برصغیر میں بھی مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کا سامنا کرنا پڑا، یہاں پر مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا ان میں پہلا انگریز اور دوسرا ہندو سامراج تھا۔

    1857ءکی جنگِ آزادی بظاہر مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی لیکن وقت نے آخر کار ظاہر کردیا کہ ہندو مسلمانوں کے حمایتی نہیں بلکہ وہ فقط اپنی "اکھنڈ بھارت سوچ” کے تحت مسلمانوں کو استعمال کرتے رہے اور درحقیقت انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ آستین کے سانپ کا کردار ادا کیا۔

    انگریز تو پہلے ہی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کے درپے تھے، اس ضمن میں انہوں نے بھی کوئی حربہ نہ چھوڑا تھا، 1857ء کے بعد جب ہندوؤں کو واضح ہوا کہ وہ کبھی متحدہ ہندوستان پر اپنا راج قائم نہیں کرسکتے تو انہوں نے مکار سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریز سرکار کی قربت حاصل کرلی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید اکسانا شروع کردیا۔

    شہداء تحریک پاکستان

    ہندوؤں نے جلد ہی برطانوی راج کو مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے آمادہ کرلیا اور ہندوؤں نے یہ جنگ ہر محاذ پر لڑی، انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلاواسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کمر توڑ کوششیں کی۔

    اردو زبان جس کا خمیر مسلمانوں کی آمد سے برصغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی، تُرکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھا اور مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور مسلمانوں کے دورِ سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔

    اس وجہ سے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں کی زبان کَہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا، تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کی بظاہر وجوہات میں اردو ہندی تنازعہ بھی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔

    برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا، اب مسلمان اپنی آواز جس میں زبان میں بلند کر رہے تھے وہ اردو ہی تھی جو عوام او ر خواص ہر دو میں مقبول تھی۔

    Tehreek E Pakistan Ka Pas Manzar - Special Urdu Article

    اردو زبان کے خلاف اس محاذ آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا پھر الٰہ آباد میں ایک مجلس قائم کی گئی، رفتہ رفتہ اس کیلیے کمیٹیاں، مجلسیں اور سبھائیں مختلف ناموں سے قائم ہو گئیں، اس میدان میں بالخصوص تعلیم یافتہ ہندو طبقہ تھا۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ "اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن” کا قیام تھا-اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ "انجمن ترقی اردو” تھا جو جنوری 1902ء میں قائم ہوئی۔

    تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ زبان اردو میں اہم کردار ادا کیا- اکابرینِ تحریک پاکستان نے اردو زبان کی حفاظت دو قومی نظریے کی شناخت کے طور پر کی، آہستہ آہستہ ہندوؤں کو واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر کی منفرد شناخت رکھنے والی قوم ہے ان کی تہذیب کو ثقافت کو کبھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔

    اس کے ساتھ اردو زبان لسانی اور قومی حوالہ سے مسلمانوں کی وہ شناخت بن چکی تھی جو قیامِ پاکستان تک دشمنوں کو چبھتی رہی، ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا حالانکہ اس سے پیشتر برصغیر کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اُردو ہندی تنازعہ لسانی سے بڑھ کر اب سیاسی نوعیت اختیار کر چکا تھا،جہاں پر مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے وہاں اُردو زبان کا تحفظ لازمی جزو بن چکا تھا۔

    بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ان ہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4دہائیوں سے لڑ رہے تھے جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک،نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔

    اُردو زبان کا تحریکِ پاکستان میں حصہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان اور دو قومی نظریہ لازم و ملزوم تھے تو غلط نہ ہوگا۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 پر عمل کرتے ہوئے اردو کوپاکستان میں بطورسرکاری زبان لاگو کریں۔

  • شہداء تحریک پاکستان اور جناح : میں نے مزار قائد پر کیا دیکھا؟

    شہداء تحریک پاکستان اور جناح : میں نے مزار قائد پر کیا دیکھا؟

    تحریر : اعجاز الامین

    تحریک پاکستان میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے مسلم لیگی کارکنان کی ارواح قائد اعظم سے ملنے رات گئے مزار قائد پہنچ جاتی ہیں اس موقع پر تحریک پاکستان کے بے لوث کارکنان اور قائد کے درمیان اس وقت کی جدوجہد آزادی اور آج کے پاکستان پر دل گداز گفتگو ہوتی ہے اور ہمیشہ کی طرح قائد اپنے کارکنان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور امید کے چراغ روشن رکھتے ہیں کہ گھوپ
    اندھیرا امیدوں کو نگل نہ جائے۔

     یہ منظر میں نے 13 اگست کی رات کو مزار قائد کے مرکزی دروازے کی جھری سے دیکھا کہ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس شہداء موجود ہیں۔

    یہ سب لوگ قائد اعظم کے گرد نہایت مؤدب انداز میں دو زانو ہوکر بیٹھے تھے، ان کے چہروں پر ایک عجیب سی کیفیت تھی قائد اعظم سے ملاقات کی خوشی اور مسرت اپنی جگہ، لیکن پاکستان کے موجودہ حالات، سیاسی اور سماجی ابتری، افراتفری اور انتشار پر اس خوشی میں افسوس، رنج و غم اور گہرا دکھ بھی شامل ہو گیا تھا۔

    میں نے دیکھا کہ لیگی کارکنان آج کے پاکستان کے حوالے سے کافی تذبذب کا شکار دکھائی دیے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے برصغیر میں انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جان و مال کی قربانی دی اور بہت سی مشکلات، مصائب اور آلام دیکھے اور اس جدوجہد کے بعد جس ملک کو حاصل کیا تھا وہ نااہلی، بددیانتی، تعصب، فرقہ واریت کی نذر ہورہا ہے اور ہماری قربانیوں کا مقصد شاید حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

    میں (راقم الحروف) ابھی اس بات پر حیران اور شش و پنج میں  تھا کہ کارکنان کی گفتگو میری سماعتوں  سے ٹکرائی۔

    وہ کہہ رہے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہم نے جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، تختہٴ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں تب کہیں جاکر ہم پر قابض غیر ملکی (انگریز) یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔

    کارکنان اس بات پر افسردہ تھے کہ آج ہمارا وطنِ عزیز زبوں حالی کا شکار ہے اور شاید یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور جس کی تکمیل آپ نے کی۔

    قائد اعظم نے اپنے جاں نثار کارکنوں کو مسکرا کر دیکھا اور کہا کہ آپ اس غفور الرحیم  ذات سے مایوس نہ ہوں، جس خدا نے ہمیں اس پاک سر زمین کی نعمت سے مالامال کیا ہے وہی اس کی حفاظت بھی کرے گا۔

    قائد اعظم کی بات سن کر کارکنان مطمئن ہوگئے اور نشست برخاست ہوگئی، ان کو  واپس جاتے ہوئے دیکھ کر میں بھی اطمینان کا سانس لے ہی رہا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک پاکستان کے ان جاں نثاروں اور شہداء کا اس ملک کے لیے فکر اور افسوس  کا اظہار کرنا ٹھیک تھا؟

    کیا 1947کے بعد کا پاکستان یا آج کا پاکستان واقعی جناح کا پاکستان ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہنوں میں ہے۔ آپ کے ذہن میں کیا ہے ؟ اس کا فیصلہ آپ خود بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔

  • حکومت ریاستی طاقت کے استعمال سے ہرقیمت پر گریز کرے، الطاف حسین

    حکومت ریاستی طاقت کے استعمال سے ہرقیمت پر گریز کرے، الطاف حسین

    کراچی:ایم کیوایم کےقائد الطاف حسین نے پولیس کی مبینہ فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے جاں بحق ہونے اور متعدد کارکنوں کےزخمی ہونے پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    ایک بیان میں الطاف حسین کا کہنا ہےکہ پولیس کاپرامن قافلوں پرتشدداورفائرنگ سمجھ سےبالاترہے،حکومت ریاستی طاقت کےاستعمال سےہرقیمت پرگریزکرے، انھوں نے اپوزیشن سےاپیل کی ہے کہ احتجاج قانون کےدائرےمیں رہ کر کیا جائے اور رہنما کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکیں۔

    الطاف حسین کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں اوراملاک کونقصان پہنچانےسےہرممکن اجتناب کیاجائے،الطاف حسین نے مبینہ پولیس فائرنگ سےکارکنوں کےجاں بحق ہونے پر ڈاکٹر طاہر القادری سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے اور زخمیوں کارکنان کی صحت یابی کیلئےدعا بھی کی۔