جنوبی افریقا ٹیم کے کپتان ٹیمبا باووما نے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میں سنسنی خیز لمحات میں اپنی غیر موجودگی سے متعلق بتا دیا۔
جنوبی افریقا کرکٹ ٹیم کے کپتان ٹیمبا باووما نے میچ کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ لنچ بریک کے دوران زیادہ بات چیت نہیں ہوئی تھی، ہم سب صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان تھے۔
جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ ٹیسٹ کے اختتامی لمحات میں پوری ٹیم نروس تھی اور میں اس صورتحال میں، میں ٹوائلٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔
ٹیمبا باووما کا کہبا تھا کہ یہ کامیابی مجھ سمیت پوری ٹیم کے لیےجذباتی حیثیت رکھتی ہے، میچ میں کافی اتار چڑھاؤ آئے مگر خوشی ہے نتیجہ ہمارے حق میں آیا۔
یاد رہے کہ اتوار کو لنچ بریک سے قبل یکے بعد دیگر وکٹیں گرنے سے جنوبی افریقی ٹیم دباؤ کا شکار ہوگئی تھی تاہم وقفے نے وکٹ پر موجود بیٹرز کو سنبھلنے کا موقع دیا اور انھوں نے باقی رنز بناکر ٹیم کو 2 وکٹ سے فتح دلائی۔
خیال رہے کہ سنچورین ٹیسٹ میں جنوبی افریقا نے پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے میں دو وکٹوں سے شکست دے کر دو میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری کے ساتھ اگلے سال ہونے والے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں بھی جگہ پکی کرلی۔
چھانگا مانگا: پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چھانگا مانگا کی ایک لڑکی کو تین درندہ صفت لڑکوں نے اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جب وہ گھر میں واش روم نہ ہونے کے سبب کھیت میں گئی تھی۔
تفصیلات کے مطابق چھانگا مانگا میں کوٹ وٹواں کے رہائشی طفیل کی 13 سالہ بیٹی سے 3 لڑکوں کی اجتماعی زیادتی کی افسوس ناک خبر سامنے آئی ہے، واقعے کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کروا لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق محنت کش طفیل کی بیٹی گھر میں واش روم نہ ہونے پر کھیت میں گئی تھی، فصلوں میں چھپے سیف اللہ، تنویر اور طاہر نے اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، بعد ازاں، پولیس نے لڑکی کو تشویش ناک حالت میں ٹی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا۔
ویمن میڈیکل آفیسر ٹی ایچ کیو اسپتال نے میڈیکل میں زیادتی کی تصدیق کر دی، میڈیکل آفیسر کا کہنا تھا کہ تیرہ سالہ بچی کی گردن اور جسم کے دیگر حصوں پر تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں۔
ڈی پی او قصور نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے، جن کے حکم پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے 6 رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ محنت کش کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔
ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔
سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال
صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید ابتر
پاکستان میں رواں برس آنے والے سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے، کروڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ریلیف کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان کیمپس میں مناسب بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے اور ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔
زیادہ تر کیمپس میں لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس سے کیمپس میں آلودگی پھیل رہی ہے نتیجتاً لٹے پٹے، بیمار اور کم خوراکی کا شکار سیلاب متاثرین اسہال، ٹائیفائڈ، جلدی اور سانس کے امراض اور دیگر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس صورتحال کو طبی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل ہے تاکہ صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جاسکے۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
Everyone has the right to safe and hygienic sanitation services that provide privacy and ensure dignity.
ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔
سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
Life without a toilet is dirty, dangerous and undignified.
Every day, 700 children under 5 die from diseases linked to unsafe water and sanitation. Toilets save lives.
دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال
صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
In Pakistan, 16M people practice open defecation including a big number of women & children. To fight climate change, we need to ensure accessible toilet facilities for all. Join hands for sustainable sanitation on this World Toilet Day#Valuingtoilets#WorldToiletDay#WTD2021pic.twitter.com/ZjWRV9e4GL
واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
عدم توجہی کا شکار سینیٹری ورکرز
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 290 ارب کلو انسانی فضلہ پیدا ہوتا ہے جنہیں ٹھکانے لگانے والے سینیٹری ورکرز بدترین حالات کا شکار ہیں۔
پاکستان میں کرونا وبا کے دوران جہاں ہر اس شعبے میں کام کرنے والے افراد کی تکریم کی گئی جو اس وبا کے دوران گھروں سے نکلے اور نہایت ضروری خدمات انجام دیں، وہیں اس سارے عرصے کے دوران سینیٹری ورکرز کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی جو صفائی ستھرائی کا عمل سر انجام دے کر کووڈ کی وبا کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے والے سینیٹری ورکرز ایک طرف تو سخت معاشی مسائل کا شکار ہیں وہیں سماجی طور پر بھی ان سے بدترین رویہ رکھا جاتا ہے۔
سینیٹری ورکرز کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔
اس تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں 1998 سے 2007 تک 70 سیورمین گٹروں کو صاف کرنے کے دوران حادثاتی طور پر انتقال کرگئے۔
صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 1988 سے 2012 تک 70 سینیٹری ورکرز اور سیورمین کام کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ 2011 سے 2019 تک پاکستان بھر میں بند گٹروں کو کھولنے کی کوشش کے دوران بھی 16 گٹر مین ہلاک ہوئے۔
واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں صحت و صفائی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اس وقت تک ناکام ہیں جب تک سینیٹری ورکرز کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، ان کے معاشی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اور ان سے برتی جانے والی سماجی تفریق ختم نہیں کی جاتی۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان کی 10 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے۔
اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
Everyone has the right to safe and hygienic sanitation services that provide privacy and ensure dignity.
دنیا بھر میں 60 کروڑ سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا کی صرف 45 فیصد آبادی کو صاف ستھرے اور محفوظ ٹوائلٹ میسر ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں 3 ارب افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔
صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 800 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
اسی طرح گندے پانی سے ہونے والی بیماریاں ہر سال دنیا بھر میں 8 لاکھ 29 ہزار افراد کی جان لے لیتی ہیں۔
پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے، یہ تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے اور زیادہ تر دیہات یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔
Every child deserves access to a clean and safe 🚽
no matter where they are in the 🌎.
دوسری جانب سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی سنہ 2023 تک ملک کی تمام آبادی کے لیے ٹوائلٹس تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سیاحت میں کمی کی وجہ پبلک ٹوائلٹس کی عدم فراہمی بھی ہے۔
کچھ عرصہ قبل اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے تمام پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کو اپنے واش رومز صاف رکھنے کا آرڈر چلا گیا ہے، ہر ٹوائلٹ کے باہر ایک واٹس ایپ نمبر دیا جائے گا جس پر گندے ٹوائلٹس کی تصاویر بھیجی جاسکیں گی، اس کے بعد مذکورہ پمپس اور اسٹیشن مالکان کو جرمانہ کیا جائے گا۔
32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔
رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔
رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔
یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔
صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔
مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے
گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔
طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔
اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔
گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘
رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ
یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔
گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔
باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔
ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔
نو تعمیر شدہ بیت الخلانو تعمیر شدہ بیت الخلا
اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘
منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔
کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟
حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘
عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔
بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟
محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘
ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔
ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔
ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہماری زندگیوں میں بیت الخلا کی موجودگی کی اہمیت اور پسماندہ علاقوں میں اس کی عدم فراہمی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔
اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
➡️ 4.2 billion live without safely-managed sanitation
➡️ 673 million practice open defecation
➡️ 3 billion lack basic hand-washing facilities
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 4 ارب سے زائد افراد ایک مناسب بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں، لگ بھگ 70 کروڑ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، جبکہ 3 ارب افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔
صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 2 لاکھ 80 ہزار اموات ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال
بھارت میں واش رومز کی تعمیر پر اس قدر سرعت سے کام کیا گیا کہ رواں برس بھارت کو کھلے میں رفع حاجت کے رجحان سے پاک قرار دیا جاچکا ہے، نیپال بھی اس فہرست میں شامل ہوچکا ہے، تاہم پاکستان میں اب بھی ڈھائی کروڑ افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
یونیسف کے مطابق پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔
For billions of people around the 🌏, sanitation systems are either non-existent or ineffective.
یونیسف ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے روزانہ پانچ سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
نئی صدی کے آغاز میں طے کیے جانے والے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز میں (جن کا اختتام سنہ 2015 میں ہوگیا) صاف بیت الخلا کی فراہمی بھی ایک اہم ہدف تھا۔ پاکستان اس ہدف کی نصف تکمیل کرنے میں کامیاب رہا۔
رپورٹس کے مطابق سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔
سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
پاکستان اس ہدف کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں یونیسف کی ترجمان انجیلا کیارنے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا کے استعمال اور صحت و صفائی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اور آگاہی مہمات چلائی جانی ضروری ہیں۔
واشنگٹن : امریکی پولیس نے گٹر بندکرنے کے عادی26 سالہ پیٹرم نامی مجرم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا جسے عدالت نے قید بامشقت اور ہزاروں ڈالر جرمانے کی سزا سنادی۔
تفصیلات کے مطابق امریکا میں ایک شخص عجیب و غریب جرم میں پکڑا گیا، اسے ”گٹر بند کرنے کا عادی مجرم“ قرار دیا گیا ہے جس کے بعد اسے 5 ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ 26 سالہ پیٹرک ڈی بیمان نے کئی دفعہ بیت الخلا میں پلاسٹک کی بوتلیں اور کوڑا بھر کر اسے بند کر دیا جس سے گٹر ابل پڑے۔
پیٹرک ڈی بیمان پر اصل میں 12 مقدمات تھے جن کی اکثریت جائیداد کو نقصان پہنچانے سے متعلق تھی تاہم بعد میں 7 مقدمات ختم کر دئیے گئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پیٹرک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے جرم کی معافی کیلئے دعا کرتا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کاکہنا تھا کہ پیٹرک ڈی بیمن نے سنہ 2017 میں پہلی مرتبہ ڈیلینڈ کمیونٹی سینٹر میں خواتین کے بیت الخلاء کو بند کیا اور اس کے بعد متعدد واقعات پیش آئے جن میں سے پانچ کا اعتراف پیٹرک نے بھی کیا۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ پر بار گٹر کھلوانے پر 200 ڈالر یعنی 30 ہزار روپے پاکستانی خرچ آٹا تھا۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ مجرم کے وکیل نے عدالت نے اپیل کی تھی کہ اسے صرف ایک ماہ قید کی سزا سنائی جائے تاہم عدالت نے بیت اخلاء بند کرنے کو سخت جرم تصور کرتے ہوئے سخٹ سزا دینے کا حکم سنایا۔
امریکی عدالت نے مجرم 26 سالہ پیٹرک کو پانچ ماہ قید اور 5500 ڈالر جرمانہ اور 100 گھنٹے کمیونتی کی خدمت کا حکم دیا ہے۔
عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ مجرم کو شہر کے کسی بحالی مرکز میں کم از کم 3 سال گزارنے کی ضرورت ہے۔
ولنگٹن : نیوزی لینڈ کی عدالت نے ملک کے اعلیٰ فوجی افسر کو سفارتخانے کے بیت الخلاء میں خفیہ کیمرا نصب کرکے لوگوں کی قابل اعتراض ریکارڈنگ کرنے کا مجرم قرار دےدیا۔
تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ولنگٹن کی عدالت نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم کیوی سفارت خانے میں تعینات 59 سالہ ملٹری اتاشی پر نازیبا ویڈیو فلمانے کا الزام تھا، الزام ثابت ہونے پر عدالت نے فوجی افسر پر فرد جرم عائد کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 59 سالہ فوجی افسر پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکا میں موجود نیوزی لینڈ کے سفارتخانے کے باتھ روم میں خفیہ کیمرا نصب کرکے لوگوں کی قابل اعتراض ریکارڈنگ کی۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر 2017 میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کیٹنگ الفریڈ نے سفارتخانے کے باتھ روم میں انتہائی چھوٹا خفیہ کیمرا نصب کیا اور بعد ازاں ان کے خلاف مقدمے کا آغاز کیا گیا تھا۔
رواں برس کے آغاز میں ہی کیٹنگ الفریڈ کے خلاف ٹرائل کا آغاز کیا گیا تھا اور رواں ماہ اپریل کے آغاز میں ہی ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
غیر ملکی میڈیا نے مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 59 سالہ کیٹنگ الفریڈ کو مقامی عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری اتاشی نے لوگوں کی قابل اعتراض ریکارڈنگ کی۔
رپورٹ کے مطابق اب سابق ملٹری اتاشی کو سزا سنائے جانے کے ٹرائل کا آغاز جون میں ہوگا اور انہیں 25 جون کو سزا سنائی جائے گی، سابق اعلیٰ فوجی افسر کو لوگوں کی شرمناک ریکارڈنگ کرنے کے جرم میں کم سے کم 18 ماہ جیل کی سزا سنائی جائے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سابق ملٹری اتاشی نے ٹرائل کے دوران عدالت سے درخواست کی تھی کہ مقدمے میں ان کی شناخت اور نام خفیہ رکھا جائے کیوں کہ اس سے نہ صرف ان کے مستقبل کو خطرہ ہے بلکہ اس سے ملک کی فوج بھی بدنام ہوگی تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مقدمے میں ان کی شناخت عام رکھی۔
نئی دہلی : بھارتی شہر ممبئی میں پیسوں کے تنازعے پر پنٹو شرما نامی شخص نے اپنے دوست کو قتل کرکے لاش کے ٹکڑےفلش میں بہا دئیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس نے ساتھی کو قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کرنے اور اسے بیت الخلاء میں بہانے کے الزام میں ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ملزم اور مقتول کے درمیان مالی معاملات پر تنازعہ چل رہا تھا تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ ملزم متاثرہ شخص کے فلیٹ میں کیوں گیا تھا۔
ملزم پنٹو شرما نے پولیس کو بتایا کہ جگڑے کے دوران گنیش کی ہلاکت پر میں گھبرا گیا تھا، جس کے بعد آرے سے گنیش کی لاش کے 200 چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردئیے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 42 سالہ پنٹو شرما نے لاش کے چھوٹے ٹکڑے مقتول کے ہی بیت الخلاء میں بہائے جبکہ لاش کا حصّہ چلتی ٹرین سے باہر پھینکا تھا۔
میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ سیوریج لائن میں ٹکڑے پھسنے کے باعث عمارت کے دیگر فلیٹس کی سیوریج لائنیں بھی بند ہوگئی جس کیلئے رہائشوں نے خاکروب کو بلایا تو صفائی کے دوران انسانی اعضاء برآمد ہوئے جس کی اطلاع خاکروب نے ہی پولیس کو دی۔
ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جینٹ باجبالی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ عمارت کے سیپٹک ٹینک (گٹر) سے بڑی تعداد میں انسانی اعضاء برآمد ہوئے ہیں جنہیں فارنسیک لیب بھیج دیا گیا ہے۔