Tag: Theresa May

  • بریگزٹ ڈیل، ایک اور برطانوی وزیر نے استعفیٰ دے دیا

    بریگزٹ ڈیل، ایک اور برطانوی وزیر نے استعفیٰ دے دیا

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے سے مخالف کرتے برطانیہ کے وزیر سائنس سیم جائما نے بھی استعفیٰ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر تھر یسا مے کی بریگزٹ منصوبے سے اختلاف کرتے ہوئے کابینہ کا ایک اور وزیر احتجاجاً مستعفی ہوگیا، وزیر سائنس سیم جائما کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے بریگزٹ منصوبے سے متفق نہیں ہوں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسامے کی یورپی یونین کے گیلیلو سیٹلائٹ سسٹم میں داخل اندازی سے وزیر اعظم کے بریگزٹ منصوبے کو عیاں کردیا ہے۔

    برطانوی وزیر برائے یونیورسٹی اور سائنس سم جائما نے برطانیہ کے گیلیلو سسٹم سے باہر نکلنے کے معاملے پر استعفیٰ دیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ برطانیہ گیلیلو سیٹلائٹ سسٹم کا حصّہ کا رہنا چاہتا تھا لیکن یورپی یونین کا کہنا ہے کہ مذکورہ منصوبے کے اضافی محفوظ عناصر پر پابندی عائد کی جائے گی۔

    برطانوی وزیر سیم جائما کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات مستقبل میں پُرتشدد مذاکرات بن جائیں گے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے کے معاملے پر سیم جائما تھریسا مے کی کابینہ کے 10 ویں وزیر ہیں جنہوں نے معاہدے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

    سیم جائما کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں برسلز کے ساتھ مذاکرات ک ذریعے ہونے والے معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دیں گے اور ایک اور ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کروں گا۔

    بریگزٹ ڈیل کے مسودے کے منظرعام پر آنے کے بعد سے تھریسا مے کے لیے مشکلا ت کا سلسلہ جاری ہے، جولائی سے اب تک ان کی کابینہ کے 10 وزراء ڈیل کی مخالفت کرتے ہوئے استعفیٰ دے چکے ہیں۔

    استعفیٰ دینے والوں میں برطانوی حکومت کے بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب سرفہرست ہیں جبکہ ان کے ہمراہ ورک اور پنشن کی وزیر یستھر میکووے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں ہیں۔اس کے علاوہ جونیئر ناردرن آئرلینڈ منسٹر شائلیش وارہ ، جونئیر بریگزٹ مسٹر سویلا بریور مین اور پارلیمنٹ کی پرائیویٹ سیکرٹری این میری ٹریولیان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان ہونے والے متوقع بریگزٹ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس سے امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ یوپرین یونین کے لیے تو کئی فواید لیے ہوئے ہے لیکن اس کے بعد شاید برطانیہ ہمارے ساتھ تجارت نہ کرسکے۔

    ان کے مطابق معاہدے کی شق نمبر 10 کے تحت برطانیہ کو دنیا بھر کےممالک سے نئے تجارتی معاہدے کرنے ہوں گے ۔

    امریکی صدر کا کہنا ہے کہ فی الحال برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے متوقع معاہدے کا مسودہ سامنے آیا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ ہماری تجارت منقطع ہوجائے گی جو کہ یقیناً کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

    انہوںمزید کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین اس کو دیکھ رہے ہوں گے اور ان کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہوگا کہ برطانیہ اور امریکا کے درمیان تجارت منقطع ہوجائے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے ، بریگزٹ معاہدے کو یورپی یونین سے منظور کرالینے کے بعد اب 11 دسمبر کو برطانوی پارلیمنٹ میں لے کر جارہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اس معاہدے پر اراکینِ پارلیمنٹ کی منظور ی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ممبرانِ پارلیمنٹ کو قائل کرنے کے لیے تھریسا ، ووٹنگ سے دو روز قبل لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کاربائن کے ساتھ ایک ٹی وی شو میں مذاکرہ بھی کریں گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ تھریسا مے جنہوں نے ممبرانِ پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے دو ہفتے کی ڈیڈ لائن طے کررکھی ہے ان کے لیے امریکی صدر کا یہ بیان کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان علیحدگی کے لیے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کا مسودہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں منظورکرلیا گیا تھا، اسپین نے معاہدے کی مخالفت کی تھی۔یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اسپین کے آخری لمحات میں کارروائی سے باہر ہونے کے بعد تمام رکن ممالک نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی، ایل آئی بی ڈیم، ایس این پی، ڈی یو پی اور حکمران جماعت متعدد ایم پیز اس معاہدے کے خلاف ووٹنگ کرنے کےلیے تیار ہیں، لہذا تھریسا مے کو 11 دسمبر کو ایک انتہائی دشوار گزار مرحلہ طے کرنا ہے۔

  • بریگزٹ معاہدہ: برطانوی وزیراعظم نےاراکین پارلیمنٹ کومنانےکےلیے2 ہفتے کی مدت طے کرلی

    بریگزٹ معاہدہ: برطانوی وزیراعظم نےاراکین پارلیمنٹ کومنانےکےلیے2 ہفتے کی مدت طے کرلی

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو بریگزٹ معاہدے سے متعلق ملکی مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اراکین پارلیمنٹ کومنانے کے لیے 2 ہفتے کی مدت طے کرلی۔

    تھریسامے نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران اراکین پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ بریگزٹ معاہدے پر ملکی مفادات کا خیال رکھیں۔

    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے دھچکا لگا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بریگزٹ معاہدہ یورپی یونین کے لیے ایک بڑا معاہدہ ہوگا جس کے مطابق برطانیہ امریکا سے تجارت نہیں کرسکے گا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان علیحدگی کے لیے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کا مسودہ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں منظورکرلیا گیا تھا، اسپین نے معاہدے کی مخالفت کی تھی۔

    یورپی سربراہی اجلاس میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری


    یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اسپین کے آخری لمحات میں کارروائی سے باہر ہونے کے بعد تمام رکن ممالک نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

    بریگزٹ پلان سے یورپی تارکین وطن کی آمد رک جائے گی، تھریسامے

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے 20 نومبر کو برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ پلان سے یورپی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ رک جائےگا۔

  • برطانیہ : ڈی یو پی تھریسامے کی حمایت سے منحرف، حکومت مشکلات کا شکار

    برطانیہ : ڈی یو پی تھریسامے کی حمایت سے منحرف، حکومت مشکلات کا شکار

    لندن : شمالی آئرلینڈ کی سخت گیر سیاسی جماعت ڈی یو پی معاہدے سے منحرف ہوگئی جس کے باعث برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت مشکل کا شکار ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی آئر لینڈ کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعت اور تھریسامے کی اتحادی جماعت ڈی یو پی وزیر اعظم کے حق میں ووٹ دینے کا معاہدے منحرف ہوگئی، ڈی یو پی نے تھریسا مے کی حکومت بحال رکھنے کے لیے ایک ارب پاؤنڈ کا معاہدہ کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسامے اور ڈی یو پی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت شمالی آئرلینڈ کی جماعت نے حکومتی قوانین کی حمایت میں ووٹ دینا تھا تاہم مذکورہ جماعت کے ممبران نے پارلیمنٹ لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ دے دیا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ بجٹ کی ووٹنگ کے دوران ڈی یو پی نے لیبر پارٹی کو ووٹ دیئے جس کے باعث تھریسامے کو اراکین پارلیمنٹ کے مطالبات ماننے اور اس بات کا تجزیہ کرنے پر راضی ہوئیں کہ بریگزٹ معاہدے کی منسوخی سے کیا مشکلات پیش آئیں گی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے تحت شمالی آئرلینڈ سے برطانیہ درآمد کیے جانے والے سامان پر کسٹمز چیک کی بات ہوئی تھی۔

    ڈی یو پی کی جانب سے بریگزٹ کے ترجمان سیمی ولسن کا کہنا تھا کہ تھریسامے ہمیں اعتماد میں لیے بغیر سودے بازی کا آغاز کیا، پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تھریسا مے کے خلاف ووٹنگ وزیر اعظم کے لیے پیغام ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ڈی یو پی کے اتحاد کے بغیر وزیر اعظم عوام سے بریگزٹ پلان منظور نہیں کرواسکتے۔

  • بریگزٹ ڈیل : تھریسا مے کاروباری طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک

    بریگزٹ ڈیل : تھریسا مے کاروباری طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک

    برطانوی وزیراعظم تھریسا نے بریگزٹ ڈیل پر تاجروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس سے یورپین یونین کے غیر تربیت یافتہ لوگ برطانیہ نہیں آسکیں گے، کاروباری طبقے نے ڈیل کی حمایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق تھریسا میں کنفیڈریشن آف بزنس انڈسٹری سے خطاب کررہی تھیں جہاں انہوں نے بزنس لیڈرز کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کی جانب سے ڈرافٹ کردہ بریگزٹ ڈیل کو مکمل حمایت حاصل ہے۔

    انہوں نے کہ اس منصوبے سے برطانیہ میں صرف صلاحیتوں کے حامل افراد ہی برطانیہ آسکیں گے اور اب یہ نہیں ہوگا کہ یورپی اقوام کے افراد کو ترجیح دی جائے۔ ہم سڈنی سے انجینئر اور دہلی سے سافٹ ویئر ڈیولپر بلو ا سکیں گے۔

    اس موقع پر سی بی آئی کے صدر جان الان نے ممبرانِ پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ وہ تھریسا مے کی جانب سے ڈرافٹ کردہ اس ڈیل کی حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈیل پرفیکٹ نہیں ہے لیکن ہمیں کاروبار اور ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات بھی دیکھنے ہوں گے اگر ہم ایسے ہی یورپین یونین سے نکل آئے تو اس کا نقصان زیادہ ہوگا۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم پر ٹوری پارٹی کے ممبران پارٹی کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس ڈیل میں تبدیلیاں لے کرآئیں ، بعض کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ڈیل سے بہتر تھا کہ کوئی ڈیل نہ ہوتی۔

    دوسری جانب 27 یورپی رکن ممالک کے وزرا نے برسلز میں ملاقات کی اور ڈیل پر مزید پیش رفت کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک سیاسی اعلامیہ تیارکرلیا جائے جس برطانیہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کی راہ متعین ہوسکے۔

    تھریسا کے کیبنٹ منسٹرز کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئرلینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے 585 صفحات پر مشتمل بریگزٹ پلان کا منصوبہ بدھ کے روز اپنی کابینہ کے سامنے رکھا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس پر عمل درآمد کرکے دکھائیں گی۔

    بریگزٹ کے حامی قدامت پسند سیاست دانوں کی جانب سے اس مسودے پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور ان میں سے کچھ نہیں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے بل جمع کرانا شروع کردیے ہیں ۔ اگر ان کی تعداد 48 تک پہنچ جاتی ہے تو تھریسا مے کو پارلیمنٹ سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا اور ایسی صورتحال میں یہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے خطرے کی شدید گھنٹی ہے۔

    بریگزٹ ڈیل کے مسودے کے منظرعام پر آنے کے بعد سے تھریسا مے کے لیے مشکلا ت کا سلسلہ جاری ہے، چند روز قبل ان کی کابینہ کے چار وزراء نے ڈیل کی مخالفت کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    استعفیٰ دینے والوں میں برطانوی حکومت کے بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب سرفہرست ہیں جبکہ ان کے ہمراہ ورک اور پنشن کی وزیر یستھر میکووے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں ہیں۔اس کے علاوہ جونیئر ناردرن آئرلینڈ منسٹر شائلیش وارہ، جونئیر بریگزٹ مسٹر سویلا بریور مین اور پارلیمنٹ کی پرائیویٹ سیکرٹری این میری ٹریولیان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

  • برطانوی وزیر اعظم شادی میں بن بلائے جا پہنچیں

    برطانوی وزیر اعظم شادی میں بن بلائے جا پہنچیں

    کسی کی شادی میں اگر وزیر اعظم شرکت کرنے پہنچ جائیں تو دلہا دلہن اور ان کے اہلخانہ خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں، ایسا ہی کچھ ایک برطانوی جوڑے کے ساتھ ہوا جن کی شادی میں وزیر اعظم تھریسا مے پہنچ گئیں وہ بھی بغیر دعوت کے۔

    مشال اور جیسن نامی اس جوڑے نے انگلینڈ کے ایک جزیرے میں بحری کشتی پر اپنی شادی کا انعقاد کیا تھا۔

    جب وہ ایجاب و قبول کی رسم ادا کر رہے تھے تو اچانک برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کشتی پر نمودار ہوئیں اور وہاں موجود تمام لوگ خوشی سے اچھل پڑے۔

    تھریسا مے اپنے شوہر فلپ کے ساتھ اسی جزیرے پر تعطیلات منانے آئی تھیں اور سوئے اتفاق شادی کی تقریب کے وقت وہ آس پاس ہی موجود تھیں۔

    جوڑے نے انہیں مدعو کیا کہ وہ ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں تو مے نے کہا کہ وہ ایسے لباس میں ملبوس نہیں جو کسی شادی میں شرکت کے لیے موزوں ہو، تاہم پھر بھی انہوں نے چند تصاویر بنوا لیں۔

    دلہا اور دلہن نے ان کی غیر متوقع آمد اور اپنی شادی کو یادگار بنانے پر ان کا بے حد شکریہ ادا کیا۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    کیپ ٹاؤن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ کے بعد افریقہ میں برطانوی سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کیا ہے، ان کی خواہش ہے برطانیہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے ان دنوں افریقہ کے دورے پر ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد یہ ا ن کا براعظم افریقہ کا پہلا دورہ ہے، انہوں افریقی ممالک میں چار بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔

    کیپ ٹاؤن میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ 4 بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے افریقی معیشتوں کی مدد کی جائے گی ، تاکہ وہ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرسکیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ اب امداد کو محدود مدت کے غربت مٹانے والے منصوبوں کے بجائے طویل المعیاد معاشی منصوبوں میں استعمال کیا جائے تاکہ معاشی صورتحال اور سیکیورٹی ایک ساتھ بہتر کی جاسکے۔

    تھریسا مے اپنے اس تین روزہ تجارتی مشن میں نائجیریا اور کینیا کا بھی دورہ کریں گی۔ اپنے جنوبی افریقا کے دورے پر روانگی کے وقت انہوں نے ان تمام وارننگز کو بھی رد کردیا جو کہ بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کے حوالے سے تھیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بری ڈیل کرنے سے ڈیل نہ کرنا بہتر ہے۔

    اپنے اس سہہ روزہ دورے میں تھریسا مے جنوبی افریقہ ، کینیا اور نائجریا کے صدور سے مالقات کریں گی جس کا مقصد افریقی ممالک سے مضبوط تجارتی روابط قائم کرنا ہے ۔ انہیں نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سنہ 2022 تک برطانیہ ، افریقی ممالک میں امریکا سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن جائے۔

  • برطانوی وزیر اعظم کی عمران خان کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    برطانوی وزیر اعظم کی عمران خان کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    اسلام آباد: برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے وزیر اعظم عمران خان کو منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لینے کے بعد عمران خان کو دنیا بھر سے مبارکبادیں موصول ہورہی ہیں۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بھی انہیں منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں تھریسا مے کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم سے بات کر کے خوشی ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔ باہمی تعاون، تجارتی اور سیکیورٹی معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی برطانوی وزیر اعظم نے عمران خان کو فون کیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاک برطانیہ تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کی نئی راہیں کھول کر پاکستان کی نئی حکومت کی مکمل معاونت کریں گے۔

    تھریسا مے کی جانب سے نیک تمناؤں کے اظہار پر وزیر اعظم عمران خان نے برطانوی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، انسداد منی لانڈرنگ کے لیے برطانیہ کے ساتھ اشتراک کے خواہاں ہیں۔

  • تھریسامے بریگزٹ منصوبے پرحمایت حاصل کرنے آسٹریا پہنچ گئیں

    تھریسامے بریگزٹ منصوبے پرحمایت حاصل کرنے آسٹریا پہنچ گئیں

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے بریگزٹ ڈیل سے متعلق معاملات طے کرنے کےلیے آسٹریا پہنچ گئیں جہاں آسٹرین چانسلر اور  وزیر اعظم چیک ریپبلک سے ملاقات بھی کریں گییں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اپنی سرکاری چھٹیوں پر جانے سے قبل آج یورپی یونین کے رکن ملک آسٹریا کے شہر سالسبرگ میں آسٹرین چانسلر سے ملاقات کریں گی جس میں بریگزٹ ڈیل سے متعلق گفتگو کی جائے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے آسٹرین چانسلر کی مہمان کے طور پر سالسبرگ میں منعقد ہونے والے میوزیکل فیسٹول میں شرکت بھی کریں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے آسٹریا میں چانسلر کرز اور چیک ری پبلک کے وزیر اعظم اینڈریج بابس سے بھی بریگزٹ ڈیل کے حوالے سے بات چیت کریں گی،

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کا خیال ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے بنائے گئے منصوبے پر آسٹریا اور چیک ریپبلک کی حمایت حاصل کرلیں گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کے چیف جین کلاؤڈ جنکر نے تھریسا مے کے بریگزٹ منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔

    برطانوی حکام اور یورپی یونین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رواں برس اکتوبر تک بریگزٹ سے متعلق حتمی معاہدہ طے کرلیا جائے، کیوں کہ مارچ 2019 میں برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ ڈیل کے حوالے یورپی یونین اور برطانوی حکام کی تیاری مذاکرات کے اختتام جاری رہے گی چاہیے معاہدہ نہ بھی ہوسکے۔

    خیال رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے مذاکرات خود کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ وزیر برائے بریگزٹ کو بریگزٹ کے حوالے سے ملک کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ذمہ دی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ مذاکرات خود کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا تھا، جب وفاقی کابینہ میں بیشتر وزراء استعفے دے رہے ہیں اور بریگزٹ ڈیل میں مسلسل تاخیر کے باعث عوام میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت گرنے کا خطرہ بڑھ گیا

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت گرنے کا خطرہ بڑھ گیا

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کی حکومت گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے استعفیٰ دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے ستارے ان دنوں گردش میں ہیں کیونکہ ان کی حکومت گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

    بورس جانسن نے استعفیٰ بریگزٹ کے وزیر کے استعفے کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا، تھریسامے کابینہ کے مزید وزراء کے استعفوں کا بھی امکان ہے۔

    قبل ازیں بریگزٹ امور کے نگراں وزیر ڈیوڈ ڈیوس اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے، ڈیوس نے اپنے استعفے کا اعلان لندن میں ملکی کابینہ کے اس فیصلے کے دو روز بعد کیا کہ برطانیہ یورپی یونین سے اپنے اخراج کے بعد بھی اس بلاک کے ساتھ اپنے قریبی اقتصادی روابط قائم رکھے گا۔

    ڈیوڈ ڈیوس کو بریگزٹ کے حوالے سے ایک سخت گیر سوچ کا حامل سیاست دان تصور کیا جاتا ہے اور وہ اس بارے میں وزیر اعظم تھریسامے کے موقف کی مخالف کرتے ہوئے ماضی قریب میں کئی بار اپنی ذمے داریوں سے مستعی ہوجانے کی دھمکی دے چکے تھے۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے اور ان کی کابینہ چاہتی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین بریگزٹ کے بعد بھی آزاد تجارتی معاہدوں پر عمل پیرا رہیں۔ لیکن وزیر اعظم کی متنازعہ تجویز پر ڈیوڈ ڈیوس نے مہر ثبت کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 44 برس کے ڈومینک راب پیشے سے وکیل ہیں، جنہوں نے سنہ 2010 میں برطانوی سیاست میں قدم رکھا اور ایم پی منتخب ہوئے۔ ڈومینک راب سنہ 2015 سے برطانیہ کی وفاقی کابینہ میں وزیر انصاف اور وزیر ہاوسنگ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔