Tag: Thyroid

  • کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کا شکار افراد کو مختلف طبی مسائل میں مبتلا دیکھا گیا ہے تاہم اب ایک مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے امراض پیدا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    گزشتہ ماہ مئی کے اختتام پر یورپین سوسائٹی ف اینڈو کرونالوجی کے سیمینار میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے فوری بعد کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں ہوتے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پیچیدگیاں بڑھنے لگتی ہیں۔

    اٹلی کی یونیورسٹی آف میلان کے ماہرین کی جانب سے 100 افراد پر کی جانے والی مختصر تحقیق میں ان افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کرونا سے شدید بیمار ہوئے تھے اور ان میں کافی عرصے تک علامات پائی گئی تھیں۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے متاثرہ افراد کے صحت یابی کے فوری بعد ٹیسٹس کرنے سمیت 6 ماہ اور ایک سال بعد بھی ٹیسٹس کیے اور ان کے الٹراساؤنڈ بھی کیے۔

    تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے فوری بعد ان میں کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں پائے گئے، تاہم بعض افراد میں 6 ماہ بعد تھائیراڈ کی پیچیدگیاں شروع ہونے لگیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ بعض افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے مسائل ہونے لگے تھے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر افراد میں تھائیراڈٹس کی بیماری پائی گئی، جس میں تھائیراڈ میں سوجن اور جلن ہوتی ہے اور تھائیراڈ ہارمونز بنانے کی سطح کم کردیتا ہے، اس سے متاثرہ شخص میں تھکاوٹ سمیت اس کے وزن میں کمی کے علاوہ کئی مسائل ہونے لگتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ بعض افراد میں تھائیراڈ کے دیگر مسائل بھی پائے گئے، تاہم زیادہ تر لوگ تھائیراڈٹس کا شکار بنے۔

    تھائیراڈ ایک عضو ہے جو کہ انسان کے گلے میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کام جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا اور خصوصی طرح کے ہارمونز پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تھائیراڈ 2 ہارمونز بناتا ہے جو خون میں داخل ہوتے ہیں، جن سے انسانی جسم متحرک رہتا ہے اور یہ انسانی مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر تھائیراڈ میں کوئی خرابی ہوجائے تو مختلف مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

  • گلے کی خرابی سے نجات پانا بہت آسان

    گلے کی خرابی سے نجات پانا بہت آسان

    موسم سرما میں گلے کی خراش اور تکلیف عام بات بن جاتی ہے جو بعض اوقات شدت بھی اختیار کر لیتی ہے، تاہم اس سے آسانی سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ناریل کے باقاعدہ استعمال سے آپ گلے کی خرابی سے نجات پاسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناریل کا تیل گلے کی تکالیف کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ناریل کے تیل کا صرف ایک یہی فائدہ نہیں ہے، ماہرین صحت و غذائیت کے مطابق اس کا ایک اور فائدہ قوت مدافعت میں اضافہ کرنا اور میٹا بولزم کو بہتر بنانا ہے۔

    ناریل کا تیل میٹا بولزم یعنی جسم میں موجود غذائی اجزا کو توڑ کر ان سے توانائی حاصل کرنے کے عمل کو تیزی سے انجام دیتا ہے جس کے باعث وزن میں کمی ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ناریل کے تیل میں موجود چکنائی انسانی جسم کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔

    ماہرین غذائیت کہتے ہیں کہ اپنے کھانوں میں باقاعدگی سے ناریل کے تیل کے 3 چمچے ملانے سے ہم اس کے تمام فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔

  • اپنا موڈ خراب نہ کریں ورنہ ۔۔۔!!

    اپنا موڈ خراب نہ کریں ورنہ ۔۔۔!!

    اگر آپ نے اپنا موڈ زیادہ دیر تک خراب رکھا تو یہ آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اس کے علاوہ گلے کی سوجن کو معمولی نہ سمجھیں آیوڈین کی کمی گلے کی بیماری کا سبب بن سکتی ہے۔

    گردن کے نچلے حصے میں موجود بظاہرایک چھوٹا سا غدود جو عام طور پر تھائیرائیڈ گلینڈز کے نام سے جانا جاتا ہے جسم کے تمام افعال میں باقاعدگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    یہ باقاعدگی تب ہی ممکن ہے جب یہ گلینڈ ایک خاص مقدار میں جسم کے تمام خلیوں کو توانائی دینے والے ہارمونز خارج کرتا رہے۔ ان ہارمونز کی کمی یا زیادتی تھائیرائیڈ گلینڈ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    تھائیرائیڈ سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کیلئے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر اینڈو کرینو لوجسٹ ڈاکٹر سید حسن محمد نے بتایا کہ تھائیرائیڈ گلینڈ گلے میں ہوتا ہے اور اس کا عمومی کام جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔۔

    ڈاکٹر حسن نے کہا کہ یہ دو ہارمونز بناتا ہے جو خون میں شامل ہوتے ہیں، پہلا تھائروکسی (ٹی 4) اور دوسرا ٹرائیوڈوتھیرون (ٹی 3)۔ اگر یہ گلینڈ ضرورت سے زیادہ فعال ہوجائے تو اس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، کھانا ہضم کرنے کی رفتار معمول سے بڑھ جاتی ہے اور جسمانی توانائی میں بہت زیادہ تغیر دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر تھائیرائیڈ کا جلدی علاج نہ کیا جائے تو وزن بے انتہا زیادہ ہوسکتا ہے اور دل کام کرنا چھوڑ سکتا ہے یعنی مریض کا ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ہائپوتھائیرائیڈازم ضرورت سے زیادہ فعال ہو جائے تو اس کے نتیجے میں مریض میں لاتعلقی کا رجحان دیکھا جاتا ہے یعنی مریض کا موڈ خراب رہتا ہے، اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور کسی سے ملنا پسند نہیں کرتا۔

    اس کے ساتھ ساتھ اسے بے انتہا کمزوری کا بھی احساس ہوتا ہے اور دل کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں تاہم خوش قسمتی سے زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرنے سے بہت پہلے ہی اس کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ آئیوڈین کی کمی تھائیرائیڈ کی بیماری کا سب سے بڑا سبب ہے جو پیدائشی طور پر کسی بھی انسان میں کم ہوسکتا ہے۔ جسم کو اگر مناسب مقدار میں آئیوڈین نہیں مل رہا ہے تو اس سے (گوئٹر) کا مرض بھی ہوسکتا ہے جس میں تھائیرائیڈ پھول جاتا ہے اور حلق سُوجا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ کئی دفعہ تھائیرائیڈ کی سوزش کا سبب آئیوڈین کی کمی ہوتا ہے اور یہ سوزش آگے بڑھ کر حلق کے کینسر بھی بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔