Tag: Theresa May

  • تھریسامے کی آئرش وزیر اعظم سے ملاقات، بریگزٹ امور پر گفتگو

    تھریسامے کی آئرش وزیر اعظم سے ملاقات، بریگزٹ امور پر گفتگو

    لندن : وزیر اعظم تھریسا مے نے آئرش وزیر اعظم لیو وراڈکر سے ملاقات میں شمالی آئرلینڈ میں سیاسی جمود اور بریگزٹ معاملے پر گفتگو کی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے ہاؤس آف بریگزٹ معاہدے کے مسودے میں تبدیلی پر یورپی یونین رہنماؤں کی منظوری کےلیے کوشاں ہیں جبکہ یورپی یونین معاہدے کے مسودے میں بیک اسٹاپ سمیت کسی بھی تبدیلی سے انکاری ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آئرش وزیر اعظم لیو وراڈکر نے جمعے کے روز بیلفاسٹ میں شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے میٹینگ کے بعد برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے۔

    آئرش حکومت کا کہنا ہے کہ دو رہنماؤں کے درمیان ’بریگزٹ پر ہونے والی تازہ پیشرفت اور شمالی آئرلینڈ میں جاری سیاسی جمود‘ پر گفتگو ہوئی۔

    جمہوریہ آئرلینڈ کے وزیر اعظم کا بیلفاسٹ میں کہنا تھا کہ ’یہ مذاکرات کا دن نہیں ہے‘ لیکن اپنے نظریات کے اظہار کا ایک موقع ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے اور لیووراڈکر کے درمیان ہونے والی ملاقات یورپی یونین کے اس مؤقف کے بعد ہوئی ہے جس میں یورپی یونین کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کے ساتھ مزید گفتگو کی ضرورت ہے تاکہ ہاؤس آف کامنز سے بریگزٹ ڈیل منظور کروانے میں وزیر اعظم کی معاونت کی جاسکے‘۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ، تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

    یاد رہے کہ شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تھریسامے کو بیک اسٹاپ سے متعلق دو الگ الگ پیغامات دئیے گئے تھے۔

    کنزرویٹو پارٹی کی اتحادی جماعت ڈی یو پی کا کہنا تھا کہ انہیں آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے پر موجودہ تجویز کسی صورت قبول نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ بیک اسٹاپ (اوپن بارڈر) ایک معاہدہ ہے جس کے تحت شمالی آئرلینڈ اور جمہویہ آئرلینڈ کے درمیان سرحدی باڑ اور کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد افراد کو خوفزدہ ہیں کہ آئرلینڈ اور سمالی آئرلینڈ کے درمیان کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے امن کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ معاملات حل کرنے کیلئے ابھی بھی وقت ہے، انجیلا مرکل

    انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا سیاسی حل اب بھی نکالا جاسکتا ہے، دو ماہ کا عرصہ کم ہے لیکن تھوڑا نہیں، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ’معاملات برطانیہ کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ یورپ سے کس سطح کے تعلقات چاہتا ہے‘، اس مسئلے کے حل کےلیے ’تخلیقی صلاحیت اور اچھی نیت‘ضرورت ہے۔

  • بریگزٹ، تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

    بریگزٹ، تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے دو روزہ دورے پر شمالی آئرلینڈ میں ہیں، جہاں وہ ریاست کی پانچ بڑی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کررہی ہیں تاکہ بریگزٹ معاہدے کے مسودے پر حمایت حاصل کرسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے 15 جنوری کو ہونے والی ووٹنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد انہوں نے معاہدے کی منظوری کےلیے دوطرفہ گفتگو پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے شمالی آئرلینڈ کے دو روزہ پر ہیں اور وہ عوام کو یقین دہانی کرانے کی کو شش کررہی ہیں کہ بریگزٹ ڈیل میں وہ یقینی بنائیں گی کہ آئرش بارڈر پر روایتی چیک پوسٹیں قائم نہ ہوسکیں۔

    خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے تھریسامے نے کہا تھا کہ وہ متنازعہ بیک اسٹاپ منصوبے میں تبدیلی کرنا چاہتی ہیں لیکن انہوں نے اسے ختم کرنے کا اشارہ نہیں دیا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر تھریسامے کی شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات یورپی یونین کمیشن کے صدر جین کلوڈ جینکر اور دیگر یورپی رہنماؤں سے جعمرات کو ملاقات سے قبل ہوئی ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران بریگزٹ معاہدے میں کی گئیں تبدیلوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ یورپی یونین کی جانب معاہدے کے مسودے میں بیک اسٹاپ سمیت کسی بھی تبدیلی سے انکار کیا گیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تھریسامے کو بیک اسٹاپ سے متعلق دو الگ الگ پیغامات دئیے گئے تھے۔

    کنزرویٹو پارٹی کی اتحادی جماعت ڈی یو پی کا کہنا تھا کہ انہیں آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے پر موجودہ تجویز کسی صورت قبول نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ بیک اسٹاپ (اوپن بارڈر) ایک معاہدہ ہے جس کے تحت شمالی آئرلینڈ اور جمہویہ آئرلینڈ کے درمیان سرحدی باڑ اور کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد افراد کو خوفزدہ ہیں کہ آئرلینڈ اور سمالی آئرلینڈ کے درمیان کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے امن کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : بیک اسٹاف کا معاملہ، برطانوی حکام کی متبادل معاہدے پر گفتگو

    خیال رہے کہ  ایک روز قبل وزیر داخلہ ساجد جاوید  نے کہا تھا کہ ’ہمیں موجودہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے‘ جبکہ آئرش وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے خیال کو جائزہ لینے کے بعد پہلے ہی مستر دکرچکے ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    آئرلینڈ کے وزیر اعظم لیو ورڈاکر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا  تھاکہ ’یہ بہت مایوسی کی بات ہے کہ برطانوی حکومت واپس ٹیکنالوجی کے خیال میں جارہی ہے‘۔

  • بریگزٹ: تھریسامے دوبارہ مذاکرات کیلئے کوشاں، یورپی یونین کا انکار

    بریگزٹ: تھریسامے دوبارہ مذاکرات کیلئے کوشاں، یورپی یونین کا انکار

    لندن : یورپی یونین نے بریگزٹ معاہدے پر نئے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بریگزٹ پر مزید مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں گزشتہ روز بریگزٹ معاہدے پر ارکان پارلیمان نے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے سات میں سے دو ترامیم منظور کی ہیں۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ گفت و شنید کے مشورے کے بعد وزیر اعظم تھریسامے یورپی یونین کے رہنماؤں سے دوبارہ مذاکرات کی امید کررہی ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 317 میں کل 301 ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ مسودے میں آئرش بیک اسٹاپ کے معاملے کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن یورپی یونین نے برطانوی وزیر اعظم سے طےشدہ معاہدے کے مسودے میں تبدیلی سے انکار کردیا ہے۔

    وزیر اعظم تھریسامے نے ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کے مسودے میں ترمیم کو مسترد کیے جانے کے بعد اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن کو معاملے پر گفتگو کی دعوت دی ہے۔

    وزیر اعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ ایم پیز کی اکثریت معاہدے کے ساتھ یورپی یونین سے انخلاء چاہتے ہیں لیکن معاہدے کے مسودے میں ترمیم آسان نہیں ہوگی۔

    سابق سیکریٹری امور برائے بریگزٹ امور ڈومینک راب نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یورپی یونین نے خود کہا تھا کہ ’بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں‘۔

    ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ ہم نے بیک اسٹاپ کے معاملے پر عقل مندی سے نمایاں تبدیلیاں کرکے وزیر اعظم کے ہاتھوں کو مضبوط کیا تھا۔

    سابق سیکریٹری برائے بریگزٹ امور ڈومینک راب نے اصرار زور دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ’سوال یہ نہیں ہے کہ یورپی یونین یہ کرسکتی ہے، بلکہ کیا وہ یہ کریں گے‘۔

    دوسری جانب سے یورپی یونین کے رہنما نے معاہدے پر مزید مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئرش بیک اسٹاپ یورپی یونین سے انخلاء کے معاہدے کا حصّہ ہے‘ اور انخلاء کے معاہدے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    یورپی یونین کونسل کے ایک ترجمان کے مطابق ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد ممکنہ اقدامات کے حوالے سے اپنے ارادے واضح کرے۔

    فرانسیسی صدر ایمینئول میکرون نے بھی بریگزٹ معاہدے پر گفتگو سے انکار کردیا ہے جبکہ آئرش وزیر خارجہ نے سیمون کوینی نے کہا ہے کہ ’ووٹنگ کے باوجود بیک اسٹاپ معاہدہ ضروری ہے‘۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    خیال رہے کہ دو ہفتے قبل بریگزٹ معاہدے پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی تھی جس میں برطانوی حکومت کوشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔حکومت کی شکست کے بعد اپوزیشن نے وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی گئی تھی جوناکام رہی۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

  • بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    لندن: برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے جارج اوس بورن کا کہنا تھا کہ اس وقت برطانیہ کو ’نوبریگزٹ‘ اور ’نو ڈیل‘ میں سے ایک کو چننا ہے، اورنوڈیل کو چننا ایسا ہی ہے جیسے آپ رشین رولٹ کھیل رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے ۔ یاد رہے کہ رشین رولٹ ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی بھی نہیں کھیلنا چاہیے، اس مین ریوالور کے چھ میں سے پانچ خانے خالی رکھے جاتے ہیں اور ایک میں گولی ہوتی ہے۔ ریوالور بند کرکے گھمایا جاتا ہے اور بندوق چلانے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ پانچ اور کم سے کم ایک موقع بھی ہوتا ہے ،لیکن بھیانک موت بالاخر مقدر ہوتی ہے۔

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    جارج اوس بورن کا مزید کہنا تھا کہ نو ڈیل کی صورت میں بندوق برطانیہ کی کنپٹی پر ہوگی لہذا ایسی کسی صورتحال سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

    ممبران پارلیمنٹ اس وقت برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل کے مدمقابل منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک بریگزٹ کو ملتوی کرنا بھی ہے ، جو کہ رواں سال 29 مارچ کو طے ہے۔

    دوسری جانب وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے نو بریگزٹ کے نقصانات کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ کی گئی مجوزہ بریگزٹ ڈیل کو منظور کرلیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر ڈیل کے یورپین یونین سے انخلا ناممکن ہے۔

     یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے 15 جنوری کو ہونے والی ووٹنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے نکلنے کےلیے بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کیا تو 29 مارچ کو برطانیہ، یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے ہی نکلنے پر مجبور ہوگا۔

  • بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے سال نو کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش

    وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت پھر مشکل میں گرفتار ہوگئی، پارلیمنٹ میں تھریسامے کے خلاف ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نے پیش کی، اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی جانب سے جنوری میں بریگزٹ معاہدے پر ہونے والی ووٹنگ کو مسترد کرتے ہیں۔

    جیریمی کوربن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم تھریسامے کی پالیسیوں نے برطانیہ کو بحران سے دوچار کردیا ہے، اس لیے وزیر اعظم پر اعتماد نہیں رہا ارکین پارلیمنٹ تھریسامے کے خلاف حتمی فیصلہ دیں۔

    برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ معاہدے پر رواں ہفتے رائے شماری کروائی جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی تبدیلی آئے گی۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل بھی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، تحریک عدم اعتماد کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے 48 ایم پیز نے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جس میں تھریسامے کی حمایت ختم کرنے کا اعلان گیا تھا۔

    خیال رہے کہ یاد رہے کہ وزیراعظم تھریسامے 11 دسمبر کو ہونے والی رائے شماری یہ کہتے ہوئے ملتوی کردی تھی کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیے جانے پر ان کی حکومت ختم اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کردی

    واضح رہے کہ تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے پر اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا ہے جب کہ وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ 14 جنوری تک ملتوی کی تھی۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دئیے تھے۔

  • ٹونی بلیئر دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے بریگزٹ کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں، تھریسامے کا الزام

    ٹونی بلیئر دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے بریگزٹ کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں، تھریسامے کا الزام

    لندن : تھریسامے نے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر الزام عائد کیا کہ ٹونی بلیئر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرکے معاہدے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ آئندہ برس مارچ میں بریگزٹ معاہدے تحت یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا بریگزٹ پلان یورپی یونین کے رکن ممالک منظور کرچکے ہیں تاہم مذکورہ معاہدے کے مسودے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی جانب مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے کہا کہ ٹونی بلیئر کے ردعمل نے اس آفس کی توہین کی ہے جس میں وہ بحیثیت وزیر اعظم کام کرتے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ بھی بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ ریفرنڈم کروا کر اپنی ذمہ داروں سے بری از ذمہ نہیں ہوسکتے۔

    سابق برطانوی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کے پاس دوبارہ ووٹنگ کے علاوہ کوئی دوسرا اختیار نہیں۔

    اس سے قبل لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی اراکین پارلیمنٹ نے وزیر برائے کیبنٹ آفس ڈیوڈ لڈنگٹن سے ملاقات کرکے مذکورہ تجویز کی حمایت کی تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی کے 10 اراکین پارلیمنٹ نے ڈیوڈ لڈنگٹن سے جمعرات کے روز ہونے والی ملاقات میں دوسری عوامی ووٹنگ پر زور دیا تھا۔

    ایم پیز نے واضح کیا کہ حکومت کے پاس کوئی دوسرا منصوبہ نہیں جس کی حمایت کی جائے لیکن لیبر پارٹی کے کئی سینئر ایم پیز کا خیال دوبارہ ریفرنڈم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

    حکومت دوبارہ ریفرنڈم کے خلاف ہے، برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ عوام نے سنہ 2016 میں واضح طور پر یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    خیال رہے کہ گذشتہ شب برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تحت ہونے والی ووٹنگ میں تھریسامے نے 200 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ پڑے تھے جس کے باعث تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

    مزید پڑھیں : صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے تھے۔

    تھریسامے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

  • تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے یورپی سربراہی اجلاس میں روانہ

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کےلیے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر بریگزٹ معاہدے کے حوالے سے برسلز روانہ ہوگئیں ہیں جہاں وہ یورپی یونین کے سربراہوں سے ملاقات کریں گی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہےکہ برطانوی وزیراعظم آئرلینڈ تنازعے پر یورپین یونین سے قانونی یقین دہانی طلب کررہی ہیں، یاد رہے کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کا یہی بنیادی سبب ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا خیال ہے کہ یورپی یونین بریگزٹ معاہدے پر نظرثانی نہیں کرے گا لیکن تھریسامے آئرلینڈ کے معاملے پر نظر ثانی کی زیادہ پُر امید ہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور

    خیال رہے کہ گذشتہ شب برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تحت ہونے والی ووٹنگ میں تھریسامے نے 200 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ پڑے تھے جس کے باعث تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

    مزید پڑھیں : صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے تھے۔

    تھریسامے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    مقامی میڈیا کے مطابق تھریسامے 2022 کے انتخابات میں کنزویٹو پارٹی کی قیادت نہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

    واضح رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    بریگزٹ: تھریسا مے کی یورپی سربراہوں سے مزید یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپی حکمرانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، ملاقاتوں کا مقصد معاہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت اکھٹی کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر یورپ سے مزید یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے یورپی سربراہوں سے ملاقات کے سلسلے میں پہلی ملاقات ڈچ وزیراعظم مارک روٹ اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے کی ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم نے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بریگزٹ ڈیل پر ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی ووٹنگ ملتوی ہونے کے بعد کیا ۔ ان ملاقاتوں کو مقصد شمالی آئرلینڈ کے بارڈر تنازعے کے حل کے لیے زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ بہت اچھا تھا لیکن وہ معاہدے سے متعلق یورپی یونین سے دوبارہ بات کر کے معاہدے کو مزید مؤثر بنانے کی کوشش کریں گی۔ وہ اس سلسلے میں لیگل گارنٹی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ شمالی آئرلینڈ بارڈر تنازعے پر برطانیہ کو پھنسایا نہیں جائے گا۔

    دوسری جانب بریگزٹ پر ووٹنگ ملتوی ہونے پر یورپی یونین کے صدر جین کلاؤڈ جنکر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل پر اب برطانیہ سے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور معاہدے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، تاہم معاہدے کی شقوں کی مزید وضاحت کی جاسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے عوام نے ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ایک طویل پراسس کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاہم برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو اس معاہدے پر ہاؤس آف کامنز کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کاشکار ہیں۔یورپی یونین سے برطانیہ کا باقاعدہ اخراج آئندہ برس 19 مارچ کو ہونا طے ہے۔

  • بریگزٹ لیگل ایڈوائس: تھریسا مےکے لیے نیا محاذ کھل گیا

    بریگزٹ لیگل ایڈوائس: تھریسا مےکے لیے نیا محاذ کھل گیا

    برطانیہ: تھریسا مے کی مخالف پارٹیز نے طے کیا ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں گے کہ بریگزٹ معاہدے پرملنے والی قانونی ایڈوائس کا مکمل متن شائع کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا مے کی حکومت بریگزٹ معاہدے پر ملنے والی قانونی ایڈوائس کی سمری شائع کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومت کے اس عمل کو مسترد کرتے ہوئے مکمل ایڈوائس تک رسائی کا معاہد ہ کیا ہے۔

    لیبر پارٹی کے ترجمان سر کائر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ اگر ممبرانِ پارلیمنٹ کے سامنے ایڈوائس کا مکمل مسودہ نہیں آیا تو تمام جماعتیں ’پارلیمنٹ کی توہین‘ کی قرارداد لائیں گی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نےممبرانِ پارلیمنٹ سے معاہدے کی قانونی پوزیشن کی سمری دکھانے کا وعدہ کیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں ایڈوائس تک مکمل رسائی چاہتی ہیں۔ کچھ ممبران کا خیال ہے کہ شمالی آئرلینڈ کے معاملے پر پیدا ہونے والا تعطل حتمی شکل اختیار کرلے گا۔

    دوسری جانب مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سترہ ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا میں شائع کردہ ایک لیٹر کے ذریعے ایوان سے مطالبہ کیا ہے کہ جلداز جلد ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔

    دوسری جانب سر اسٹارمر کا مزید کہنا ہے کہ اگر تھریسا مے کی حکومت کامنز کے ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر مجبوراً ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وزیراعظم مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل نہ کرپائیں تو پھر یقیناً یہ حکومت پر اعتماد کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔