Tag: Trade war

  • ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات

    ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات

    چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔

    بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

    میں نے اس آڈیو پوڈ کاسٹ میں اس کتاب کے اہم اور دل چسپ مندرجات پر بات کی ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو ایک بڑی تجارتی جنگ کی نئی لیکن دور رس نتائج رکھنے والی کشمکش سے متعارف کرا دیا ہے، اور اب دنیا ایک بڑی تجارتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔

    ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ (بالخصوص چین، یورپی یونین، اور دیگر ممالک کے ساتھ) عالمی معیشت پر کئی ممکنہ اثرات ڈال سکتی ہے، اس کے نتائج قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

    اس تجارتی جنگ کے ممکنہ نتائج اور اثرات میں سب سے اہم وہ معاشی سست روی ہے جو عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی رکاوٹیں بڑھیں گی، تو عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ اس میں سست روی پہلے ہی دیکھی جا رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عالمی اقتصادی ترقی کی شرح (2023 کے لیے) 2.7 فی صد ہے، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں سست روی کو ظاہر کرتی ہے۔

    اس جنگ کا براہ راست متاثر کنندہ وہ صارف ہے جو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دب جائے گا، کیوں کہ تجارتی محصولات (ٹیرف) بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ موجودہ عالمی صورت حال یہ ہے کہ سپلائی چین میں خلل، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور جغرافیائی سیاسی تناؤ جیسے عوامل عالمی افراط زر میں پہلے ہی حصہ ڈال رہے ہیں، جس سے دنیا بھر میں قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

    ٹرمپ کی اس جنگ سے خود امریکی معیشت پر دیرپا اثر پڑے گا، چین اور دیگر ممالک پر ٹیرف لگانے کے بعد امریکی درآمدات مہنگی ہو گئیں، جس کا بوجھ عام امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ امریکا میں بہت سے لوگ روزانہ میکسیکو میں اگائے گئے پھل کھاتے ہیں، چین میں بنائے گئے فون استعمال کرتے ہیں اور کینیڈا کی لکڑی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ایک غیرجانب دار تنظیم ’ٹیکس فاؤنڈیشن‘ کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے نفاذ سے 2025 میں ہر امریکی گھرانے پر ٹیکس میں اوسطاً 800 ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوگا۔

    یہ ایک ایسی جنگ میں جس میں برآمد کنندگان کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین اور یورپ نے بھی جوابی ٹیرف لگائے، جس سے امریکی برآمدات کم ہو گئیں، خاص طور پر زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے متاثر ہونے لگے ہیں۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً دو تہائی (63 فی صد) مینوفیکچررز (جو اپنی مصنوعات برآمد کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ وہ امریکی محصولات سے متاثر ہوں گے۔ 1,200 سے زائد فرموں نے کہا کہ ایک طرف ان کی لاگت پر براہ راست اثر پڑے گا، اور دوسری طرف بڑی پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ مصنوعات کی عالمی مانگ میں کمی آئے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں زیادہ لاگت کی وجہ سے پیداواری یونٹس بند کرتی ہیں، یا بیرون ملک منتقل کرتی ہیں، تو ملازمتوں میں کمی ہو سکتی ہے، یعنی روزگار پر دباؤ کا ایک پریشان کن مسئلہ سر اٹھائے گا۔ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں کے انجام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں امریکا چین بزنس کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں ان کی تجارتی پالیسیوں سے ڈھائی ملازمتیں ختم ہوئی تھیں۔

    غزہ میں کوئی رئیل اسٹیٹ آپریشن نہیں چل رہا، فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کے بیان پر رد عمل

    ٹرمپ کے طور طریقوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انھیں اپنی طاقت کے زعم میں یہ یقین بالکل نہی تھا کہ ان کے اقدامات کے جواب میں چین اور دیگر ممالک کا ردعمل نہیں آئے گا۔ لیکن ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دیگر ممالک متبادل منڈیاں تلاش کرنے لگے ہیں، چین اور یورپ امریکی مصنوعات کی بجائے دیگر ممالک سے تجارت بڑھانے پر توجہ دینے لگے ہیں، جس سے امریکا کی عالمی مارکیٹ میں گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی جنگ کا بھی امریکا کو شدید نقصان پہنچ سکا ہے، امریکا نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگائیں، جس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کی خود کفالت پر کام تیز کر دیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے کاروباری ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے، اور سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار ابھی سے محتاط ہو گئے ہیں، جس کا اثر عالمی اسٹاک مارکیٹس پر بھی پڑنے لگا ہے۔ دی گارڈین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے امریکی محصولات پر دستخط کیے جانے کے بعد سے عالمی اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں آ گئی ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر اسٹاک ایکسچینجز میں کاروبار تیزی سے نیچے گرا۔

    امریکی صدر کی شروع کی گئی جنگ کا ایک اثر سپلائی چینز میں تبدیلی پر مرتب ہوگا، کئی عالمی کمپنیاں جو امریکا اور چین دونوں سے جڑی تھیں، اپنی سپلائی چینز کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ عالمی سپلائی چینز پیشین گوئیوں پر پروان چڑھتی ہیں، اور ٹیرف کی جنگ نے اس کے توازن میں خلل ڈال دیا ہے، ٹیرف قیمتوں، طلب اور تجارتی راستوں کو بدلنے لگا ہے، جسے سے ظاہر ہے کہ بہترین طور پر منظم تجارتی اداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

    ٹرمپ نے جنگ شروع تو کر دی ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات سے شاید وہ ابھی نا واقف ہیں۔ ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ جائے گی۔ اگر چین، یورپ، اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے، اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔

    مختصر یہ کہ اس تجارتی جنگ کے نتائج معیشت، سیاست، اور عالمی طاقتوں کے توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ لمبے عرصے تک جاری رہا تو عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سفارتی حل نکالا جائے، اور ایک ایک نیا لیکن متوازن تجارتی نظام تشکیل دیا جائے۔

  • تجارتی جنگ: کینیڈا اور میکسیکو نے امریکا پر بڑا جوابی وار کر دیا

    تجارتی جنگ: کینیڈا اور میکسیکو نے امریکا پر بڑا جوابی وار کر دیا

    اوٹاوا: ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی تجارتی جنگ چھیڑے جانے پر کینیڈا اور میکسیکو نے بھی امریکا پر بڑا جوابی وار کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا اور میکسیکو نے ٹرمپ کے اقدام پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکا پر جوابی اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔

    کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور میکسیکو کے صدر کلاڈیا شین بام دونوں نے ہفتے کی رات جوابی ٹیرف کا اعلان کیا۔ کینیڈا اور میکسیکو امریکی ٹیرف کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

    کینیڈا نے 155 بلین ڈالر تک کی امریکی درآمدات پر 25 فی صد جوابی اضافی ٹیرف عائد کر دیا ہے، جب کہ میکسین صدر کلاڈیاشین بام نے بھی کہا کہ ہم نے بھی پلان بی پر عمل کرتے ہوئے جوابی اضافی ٹیرف لگا دیا ہے۔ تاہم چین کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے خطاب میں کہا کہ کینیڈا اپنا دفاع کرنا جانتا ہے، وہ ہر صورت اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انھوں نے کہا تیل، قدرتی گیس اور بجلی سمیت کینیڈا سے درآمد کی جانے والی توانائی پر بھی 10 فی صد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کی درآمدات پر منگل سے 25 فی صد اور چین پر 10 فی صد ٹیرف نافذ کر دیا ہے، تاہم تیل، قدرتی گیس اور بجلی سمیت کینیڈا سے درآمد کی جانے والی توانائی پر 10 فی صد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ کینیڈا نے بھی اتنا ہی ٹیرف اور ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

    کینیڈا کی جانب سے امریکی الکحل اور پھلوں کی تجارت میں 30 ارب کینیڈین ڈالر پر ڈیوٹی منگل کو اس وقت لاگو ہوگی جب امریکی ٹیرف شروع ہوگا، جب کہ بقیہ 125 ارب کینیڈین ڈالر کی تجارت پر ڈیوٹی 21 دنوں میں لاگو ہوگی۔

    ٹرمپ نے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی، چین، کینیڈا، میکسیکو پر اضافی ٹیرف عائد

    جسٹن ٹروڈو نے اپنی تقریر کا آغاز امریکی صارفین کو مخاطب کر کے کیا، انھوں نے کہا ’’امریکی عوام! اس کے حقیقی نتائج آپ پر مرتب ہوں گے، اس کے نتیجے میں گروسری اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ ٹروڈو نے امریکیوں کو یاد دلایا کہ کینیڈین فوجی افغانستان میں ان کے شانہ بشانہ لڑے اور کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ اور کترینہ طوفان سمیت دیگر بحرانوں میں ان کی مدد کی۔

    دوسری طرف میکسیکو کی صدر شین بام نے X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انھوں نے اپنے اقتصادی وزیر کو میکسیکو کے مفادات کے دفاع کے لیے ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات کو لاگو کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ انھوں نے میکسیکو حکومت کا مجرمانہ سرگرمیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا امریکی الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ’’اگر امریکی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اپنے ملک میں فینٹینائل کی سنگین کھپت کو ختم کرنا چاہتی ہیں، تو وہ اپنے بڑے شہروں کی سڑکوں پر منشیات کی فروخت اور منی لانڈرنگ سے لڑیں۔‘‘

  • تجارتی جنگ، چین اور امریکا کے درمیان بڑی پیشرفت

    تجارتی جنگ، چین اور امریکا کے درمیان بڑی پیشرفت

    واشنگٹن: چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ اب خاتمے کے قریب ہے، فریقین کے درمیان معاہدے کے امکانات روشن ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق چین اور امریکا کے مابین تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے سلسلے میں تکنیکی مشاورت کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی اور امریکی اہلکار تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے والے ہیں، جس کے بعد فریقین ایک دوسرے کی مصنوعات پر اضافہ ٹیکس عائد نہیں کریں گے۔

    اس پیشرفت کی تصدیق چین کی کامرس منسٹری اور امریکا میں تجارت کے نگران دفتر کی جانب سے کر دی گئی ہے۔

    چینی وزارت کی ویب سائٹ پر گذشتہ صبح جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے سلسلے میں تکنیکی مشاورت کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔

    امریکی صدر نے گیارہ اکتوبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ ایک ابتدائی تجارتی معاہدے کے خواہشمند ہیں، جس پر چلی میں آئندہ ماہ ایک سمٹ کے موقع پر دستخط متوقع ہیں۔

    تجارتی جنگ، امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

    خیال رہے کہ رواں سال اگست میں امریکی اقدامات کے جواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹریف میں اضافے کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوا، امریکا اب تک 250 ارب ڈالر کی ڈیوٹیز عائد کرچکا ہے۔

    امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا ، اب تک امریکہ نےاب تک ڈھائی سوارب ڈالرکی ڈیوٹیزعائدکی ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان وفود کی سطح پر متعدد بار مذاکراتی دور ہوچکے ہیں لیکن تمام بے نتیجہ رہے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ معاملات حل ہوجائیں گے۔

  • امریکا سے تجارتی جنگ، ٹرمپ کا چینی سفیر برائے تجارت سے ملاقات کا اعلان

    امریکا سے تجارتی جنگ، ٹرمپ کا چینی سفیر برائے تجارت سے ملاقات کا اعلان

    واشنگٹن: چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی سفیر برائے تجارت ’لیو ہی‘ سے ملاقات کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ اس وقت شدت اختیار کرگئی جب امریکا نے چین کے 28 کمپنیوں کو بلیک سلٹ کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ وہ کل چینی سفیر برائے تجارت لیو ہی سے ملاقات کریں گے۔ ٹرمپ نے چین سے مذاکرات کے حوالے سے کل کا دن اہم قرار دیا ہے۔

    امریکی صدر چینی سفیر سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے جس میں دوطرفہ تجارتی جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ معاہدے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

    رواں سال اگست میں امریکی اقدامات کے جواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹریف میں اضافے کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوا، امریکا اب تک 250 ارب ڈالر کی ڈیوٹیز عائد کرچکا ہے۔

    تجارتی جنگ، امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

    واضح رہے کہ امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا ، اب تک امریکہ نےاب تک ڈھائی سوارب ڈالرکی ڈیوٹیزعائدکی ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان وفود کی سطح پر متعدد بار مذاکراتی دور ہوچکے ہیں لیکن تمام بے نتیجہ رہے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ معاملات حل ہوجائیں گے۔

  • عالمی تجارتی جنگ ، آئی ایم ایف نے عالمی معشیت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

    عالمی تجارتی جنگ ، آئی ایم ایف نے عالمی معشیت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

    واشنگٹن : آئی ایم ایف چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ رواں سال عالمی معشیت کی شرح نمو ایک دہائی کی کم ترین سطح پر آنے کا امکان ہے، عالمی تجارتی جنگ کے واضع اثرات نمودار ہو رہےہیں، عالمی تجارت تقریبا رک گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف چیئرپرسن کرسٹلیناجارجیوا کا کہنا ہے کہ عالمی معشیت میں سست روی کی وجہ تجارتی جنگ ہے جو کہ بڑی معشیتوں کے درمیان جاری ہے۔

    کرسٹلینا جارجیوا نے زور دیا کہ عالمی سطح پر کاربن ٹیکسسزمیں اضافہ کیا جانا چاہیئے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹا جاسکے۔

    آئی ایم ایف چیئرپرسن نے مزید کہا رواں سال دنیا کے نوے فیصد ممالک میں معاشی شرح نمو سست روی کا شکار رہے گی، ادارہ رواں سال کے لئے پیشگوئیوں میں کمی کرکے گا۔

    مزید پڑھیں : ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی عالمی تجارت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی

    ان کا کہنا تھا کہ عالمی تجارتی جنگ کے واضع اثرات نمودار ہو رہے ہیں، عالمی تجارت تقریبارک گئی ہے، آئندہ سال تجارتی جنگ سے ہونے والے نقصانات کا حجم سات سو ارب ڈالر ہوگا۔

    یاد رہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے عالمی تجارت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بڑی طاقتوں میں تجارتی جنگ کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، عالمی سطح پر معاشی شرح نمو بھی سست روی کا شکار رہے گی۔

    ڈبلیو ٹی او کا کہنا تھا کہ تجارتی مال کی فروخت کی شرح نمو صرف 1.2 فیصد رہے گی۔ اس سے قبل ڈبلیو ٹی او نے 2.6 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی تھی، تجارت کے حجم میں آئندہ سال بہتری متوقع ہے، سنہ 2020 میں تجارتی حجم 2.7 فیصد تک ہو سکتا ہے، بریگزیٹ اور امریکی شرح سود میں کمی بھی سست روی کی وجہ ہے۔

  • تجارتی جنگ شدت اختیار کرگئی، امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا

    تجارتی جنگ شدت اختیار کرگئی، امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا

    واشنگٹن: امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میں شدت آگئی، امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے جن چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا ہے ان میں ویڈیونگرانی مصنوعات بنانےوالی معروف کمپنی ہک وژن بھی شامل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

    چینی کمپنیوں پر امریکی مصنوعات کی خریداری پر بھی پابندی عائد کردی گئی، چینی کمپنیوں کو مصنوعات کی خریداری کے لیے واشنگٹن کی اجازت درکار ہوگی۔

    رواں سال اگست میں امریکی اقدامات کے جواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹریف میں اضافے کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوا، امریکا اب تک 250 ارب ڈالر کی ڈیوٹیز عائد کرچکا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا ، اب تک امریکہ نےاب تک ڈھائی سوارب ڈالرکی ڈیوٹیزعائدکی ہیں۔

    تجارتی جنگ، امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

    خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان وفود کی سطح پر متعدد بار مذاکراتی دور ہوچکے ہیں لیکن تمام بے نتیجہ رہے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ معاملات حل ہوجائیں گے۔

  • امریکا نے ایک اور تجارتی جنگ چھیڑ دی

    امریکا نے ایک اور تجارتی جنگ چھیڑ دی

    واشنگٹن : امریکہ نے تجارتی جنگ کا ایک اور باب کھول دیا، چین کےبعد امریکہ نے یورپی یونین پر بھی ٹیکس لگا دیئے، یورپی درآمدات پر ساڑھے سات ارب ڈالر کے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ نے ایک اورتجارتی جنگ چھیڑدی۔ چین کے بعد یورپی درآمدات نشانے پر آگئی ، امریکہ نے ڈبیلیو ٹی او کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد یورپی ممالک کی ایو ایشن اور دیگر اشیاء پر ساڑھے سات ارب ڈالرز کے ٹیکس لگا دیئے۔

    یہ ٹیرف یورپی درآمدات پر لگائے گئے ہیں، جن میں ائیر بس ، پنیر، زیتون، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور ان کے پرزاجات شامل ہیں۔

    امریکی فیصلے کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی ریکارڈ کی گئی، جاپان کی اسٹاک مارکیٹ میں چار سو ساٹھ پوائنٹس کی کمی، ہانگ کانگ، سنگاپور اور چینی اسٹاک مارکیٹ میں بھی کمی دیکھی گئی جبکہ سال دوہزار سولہ سے اب تک برطانوی اسٹاک مارکیٹ کا بدترین دن تھا۔

    مزید پڑھیں : ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی عالمی تجارت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی

    آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او سمیت اہم مالیاتی اداروں نے تجارتی جنگ کو عالمی معیشت اور تجارت کیلئے خطرہ اور موجودہ سست روی کا باعث کہا ہے۔

    ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے عالمی تجارت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی تجارتی اشاریے تشویش ناک منظر پیش کر رہے ہیں، مجموعی تجارت کی شرح نمو 1.6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ دنیا کے تمام ریجنز میں درآمدات اور برآمدات میں کمی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ ایشیائی برآمدات میں اضافے کی شرح 0.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

    ڈبلیو ٹی او کے مطابق ایشیا میں برآمدات میں کمی کا رجحان متوقع ہے، ایشیا کی مجموعی معاشی شرح نمو 3.9 فیصد رہے گی۔

    ڈبلیو ٹی او کا کہنا تھا کہ تجارت کے حجم میں آئندہ سال بہتری متوقع ہے، سنہ 2020 میں تجارتی حجم 2.7 فیصد تک ہو سکتا ہے، بریگزیٹ اور امریکی شرح سود میں کمی بھی سست روی کی وجہ ہے۔

  • تجارتی جنگ، امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

    تجارتی جنگ، امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

    بیجنگ: چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کرگئی، چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم امریکی دھمکیوں سے نہیں ڈریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک بیان میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اضافی چارج نافذ کرنے کے امریکا کے فیصلے کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دھمکیوں اور ڈرانے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تنازعے کے باعث عالمی تجارت بھی جزوی طور پر متاثر ہے، جبکہ فریقین ایک دوسرے پر مزید اضافہ ٹیکس عاید کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر حالیہ واقعات کے پیش نظر امریکی کمپنیاں چین سے واپسی کر لیتی ہیں تو دیگر کمپنیاں اس خلا کو پر کردیں گی۔

    تجارتی جنگ میں شدت : چین کا بھی امریکی مصنوعات پر بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان

    ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے بعد امریکا کی جانب سے جو ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے، وہ سب سیاسی نعرے بازی ہے۔

    خیال رہے کہ حال ہی میں امریکی اقدامات کے جواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کااعلان کردیا ہے۔ ٹریف میں اضافے کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوگا، امریکا اب تک 250ارب ڈالر کی ڈیوٹیز عائد کرچکا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا ، اب تک امریکہ نےاب تک ڈھائی سوارب ڈالرکی ڈیوٹیزعائدکی ہیں۔

  • تجارتی جنگ میں شدت :  چین کا بھی امریکی مصنوعات پر بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان

    تجارتی جنگ میں شدت : چین کا بھی امریکی مصنوعات پر بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان

    بیجنگ : امریکی اقدامات کےجواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کااعلان کردیا، ۔ٹریف میں اضافے کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوگا، امریکہ اب تک250ارب ڈالر کی ڈیوٹیز عائد کرچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ اورچین کےدرمیان تجارتی جنگ شدت اختیارکرگئی، چین نے امریکی مصنوعات پر پچھترارب ڈالر نئی ڈیوٹیز لگانے کا اعلان کردیا ہے، ٹریف میں اضافےکااطلاق یکم ستمبرسےہوگا۔

    گزشتہ روز ایک بیان میں چین کے اسٹیٹ کونسل ٹیرف آفس نے بتایاکہ امریکا سے آنے والی 5 ہزار 78 اشیا پر یکم ستمبر اور 15 دسمبر سے 5 سے 10 فیصد ٹیرف عائد ہوگا۔

    چینی ٹیرف آفس کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے سے امریکا اور چین کے درمیان معیشت اور تجارت میں پائے جانے والے اختلاف میں اضافہ ہوا ہے، جو دونوں ممالک کے سربراہان کی ارجنٹینا اور اوساکا میں ہونے والی اتفاق رائے کی خلاف ورزی ہے۔

    مزید پڑھیں : چین سے تجارتی جنگ : امریکہ کی پانچ بڑی کمپنیوں کو بڑے نقصانات کاسامنا

    ان کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے ٹیرف کا نفاذ امریکا کے یکطرفہ اور تجارتی تحفظ کے دباو پر مجبوری کے تحت اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا ، اب تک امریکہ نےاب تک ڈھائی سوارب ڈالرکی ڈیوٹیزعائدکی ہیں۔