Tag: thar crisis

  • مٹھی میں قحط اور سرد موسم سےمزید3بچے جاں بحق

    مٹھی میں قحط اور سرد موسم سےمزید3بچے جاں بحق

    مٹھی: قحط اور سرد موسم سےمزید تین بچے انتقال کرگئے،نئےسال کے تین دن میں تیرہ بچے جان کی بازی ہارچکےہیں۔

    مٹھی میں موت کا کھیل جاری ہے،سرد موسم میں تھرواسی کھانے کو ایک لقمے اور پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں،ایسے میں ٹھنڈی ہوا نے صحرا میں بیماریوں کو جنم دیا ہے، سردی سے بخار اور نمونیا نے بچوں کو لاغر کردیاہے۔

    مٹھی سے قریبی دیہاتوں کے رہائشی تو کسی نہ کسی طرح سول اسپتال تک اپنے بچوں کو علاج کے لئے لے آتے ہیں مگر دوردراز علاقوں کے رہنے والے بھوک سے بلکتے بچوں کے علاج کے لئے طبی مراکز تک نہیں پہنچ پاتےہیں۔

    اسپتالوں کی خراب حالت زار ، طبی مراکز کی کمی، ایمبولینسوں کی کمی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی ہونے کی وجہ سے تھری واسیوں کی زندگی مشکل سے مشکل ترہوتی جارہی ہے۔

  • مٹھی میں مزید ایک بچہ جاں بحق، تعداد243 ہو گئی

    مٹھی میں مزید ایک بچہ جاں بحق، تعداد243 ہو گئی

    تھر پارکر: تھر کے علاقے مٹھی کے سول اسپتال میں بھوک چار سال کے بچے کو نگل گئی۔ غذائی قلت کے باعث اب تک جاں بحق بچوں کی تعداد دو سو تینتالیس ہو گئی ہے۔

    قحط زدہ تھر میں اموات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ تھر کے علاقے مٹھی کے سول اسپتال میں غذائی قلت کے باعث ایک اور بچہ دم توڑگیا ہے۔ قحط سالی کی شکار پانی کی قلت سے تھر کی چٹختی زمین ہر طلوع ہونیوالی صبح کیساتھ کئی بچوں کو نگل لیتی ہے۔ غذائی قلت کے باعث معصوم کلیاں بن کھلے مرجھا رہی ہیں۔

    حکومتی دعوے اور امداد صرف اعلانات اور فائلوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں میں امدادی گندم کی ترسیل بھی شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اسپتالوں میں ادویات کی کمی کے باعث والدین پریشان ہیں۔

    ادھر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں، جس سے بچے کمزور پیدا ہو رہے ہیں۔ بچوں کی اموات کی بڑی وجہ قبل ازوقت پیدائش اور وزن کم ہوناہے۔

    مٹھی، چھاچھرو، ننگر پارکراور ڈیپلو کے اسپتالوں میں کئی بچے زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں چوالیس بچے، چھاچھرو تحصیل اسپتال میں اکیس سے زائد جبکہ ڈیپلو کے اسپتال میں بھی بارہ بچے زیرعلاج ہیں۔

    سینکڑوں دیہاتوں میں خشک سالی برقرار ہے جبکہ ہزاروں افراد بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ تھر میں رواں سال تین سو سولہ بچوں کی اموات ہوئیں ہیں۔

  • غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت اور سردی نے مزید تین بچوں کی جان لے لی ہے۔ یکم اکتوبر سے ابتک مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو چوہتر ہوگئی ہے۔

    غذائی قلت، سرد موسم کی سختی اور حکومتی سرد مہری تھری واسیوں کو توڑ رہی ہے۔ کنووں میں پانی نہیں، زمین پر فصلیں نہیں، بھوک و افلاس کا شکار بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہیں۔

    تھر کے سیکڑوں دیہات غذائی قلت اور امداد کی عدم فراہمی کے باعث ویران ہوگئے ہیں۔ ضلع بھر کے مختلف سرکاری اور نجی طبی مراکز میں درجنوں بچے زیر علاج ہیں لیکن ڈاکٹرز کی کمی، انکوبیٹرز، ادویات کی قلت اور اب خون ٹیسٹ کی مشین کی خرابی نے تھر میں سب اچھا ہے کا دعوی کرنے والی حکومتی کار کردگی کا پردہ فاش کررہے ہیں۔

  • تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھرپارکر: صحرائے تھر میں موت کا راج جاری ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں تین روز کا بچہ دم توڑ گیا ہے۔ دوماہ میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سوپینتالیس ہوگئی ہے۔

    تھر بن گیا ہے موت کا گھر خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کا فقدان یا حکومت کی لاپرواہی تھری واسیوں کو آئے روز موت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔ دوماہ میں ایک سو پینتالیس سے زائد بچے دنیا چھوڑ گئے۔

    سول اسپتال مٹھی کا حال یہ ہے کہ پچاس بچے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور انکیوبیٹر کی تعداد بھی محدود ہے۔ کئی بچوں کو تشویشناک حالت میں حیدرآباد منتقل کیا جاتا ہے اور جانے کیلئے ایمبولنس بھی نہیں ملتی ہے۔

    حالات کی ستم ظریفی اور حکومت کی لاپرواہی نے تھری واسیوں کو درد کی تصویر بنا دیا ہے۔

  • تھر: غذائی قلت اور قحط نے 70 دنوں میں 137 بچوں کو موت کی نیند سلادیا

    تھر: غذائی قلت اور قحط نے 70 دنوں میں 137 بچوں کو موت کی نیند سلادیا

    تھر پارکر: تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا، آج بھی دو بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔ غذائی قلت اور قحط نے ستر دنوں میں ایک سو سینتس بچوں کو موت کی نیند سلادیا ہے۔

    تھر کے صحرا میں زندگی کا سفر مشکل ہوگیا ہے، ہر گرزتا دن ننھی کلیوں کو مرجھا رہا ہے۔ غذائی قلت روز کئی مائوں کی گود یں اجاڑرہی ہے۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے، حکمرانوں کے کانوں تک آواز بھی نہیں پہنچ پاتی اقدامات صرف دوروں اور زبانی دعوؤں تک محدود ہیں۔

    آج بھی سول اسپتال مٹھی میں دو بچے دم توڑ گئے ہیں جبکہ کئی اب بھی زندگی اورموت کی کشمش میں مبتلاہیں۔ بھوک، پیاس، بیماری اور اب جاڑا، تھر واسیوں کی زندگی ہر گزرتے دن کےساتھ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ بے بس لوگوں کے لیے نئی صبح زندگی کے بجائے موت کا پیغام لاتی ہے، حکومت کے وعدے اور دعوے سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔

  • تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ایک اور بچی نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا ہے اور سوا دو ماہ میں موت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک پہنچ گئی ہے۔

    صرف سوا دو ماہ میں تھر پارکر کے مختلف علا قوں میں زندگی کی بازی ہارنے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک جا پہنچی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اموات کی وجہ خوراک کی کمی ہے۔

    یہ کہانی صحرائے تھر کی ہے، جہاں ہر گزرتے دن کوئی کلی بن کھلے مرجھا جاتی ہے۔ خون کی کمی کاشکار لاغر مائیں جسمانی اور دماغی طور پر کمزور بچوں کو جنم دے رہی ہیں جس کے سدباب کیلئے صوبائی حکومت تو خاموش ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ وقافی حکومت بھی زبانی جمع خرچ کر نے میں مصروف ہے۔

    تھر کے اسپتال بیمار اورلاچار بچوں سے بھرے پڑے ہیں، جو تکلیف سے کراہتے رہتے ہیں، بلکتے ہیں اور پھر روتے روتے زندگی ہارجاتے ہیں۔ اسپتال تو موجود ہے لیکن علاج کی بہتر سہولت دستیاب نہیں ہے۔

    ایک طرف خوراک کی کمی تو دوسری جانب ادویات نہ ملنے کی بھی شکایات مل رہی ہیں۔ بیماری اور بھوک بچوں کو نگل رہے ہیں۔

  • تھر میں غزائی قلت سے جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد118 ہو گئی

    تھر میں غزائی قلت سے جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد118 ہو گئی

    تھرپارکر: تھر میں موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے مزید ایک بچہ جاں بحق ہوگیا ہے جس کے بعد تعداد ایک سواٹھارہ تک جا پہنچی ہے۔

    تھر میں موت غذائی قلت کا بھیس بدل کر معصوم زندگیوں کو نگلنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مٹھی کے سول استپال میں غذائی قلت کے باعث پندرہ دن کا ایک اور بچہ دم توڑ گیا۔

    تھری باسیوں کو پانی اور غذائی کمی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے باعث ماوں کی کمزور جسمانی حالت کے باعث شیر خْوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں۔

    تھر میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے دعووں کے باوجو د برسر زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بچوں کی اموات اور تھر سے نقل مکانی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

  • تھر: مزید 3زندگیاں ابدی نیند سوگئیں، جاں بھق بچوں کی تعداد 117ہو گئی

    تھر: مزید 3زندگیاں ابدی نیند سوگئیں، جاں بھق بچوں کی تعداد 117ہو گئی

    تھرپارکر: تھر میں بھوک نےمزید3زندگیوں سےموت کاپیٹ بھردیا ہے اور غذائی قلت سےجاں بحق بچوں کی تعداد117ہوگئی ہے۔ طبی سہولیات کےفقدان نے ایک خاتون کی جان بھی لے لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ تھر میں موت غذائی قلت کا بھیس بدل کر معصوم زندگیوں کو نگلنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مٹھی کے سول استپال میں غذائی قلت کے باعث پندرہ دن کا ایک اور معصوم بچہ دم توڑ گیا ہے۔

    چھاچھرو کے گاؤں میں بھی اٹھارہ ماہ کا بچہ زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔ تھری باسیوں کو پانی اور غذائی کمی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے باعث ماوں کی کمزور جسمانی حالت کے باعث شیر خْوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں۔

    تھر میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے دعووں کے باوجو د برسر زمین حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بچوں کی اموات اور تھر سے نقل مکانی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

    دولاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا صحرائے تھر، پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جہاں ہمیشہ سے بھوک اور قحط کا ڈیرا ہے۔ روایتی لبادے میں لپٹے صحرائی واسیوں کی پیاسی نظریں، پانی کی تلاش میں آسمان سے ہوتی ہوئی پاتال میں گڑ جاتی ہیں۔

    بھوک سے بلکتے بچوں کی خاطر نقل مکانی یہاں کے لوگوں کا مستقل عمل بن چکی ہے۔ دوردراز علاقوں میں بچوں کو موت سے بچانے کے لئے تھر کے لوگ کر تے رہتے ہیں اپنی سے کو ششیں، مگر قریب میں کوئی اسپتال کوئی ایمرجنسی یونٹ موجود ہی نہیں ہے۔

    شہروں سے قریب علاقوں کو تو امداد بھی مل جاتی ہے مگر دوردراز گائوں میں قحط سے مرتے لوگوں کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔

  • تھر میں موت کا رقص جاری، ایک اور ننی جان دنیا سے منہ موڑ گئی

    تھر میں موت کا رقص جاری، ایک اور ننی جان دنیا سے منہ موڑ گئی

    تھر پارکر: تھر میں آج بھی ایک اور نونہال زندگی سے منہ موڑ گیا ہے۔ قحط سے مٹھی کی صورتحال دن بدن گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اکیاون دن میں ننانوے بچے دم توڑ گئے۔

    تھرپارکر میں غذائی قلت سے صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ خوراک کی کمی اور حکومت کی ستم ظریفی نے تھر واسیوں کو غم کی تصویر بنادیا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں پچاس بچے زیر علاج ہیں جبکہ دو بچوں کو تشویشناک حا لت میں حیدر آباد منتقل کیا گیا ہے۔ مٹھی کے علاقے چھا چھرو اسپتال میں پانچ بچے زیر علاج ہیں۔

    وزیر اعلی کے دھواں دار دورے اور امداد کے دعوے بس دعوں کی حد تک ہی رہے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں انکیوبیٹر اور ادویات کی کمی سے روزانہ کئی بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

  • تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھرپارکر: تھر پارکر میں نو مو لود بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے، ضلع میں مزید دس بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے اور تھر پارکر میں اموات کی تعداد پچانوے ہوگئی ہے۔

    ایک جانب حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب تھر میں موت کا رقصاں جاری ہے۔ صوبہ سندھ  کا ضلع تھرپار کر جہاں ننھے معصوم بچوں کے مرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    صوبائی حکومت کی جا نب سے سہولیات کی فراہمی کے بلند و با نگ دعوےکئے جارہیں ہیں اور وزرا کے دوروں اور فوٹو سیشن کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن عملا ً پے درپے بچوں کی اموات کی سدباب کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔

    سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ گزشتہ تین دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد اٹھا ئیس ہے اور ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد ترانوے ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب وزیر اعلی قائم علی شاہ کارکردگی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور تھر میں بڑھتی ہوئی اموات بھی حکومت کو نیند سے نہ جگا سکیں۔ تھر میں بڑھتی ہو ئی اموات پر حکومتی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

    وزیر اعلی سند ھ نے لاہور میں گفتگو کر تے ہو ئے فرمایا کہ تھر میں غربت آج سے نہیں بہت پہلے سے ہے اور حکومت وہاں فری گندم فراہم کر رہی ہے۔ قائم علی شاہ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں تھر کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ بھی جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما محمد حسین نے کہا ایک دن میں دس بچوں کی اموات افسوسناک ہے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ تھرکے معاملے پر سندھ اسمبلی میں کمیٹی بن چکی ہے۔

    ان باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تھر کے باسی بھو ک، پیاس، غربت، اموات، بیماری، دواؤں کی کمی اور ڈاکٹرز کی کمی جیسے مسائل سے پہلے بھی دو چار تھے اور آج بھی ہیں۔