مٹھی: غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث سول اسپتال مٹھی میں پانچ بچے دم توڑ گئے.
تفصیلات کے مطابق تھر میں صورت حال نے گمبھیر شکل اختیار کر لی، بھوک اور وبائی امراض نے پانچ معصوموں کی جان لے لی.
اس وقت سول اسپتال مٹھی میں اڑتالیس بچے زیرعلاج ہیں، دیہی علاقوں میں طبی مراکز تاحال غیرفعال ہے، ادویہ کی بھی قلت ہیں، جس کے باعث عوام کو شدید اذیت کا سامنا ہے.
یاد رہے کہ تھر میں بھوک اور بیماریوں کے ہاتھوں بچوں کے جاں بحق ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں. ماضی میں بھی اس نوع کے کئی افسوس ناک واقعات پیش آچکے ہیں، مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں نہیں رینگی.
ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ اسپتال آنے والی خواتین غذا کی شدید کمی کا شکار ہوتی ہیں، جس کے باعث زچگی کے دوران بچوںکی اموات ہوجاتی ہیں.
تھرمیں بچوں کی اموات کاسبب کم عمری کی شادیاں ہیں: وزیرصحت سندھ
واقعے کے بعد وزیرصحت سندھ عذرا پیچوہو نے تھر کا دورہ کیا، اس دوران انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھرمیں صحت کی تمام سہولیات موجودہیں.
وزیرصحت کا کہنا تھا کہ تھرمیں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی بات میں صداقت نہیں، تھرمیں بچے بھوک سے نہیں، غلط پرورش سے دم توڑتے ہیں.
ان کا کہنا تھا کہ تھرمیں بچوں کی امداد کا سبب کم عمری کی شادی ہے، کم عمرمائیں کمزوربچوں کوجنم دیتی ہیں، جو اسپتال پہنچنےسے پہلے دم توڑجاتےہیں.
انھوں نے کہا کہ ضلع بھرمیں مزید صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی، تھرقحط صورت حال سےنمٹنے کے لئے تھرڈرائٹ پالیسی بنارہے ہیں.
تھر: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تھر میں پاکستان کا جھنڈا پیپلز پارٹی کی وجہ سے لہرا رہا ہے۔
وہ سندھ کے پس ماندہ علاقے تھر میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا ’شہید بھٹو نے بھارت سے جنگی قیدی اور تھر کی سرزمین لی تھی۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ حکومت کی مدد سے تھر کول کا منصوبہ بنایا جو ملک میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی عوامی وفاقی حکومت بنا کر غربت کے خاتمے کا پروگرام پورے ملک میں پھیلائے گی اور غذائی قلت، بھوک اور بے روزگاری کا مقابلہ کرے گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا ’پیپلز پارٹی کے سامنے ہمیشہ کٹھ پتلی اتحاد کھڑے کیے جاتے ہیں جو عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتے، یہ حکومتیں کوئی اور چلاتا ہے، یہ کوئی اور کام کرتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو منافقت اور یو ٹرن کی سیاست پر مبنی سازشوں کا علم ہے، اس سیاست میں کرپشن کے خلاف بات کی جاتی ہے لیکن کرپٹ لوگوں کو ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔
پی پی چیئرمین نے کہا ’بے نظیر بھٹو کا نام ماروی ملیر جی رکھا گیا تھا، عوام ان سے محبت کرتے ہیں، مخالفین کوشش کر رہے ہیں کہ بے نظیر کا شروع کیا ہوا انکم سپورٹ پروگرام ختم کر دیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ وہ پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں، اقتدار میں آکر لوگوں کے مسائل حل کریں گے، عوام نے ہر جگہ جوش و جذبے سے استقبال کیا ہے، انھوں نے کہا ’یہ میری پہلی انتخابی مہم ہے، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اسلام کوٹ میں ایئر پورٹ بنایا جائے گا جس سے عوام کو بہت فائدہ ہوگا، اتفاق رائے کے بغیر ڈیمز کی تعمیر کو عوام نہیں مانیں گے، یہ 1973 کے آئین کے خلاف سازش ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی مقام پر زندگی کا دار ومدار پانی پر ہوتا ہے، جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی صحرا میں زندگی کا وجود ناممکن نظر آتا ہے۔
تاہم ایسا ہے نہیں، دنیا بھر کے صحراؤں میں لوگ آباد ہیں جو اپنی مختلف ثقافت اور رسوم و رواج کے باعث منفرد تصور کیے جاتے ہیں۔
گو کہ صحراؤں میں ان کی ضرورت کے حساب سے بہت کم پانی میسر ہوتا ہے، لیکن یہ جیسے تیسے اپنی زندگی اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انہی صحراؤں میں سے ایک سندھ کا صحرائے تھر بھی ہے جو برصغیر کا سب سے بڑا صحرا اور دنیا بھر کے بڑے صحراؤں میں سے ایک ہے۔
تقریباً 16 لاکھ سے زائد افراد کو اپنی وسعت میں سمیٹے صحرائے تھر ایک عرصے سے اپنے مسیحا کا منتظر ہے جو آ کر اس صحرا کو گلشن میں تو تبدیل نہ کرے، البتہ یہاں رہنے والوں کے لیے زندگی ضرور آسان بنا دے۔
مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی حکومت کے دوران کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل سکتی اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکتی۔
چنانچہ اب تھر کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ان بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے مقابلے کا اعلان کردیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کسی مشکل کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ عزم وحوصلے کی چٹان بن جاتی ہے اور اس میں اتنی ہمت آجاتی ہے کہ وہ فرعون وقت کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔
تھر کی عورتوں نے بھی ان سیاسی جماعتوں کے مدمقابل آنے کی ہمت کرلی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ایک عرصے سے اپنے خاندانوں اور لوگوں کو ترستی ہوئی زندگی گزارتا دیکھ رہی ہیں۔
یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان پارٹیوں سے نجات چاہتی ہیں جو صرف ووٹ کے حصول کی حد تک تھر والوں سے مخلص ہیں۔
صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو تھر کے علاقے نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔ ’لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا‘۔
نازیہ نے بتایا کہ تھر میں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ ’وڈیروں کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، ’امیر کے بچے کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ سکتا ہے، غریب کا بچہ کیا کرے‘؟
ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ گھر سے باہر نکلنے اور الیکشن لڑنے پر انہیں باتیں سننے کو ملیں، ’جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرا جائے تو کوئی عورت کچھ نہ کرسکے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔
ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا بھی سامنا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ انہیں پارٹیوں کی جانب سے پیغام وصول ہوا کہ ہم بڑی بڑی مضبوط جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کیا کرلیں گی؟ بہتر ہے کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو ووٹ دیں اور اس کے لیے انہیں دھمکیوں اور لالچ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
مستقبل میں نازیہ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں کیا اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں؟ اس بات کی نازیہ سختی سے نفی کرتی ہیں۔
’بڑی اور پرانی سیاسی جماعتیں جو طویل عرصے سے تھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہیں ان میں شامل ہونے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے جو یہ لوگ لڑ ہی نہیں سکتے، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے‘۔
سنیتا پرمار
سنیتا پرمار
تھر کے حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے الیکشن میں حصہ لینے والی سنیتا پرمار وہ پہلی ہندو خاتون ہیں جو عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔
سنیتا تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتوں کو قرار دیتی ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔
سنیتا بھی انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ فتحیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں تو سب سے پہلے تھر کی خواتین کی صحت اور یہاں کی تعلیم کے حوالے سے بل پیش کریں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔
سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والوں اور ہندو برادری نے ان کا ساتھ دیا اور پیسے جمع کر کے کاغذات نامزدگی کے اخراجات کو پورا کیا۔
تلسی بالانی
تلسی بالانی
تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222 سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔
تلسی کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیئے۔
تھر کے لوگوں کی بے بس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی تلسی نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکیں۔
’یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہے بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی دیہاتوں میں سرے سے اسکول ہی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں‘۔
تلسی نے بتایا کہ ان کے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔
’میں نے باہر نکل کر لوگوں کے پاس جانا اور ان کے مسائل سننا شروع کیا تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی‘۔
تلسی کا ماننا ہے کہ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آہستہ آہستہ آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
مٹھی: صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر سے پہلی بار ایک ہندو خاتون رواں برس عام انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہیں۔
30 سالہ سنیتا پرمار ضلع تھر پارکر کے علاقے اسلام کوٹ کی سندھ اسمبلی کی نشست حلقہ پی ایس 56 سے بطور آزاد امیدوار کھڑی ہورہی ہیں۔
سنیتا کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتیں ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔
سنیتا انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔
تھر: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ بائیو سلین ایگریکلچر سے تھر میں قحط ماضی کا قصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر تبدیلی یا ترقی کہیں ہو رہی ہے تو وہ یہاں ہے۔
تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سندھ کے صحرا تھر میں موجود ہیں۔
اس موقع پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں بائیو سلین ایگریکلچر سے سبزیاں اگائی جا رہی ہیں۔ بائیو سلین ایگریکلچر سے تھر میں قحط ماضی کا قصہ بنایا جا سکتا ہے۔
Efforts in Biosaline Agriculture have the potential of making Thar’s devastating droughts a thing of the past. Even tasted local thari veggies grown from biosaline agriculture! Similarly fish-farming in reservoirs showing huge potential. #TharBadleGaPakistanpic.twitter.com/EC8OsUlYfs
بلاول کا کہنا تھا کہ اسی طرح فش فارمنگ بھی بڑا پوٹینشل ظاہر کرتی ہے جو آبی ذخائر میں کی جارہی ہے۔
If Tabdeeli or Taraki have happened anywhere it’s here. SMBBs dream of Thar coal becoming a reality. Largest & most successful public private partnership in Pakistan. Thar will now be home to the lowest point in Pakistan & the tallest civil structure. #TharBadleGaPakistanpic.twitter.com/Myqjxiyvmx
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مستقل ترقی اور کمیونیٹیز کو با اختیار بنانے پر یقین رکھتی ہے۔ اگر تبدیلی یا ترقی کہیں ہو رہی ہے تو وہ یہاں ہے۔ ’شہید بے نظیر بھٹو کا خواب تھا کہ تھر کا کوئلہ حقیقت بن جائے۔
بلاول نے مزید کہا کہ تھر میں پاکستان کی سب سے کامیاب پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ہے۔
From the first Thari female truck drivers to the first Thari female engineer, and with over 70% local Thari employment, PPP believes in progressive, sustainable and inclusive development that empowers local communities. #TharBadleGaPakistanpic.twitter.com/WLSkGCI9NT
یاد رہے کہ بلاول بھٹو نے دو روز قبل اسلام کوٹ میں مائی بختاور ایئرپورٹ کا افتتاح کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے تھر میں کام کرنے والے افراد کے ساتھ بھی وقت گزارا جبکہ خواتین ٹرک ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر ٹرک کی سواری سے بھی لطف اندوز ہوئے۔
کراچی: پیپلزپارٹی نے تھر کی ہندو خاتون کو سینیٹ کا ٹکٹ الاٹ کردیا، کرشنا کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی نے تھر کی نچلی ذات کی خاتون کو سینیٹ کا ٹکٹ الاٹ کردیا، کرشنا کولھی آج کاغذات نامزدگی جمع کرائے گی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کرشنا کولھی کو ٹکٹ جاری کیا۔
کرشنا کا تعلق برطانوی سامراج کیخلاف لڑنے والے روپلو کولھی خاندان سے ہے اور کولھی قبیلے کے ایک غریب خاندان میں فروری 1979 میں پیدا ہوئیں، وہ اور انکے اہلخانہ تین سال تک وڈیرے کی نجی جیل میں قید رہے ، نجی جیل سے رہائی پانے کے بعد تھر کی عورت کیلئے جدوجہد شروع کی تھی۔
کرشنا کی 16 سال کی عمر میں لال چند سے شادی ہوگئی تھی، شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں تاہم ان کے شوہر نے انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اورکرشنا نے 2013 میں سوشیالوجی میں سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
ننگرپارکر کی انتیس سالہ کرشنا سماجی کارکن ہے، اور کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔
اگر کرشنا کماری نگراں ضلع سے انتخاب جیت لیتی ہیں تو مسلم اکثریت پاکستان میں سینیٹر بننے والی پہلی ہندو خاتون ہوگی۔
خیال رہے یہ پہلا موقع ہیں جب کسی پارٹی نے سینیٹ سیٹ کیلئے ہندو خاتون کا انتخاب کیا ہو۔
واضح رہے پیپلز پارٹی اس سے قبل بھی پاکستان کوکئی خواتین لیڈر فراہم کر چکی ہے، جن میں بینظیر بھٹو، پہلی خاتون وزیراعظم، فہمیدہ مرزانیشنل اسمبلی کے پہلے خاتون اسپیکر، حنا ربانی کھر پہلی خاتون خارجہ وزیر شامل ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
مٹھی: سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ننھی جانیں مٹی میں مل رہی ہیں۔ غذائی قلت سے ایک اور بچہ دم توڑ گیا جس کے بعد رواں ماہ ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت عروج پر ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں رواں ماہ 24 بچے غذا کی کمی کے باعث ہلاک ہوگئے۔
اسپتال ذرائع کے مطابق اب تک 488 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حکومت نے تھر میں 300 صحت مراکز بنائے ہیں لیکن ان میں سے صرف 14 فعال ہیں۔
مٹھی سمیت چار تحصیل اسپتالوں میں ادویات کی قلت بھی اموات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک تنظیم کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحقیقاتی ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد مناسب غذا سے محروم ہے۔ تحقیق کے مطابق سندھ میں نقص نمو اور غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 70.8 فیصد ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی: شاہد آفریدی فاؤنڈیشن اور اینگرو کے درمیان تھر میں اسپتال بنانے کا معاہدہ طے پاگیا۔ آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ گراؤنڈ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں مجھے دیے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں اینگرو اور شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے درمیان صحرائے تھر میں اسپتال بنانے کا معاہدہ طے پاگیا۔
شاہد آفریدی فاؤنڈیشن اینگرو کے تعاون سے تھر میں زچہ و بچہ کے لیے 100 بستروں کا اسپتال بنائے گی۔
اس موقع پر شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کشکول لے کر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ ان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری آواز اٹھانے پر جواب دیا۔
آفریدی نے مطالبہ کیا کہ وہ گراؤنڈ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں وہ انہیں دے دیے جائیں۔ ان کے مطابق ان کی اکیڈمی میں صرف کرکٹ نہیں بلکہ تعلیم بھی دی جائے گی۔
یاد رہے کہ شاہد خان آفریدی کچھ عرصہ قبلبین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ان کی توجہ اب فلاحی کاموں پر مرکوز ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
تھرپارکر: صحرائے تھر میں غذائی قلت کا شکار مزید 3 بچے دم توڑ گئے، رواں ماہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے.
تفصیلات کے مطابق غذائی قلت وامراض کی وجہ سے سول اسپتال مٹھی میں زیرعلاج مزید 3 بچوں نے دم توڑ دیا، اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ
رواں ماہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے جبکہ سول اسپتال مٹھی میں 41 بچے زیرعلاج ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے تھر میں بچوں کی اموات کے سلسلے کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تھر میں بچوں کی امواتکی شرح کراچی یا لاہور سے زیادہ نہیں ہے ، تاہم یہ مسئلہ بہرحال ہے اور یہ تھر کا ثقافتی مسئلہ ہے، وہاں جلد شادیاں ہوجاتی ہیں اور کم عمر ی میں بغیر وفقے کے بچوں کی پیدائش سے یہ مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔
صحرائے تھر
پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے، اس کا رقبہ 200,000 مربع کلومیٹریا 77,000 مربع میل ہے، اس کا شمار دنیا کے نو بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے.
تھرپارکر: ایک بار پھر بھوک اور بیماری جیت گئی، سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج مزید3 بچےدم توڑ گئے، رواں سال اموات کی تعداد 69 ہوگئی ہے.
ترجمان محکمہ صحت کے مطابق 2 روز کے دوران سول اسپتال مٹھی میں زیرعلاج 3 بچےدم توڑ گئے ہیں ، واضح رہے کہ رواں ماہ کے دوران 18 بچے انتقال کرگئے ہیں ، جبکہ رواں سال اموات کی تعداد 69 ہوگئی ہے ، خیال رہے کہ تا حال 16 اسپتال میں بچے زیرعلاج ہیں.
واضح رہے کہ گذشتہ سال کی طرح رواں سال بھی غذائی قلت اور ناکافی طبی سہولیات کے باعث تھرپارکرمیں بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ ماہ جنوری میں تین ماؤں کی گود سونی ہو گئی تھی ، اسپتال ذرائع کا کہنا تھا ہلاک ہونے والوں میں 16 دن کی آمنہ، ڈیڑہ ماہ کی زائیہ ظہور اور امین سمون کی 11 روزہ بچی شامل ہیں۔
آٹے کی جگہ مٹی
یاد رہے کہ مٹھی میں حکومت سندھ نے گندم کی بوریاں بھجوائی تھیں۔ لیکن ان بوریوں میں گندم نہیں بلکہ مٹی کی اطلاع ملی ۔بوریوں میں مٹی کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی ریلیف انسپکٹر جج میاں فیاض ربانی اور جو ڈیشل مجسٹریٹ نے گندم کے سرکاری گودام پر چھا پہ مارا۔
خیال رہے کہ تھر میں انتظامی غفلت کے باعث پیش نومولود بچوں کی ہلاکت پر قابوپانے کے عمل میں بہتری لانے کے لئے تھری عوام کے لئےپاک فوجنے سندھ کے صحرائی علاقے چھاچھرو میں جدید سہولیات سے آراستہ فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا.