Tag: Toddlers

  • 3 سال کے بچوں کے لیے بھی کرونا ویکسین کی منظوری

    3 سال کے بچوں کے لیے بھی کرونا ویکسین کی منظوری

    بیجنگ: چین نے 3 سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے کرونا وائرس ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی، چین اس عمر کے بچوں کے لیے ویکسی نیشن کی منظوری دینے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں 3 سال کی عمر کے بچوں کے لیے کووڈ 19 ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    چین کی جانب سے سائنو ویک بائیوٹیک کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین کو بچوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب مختلف رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ بچوں اور نوجوانوں سے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی شرح بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے۔

    اب تک دنیا کے مختلف ممالک جیسے سنگاپور، امریکا اور یورپ وغیرہ میں 12 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کے لیے کووڈ ویکسینز استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے، تاہم اس سے کم عمر بچوں کے لیے ابھی ویکسینیشن نہیں ہورہی۔

    4 جون کو سائنوویک بائیوٹیک کے چیف ایگزیکٹو ین وائی ڈونگ نے چینی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے بچوں میں ایک کلینکل تحقیق کی گئی تھی جس کا آغاز 2021 کے شروع میں کیا گیا تھا، جس کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز مکمل ہوگئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سینکڑوں کیسز سے ثابت ہوا کہ ویکسی نیشن کے بعد 3 سے 17 کی عمر کے گروپ کو بھی 18 سال کے بالغ افراد کے گروپ جتنا تحفظ ملا۔

    عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں سائنو ویک ویکسین کو بالغ افراد کے لیے استعمال کرنے کی ہنگامی منظوری دی تھی۔ انہوں نے ٹرائلز میں شامل بچوں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ویکسین بچوں میں بالغ افراد جتنی مؤثر اور محفوظ ثابت ہوئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہی ویکسین، اتنی ہی مقدار میں 3 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ خیال رہے کہ بچوں میں عموماً کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے۔

  • ٹچ اسکرین سے کھیلنے والے بچے نیند کی کمی کا شکار

    ٹچ اسکرین سے کھیلنے والے بچے نیند کی کمی کا شکار

    پیرس: آج کل کے جدید دور میں ننھے بچوں کا کھلونوں اور جھنجھنوں سے کھیلنا تو پرانی بات ہوگئی، اب بچے اپنے والدین کے اسمارٹ فونز سے کھیلتے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عادت کمسن بچوں میں نیند کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔

    جرنل سائنٹفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق 6 ماہ سے 3 سال کی عمر تک کے بچوں پر ٹچ اسکرینوں کے استعمال سے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق جیسے جیسے بچوں کا اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس یا آئی پیڈز سے کھیلنے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کی نیند کے دورانیے میں کمی آتی جاتی ہے۔

    اوسطاً ایک گھنٹہ ٹچ اسکرین کا استعمال 24 گھنٹوں کے دوران کی جانے والی نیند کے دورانیہ میں 16 سے 20 منٹ کی کمی کردیتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹچ اسکرینوں کا استعمال کمسن بچوں کی صحت پر مزید کیا منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی بہتر ذہنی نشونما کے لیے نیند بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    وہ بچے جو بچپن سے ہی ویڈیو گیمز کھیلنے یا بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ نیند کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ذہنی نشونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    یاد رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 12 سال سے کم عمر بچے 6 سے ساڑھے 6 گھنٹے مختلف اسکرینز جن میں موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ شامل ہیں کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل کی اسکرین نیلے رنگ کی ہوتی ہیں اور یہ رنگ دیگر تمام رنگوں سے زیادہ توانائی کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ نیلی اسکرینز بہت شدت سے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کی آنکھوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ آنکھ کے پردے کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور ہمیشہ کے لیے نابینا بھی کر سکتی ہے۔

    مستقل روشن یہ اسکرین تمام عمر کے افراد کی آنکھوں پر نہایت خطرناک اثر ڈالتی ہیں اور یہ نظر کی دھندلاہٹ، آنکھوں کا خشک ہونا، گردن اور کمر میں درد اور سر درد کا سبب بنتی ہیں۔

    ان تمام بیماریوں کو ماہرین نے ڈیجیٹل بیماریوں کا نام دیا ہے جو آج کے ڈیجیٹل دور کی پیداوار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس اسکرین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا دماغی کارکردگی کو بتدریج کم کردیتا ہے جبکہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔

    موبائل کے متواتر استعمال سے بچے اور بڑے رات میں ایک پرسکون نیند سونے سے محروم ہوجاتے ہیں اور سونے کے دوران بار بار ان کی نیند میں خلل بھی پڑتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔