Tag: Thar

  • پاک فوج کا تھرپارکر متاثرین کیلئے لاہور میں ریلیف کیمپ قائم

    پاک فوج کا تھرپارکر متاثرین کیلئے لاہور میں ریلیف کیمپ قائم

    لاہور: پاک فوج کی جانب سے تھرپارکر میں متاثرینِ خشک سالی کی امداد کیلیے لاہور میں سات ریلیف کیمپ قائم کردئیے ہے۔ کیمپوں میں امدادی سامان، ادویات اور نقد عطیات اکھٹا کئے جارہے ہیں۔

    تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تھر کے باسیوں کیلئے مختلف سیاسی جماعتیں اور فلاحی اداروں سمیت پاک فوج  کی جانب سے امدادی سامان بھیجا جارہا ہے۔

    پاک فوج نے لاہور میں تھر کے متاثرین کی امداد کیلئے سات ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں۔ کیمپوں میں امدادی سامان، ادویات اور نقد عطیات اکھٹا کے جارہے ہیں۔ ریلیف کیمپ فورٹرس اسٹیڈیم، ایوب اسٹیڈیم، قذافی اسٹیڈیم، والٹن روڈ، مسجد چوک ڈی ایچ اے، وطین چوک ڈی ایچ اے اور شیخوپورہ روڈ پر قائم کیے گئے ہیں۔

    متاثرین تھر کیلئے نقد عطیات عسکری بینک طفیل روڈ لاہور کینٹ برانچ اور آرمی ریلیف اکاؤنٹ جی ایچ کیو میں جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

  • مٹھی: قحط نے مزید 2بچے نگل لئے،تعداد 113ہوگئی

    مٹھی: قحط نے مزید 2بچے نگل لئے،تعداد 113ہوگئی

    مٹھی :سول اسپتال مٹھی میں آج مزید دو بچے دم توڑ گئے ۔ غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد اب تک ایک سو تیرہ تک جا پہنچی۔
    تھر کا قحط بچوں کی جان کے در پے ہے۔

    غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔مٹھی کے سول اسپتال میں چار روز کی بچی دم توڑ گئی جبکہ چھاچھرو کے گائوں میں نوزائیدہ بچہ چل بسا۔

    قحط نے اب تک ایک سو تیرہ بچوں کو نگل لیاہے۔اور تھر کی موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس وقت سول اسپتال مٹھی میں سینتالیس سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔

  • تھرمیں موت کی دیوی کا رقص جاری

    تھرمیں موت کی دیوی کا رقص جاری

    تھر: سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج پانچ روز کی بچی اور دس سالہ علی حسن کو بھی بھوک نگل گئی، غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد ایک سو آٹھ ہوگئی ہے۔

    تھر میں موت کی دیوی کا رقص جاری ہے، بھوک مزید کئی بچوں کو نگل گئی، سول اسپتال مٹھی میں سینتالیس بچے زیرِ علاج ہیں، ایک بچے کو تشویشناک حالت میں حیدر آباد منتقل کر دیا گیا جبکہ اسلام کوٹ تحصیل اسپتال میں تیرہ، ننگرپارکر میں نو، ڈیپلو میں آٹھ اور چھاچھرو تحصیل کے اسپتال میں سترہ بچے داخل ہیں اور موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

    پانی اور دودھ کی ایک ایک بوند کو ترستے تھری بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں اور مائیں اپنے معصوم شہزادوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر آنسو بہا رہی ہیں لیکن حکمران بھوک و پیاس سے اموات کو تھر کا معمول قرار دے کر انکے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔

  • تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھر پارکر: صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت یا کچھ اور،بچوں کی اموات 95 ہوگئیں

    تھرپارکر: تھر پارکر میں نو مو لود بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نا م ہی نہیں لے رہا ہے، ضلع میں مزید دس بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے اور تھر پارکر میں اموات کی تعداد پچانوے ہوگئی ہے۔

    ایک جانب حکومتی دعوے ہیں اور دوسری جانب تھر میں موت کا رقصاں جاری ہے۔ صوبہ سندھ  کا ضلع تھرپار کر جہاں ننھے معصوم بچوں کے مرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    صوبائی حکومت کی جا نب سے سہولیات کی فراہمی کے بلند و با نگ دعوےکئے جارہیں ہیں اور وزرا کے دوروں اور فوٹو سیشن کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن عملا ً پے درپے بچوں کی اموات کی سدباب کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔

    سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ گزشتہ تین دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد اٹھا ئیس ہے اور ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد ترانوے ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب وزیر اعلی قائم علی شاہ کارکردگی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور تھر میں بڑھتی ہوئی اموات بھی حکومت کو نیند سے نہ جگا سکیں۔ تھر میں بڑھتی ہو ئی اموات پر حکومتی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

    وزیر اعلی سند ھ نے لاہور میں گفتگو کر تے ہو ئے فرمایا کہ تھر میں غربت آج سے نہیں بہت پہلے سے ہے اور حکومت وہاں فری گندم فراہم کر رہی ہے۔ قائم علی شاہ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں تھر کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ بھی جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما محمد حسین نے کہا ایک دن میں دس بچوں کی اموات افسوسناک ہے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ تھرکے معاملے پر سندھ اسمبلی میں کمیٹی بن چکی ہے۔

    ان باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تھر کے باسی بھو ک، پیاس، غربت، اموات، بیماری، دواؤں کی کمی اور ڈاکٹرز کی کمی جیسے مسائل سے پہلے بھی دو چار تھے اور آج بھی ہیں۔

  • تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھر پارکر: بھوکے تھر میں ادویات کی کمی کے باعث مزید دو بچے جان سے گئے  اکتوبر سے اب تک جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد ستاسی ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق  وزیراعلٰی سندھ کے وعدے اور تھر کے اسپتالوں میں بہترین علاج کے دعوے محض ہوا میں باتوں کے سوا کچھ نہیں۔

    کئی گاڑیوں کے پروٹوکول میں  ہنگامی دوروں اور صحرا میں کابینہ کے اجلاس کے باوجود نہ تھر میں اب تک غذائی قلت کو کم کیا جاسکا اورنہ ہی اسپتالوں میں ادویات کی کمی کو پورا کیا جاسکا ہے۔

    ادھر سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی پر کوئی اثر نہیں ۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد اسی سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔

    علاوہ ازیں تھر کے باسی جان اور مال کے بعد مویشی بھی کھوتے جارہے ہیں ۔ خشک سالی کے باعث جانور بھی موت کا شکار بنتے جارہے ہیں۔نہ صرف تھر واسی بلکہ پیاس اور بھوک سے ان کے مویشی بھی نڈھال  ہوگئے ہیں۔

    تھر میں جہاں ایک طرف موت کا رقص جاری ہے وہیں تھر کے جانور بھی خشک سالی کے باعث کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ تھر کا صحرا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور کو بھی نگلتا جارہا ہے ۔نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ کوئی عملہ ،طبی مراکز پر بڑے بڑے تالے سندھ حکومت کی کارکردگی کی پول کھلتے نظر آرہے ہیں ۔

    تھر کی پہچان خوبصورت مور بھی دن بہ دن اپنی خوبصورتی کھوتے جارہے ہیں۔ بے بس اور بے زبان جانور حسرت کی تصویر بنے توجہ اور خوراک کے منتظر ہیں۔

  • تھرمیں اموات کی تعداد پچھترہوگئی، وفاقی حکومت متحرک

    تھرمیں اموات کی تعداد پچھترہوگئی، وفاقی حکومت متحرک

    مٹھی: تھر میں موت کا رقص جاری،پچھتربچوں کی اموات کے بعد وفاقی حکومت نیند سے بیدار ہوگئی،ماروی میمن نے تھرکی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سندھ حکومت کو قراردیدیا۔

    تھرمیں قحط سالی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے کے درپے ہے جہاں اتوار کو مزید نو بچے قحط سالی کا شکار ہوکر دم توڑ گئے، جس کے بعد تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداد پچھہتر ہوگئی ہے، وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر رکن قومی اسمبلی ماروی میمن تھرپارکرپہنچ گئیں لیکن پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہ رہیں۔

    تھرکی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے ماروی میمن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت دعوؤں اور وعدوں کے سوا تھرکے رہائشیوں کیلئے کچھ نہیں کررہی۔

    انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تھرکے عوام کے لئے بے حد فکرمند ہیں اور تھر میں غذائی قلت کو پوراکرنے کیلئے جلد اسپیشل پیکج کااعلان کریں گےان کہنا تھا کہ وہ تھر کی صورتحال کا مکمل جائزہ لے کر رپورٹ وزیراعظم کو پیش کریں گی۔۔

  • تھرکی صورتحال، وزیرِاعلی نے سندھ کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا

    تھرکی صورتحال، وزیرِاعلی نے سندھ کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا

    مٹھی : تھر کی صورتحال پر وزیرِاعلی قائم علی شاہ نے سندھ کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے، اجلاس میں آئندہ کی حکمت عملی کے ساتھ ہونے والی بے ضابطگیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

    تھرمیں قحط سالی سے بڑھتی ہوئی اموات اور سندھ حکومت کی تشویش، بگڑتی صورتحال کو کیسے قابو میں لایا جائے، وزیرِاعلی سندھ قائم علی شاہ نے کابینہ کا اہم اجلاس مٹھی میں طلب کرلیا، اجلاس میں تھر کی مجموعی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔

    تھر کے قحط سے نمٹنے کیلئے عوامی نمائندے آئندہ کی حکمت عملی، حالیہ کئے جانے والے ریلیف کے کاموں کے ساتھ ہونے والی بے ضابطگیوں کا بھی جائزہ لیں گے جبکہ اجلاس میں تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان بھی متوقع ہے۔

    ذرائع کے مطابق مطابق اجلاس میں وزراء اور متعلقہ افسروں کو شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

  • اپوزیشن لیڈرحادثات پرسیاست چمکاتےہیں،شرجیل میمن

    اپوزیشن لیڈرحادثات پرسیاست چمکاتےہیں،شرجیل میمن

    کراچی: وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اپنے وسائل سے بھی زیادہ بڑھ کر تھرپارکر کو ترقی دینے اور وہاں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت پر تنقید کرنے والے 20 سال سے محکمہ صحت اپنے پاس رکھ کر بیٹھے تھے اور تھرپاکر کے وزیر اعلیٰ بھی تھے تو انہوں نے کیوں تھرپارکر کی ترقی کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے۔

    سندھ اسمبلی اجلاس سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہاں سالانہ 2 لاکھ بچوں کی اموات تشویش ناک ہے، اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ سانحہ خیرپور پر سیاست افسوس ناک ہے تاہم یہ ایک حادثہ ہے اور اس میں جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس ہے۔  انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کے احکامات دئیے ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر میڈیا سے مخاطب ہو کر کہا کہ تھرپارکر کے حوالے سے منفی خبروں کی بجائے حقائق پیش کرے۔

    شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سکھر سے کراچی آنے والی بس کا حادثہ اور اس میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر شدید افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حادثہ کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دینا بھی قابل افسوس ہے کیونکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اس پر سیاست کرنا قابل افسوس ہے وہ ایک جانب پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہیں تو بیک ڈور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لئے منتیں کررہے ہیں۔

    تھرپارکر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال اور اس پر ایم کیو ایم کی جانب سے گذشتہ روز نائین زیرو پر پریس کانفرنس میں سندھ حکومت اور وزیر اعلیٰ سندھ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ تھرپارکر ایک پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں کی آبادی دور دور علاقوں میں چند چند گھروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنقید کرنے والے صرف مٹھی، چھاچھرو، اسلام کوٹ نگر پارکر کوشاید تھرپاکر تصور کرتے ہیں، جو تھرپارکر کا 10 فیصد بھی نہیں ہے اور 90فیصد آبادی صحرا میں رہتی ہے جہاں عام ٹرانسپورٹ کا جانا بھی ممکن نہیں ہے۔

    شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سابقہ دور حکومت اور رواں دور میں بھی تھرپارکر کو ترقی دینے اور وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کوشاں ہے اور سندھ حکومت اپنے وسائل سے بڑھ کر وہاں کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے والے بتلائیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے قبل وہ مشرف دور میں اور اس سے قبل بھی حکومت میں شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 سال تک محکمہ صحت ان کے پاس تھا۔ وزیر اعلیٰ بھی اس دور میں تھرپارکر سے تھا اور تمام وسائل بھی ان کے پاس دستیاب تھے تو انہوں نے اس وقت وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے کیا اقدامات کئے۔ وہاں پر پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں تھا اور جب میں پہلی بار وہاں سے منتخب ہوا تو 54 کلومیٹر طویل پانی کی لائن کی اسکیم شروع کی اور اس پر آج بھی کام جاری ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے وہاں زیر زمین پانی کو منرل واٹر بنانے کے لئے مہنگے آر او پلانٹس لگائے اور بجلی کی عدم دستیابی پر ان کو سولر سسٹم پر منتقل کیا۔ اس سے قبل کسی بھی حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں الزام کا جواب الزام سے نہیں دینا چاہتا لیکن 20 سال تک محکمہ صحت اپنے پاس رکھنے والوں کو وہاں اس وقت صحت کے مسائل کیوں نظر نہیں آئے اور انہوں کیوں اقدامات نہیں کئے۔

    انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے وہاں عوام کی خدمت کی تب ہی وہاں کے عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے ہیں اور ان روائتی لوگوں کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور مسائل پر سیاست کرنے کی بجائے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر میں ڈاکٹروں کو دگنی تنخوائیں دی جارہی ہیں اور وہاں کام کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں اسپتالوں میں سہولیات کی عدم دستیابی پر ایک سال کے دوران ایک ہزار بچے جاں بحق ہوئے جبکہ فیصل آباد تو تھرپارکر کے مقابلے میں ترقی یافتہ ہے لیکن میڈیا صرف اور صرف تھرپاکر پر نیگیٹیو رپورٹنگ کی بجائے مثبت رپورٹ پیش کرے۔

    شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ ایک بھی انسان کی جان کا کوئی متبادل نہیں ہوتا اور ہر جان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اس ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری الزمہ بھی قرار نہیں دے رہے لیکن صرف اور صرف سیاست کی بجائے حقائق سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر پر اگر صوبے کے پاس وسائل کم ہیں تو وفاقی حکومت کیوں خاموش ہے اور وہ کیوں وسائل فراہم نہیں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھسب سے زیادہ ریونیو دینے والا صوبہ ہے تو وفاقی حکومت بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ تھرپارکر میں گندم کی بوریوں میں مٹی اور اس حوالے سے شکایت کنندہ کو ہی جیل میں ڈالے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر خود وہاں گئے اور انہوں نے پورے واقعہ کی خود انکوائیری کی ہے اور اس میں جو ملوث ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور افسران کو بھی معطل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب جو غلط کام کرے گا اس کے خلاف ایکشن ہوگا یہی حکومت کی پالیسی ہے اور جو بے گنا ہوں گے وہ آزاد ہوجائیں گے۔

  • رابطہ کمیٹی کی اقوام متحدہ،این جی اوز سے تھر واسیوں کی مددکی اپیل

    رابطہ کمیٹی کی اقوام متحدہ،این جی اوز سے تھر واسیوں کی مددکی اپیل

    کراچی:ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے اقوام متحدہ اوربین الاقوامی این جی اوز سے تھر واسیوں کی مدد کی اپیل کردی،خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ تھر کی صورتحال کی ذمے دار سندھ حکومت ہے،وزیراعلی محل سے باہر نکلیں،ایم کیوایم کی جانب سے نگرپارکرمیں بھی طبی کیمپ لگا دیاگیا

    تھر پارکر میں حالات کی سنگینی اورالطاف حسین کی ہدایت پر تھرمیں امدادی کارروائیاں مستقل جاری رکھنے کے عزم کےاظہار سمیت پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سندھ حکومت پر برس بھی پڑے اور صوبائی حکومت کو تھرپارکر کی صورتحال کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی بے حسی پر خاموش رہنا بھی قومی جرم ہوگا،وزیر اعلی کی نااہلی اورحکومت کی کرپشن نے صحراء کے باسیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔

    انھوں نے وزیراعظم سے فوری طور پر خصوصی پیکجج کےاعلان کا مطالبہ بھی کیا، خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیوایم تھر کی صورتحال پرسیاست نہیں کر رہی۔

    متحدہ کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے ہدایت کی ہےکہ امدادی کارروائیاں مستقل بنیادوں پرجاری رہیں گی،انہوں نے اقوام متحدہ اورعالمی این جی اوز سے بھی امداد کی اپیل کی،خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ ایک کروڑ سے زائد کی امدادی اشیاء متاثرہ علاقوں میں بھجوائی جا چکی ہیں۔

  • سندھ اسمبلی: کراچی میں پانی کی کمی اور تھر میں قحط سالی پر گرما گرم بحث

    سندھ اسمبلی: کراچی میں پانی کی کمی اور تھر میں قحط سالی پر گرما گرم بحث

    کراچی: شہر میں پانی کی کمی کے معاملے اور تھر میں قحط اور غذائی قلت پر آج بھی سندھ اسمبلی میں گرما گرم بحث کا آغاز ہوا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا تو شرجیل میمن نے بھی خوب جواب دیا۔

    سندھ اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہوا تو تھر کی خشک سالی کی بازگشت سنائی دی جبکہ کراچی کے بعض علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کو بھی موضوع بحث بنایاگیا اور کوٹ رادھا کشن واقعے کے شدید مذمت کی گئی۔

    حکمراں جماعت اور حال ہی میں اپوزیشن بنچوں پر براجمان متحدہ قومی مومنٹ کے ارکان تھر کے معاملےکو اسمبلی کے ریکارڈ پر لانے کے بجائے میڈیا کے ریکارڈ پر زورشورسےلائے۔ شرجیل میمن کا کہناہے کہ تھر میں پیپلز پارٹی نے کروڑوں روپےخرچ کئے ہے اور پورے ملک میں سالانہ دولاکھ بچے مرتے ہیں مگر میڈیاصرف تھر کی ہی خبریں دیتاہے۔

    ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے سوال اٹھایا کہ تھر میں کیا کام ہوا ہے؟ خواجہ اظہار نے مزید کہا کہ گندم کی بوریوں سے مٹی کا نکلنا مذاق نہیں اور اس پر حکومت سے سوال ضرور ہوگا۔

    سندھ اسمبلی کے اجلاس میں کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کےقتل اورسانحہ واہگہ بارڈر کے شہیدوں اور تھری بچوں کے لئے فاتحہ بھی کروائی گئی۔