Tag: Theresa May

  • برطانوی وزیر ڈومینک راب بریگزٹ امور کے نئے وزیر مقرر

    برطانوی وزیر ڈومینک راب بریگزٹ امور کے نئے وزیر مقرر

    لندن : بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ ڈیل بعد بھی یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا رہنے کے متنازعے فیصلے پر استعفیٰ دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر برائے بریگزٹ امور ڈیوڈ ڈیوس نے دو روز وفاقی کابینہ کے بریگزٹ کے بعد بھی یورپی یونین کے ساتھ اقتصادی روابط قائم رکھنے کے فیصلے پر استعفیٰ دے دیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس برطانوی وزیر اعظم کے بریگزٹ کے معاملے پر نرم مؤقف اختیار کرنے پر کئی مرتبہ مستعفی ہونے کی دھمکیاں دے چکے تھے تاہم اس مرتبہ وہ سچ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کو گذشتہ روز خط ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ ’میں ملکی وزیر اعظم کے ڈیفنس کیڈٹ کی حیثیت سے امور کی انجام دہی نہیں کرسکتا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ ڈیوس کے برطانوی وزیر اعظم کے بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ معاملات کے حوالے فیصلہ کرنے کے محض 48 گھنٹے بعد ہی استعفے نے تھریسا میں کا بطور وزیر اعظم مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے اور ان کی کابینہ چاہتی ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین بریگزٹ کے بعد بھی آزاد تجارتی معاہدوں پر عمل پیرا رہیں۔ لیکن وزیر اعظم کی متنازعہ تجویز پر ڈیوڈ ڈیوس نے مہر ثبت کردی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم نے بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس کی جانب سے اچانک استعفیٰ دینے کے بعد برطانیہ کے وزیر برائے ہاوسنگ ڈومینک راب کو بریگزٹ امور کا نیا وزیر مقرر کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 44 برس کے ڈومینک راب پیشے سے وکیل ہیں، جنہوں نے سنہ 2010 میں برطانوی سیاست میں قدم رکھا اور ایم پی منتخب ہوئے۔ ڈومینک راب سنہ 2015 سے برطانیہ کی وفاقی کابینہ میں وزیر انصاف اور وزیر ہاوسنگ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • بریگزٹ کے معاملے پر تھریسا مے اور وزیر خارجہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے

    بریگزٹ کے معاملے پر تھریسا مے اور وزیر خارجہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے

    لندن : برطانیہ کے یورپی یونین سے تعلقات کے معاملے پر برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے اور وزیر خارجہ بورس جانسن کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے جمعے کے روز کابینہ کی میٹنگ کے دوران وزیر اعظم تھریسا مے کو مستقبل میں یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بنائے گئے منصوبے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے جمعے کے روز بریگزٹ کے حوالے منعقد ہونے والی میٹنگ کے دوران یورپی یونین سے تعلقات کے معاملے پر کابینہ کی حمایت حاصل کرلی ہے۔

    برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے تھریسا مے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے منصوبے کے تحت برطانیہ دوسروں کے قواعد پر عمل کرنے والا ملک بن جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر اعظم تھریسا مے کی کابینہ کے ارکان برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین آزاد تجارتی علاقے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی جانب سے بریگزٹ کی نرم شرائط کے باعث یورپی یونین سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے برطانوی پارلیمنٹ کے ٹوری ارکان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے پر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے، مظاہرین نے یورپی یونین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے جس میں بریگزٹ ڈیل کے خلاف کلمات درج تھے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ بل منظور کیا تھا، یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی سے متعلق بل پر کئی ماہ سے بحث جاری تھی، شاہی منظوری کے بعد بریگزٹ بل قانون کا درجہ حاصل کرلے گا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کا آغاز مارچ 2019 سے ہوگا اور دسمبر 2020 تک جاری رہے گا، اس دوران برطانیہ میں رہنے والے 45 لاکھ یورپی شہریوں کو برطانیہ جبکہ 12 لاکھ برطانوی شہریوں کو یورپی یونین میں آنے کی اجازت ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

    ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

    واشگنٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کیا، دونوں رہنماؤں نے ایران کے جوہرے معاہدے اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مکمل روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔

    امریکی صدر نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے عالمی قوتوں کے مشترکہ اقدام کی ضرورت پر زور دیا جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

    ٹرمپ اور تھریسامے نے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں پر بھی تبادلہ خیال کیا اور شمالی کورین رہنما کم جانگ ان سے گفتگو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: 12 مئی کوایران نیوکلیئرڈیل سےمتعلق اہم اعلان کروں گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ

    واضح رہے کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر سخت عالمی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جبکہ ایران نے جوہری پروگرام کو شفاف اور محدود رکھنے کی یقین دہائی کرائی تھی۔

    خیال رہے کہ عالمی قوتوں اور ایران کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی تجدید کے لیے ٹرمپ کو 12 مئی سے قبل فیصلہ کرنا ہے، ٹرمپ پہلے ہی معاہدے سے علیحدگی کا عندیہ دے چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر میکرون نے ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے ٹرمپ کو جوہری معاہدہ ختم نہ کرنے کا کہا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیاپر شیئر کریں۔  

  • عالمی برادری کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے: شاہد خاقان عباسی

    عالمی برادری کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے: شاہد خاقان عباسی

    لندن: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے.

    یہ بات انھوں‌ نے لندن میں‌ برطانوی ہم منصب سے ملاقات کے موقع پر کہی. ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا.

    [bs-quote quote=”گذشتہ 10سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک لاکھ پاکستانی متاثرہوئے” style=”style-2″ align=”left” author_name=”وزیر اعظم پاکستان”][/bs-quote]

    وزیراعظم نےبرطانوی ہم منصب کو دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں اور افغان امن میں‌ پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا. ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 10سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک لاکھ پاکستانی متاثرہوئے.

    انھوں نے مسئلہ کشمیر اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جائے اور وہاں کے باسیوں کو انصاف دلوایا جائے۔

    وزیراعظم نے پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ یواین چارٹرکےمطابق پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کےاستعمال کے خلاف ہے اور پڑوسی ممالک اور عالمی دنیا سے باہمی تجارت، سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے برطانوی اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے.

    اس موقع پر برطانوی وزیراعظم نےدہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا. برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے افغانستان میں امن کے لئے وزیراعظم کی کوششوں کی بھی تعریف کی.

    تھریسا مے نے کہا کہ پاکستان اوربرطانیہ کےدرمیان مضبوط تعلقات ہیں، برطانیہ اور پاکستان باہمی تجارت میں فروغ کےخواہاں ہیں.

    اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دولت مشترکہ اجلاس کے کامیاب انعقاد پر برطانوی وزیر اعظم کو مبارک باد پیش کی.

    یاد رہے کہ اس وقت وزیر اعظم لندن میں ہیں، جہاں انھوں نے دولت مشترکہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔


    وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی لندن پہنچ گئے 

  • شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا‘ برطانوی وزیراعظم

    شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا‘ برطانوی وزیراعظم

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ملک شام میں کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا تاکہ شامی شہریوں کومزید کیمیائی حملوں سے بچایا جاسکے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا، کارروائی بڑی حد تک کامیاب رہی۔

    تھریسامے کا کہنا تھا کہ بطوروزیراعظم شام میں فوجی کارروائی کا حکم دینا مشکل تھا لیکن یہ فیصلہ درست تھا، آئندہ بھی ضرورت پڑی تو کارروائی کی جائے گی۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حملےکا مقصد شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت ختم کرناتھا، کارروائی پیغام ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل قبول ہے۔

    تھریسامے کا کہنا تھا کہ ثبوت ہیں کہ شامی حکومت نے 4 مرتبہ کیمیائی ہتھیاراستعمال کیے، روس کوپتہ ہے کہ شامی حکومت کیمیائی ہتھیاراستعمال کررہی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ سب کے مفاد میں ہے، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال روکنے کے لیے اورکوششیں کریں گے۔

    تھریسامے کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کی پالیسی کے باعث ہزاروں افراد کوہجرت کرنا پڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی حکومت ماضی میں بھی کیمیائی ہتھیاراستعمال کرتی رہی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلے کوسفارتی سطح پرحل کرنے کی کوشش کی مگرکامیابی نہ ملی لیکن اس کے باوجود شام کے بحران کے سیاسی حل کے لیے پرامید ہیں۔

    امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام پرحملہ کردیا

    خیال رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون کے ساتھ شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ نے 23 روسی سفارت کاروں کو ملک بدرکرنے کا حکم جاری کر دیا

    برطانیہ نے 23 روسی سفارت کاروں کو ملک بدرکرنے کا حکم جاری کر دیا

    لندن : برطانوی وزیراعظم نے23روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا، سفارت کاروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں برطانیہ چھوڑکر چلے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق روس اور برطانیہ کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو زہر دینے پر روس کے23سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا۔

    برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے یہ حکم برطانیہ میں مقیم روسی جاسوس اور اس کی بیٹی  کو زہر دینے سے متعلق وضاحت دینے سے انکار پر جاری کیا گیا، اس کے علاوہ تھریسا مے نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کو برطانیہ کا دورہ کرنے کی دعوت بھی منسوخ کردی ہے۔

     تھریسا مے نے حکم دیا ہے کہ روس میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کی تقریب میں برطانوی شاہی خاندان شرکت نہیں کرے گا۔

    دوسری جانب 23روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کے احکامات پر روسی حکومت اور برطانیہ میں سفارتخانہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

    روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو اس کے اس اقدام کا جواب دس دن کے اندر دیں گے، اس حوالے سے روسی سفیر نے بتایا کہ سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا اقدام غیر منصفانہ،جارحانہ ہوگا، برطانوی سفارتکاروں کو بے دخل کیا تو اس کا بھرپور ردعمل دیا جائے گا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیراعظم نے اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔


    مزید پڑھیں: برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پرقاتلانہ حملہ


    یاد رہے کہ دس مارچ کو برطانوی شہر سلسبری میں 66 سالہ سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپل اور ان کی بیٹی 33 سالہ یولیا اسکریپل کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔


    مزید پڑھیں: ممکن ہے سابق روسی جاسوس کوروس نےزہردیا ہو‘ برطانوی وزیراعظم


    اس حوالے سے برطانوی پولیس کا کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹی کو اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل مواد سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

  • ممکن ہے سابق روسی جاسوس کوروس نےزہردیا ہو‘ برطانوی وزیراعظم

    ممکن ہے سابق روسی جاسوس کوروس نےزہردیا ہو‘ برطانوی وزیراعظم

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی کو دیا گیا اعصاب کو متاثر کرنے والا کیمیائی مواد روس میں بنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران کہا کہ عین ممکن ہے کہ روس میں تیار کردہ کیمیائی مواد سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی کو دیا گیا ہو۔

    تھریسا مے نے کہا کہ امریکہ نے بھی برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پرہونے والے قاتلانہ حملے میں روس کے ملوث ہونے کی تائید کی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم نے کہا تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ممکن ہے کہ برطانوی شہرسالسبری میں سرگئی اسکریپل اور ان کی بیٹی یولیا اسکریپل کو زہر دینے کا ذمہ دار روس ہے۔

    دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ سابق روسی جاسوس پرحملہ انتہائی شرمناک ہے جبکہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹیو لنبرگ نے کہا ہے کہ زہر کا استعمال ہولناک ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہے۔


    برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پرقاتلانہ حملہ


    خیال رہے کہ گزشتہ دنوں 63 سالہ سابق روسی ملٹری انٹیلیجنس آفیسر اور ان کی بیٹی کو برطانیہ کے شہر سالسبری کے سٹی سینٹر میں ایک بینچ پر تشویش ناک حالت میں پایا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • برطانیہ کےسعودی عرب سے تعلقات تاریخی اوراہم  ہیں‘ برطانوی وزیراعظم

    برطانیہ کےسعودی عرب سے تعلقات تاریخی اوراہم ہیں‘ برطانوی وزیراعظم

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ برطانیہ یمن میں سعودی کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے، یمن کی جائز حکومت کی درخواست پرسعودی عرب نے اقدامات کیے۔

    غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے ارکان پارلیمنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے سعودی عرب سے تعلقات تاریخی اوراہم ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے کہا کہ برطانیہ اورسعودی عرب میں انسداد دہشت گردی تعاون جاری ہے، دوطرفہ تعاون سےممکنہ دہشت گردی کے واقعات کا سدباب ہوا۔

    تھریسا مے نے ارکان پارلیمنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ یمن میں سعودی کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے، یمن کی جائز حکومت کی درخواست پرسعودی عرب نے اقدامات کیے، سعودی عرب کےاقدام کوسیکیورٹی کونسل کی تائیدحاصل ہے۔


    سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان برطانیہ پہنچ گئے


    خیال رہے کہ گزشتہ روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان برطانیہ کے سرکاری دورے پر لندن پہنچے جہاں ان کا استقبال وزیرخارجہ بورس جانسن اور برطانیہ میں سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف نے کیا، استقبال کرنے والوں میں ریاض میں تعینات سفیر سائمن کالیز بھی شامل تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانوی وزیراعظم کی امریکی صدرسےملاقات متوقع

    برطانوی وزیراعظم کی امریکی صدرسےملاقات متوقع

    واشنگٹن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اگلے ہفتے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے ملاقات کریں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے شہرڈیووس میں اگلے ہفتے عالمی اقتصادی فورم کا اجلاس ہوگا جہاں وزیراعظم تھریسا مے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گی۔

    وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاپتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تعلقات ہوں۔

    دوسری جانب برطانوی حکام نے سوئٹزرلینڈ کے شہرڈیووس میں وزیراعظم تھریسا مے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کو ٹویٹرپرنفرت انگیز ویڈیوز شیئرکرنے پرتنقید کا نشانہ بنایا تھا۔


    تھریسا مےمجھ پر نہیں، برطانیہ میں دہشت گردی پرتوجہ دیں‘ ڈونلڈٹرمپ


    بعدازاں امریکی صدر برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی جانب سے تنقید پرجواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان پر توجہ دینے کے بجائے برطانیہ میں دہشت گردی پر توجہ دیں۔

    واضح رہے کہ 12 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں برطانیہ کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • بریگزٹ مذاکرات میں پیش رفت ایک اہم قدم ہے‘ برطانوی وزیراعظم

    بریگزٹ مذاکرات میں پیش رفت ایک اہم قدم ہے‘ برطانوی وزیراعظم

    لندن : برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے حوالے سے یورپی یونین سے مذاکرات میں پیش رفت کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے حوالے سے یورپی یونین نے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھنے پراتفاق کیا ہے تاہم یورپی یونین نے برطانیہ سے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے وضاحب طلب کی ہے

    بریگزٹ مذاکرات کا پہلا مرحلہ اگلے سال زیربحث آئے گا جس میں برطانیہ کے مارچ 2019 میں پورپی یونین سے نکلنے کے بعد کے 2 سالہ عمل کی تفصیلات شامل ہیں۔

    جرمنی کی چانسلرانجیلا مرکل نے بریگزٹ مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ مزید مشکل ہوتا جائے گا۔

    دوسری جانب یورپین کونسل کے صد ڈونلڈٹسک نے کہا کہ 27 یورپی ممالک کے رہنما بریگزٹ مذاکرات کے دوسرے مرحلے پربات چیت کرنے کوتیار ہیں۔

    ڈونلڈ ٹسک نے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو اس مرحلے تک پہنچنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ یورپی یونین اگلے مرحلے کے لیے اندورنی تیاری بھی کرے گا۔

    برطانوی وزیراعظم نےیورپین کونسل کے صد ڈونلڈٹسک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ کے حوالے سے یورپی یونین سے مذاکرات میں پیش رفت کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فریقین کو مستقبل کے تعلقات پر بات چیت کا فوری آغاز کردینا چاہیے جس کے لیے جون 2016 میں برطانوی عوام نے ووٹ دیا تھا۔


    برطانوی عوام کا یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ


    یاد رہےکہ گذشتہ سال جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکل جانےکےحوالے سے ہونےوالےتاریخی ریفرینڈم میں 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کےحق میں ووٹ دیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔