Tag: town

  • اس خوبصورت قصبے میں رہنے کے لیے ملیں گے 60 لاکھ روپے

    اس خوبصورت قصبے میں رہنے کے لیے ملیں گے 60 لاکھ روپے

    روم: یورپی ممالک میں بسنا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے، اگر آپ بھی ایسی ہی خواہش رکھتے ہیں تو یہ پیشکش آپ ہی کے لیے ہے۔

    اٹلی کے جنوبی جزیرے پریسچے میں آ کر بسنے والے افراد کو 30 ہزار یورو (68 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) فی کس دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    اس منصوبے کا مقصد آبادی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانا ہے، اس مقصد کے لیے حکومت نے کروڑوں یورو کی رقم مختص کی ہے جو ہزاروں افراد کو دینے کے لیے کافی ہے۔

    پریسچے میں بسنے والوں کو یہ رقم وہاں مکان خریدنے کے لیے دی جائے گی۔ یہ خوبصورت قصبہ نیلے پانیوں اور خوبصورت ساحل کے قریب آباد ہے اور قدرتی نظاروں سے گھرا ہوا ہے۔

    اٹلی میں اس سے پہلے بھی مختلف علاقوں میں اسی طرح لوگوں کو آ کر بسنے کی ترغیب دی جاتی رہی ہے۔

    دراصل اٹلی میں معمر افراد کی آبادی میں اضافے کے بعد اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ نوجوانوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہو، اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے لوگوں کو وہاں بسنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔

    اٹلی کے اکثر مقامات پر ہزاروں گھر خالی پڑے ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل اکثر مختلف قسم کی پرکشش آفرز کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ مکان کی تزئین نو ایک مخصوص وقت میں کرنے کی شرط بھی عائد کی جاتی ہے۔

  • شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    ٹوکیو : شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جہاں لوگ اپنا کچرا خود اٹھاکر ری سائیکلنگ فیکڑی تک لے جاتے ہیں۔

    ویسے تو میونسپل حکام شہریوں کو کچرا باہر گلی یا سڑک پر نہ پھینکنے اور اس کے لیے مخصوص کوڑا دان میں پھینکے کی ہدایت کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے ایک شہر میں شہریوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھا کر اسے قابل استعمال بنانے کی فیکٹری (ری سائیکلنگ) تک لے کر جانا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچرے اور کوڑا کرکٹ کو چھان کر 45 مختلف کٹیگریز میں تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔

    جاپان کے شہر کامی کاتسو کے رہائشیوں کے لیے کچرے کو ٹھکانے لگانا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا کے دوسرے حصوں میں ہے کہ آپ نے گھر سے کچرا اٹھا کر باہر میونسپل کمیٹی کی جانب سے رکھے گئے کچرا دان میں پھینک دیا۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو میں نہ کچرا اٹھانے کے لیے کچرا دان رکھے گئے ہیں اور نہ میونسپل اتھارٹی کچرا اٹھاتی ہے۔ شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

    شہر کے باسیوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھانا پڑتا ہے بلکہ کچرے کو قابل استعمال بنانے کی فیکٹری تک لے جانے سے پہلے ہر قسم کا کوڑا کرکٹ الگ کرنا پڑتا ہے،جس کی 45 کیٹگریز بنائی گئی ہیں جس میں تکیے سے لے کر ٹوتھ برش تک شامل ہیں۔

    مقامی فرد کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جی ہاں، کچرے کو الگ کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن ایک سال پہلے جب میں یہاں منتقل ہوا تب سے میں ماحولیات کے حوالے سے حساس ہو گیا ہوں۔

    میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جائے گا اور کوئی بھی چیز کچرا جلانے کی مشین کو نہیں بھیجی جائے گی۔

    حکام کا کہناتھا کہ یہ پورا عمل بہت ہی محنت طلب ہے کیونکہ نہ صرف کچرے کو چار درجن کٹیگریز میں الگ کرنا پڑتا ہے بلکہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلوں کو دھو کر خشک کرکے ری سائیکلنگ فیکٹری پہنچانا پڑتا ہے تاکہ ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی ہو۔

    جاپان کے بہت سے علاقوں میں کچرے کو الگ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں چند ایک کٹگریز ہیں اور زیادہ کچرا انسنریٹر نامی مشین میں جلانے کے لیے جاتا ہے سنہ 2010 تک کامی کاتسو بھی جاپان کے دوسرے علاقوں سے کوئی مختلف نہیں تھا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق 2010 میں شہر کے دو میں سے ایک انسنریٹر کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا کیونکہ یہ دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔

    ایک انسنریٹر کے بند ہونے کے بعد شہر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف ایک انسنریٹر رہ گیا جو شہر کے تمام کچرے کوجلانے کے لیے ناکافی تھا اور شہر کے میونسپل حکام کے پاس نیا خریدنے یا قریبی ٹاؤن کے انسنریٹر کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے دینے کے پیسے نہیں تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو کچرے کو ری سائیکل کرنے کے ہدف کے قریب ہے اور 2017 میں 80 فیصد کچرے کو قابل استعمال بنایا گیا۔

  • جرمنی: کاوفبویرن کی عوام نے مسجد تعمیر کرنے کی مخالفت کردی

    جرمنی: کاوفبویرن کی عوام نے مسجد تعمیر کرنے کی مخالفت کردی

    برلن : جرمنی کے علاقے کاوفبویرن کی شہری حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت اور زمین ملنے کے باوجود علاقہ مکینوں نے مسجد تعمیر کرنے کی مخالفت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے صوبے باواریا کے علاقے کاوفبویرن میں اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی، علاقہ مکینوں نے شہری انتظامیہ کی اجازت کے باوجود حکومتی زمین پر مسجد تعمیر کرنے کے سلسلے میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔

    غیر ملکی خبر  رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے خلاف ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے مسجد تعمیر کرنے کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عوامی ریفرنڈم کے بعد کیا شہر کے انڈسٹریل ایریا کے درمیان 5 ہزار اسکوائر میٹر کا پلاٹ مسجد تعمیر کرنے کے لیے جرمنی میں کام کرنے والی ترکی مذہبی جماعت کو دیا جائے گا یا نہیں؟

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ علاقے کے 45 فیصد عوام نے مسجد کی تعمیر کے خلاف ہونے والے ریفرنڈم میں حصّہ لیا، جس میں 34 ہزار قانونی ووٹر تھے۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کے لیے 20 فیصد افراد کا شرکت کرنا ضروری ہے، لیکن اس میں 45 فیصد افراد تھے جنہوں نے شہری انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ترکی کی مذہبی جماعت سے بات چیت ختم کردے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی کی سماجی امور انجام دینے والی ایک تنظیم نے بتایا کہ ملک میں مسجد کی تعمیر کے حوالے سے سنہ 2002 میں جرمنی کے علاقے شولیسٹن کی عوام نے مسجد کی تعمیر کے حق میں ووٹ دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں