Tag: Thar

  • تھر:مزید دو بچے جان سے گئے،تعداد197 تک جا پہنچی

    تھر:مزید دو بچے جان سے گئے،تعداد197 تک جا پہنچی

    تھرپارکر: غذائی قلت نےآج مزید چاربچوں کی جان لے لی۔ یکم اکتوبرسے بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعدادایک سو ستانوےہوگئی۔سندھ حکومت کی جانب سے بھیجی گئی امداد کے باوجود تھر کے کئی علاقوں میں بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

    سردی کے موسم میں موت کی آنکھ مچولی تا حال جاری ہے ۔وسائل کم اور  مسائل زیادہ ہیں۔زمینیں بنجرہوچکی ہیں،کنویں خشک ہوگئے،ان حالات میں بچے  قحط اور بھوک سے نڈھال ہوکر بیمار نہ ہوں تو کیا ہو؟

    اس پر ستم یہ کہ قریب کوئی اسپتال  بھی نہیں،اور اگراسپتال ہے تو وہاں تک جانے کے لئے سواری دستیاب نہیں  نہیں۔دوردرازعلاقوں تک مریض کو مشکل سے اسپتال لے بھی جائیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز موجود ہ نہیں ۔

    انکیوبیٹر ہیں تو ان کی تعداد اتنی کم کہ بچوں کی جان بچانے کے لئے حیدرآبادکے اسپتالوں کا رخ کرناپڑتاہے۔چھاچھرو، مٹھی، اسلام کوٹ سمیت اندرون تھر خوراک کی کمی ہے ۔روز کئی بچے موت کا شکار ہوکر صحرا کی مٹی میں مل جاتے ہیں۔

  • غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    غذائی قلت اور سردی نے مٹھی میں مزید 3 بچوں کی جان لے لی، تعداد 174 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت اور سردی نے مزید تین بچوں کی جان لے لی ہے۔ یکم اکتوبر سے ابتک مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو چوہتر ہوگئی ہے۔

    غذائی قلت، سرد موسم کی سختی اور حکومتی سرد مہری تھری واسیوں کو توڑ رہی ہے۔ کنووں میں پانی نہیں، زمین پر فصلیں نہیں، بھوک و افلاس کا شکار بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہیں۔

    تھر کے سیکڑوں دیہات غذائی قلت اور امداد کی عدم فراہمی کے باعث ویران ہوگئے ہیں۔ ضلع بھر کے مختلف سرکاری اور نجی طبی مراکز میں درجنوں بچے زیر علاج ہیں لیکن ڈاکٹرز کی کمی، انکوبیٹرز، ادویات کی قلت اور اب خون ٹیسٹ کی مشین کی خرابی نے تھر میں سب اچھا ہے کا دعوی کرنے والی حکومتی کار کردگی کا پردہ فاش کررہے ہیں۔

  • مٹھی میں مزید 7بچے جاں بحق، تعداد 158 ہو گئی

    مٹھی میں مزید 7بچے جاں بحق، تعداد 158 ہو گئی

    تھر پارکر: تھر میں بچوں کی اموات کاسلسلہ رک نہ سکا۔ سول اسپتال مٹھی میں سات بچے دم توڑ گئے ہیں، خشک سالی کے باعث جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو اٹھاون ہوگئی ہے۔ گورنر سندھ نے بچوں کی اموات کا نوٹس لے لیا ہے۔

    صحرائے تھر میں بھوک نے کئی بچوں کو مٹی میں ملادیا ہے۔ تھر میں پیدا ہونے والے بچے صرف کچھ دن ہی جی پاتے ہیں اور پھر بھوک سے بلکتے بلکتے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ بھوک سے بےحال والدین اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر بچوں کو دوردراز علاقوں سے طبی مراکز لے جاتے ہیں جہاں انہیں ڈاکٹر ہی نہیں ملتے ہیں۔

    آج بھی اکیس دن کے بچے کو لے کر والدین اسپتال پہنچے مگر ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایک اور ننھی جان نے دم توڑ دیا ہے۔

    بچوں کی مسلسل اموات پر گورنر سندھ نے نوٹس لے لیا ہے۔ ایک سو ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم کل تھرپار کر پہنچے گی اور اموات کے اسباب معلوم کرےگی۔ ڈاکٹرز کی ٹیم بچوں کی اموات کی روک تھام کے لئے پالیسی بھی مرتب کرے گی۔

    تھر بن گیا ہے تھر والوں کیلئے موت کا گھر اور ریگستان کی مشکل ترین زندگی میں اب قحط نے جینا دوبھر کردیاہے۔ بنیادی سہولتوں کی کمی بچوں میں موت کا سبب بن رہی ہے تاہم حکومت کی خاموشی اس معاملے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

  • تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھرپارکر: صحرائے تھر میں موت کا راج جاری ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں تین روز کا بچہ دم توڑ گیا ہے۔ دوماہ میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سوپینتالیس ہوگئی ہے۔

    تھر بن گیا ہے موت کا گھر خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کا فقدان یا حکومت کی لاپرواہی تھری واسیوں کو آئے روز موت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔ دوماہ میں ایک سو پینتالیس سے زائد بچے دنیا چھوڑ گئے۔

    سول اسپتال مٹھی کا حال یہ ہے کہ پچاس بچے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور انکیوبیٹر کی تعداد بھی محدود ہے۔ کئی بچوں کو تشویشناک حالت میں حیدرآباد منتقل کیا جاتا ہے اور جانے کیلئے ایمبولنس بھی نہیں ملتی ہے۔

    حالات کی ستم ظریفی اور حکومت کی لاپرواہی نے تھری واسیوں کو درد کی تصویر بنا دیا ہے۔

  • تھر: غذائی قلت اور قحط نے 70 دنوں میں 137 بچوں کو موت کی نیند سلادیا

    تھر: غذائی قلت اور قحط نے 70 دنوں میں 137 بچوں کو موت کی نیند سلادیا

    تھر پارکر: تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا، آج بھی دو بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔ غذائی قلت اور قحط نے ستر دنوں میں ایک سو سینتس بچوں کو موت کی نیند سلادیا ہے۔

    تھر کے صحرا میں زندگی کا سفر مشکل ہوگیا ہے، ہر گرزتا دن ننھی کلیوں کو مرجھا رہا ہے۔ غذائی قلت روز کئی مائوں کی گود یں اجاڑرہی ہے۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے، حکمرانوں کے کانوں تک آواز بھی نہیں پہنچ پاتی اقدامات صرف دوروں اور زبانی دعوؤں تک محدود ہیں۔

    آج بھی سول اسپتال مٹھی میں دو بچے دم توڑ گئے ہیں جبکہ کئی اب بھی زندگی اورموت کی کشمش میں مبتلاہیں۔ بھوک، پیاس، بیماری اور اب جاڑا، تھر واسیوں کی زندگی ہر گزرتے دن کےساتھ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ بے بس لوگوں کے لیے نئی صبح زندگی کے بجائے موت کا پیغام لاتی ہے، حکومت کے وعدے اور دعوے سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔

  • تھر:مزید دو بچوں کی ہلاکت، تعدادایک سوتینتیس تک جا پہنچی

    تھر:مزید دو بچوں کی ہلاکت، تعدادایک سوتینتیس تک جا پہنچی

    مٹھی: تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتیں نہ رک سکیں ،آج بھی دوبچوں نے دم توڑ دیا۔ہلاکتوں کی تعدادایک سو تینتیس ہوگئی۔سول اسپتال مٹھی میں چونسٹھ بچے زیر علاج ہیں۔

    صحرائے تھر میں بھوک ،موت کا پیٹ بھر رہی ہے۔کھانے کو لقمہ نہیں۔پانی کی بوند نہیں۔بیمار ہوجائیں تو دوا تک نہیں ملتی ۔ایسا لگتا ہے تھر واسی اس سرزمین کا حصہ نہیں۔

    روز مائوں کی گود اجڑتی ہے اور روز ان کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اقدامات کئے جاتے ہیں تو دوروں کی حد تک محدود رہتے ہیں۔

    سول اسپتال مٹھی میں چھیالیس بچے موت سے لڑرہے ہیں مگر انکیوبیٹر اورسہولیات کی کمی سے کئی بچے موت کے منہ میں چلےجاتے ہیں۔

    سرکاری و نجی سطح پر امدادتوملتی ہے مگر شہر سے قریب تر علاقوں میں، مگر دوردراز کے گاؤں والوں کا کوئی حال تک نہیں پوچھتا اور بس تھر واسی روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں۔

  • مٹھی کے اسپتال میں ایک اوربچی دم توڑگئی، تعداد119 ہوگئی

    مٹھی کے اسپتال میں ایک اوربچی دم توڑگئی، تعداد119 ہوگئی

    مٹھی: مٹھی کے اسپتال میں قحط اورخشک سالی سے ایک اوربچی زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔ تھرپارکر میں جاں بحق بچوں کی تعداد 119 ہو گئی ہے۔

    مٹھی چھاچھرو کے تعلقہ اسپتال میں زیرِعلاج اٹھارہ ماہ کی بچی ثمینہ دم توڑگئی ہے، جس کے بعد اب تک مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو انیس ہوگئی ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں سینتالیس بچے زیرِعلاج ہیں جبکہ تین بچوں کی حالت تشویشناک ہونے پراُنہیں حیدرآباد منتقل کردیا گیا ہے۔

    تھرمیں قحط اورخشک سالی کے باعث روزانہ بچوں کی ہلاکت میں اضافہ ہورہا ہے۔

  • تھر متاثرین، پاک فوج نے 80ٹن امدادی سامان روانہ کردیا

    تھر متاثرین، پاک فوج نے 80ٹن امدادی سامان روانہ کردیا

    لاہور: پاک فوج نے تھر کے قحط سے متاثرہ افراد کے لئے بارہ ٹرکوں پر مشتمل اسی ٹن امدادی سامان روانہ کر دیا ہے۔ لاہور گیریژن کی جانب سے اب تک 148ٹن سامان بھیجا جا چکا ہے۔

    فورٹریس سٹیڈیم لاہور گیریژن سے بھیجے جانے والے ٹرکوں میں کھانے پینے کی اشیائ، ادویات اور دیگر گھریلو استعمال کا سامان موجود ہے۔ بریگیڈئر مظہر کیانی نے اس موقع پر کہا کہ گذشتہ ایک ماہ سے تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

    سامان بھیجنے کی تقریب کے دوران امریکن بزنس فورم کی جانب سے پندرہ لاکھ روپے کا امدادی چیک بھی پاک فوج کے حوالے کیا گیا۔ لاہور گیریژن کے زیر اہتمام سات مقامات پر ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ جو فورٹریس سٹیڈیم، ایوب سٹیڈیم، قذافی سٹیڈیم، والٹن روڈ، ڈی ایچ اے اور شیخوپورہ میں قائم کئے گئے ہیں۔

  • تھر میں غزائی قلت سے جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد118 ہو گئی

    تھر میں غزائی قلت سے جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد118 ہو گئی

    تھرپارکر: تھر میں موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے مزید ایک بچہ جاں بحق ہوگیا ہے جس کے بعد تعداد ایک سواٹھارہ تک جا پہنچی ہے۔

    تھر میں موت غذائی قلت کا بھیس بدل کر معصوم زندگیوں کو نگلنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مٹھی کے سول استپال میں غذائی قلت کے باعث پندرہ دن کا ایک اور بچہ دم توڑ گیا۔

    تھری باسیوں کو پانی اور غذائی کمی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے باعث ماوں کی کمزور جسمانی حالت کے باعث شیر خْوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں۔

    تھر میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے دعووں کے باوجو د برسر زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بچوں کی اموات اور تھر سے نقل مکانی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

  • تھر: مزید 3زندگیاں ابدی نیند سوگئیں، جاں بھق بچوں کی تعداد 117ہو گئی

    تھر: مزید 3زندگیاں ابدی نیند سوگئیں، جاں بھق بچوں کی تعداد 117ہو گئی

    تھرپارکر: تھر میں بھوک نےمزید3زندگیوں سےموت کاپیٹ بھردیا ہے اور غذائی قلت سےجاں بحق بچوں کی تعداد117ہوگئی ہے۔ طبی سہولیات کےفقدان نے ایک خاتون کی جان بھی لے لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ تھر میں موت غذائی قلت کا بھیس بدل کر معصوم زندگیوں کو نگلنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مٹھی کے سول استپال میں غذائی قلت کے باعث پندرہ دن کا ایک اور معصوم بچہ دم توڑ گیا ہے۔

    چھاچھرو کے گاؤں میں بھی اٹھارہ ماہ کا بچہ زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔ تھری باسیوں کو پانی اور غذائی کمی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے باعث ماوں کی کمزور جسمانی حالت کے باعث شیر خْوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں۔

    تھر میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے دعووں کے باوجو د برسر زمین حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بچوں کی اموات اور تھر سے نقل مکانی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

    دولاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا صحرائے تھر، پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جہاں ہمیشہ سے بھوک اور قحط کا ڈیرا ہے۔ روایتی لبادے میں لپٹے صحرائی واسیوں کی پیاسی نظریں، پانی کی تلاش میں آسمان سے ہوتی ہوئی پاتال میں گڑ جاتی ہیں۔

    بھوک سے بلکتے بچوں کی خاطر نقل مکانی یہاں کے لوگوں کا مستقل عمل بن چکی ہے۔ دوردراز علاقوں میں بچوں کو موت سے بچانے کے لئے تھر کے لوگ کر تے رہتے ہیں اپنی سے کو ششیں، مگر قریب میں کوئی اسپتال کوئی ایمرجنسی یونٹ موجود ہی نہیں ہے۔

    شہروں سے قریب علاقوں کو تو امداد بھی مل جاتی ہے مگر دوردراز گائوں میں قحط سے مرتے لوگوں کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔