Tag: thatta

  • دھند کے باعث ٹھٹہ سمیت مختلف مقامات پر ٹریفک حادثات میں 8 افراد جاں بحق

    دھند کے باعث ٹھٹہ سمیت مختلف مقامات پر ٹریفک حادثات میں 8 افراد جاں بحق

    ٹھٹہ: دھند کے باعث صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹہ سمیت ملک کے مختلف مقامات پر ٹریفک حادثات میں 8 افراد جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شہر ٹھٹہ میں گھارو کے قریب قومی شاہراہ پر دھند کے باعث 6 گاڑیاں ٹکرا گئیں، حادثے میں 5 افراد جاں بحق جب کہ 12 زخمی ہو گئے۔

    لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال ٹھٹہ منتقل کیا گیا، جاں بحق افراد میں شعیب، رحمان، ندیم، معین اور گلزمان شامل ہیں، 12 زخمیوں میں سے 4 کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے، جنھیں کراچی منتقل کر دیا گیا ہے، اس حادثے میں بروقت طبی مداد نہ ملنے پر 3 افراد موقع ہی پر جاں بحق ہو گئے تھے۔

    پنجاب کے ضلع بھکر کے قصبے دریا خان میں ایم ایم روڈ پر مسافر بس سڑک کنارے کھڑے ٹریلر سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے، حادثہ دھند کے باعث پیش آیا، مسافر بس اوچ شریف سے راولپنڈی جا رہی تھی۔

    ’پنجاب کےعوام کو اسموگ کے رحم وکرم پر چھوڑ کر باپ، بیٹی یورپ کی سیر پر نکل پڑے‘

    ضلع بھکر میں جھنگ روڈ حیدرآباد کے قریب ڈمپر اور موٹر سائیکل میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور 3 زخمی ہو گئے، ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثہ شدید اسموگ کے باعث پیش آیا ہے۔ ضلع لیہ کی تحصیل چوبارہ میں انگوراگوٹ کے قریب 2 گاڑیوں میں تصادم کے نتیجے میں 12 افراد زخمی ہو گئے ہیں، ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ تیز رفتاری اور اسموگ کے باعث حادثہ پیش آیا ہے۔

    پنجاب حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع میں اسموگ سے نمٹنے کے لیے ایئر پیوریفائررز لگانے کا فیصلہ کیا ہے، ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ نے ایئر پیوریفائررز لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، اور پنجاب کے تمام شاپنگ مالز، تمام کمرشل پلازوں کو ایئر پیوریفائررز لگانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

    ادھر لاہور میں اسموگ کی روک تھام کے لیے پنجاب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مختلف اضلاع سے 25 افراد کو گرفتار کر لیا ہے، اور ملزمان کے خلاف 104 مقدمات درج کر لیے ہیں، ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق 424 افراد کو 7 لاکھ 92 ہزار روپے سے زائد جرمانے کیے گئے۔

  • سیلاب متاثرین کے لیے تعمیر گھر خالی، متاثرین دربدر: ٹھٹھہ کا شہری عدالت پہنچ گیا

    سیلاب متاثرین کے لیے تعمیر گھر خالی، متاثرین دربدر: ٹھٹھہ کا شہری عدالت پہنچ گیا

    کراچی: صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں سیلاب متاثرین کے لیے تعمیر کیے گئے 200 گھر خالی اور متاثرین دربدر ہیں، ٹھٹھہ کے رہائشی نے سیلاب متاثرین کو یہ گھر الاٹ کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں ٹھٹھہ میں تعمیر شدہ گھر، سیلاب متاثرین کے حوالے کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست ٹھٹھہ کے مکین نظر علی شاہ نے دائر کی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ٹھٹھہ کے مقام مکلی پر ترک حکومت کے تعاون سے گھر بنائے گئے ہیں، حکومت کے پاس تاحال تعمیر شدہ 200 گھر خالی پڑے ہیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ حقدار سیلاب متاثرین کو یہ گھر الاٹ کیے جائیں۔

    سندھ ہائیکورٹ نے نامکمل دستاویزات کے باعث درخواست کو مسترد کردیا۔

  • امدادی کیمپ میں پولیس اہل کار کا بھائی چوری کرتے پکڑا گیا

    امدادی کیمپ میں پولیس اہل کار کا بھائی چوری کرتے پکڑا گیا

    ٹھٹھہ: سیلاب متاثرین کے ایک امدادی کیمپ میں پولیس اہل کار کا بھائی چوری کرتے پکڑا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ میں امدادی کیمپ میں رہائش پذیر سیلاب متاثرین نے ایک چور پکڑ لیا ہے، جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پولیس اہل کار کا بھائی ہے۔

    مکینوں نے چور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا، ملزم پہلے بھی امدادی کیمپ میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا، چور نے بیان میں کہا ’مکلی پولیس میری اپنی ہے، مجھے چائے پلا کر چھوڑ دیتی ہے۔‘

    واضح رہے کہ سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں جہاں ایک طرف خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے لیے زندگی گزارنا ایک کڑا امتحان بنا ہوا ہے، وہاں مختلف قسم کے انفیکشن بھی پھیل رہے ہیں، جن سے روزانہ کئی اموات ہو رہے ہیں۔

  • ٹھٹھہ میں  زائد المیعاد راشن تقسیم کرنے کا انکشاف

    ٹھٹھہ میں زائد المیعاد راشن تقسیم کرنے کا انکشاف

    ٹھٹھہ : ضلع انتظامیہ ٹھٹھہ کی جانب سے کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے سبب بیروزگاری بیٹھے دیہاڑی دار مزدوروں میں  زائد المیعاد راشن تقسیم کرنےکاانکشاف سامنے آیا ، متاثرین نے سندھ حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ کی ضلعی انتظامیہ لاک ڈاؤن کے باعث مسلسل 20روز سے فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور غریب دیہاڑی دار مزدور طبقے کی زندگیوں سے کھیلنے لگی۔

    کئی روز کے بعد ان غریبوں کو جو راشن جس میں کوکینگ آئل، چائے پتی، چنے و دیگر سامان تقسیم کیا گیا ہے،  انکشاف ہوا کہ وہ سامان 2002، 2006 اور 2008 میں ایکسپائر ہو چکا ہے۔

    متاثرین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ امدادی راشن کے حصول کیلئے کئی روز سے مقامی منتخب کونسلروں سے لیکر ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کا چکر لگاتے رہے لیکن کسی کو بھی ہم غریبوں پر رحم نہ آیا، جس کے باعث ہمارے بچے بھوک سے نڈھال ہوگئے ہیں۔

    متاثرین نے کہا کہ اب 20 روز کی بعد انہیں راشن کی شکل میں زہر دیا جارہا ہے، ڈی سی ٹھٹھہ کہ حکم پر ای سی، مختیار کار اور علاقے کے کاؤنسلروں نے ہمیں جو راشن دیا ہے وہ غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ زائد المیعاد ہے، جس کے کھانے سے ہمارے بچوں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔

    غریب اور مستحق افراد کا کہنا ہے کہ غیر معیاری راشن کی شکایات تھانے پر کی مگر مقدمہ درج نہیں کیا گیا ، شکایت کرنےپرہمیں دھمکایاجاتاہے اور سندھ سرکارسےنوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا انتظامیہ کیخلاف کاروائی نہ ہوئی تو احتجاج کیا جائے گا.

    دوسری جانب ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ نے میڈیا کو اپنا مؤقف دینے سےصاف انکار کردیا ہے،

  • ٹھٹھہ میں زائرین کی کوسٹرالٹ گئی، 4 افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ میں زائرین کی کوسٹرالٹ گئی، 4 افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ: صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں تیز رفتاری کے باعث زائرین کی کوسٹر الٹ گئی جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ میں بگھاڑ موری کے قریب تیز رفتاری کے باعث زائرین کی کوسٹر الٹ گئی، حادثے میں 4 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 20 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں 3 بچے شامل ہیں۔

    حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور زخمیوں کو مکلی سول اسپتال منتقل کیا جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق زائرین کی کوسٹر کراچی اورنگی ٹاؤن سے درگاہ پیر پٹھو جا رہی تھی کہ تیز رفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہوگئی۔

    حسن ابدال: براہمہ انٹر چینج کے قریب مسافر بس الٹ گئی، 11 افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ رواں ماہ 11 جولائی کو براہمہ انٹر چینج کے قریب مسافر بس الٹ گئی تھی جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق اور بیس سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ 9 جون کو صوبہ بلوچستان میں پسنی کوسٹل ہائی وے پر تیز رفتاری کے باعث گاڑی الٹ گئی تھی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 9 افراد زخمی ہوگئے تھے

  • لاڑکانہ کے بعد ٹھٹھہ میں بھی ایڈز کے مریض سامنے آگئے

    لاڑکانہ کے بعد ٹھٹھہ میں بھی ایڈز کے مریض سامنے آگئے

    ٹھٹھہ: صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں ایچ آئی وی ایڈز تیزی سے پھیلنے لگا جسے روکنے میں محکمہ سندھ پوری طرح ناکام ہوگیا، ٹھٹھہ میں بھی ایچ آئی وی کے 5 کیسز سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق ایچ آئی وی ایڈز لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے بعد ٹھٹھہ پہنچ گیا۔ ایڈز کنٹرول پروگرام کی فوکل پرسن ام فروہ کا کہنا ہے کہ ٹھٹھہ میں ایچ آئی وی کے 5 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

    فوکل پرسن کے مطابق مریضوں کو کراچی ریفر کر دیا گیا ہے، مریضوں میں 3 مرد اور 2 خواتین شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ غربت کے باعث مریض کراچی جانے سے گریز کر رہے ہیں، ’ہم مریضوں کو کراچی جانے کا کہتے ہیں مگر وہ اسپتال سے چلے جاتے ہیں اور دوبارہ واپس نہیں آتے‘۔

    مزید پڑھیں: لاڑکانہ میں 9082 افراد کی اسکریننگ مکمل

    خیال رہے کہ ایڈز کا پھیلاؤ لاڑکانہ سے شروع ہوا تھا، چند روز قبل انکشاف ہوا تھا کہ لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کی وجہ خود ایڈز میں مبتلا ایک ڈاکٹر ہے، جس نے اپنا متاثرہ انجکشن لگا کر متعدد افراد کو ایڈز میں مبتلا کیا۔

    سندھ ہیلتھ کمیشن نے ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا اور ڈاکٹر کے ذہنی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں وزارت قومی صحت کو ارسال کردہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے والے بچے تھیلیسمیا کے مرض میں بھی مبتلا ہیں۔

    لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 393 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ایچ آئی وی ایڈز کا شکار بچوں کی تعداد 312 ہوگئی ہے۔

  • الیکشن2018: این اے 232ٹھٹہ میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے مد مقابل

    الیکشن2018: این اے 232ٹھٹہ میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے مد مقابل

    کراچی : سندھ کا تاریخی شہر ٹھٹہ کراچی سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے یہ شہر ایک زمانے میں علم و فن شاعری، لوک داستانوں اور تجارت کا بڑا مرکز تھا لیکن مختلف ادوار میں یہاں آنے حکمرانوں نے اس تاریخی شاہکار کو بھی اپنی روائتی بے حسی کا شکار بنا ڈالا۔

    ٹھٹہ رقبے کے لحاظ سے تھرپارکر کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا ضلع بن گیا ہے، اس وقت ضلع ٹھٹہ کا رقبہ17ہزار355 مربع کلومیٹر ہے۔ضلع ٹھٹہ میں کئی جھیلیں واقع ہیں جہاں سے ملحقہ شہروں خصوصاً کراچی کی میٹھے پانی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں، ان جھیلوں میں کینجھر اور ہالیجی قومی سطح پر معروف حیثیت رکھتی ہیں۔

    ماضی میں جس ٹھٹہ کا مقابلہ ترقی یافتہ شہروں سے کیا جاتا تھا، آج وہ ٹھٹہ وقت کے ظالم قدموں کے نیچے روند دیا گیا، اور دکھ کا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔

    کروڑوں روپے کے بجٹ کے باوجود شہر کے قدیمی قبرستان مکلی کی تباہی اس کا مقدر بن چکی ہے، اس کے علاوہ دو کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا اسپورٹس کمپلیکس بند پڑا ہے، شہر میں سیوریج کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔

    پورے شہر کی غلاظت اور گندگی نہروں میں ڈالی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہری گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں، پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی پانی کی ٹنکی تعمیر کے بعد ہی ناکارہ قرار دے دی گئی۔

    ٹھٹہ میں بھی الیکشن 2018کے موقع پر کافی گہما گہمی نظر آرہی ہے، این اے232ٹھٹہ سے ملک کی اہم جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے شامل ہیں، اس حلقے میں پی پی پی امیدوار شمس النساء میمن، پی ٹی آئی کے رئیس ارسلان بروہی اور ایم ایم اے کے جاوید شاہ مدمقابل ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کامل عارف نے ٹھٹہ کے مکینوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل معلوم کیے، ملاقات کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • سن2060  تک کراچی، بدین، سجاول اور ٹھٹھہ سمندربرد ہوجائیں گے

    سن2060 تک کراچی، بدین، سجاول اور ٹھٹھہ سمندربرد ہوجائیں گے

    کراچی : دریائے سندھ میں پانی کی شدیدقلت نے ٹھٹھہ بدین اورکراچی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی، ماہرین کا کہنا ہے کہ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ چھوڑا گیا تو سن2060  تک کراچی، بدین، سجاول اور ٹھٹھہ سمندربرد ہوجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائےسندھ میں پانی کی شدیدقلت نے ٹھٹھہ ، بدین اور کراچی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی، سمندر لگ بھگ تین سال میں پینتیس لاکھ ایکڑزمین نگل گیا ہے۔

    دریائے سندھ میں پانی میں مسلسل کمی کے باعث کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ ہونے کے برابر چھوڑا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سمندر کی دریائے سندھ کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔

    سمندری پانی دریامیں شامل ہونے سے آبی حیات کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    آبی ماہرین نے خدشہ ظاہرکیا ہے صورتحال برقرار رہی اورکوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ چھوڑاگیا تو دو ہزار ساٹھ تک کراچی، بدین، سجاول اور ٹھٹھہ سمندربرد ہوجائیں گے۔


    مزید پڑھیں : سندھ ٹھٹھہ، بدین 2050 اور کراچی کا 2060 تک ڈوبنے کا امکان


    یاد رہے 2015 میں نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشین وگرافی نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بتایا تھا کہ سمندر کی سطح میں اضافے سے ٹھٹھہ اور بدین اگلے پینتیس سال میں جبکہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی علاقے آئندہ پینتالیس برس تک ڈوب جائیں گے۔

    آف اوشین وگرافی کا کہنا تھا کہ 1989 میں اقوام متحدہ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا، سمندر کے آگے بڑھنے سے متاثر ہوسکتے ہیں،  گزشتہ 35 سال میں بلوچستان کی ساحلی پٹی کا دو کلومیٹر کا علاقہ سمندر کے پانی کی نذر ہوچکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹھٹھہ کشتی حادثہ ،ریسکیو آپریشن جاری ، جاں بحق افراد کی تعداد22 ہوگئی

    ٹھٹھہ:  کشتی حادثہ میں لاپتہ50سے زائد افراد کی تلا ش کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے جبکہ جاں بحق افراد کی تعداد بائیس ہوگئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ کشتی حادثہ میں لاپتہ50سے زائد افراد کی تلا ش کیلئے ریسکیو آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا ، نیو پیر بھٹائی میلے میں جانے والے مزید 4 زائرین کی لاشیں نکال لی گئی ہے ، جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 22 ہوگئی ہیں۔

    لیاری ،میمن گوٹھ،گڈاپ میں گھروں پرمیتیں پہنچنے پرکہرام مچ گیا، سالارگوٹھ میں چھ افراد کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے، نمازجنازہ میں پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ سمیت سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز ٹھٹہ کے ساحلی علاقے بوہارا سے زائرین کشتی میں سوار ہوئے، زائرین کی منزل نیو بھٹائی پیر میلہ تھا لیکن کشتی تھوڑی دور ہی چل کر الٹ گئی، کشتی میں ڈیڑھ سو سے دو سو لوگ سوار تھے۔


    مزید پڑھیں : ٹھٹھہ، زائرین کی کشتیوں کا حادثہ، 16 افراد جاں بحق


    عینی شاہدین نے بتایا کہ کشتی میں گنجائش پچاس افراد کی تھی لیکن ملاح نے رقم کے چکر میں ڈیڑھ سو سے زائد لوگ بٹھائے، کشتی میں سوار خواتین اوربچوں سمیت متعدد افراد جان سے گئے۔

    زخمی ہونیوالوں کو میر پور ساکرو اسپتال منتقل کیا گیا، رسیکیو آپریشن میں پاکستان نیوی، ایدھی اور مقامی غوطہ خورحصہ لے رہے ہیں۔

    حادثے میں جاں بحق زیادہ تر افراد کا تعلق کراچی کے مضافاتی علاقوں سے تھا۔

    دوسری جانب پولیس نے کشتی کے مالک سمیت تین افراد گرفتارکرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔