Tag: theressa may

  • بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کی جائے، تھریسامے کی درخواست

    بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کی جائے، تھریسامے کی درخواست

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے یورپی یونین سے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں 30 جون تک توسیع کی درخواست کردی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان دسمبر 2016 سے طے شدہ بریگزٹ وقوع پذیر نہیں ہوسکا جس کی وجہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کا یورپی یونین کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر نہ پہنچنا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے نے ایک مرتبہ پھر یورپی یونین سے درخواست کی ہے کہ وہ بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کا اعلان کریں۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کی درخواست پر پہلے ہی 29 مارچ کو ہونے والے بریگزٹ کی تاریخ میں توسیع کرکے 12 اپریل کرچکا ہے ہے تاہم تھریسامے میں ڈیل کی منظوری لینے میں ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئیں جس کے بعد انہوں نے مزید توسیع کی استدعا کی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے کہا ہے کہ تھریسامے توسیع کی درخواست کے بجائے متبادل منصوبہ پیش کرے۔

    یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کی جانب سے تجویز دی گئی تھی کہ یورپی ممالک کے سربراہان بریگزٹ کی تاریخ میں ایک برس کی لچکدار توسیع کردیں لیکن یورپی ممالک برطانیہ کو مزید وقت دینے کےلیے تیار نہیں۔

    یورپی یونین کے رکن ممالک کا کہنا ہے کہ اگر بریگزٹ کی تاریخ میں 30 جون تک توسیع کی گئی تو برطانیہ یورپی یونین کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی بحیثیت رکن ملک استعمال کرسکتا ہے۔

    یورپی ممالک کی جانب سے برطانیہ کو عندیہ دیا گیا ہے کہ اگر 12 اپریل تک بریگزٹ معاہدہ منظور ہوگیا تو ٹھیک ورنہ برطانیہ کو بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے اہم ملاقات کریں گی

    خیال رہے کہ برطانوی اعظم تھریسامے بریگزٹ ڈیل سے متعلق مذاکرات کے لیے اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن سے خصوصی اور اہم ملاقات کریں گی تاہم ملاقات کے حوالے سے حتمی تاریخ سامنے نہیں آئی۔

    بریگزٹ ڈیل نہ ہونے کے باعث ملک میں سیاست کے علاوہ معاشی بحران کی صورت حال پیدا ہورہی ہے، امریکی ڈالر اور یورو کے مقابلے میں برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں صفر عشاریہ تین فیصد کمی نوٹ کی گئی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تھریسامے موجودہ صورت حال کے سبب شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، کئی کوششوں کے باوجود پارلیمنٹ رہنماؤں کو بریگزٹ پر قائل کرنے میں ناکام ہیں۔

  • بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    بریگزٹ : تھریسامے یورپی یونین سے بیک اسٹاپ مراعات کو محفوظ کریں، بورس جانسن

    لندن : سابق وزیر بورس جانسن نے تھریسامے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو محفوظ بنانے کیلئے شمالی آئرش بیک اسٹاپ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل منظور کروائیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر ہم فریڈم کلوز (یورپی یونین کے شہریوں کو رکن ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کی آزادی) برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو یہ بریگزٹ کی اچھی خبر ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایم پیز منگل کے روز وزیر اعظم تھریسامے کی ترمیم شدہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کریں گے، جو مستقبل میں بریگزٹ کی سمت طے کرے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ کے ڈپٹی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ سخت بارڈر کو روکنے کےلیے بیک اسٹاپ میں کی گئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے بیک اسٹاپ(اوپن بارڈر) ’انشورنس پالیسی‘ ہے، جس کے ذریعے یورپی یونین برطانیہ کے انخلاء کے بعد بھی شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رہے گی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کو یقین ہے کہ شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد قائم کرنا امن کے لیے خطرناک ہوگا لیکن بریگزٹ کے حامی ایم پیز بیک اسٹاپ پلان کو پسند نہیں کرتے۔

    بریگزٹ کے حامی ایم پیز کا خیال ہے کہ اگر بریگزٹ کے بعد ہی بیک اسٹاپ پلان رہا تو برطانیہ یورپی یونین سے انخلاء کے باوجود یورپی یونین کے قوانین میں بندھا رہے گا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیے تھے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خطرہ

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگ سکتا ہے، اندرونی خانہ جنگی ہوئی تو آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے، ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے فوج کی مدد کے ساتھ کرفیو کا آپشن بھی زیر غور کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل، تھریسامے نئے جذبے سے میدان میں آگئیں

    بریگزٹ ڈیل، تھریسامے نئے جذبے سے میدان میں آگئیں

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد بریگزٹ کو آگے بڑھانے کےلیے ایم پیز سے ملاقاتیں شروع کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف گزشتہ روز عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تھی، تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکی تھیں لیکن اپنی حکومت 306 ووٹوں کے مقابلے میں 325 ووٹوں سے اپنی حکومت بچالی تھی۔‌

    وزیر اعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ وہ نئے جذبے کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر گفتگو کرتے ہوئے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں پر بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے زور دیا۔

    تھریسامے نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم پیز ’بریگزٹ کے معاملے پر اپنی دلچسپی دکھائیں‘ اس موقع پر حکمران جماعت کی اتحادی جماعتیں لیبریشن ڈیموکریٹ، ایس این پی اور پلیڈ کیمرو کے سربراہان بھی موجود تھی۔

    خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو یورپی یونین سے نکلنے (بریگزٹ) کی منصوبہ بندی 21 جنوری کو لازمی پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ نئی منصوبہ بندی پارلیمنٹ میں پیش کرنا کوئی آسان ہدف نہیں ہوگا، لیکن ایم پیز کو قومی دلچسپی اور مفاد کیلئے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اتفاق رائے سے بریگزٹ معاہدے کو منظور کرنا چاہیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ توقع کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے بریگزٹ معاہدے کے حکومتی مخالفین اور ڈی یو پی سے ملاقات کریں گی۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 13 دسمبر کو بھی برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھی جس کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز روانہ ہوگئی تھیں۔

    یاد رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    گزشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی۔

    پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے کی جانے والی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پرعوامی بھروسے کو متاثر کرے گی، تھریسامے

    بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پرعوامی بھروسے کو متاثر کرے گی، تھریسامے

    لندن : وزیر اعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی جمہوریت پر عوام کے ناقابل یقین اعتماد کو تباہ کن حد تک متاثر کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے 15 جنوری کو پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کرائی جائے گی، لیکن حکمران جماعت کے کچھ ایم پیز اور اپوزیشن جماعتیں معاہدے کی مخالف ہیں۔

    تھریسامے نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے کالم میں کہا ہے کہ برطانیہ کا بغیر کسی معاہدے یا بریگزٹ کے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنا برطانیہ کے لیے خطرناک ہوگا۔

    برطانوی وزیر ٹرانسپورٹ سیکریٹری کرس گریلنگ کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی سے ملک میں انتہا پسندی فروغ ملے گا۔

    مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کرس گریلنگ کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے میں ناکام رہا تو یہ ان کروڑوں برطانوی شہریوں سے دھوکہ ہوگا، جنہوں نے بریگزٹ کو ووٹ دیا۔

    وزیر ٹرانسپورٹ بریگزٹ کی ناکامی سے برطانیہ میں صدیوں پرانی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ایم پیز وزیر اعظم کے بریگزٹ منصوبے کو ووٹ دے کر منظور کریں تاکہ عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا ہو۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    وزیر ٹرانسپورٹ کرس گریلنگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ 15 جنوری کو پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں ایم پیز کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کے بھی 100 ایم پیز معاہدے کے مخالف ہیں۔

    واضح رہے کہ کرس گریلنگ نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ برس دسمبر میں پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے حوالے سے ووٹنگ کا اعلان کیا تھا تاہم شکست کے خوف سے انہوں نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی تھی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    لندن : برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے بریگزٹ ڈیل کو پارلیمنٹ سئے منظور کروانے کے لیے کوئی راستہ نکال لیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے بدھ کے روز دورہ سنگاپور کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے شہری اپنے ملک کی یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

    وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ اب اگر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ نہ ہوا تو یہ جمہوریت کےلیے نقصان دہ ہوگا، بریگزٹ ڈیل کو ترک کرنے سے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔

    جیریمی ہنٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم تھریسا مے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے بریگزٹ معاہدے کی اراکین پارلیمنٹ سے منظوری کےلیے جلد کوئی راستہ نکالیں۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے 2018 دسمبر میں بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے پارلیمنٹ میں رائے شماری کروانی تھی جسے اچانک ملتوی کردیا تھا جو رواں ماہ کے وسط میں کرائی جائے گی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    واضح رہے کہ سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج

    لندن : برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف شدید احتجاج کیا، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ رواں برس کے اختتام پر یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، برطانیہ اور یورپی یونین حکام کے درمیان بریگزٹ معاہدے کی منظوری ہوچکی ہے اور اب برطانوی پارلیمنٹ نے بل منظور کرنا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے کے خلاف احتجاج کرنے والے برطانوی شہریوں نے وزیر اعظم کے بریگزٹ پلان کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے معاہدے کا مسودہ کل اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدہ مسترد کیے جانے کا امکان ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی کابینہ کے ارکان بھی بریگزٹ معاہدے کے مسودے کے خلاف ہیں کئی وزراء معاہدے کی مخالفت میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ لیگل ایڈوائس: تھریسا مےکے لیے نیا محاذ کھل گیا

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نےممبرانِ پارلیمنٹ سے معاہدے کی قانونی پوزیشن کی سمری دکھانے کا وعدہ کیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں ایڈوائس تک مکمل رسائی چاہتی ہیں۔ کچھ ممبران کا خیال ہے کہ شمالی آئرلینڈ کے معاملے پر پیدا ہونے والا تعطل حتمی شکل اختیار کرلے گا۔

    دوسری جانب مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سترہ ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا میں شائع کردہ ایک لیٹر کے ذریعے ایوان سے مطالبہ کیا ہے کہ جلداز جلد ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ‘ برطانوی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوگی

    خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔

  • بریگزٹ معاہدہ، تھریسامے کے قریبی ساتھی مائیکل فالن نے معاہدے کو بدترین قرار دے دیا

    بریگزٹ معاہدہ، تھریسامے کے قریبی ساتھی مائیکل فالن نے معاہدے کو بدترین قرار دے دیا

    لندن : امریکا اور برطانیہ کے درمیان تجارت میں رکاوٹ پیدا ہونے کی ٹرمپ کی دھمکی پر برطانوی وزیر اعظم کے ایک اور وزیر نے بریگزٹ ڈیل کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں 27 ممالک کے سربراہوں کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کے مسودے پر منظوری پر امریکی صدر نے کہا ہے کہ بریگزٹ ڈیل امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے انتباہ کے بعد تھریسا مے کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر دفاع مائیکل فالن نے بھی برہگزٹ معاہدے کے مسودے کو معاہدے کے حوالے سے بد ترین قرار دیتے ہوئے مسودے کی مخالفت میں آواز بلند کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کے قریبی ساتھی کی جانب سے مسودے کی مخالفت کے بعد برطانوی پارلیمنٹ سے مسودے کی منظوری مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔

    برطانوی وزیر مائیکل فالن کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ماہ بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں معاہدے کے خلاف حق رائے دہی استعمال کروں گا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے معاہدے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بیلفاسٹ کا سفر اختیار کرنے والی تھیں لیکن اب وہ ویلز میں سیاست دانوں اور کسانوں سمیت دیگر افراد سے خطاب کریں گی۔


    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل سے امریکا اوربرطانیہ کی تجارت ختم ہوسکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ


    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک روز قبل برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان ہونے والے متوقع بریگزٹ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ان کا خیالات کا اظہار واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کیا ان کا کہنا تھا کہ کہ بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بریگزٹ معاہدہ یورپین یونین کے لیے تو کئی فوائد لیے ہوئے ہے لیکن اس کے بعد شاید برطانیہ ہمارے ساتھ تجارت نہ کرسکے۔

    امریکی صدر کے مطابق معاہدے کی شق نمبر 10 کے تحت برطانیہ کو دنیا بھر کےممالک سے نئے تجارتی معاہدے کرنے ہوں گے ۔

  • تھریسامے کی حکومت تقسیم ہوچکی ہے، لیبر پارٹی

    تھریسامے کی حکومت تقسیم ہوچکی ہے، لیبر پارٹی

    لندن : برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے تھریسا مے کو تنقید کی زد میں لاتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم جو حکومت چلارہی ہیں وہ منقسم ہوچکی ہے، ٹوری پارٹی کے اپم پیز اپنی ہی حکومت اور قیادت پر تنقید کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے پر لیبر پارٹی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ایسی حکومت کی قیادت کر رہی ہیں جو تقسیم ہوچکی ہیں، جس کا واضح ثبوت کنزرویٹیو پارٹی کے ایم پیز ہیں جو کھلے عام حکومت اور اپنے پارٹی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی کے سالانہ اجلاس سے قبل برطانیہ کی اپوزیشن پارٹی ’لیبر‘ کا کہنا ہے کہ ایک برس کے دوران 100 سے زائد حکومتی پارٹی کے اراکین اپنی ہی حکومت اور ساتھیوں کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے زیادہ تر تنقید وزیر اعظم تھریسا مے کو بنایا گیا ہے جبکہ کچھ نے اپنے ساتھیوں کو ہدف بنایا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے حوالے سے وزیر اعظم تھریسا مے کے تیار کردہ چیکرز پلان کے باعث حکومت اور وزیر اعظم پر زیادہ تنقید کی جارہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سابق وزیر برائے بریگزٹ امور سٹیو بیکر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے چیکرز پلان سے ٹوری پارٹی تقسیم ہو جائے گی، تھریسا مے کے اتحادی سمجھے جانے والے مائیک پیننگ نے چیکرز پلان کو مردہ قرار دیا۔


    مزید پڑھیں : لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن


    یاد رہے کہ برطانوی اخبار میں تحریر کیے گئے کالم میں سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے وزیر اعظم تھریسامے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا تھا کہ سنہ 2016 برطانوی عوام نے اپنی آزادی کے لیے بریگزٹ کو ووٹ دئیے تھے لیکن حکومت ان کی امید کو پورا نہیں کرسکی۔

    سابق وزیر خارجہ نے ٹوری کانفرنس سے پہلے ہی تھریسامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیکرز پلان مضحکہ خیز اور جمہوری تباہی پر مبنی ہے، چیکرز پلان اخلاقی طور پر توہین آمیز ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل، تھریسا مے نے مذاکرات کرنے کا بیڑا اٹھالیا

    بریگزٹ ڈیل، تھریسا مے نے مذاکرات کرنے کا بیڑا اٹھالیا

    لندن : برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ وزیر ڈومنیک راب کو بریگزٹ معاملات سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کرنے کا بیڑہ خود اٹھالیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے ملک برطانیہ کی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے مذاکرات خود کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ وزیر برائے بریگزٹ کو بریگزٹ کے حوالے سے ملک کے داخلی معاملات پر توجہ دینے کی ذمہ دے دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ مذاکرات خود کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب وفاقی کابینہ میں بیشتر وزراء استعفے دے رہے ہیں اور بریگزٹ ڈیل میں مسلسل تاخیر کے باعث عوام میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ اگلے برس یورپی یونین کی رکنیت کو برطانیہ ترک کردے گا، تاہم اب تک یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہیں ہوسکا ہے۔

    بریگزٹ امور کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ ڈیل بعد بھی یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا رہنے کے متنازعے فیصلے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد تھریسا مے نے سخت مؤقف رکھنے والے ڈومنیک راب کو بریگزٹ کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا تھا۔

    یورپی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کو بریگزٹ ڈیل کے منصوبے پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے بیشتر قانون سازوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیوں کہ وفاقی وزراء یورپی یونین سے واضح طور پر علیحدگی چاہتے ہیں۔

    برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شیڈو کی جانب سے تھریسا مے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’برطانوی وزیر اعظم نے ڈومنیک راب کو بریگزٹ وزیر منتخب ہوتے ہی ایک طرف کردیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برطانیہ کا مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان

    برطانیہ کا مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان

    لندن/برسلز: برطانوی وزیر اعظم نے 440 نان کمبیٹ فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں فوج کی تعیناتی کا مقصد افغان شہریوں کی سلامتی اور ملکی استحکام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک بیلجیم میں دو روزہ نیٹو سمٹ کے اجلاس کا آغاز سے ہوگیا ہے، جس میں وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی افواج کے 440 نان کمبیٹ فوجی اہلکاروں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے 440 فوجی بھیجنے کے بعد افغانستان میں نیٹو مشن کے لیے برطانوی فوجیوں کل تعداد 1 ہزار 30 فوجی ہوجائے گی۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی جانب سے برطانوی افواج کی فوٹ رجمنت کے ولیش گارڈز کے آدھے اہلکاروں کو رواں برس اگست میں افغانستان بھیجا جائے گا جبکہ باقی اہلکاروں کو فروری 2019 میں روانہ کیا جائے گا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں فوج تعینات کرنے کا مقصد افغان شہریوں کی سیکیورٹی و ملکی سلامتی اور استحکام میں مدد کرنا ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ افغان کے عروج کے وقت نیٹو کے 50 رکن ممالک کے 1 لاکھ 30 ہزار فوجی افغانستان میں تعینات تھے، جن میں ساڑھے 3 ہزار فوجی اہلکار اور صوبہ ہلمند میں 137 فوجی چھاونیاں صرف برطانیہ کے پاس تھیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ تک نیٹو کے 39 رکن ممالک کے 16 ہزار فوجی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود ہیں، جو افغان فورسز کی جنگی تربیت پر کام کررہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں