Tag: -transplant

  • گردوں کی خرابی کے بعد مریض میں کون سی 13 علامات ظاہر ہوتی ہیں

    گردوں کی خرابی کے بعد مریض میں کون سی 13 علامات ظاہر ہوتی ہیں

    گردے انسانی جسم کا انتہائی اہم ترین عضو ہیں، گردوں میں خرابی کے پیدا ہوتے ہی مریض میں 13 اقسام کی  علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کا بروقت علاج کرنا لازمی ہے۔ 

    ماہرین صحت کے مطابق گردوں کے امراض کافی تکلیف دہ اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں گردوں کی بیماری یا خرابی کو ’یوریمیا‘ کہا جاتا ہے،اس حالت میں جسم میں اضافی پانی اور فضلہ جمع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    کسی شخص کو گردے کا مرض لاحق ہوتا ہے تو اس کی حالت آہستہ آہستہ بگڑتی ہے، ایک بار جب کسی کو گردے کی بیماری ہوجائے تو اس کی حالت بتدریج خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی پیچیدگیاں خاص طور پر ان لوگوں میں ہوتی ہیں جن کی گردے کی بیماری کی خاندانی تاریخ ہے۔

    پیدائش کے وقت کم وزن، طویل مدتی ادویات، پیشاب کی نالی کے شدید انفیکشن، موٹاپا، گردے کی پتھری یہ سب گردے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔

    تاہم گردوں کے امراض کی خاموش علامات کو جان لینا بھی زندگی بچانے کا باعث بن سکتا ہے جن کے سامنے آتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے، زیر نظر مضمون میں 13 علامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    اس بیماری میں جسم میں غیر معمولی خارش، منہ کا ذائقہ بدلنا، دل خراب ہونا یا قے، زیادہ یا کم پیشاب آنا پیشاب کے رنگ میں تبدیلی، چہرے، ٹانگوں، پیر یا ٹخنوں کی سوجن، بہت زیادہ تھکاوٹ کا احساس، بلڈ پریشرکا بڑھنا، دل کی دھڑکن میں تیزی، مسلز کا اکڑنا، بھوک کم لگنا، آنکھیں سوجنا، نیند میں مشکلات شامل ہیں۔

    گردوں کی خرابی میں ظاہر ہونے والی علامات کافی واضح ہوتی ہیں تاہم لوگ جب تک ان پر توجہ دیتے ہیں اس وقت تک بہت زیادہ نقصان ہوچکا ہوتا ہے، لہٰذا ان علامات کے ظاہر ہوتے ہی اپنے معالج سے فوری رابطہ کریں اور باقاعدہ علاج پر توجہ دیں۔

    گردے کی خرابی کے علاج کے لیے ڈائیلاسز یا کڈنی ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ڈائیلاسز پر کچھ لوگ صرف 30 سال یا اس سے کم عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔

    یاد رکھیں !! گردوں کی خرابی سے بچنے کے لیے مناسب خوراک لینا اور طرز زندگی میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔

  • ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، خون میں شکر کی مقدار بعض پیچیدگیوں کے سبب عدم توازن کا شکار ہوتی ہے جس کے بعد ذیابیطس کی بیماری جنم لیتی ہے۔

    بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو اقسام ہوتی ہیں، ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون بہت عام نہیں ہے اور تاحال اس کا علاج بھی نہیں ہے جبکہ ٹائپ ٹو زیادہ وزن بڑھنے اور ایسے لائف اسٹائل جس میں طویل مدت کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے سے ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ مرض کی مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں تاہم چینی ڈاکٹروں نے ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ذیابیطس کا کامیاب علاج کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

     ذیابیطس

    اگرچہ ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کی ابتدا میں تشخیص کی جائے تو اسے ادویات اور طرز زندگی سے ختم کیا جا سکتا ہے، تاہم بعض اوقات یہ مرض انتہائی سنگین ہوجاتا ہے۔

    ذیابیطس کی بیماری کو دیگر بیماریوں کی وجہ سے بھی قرار دیا جاتا ہے اور اس میں مبتلا افراد کے دیگر اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک عمر رسیدہ شخص کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے انہیں ذیابیطس کی بیماری سے چھٹکارا دلوایا اور اب مذکورہ مرض تقریبا تین سال سے صحت مند زندگی گزار رہا ہے۔

    بنیادی طور پر انسانی جسم میں انسولین کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے یہ بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے اور چینی ماہرین نے ایک مریض کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے ان کے جسم میں انسولین کی پیدوار بڑھانے کو یقینی بنایا۔

    چینی نشریاتی ادارے ڈیلی چائنا کے مطابق شنگھائی یونیورسٹی کے ماہرین نے59 سالہ شخص کے لبلبے کے ان خصوصی خلیات کا ٹرانسپلانٹ کیا، جو انسولین کی پیداوار کرتے ہیں۔

    ماہرین نے اسٹیم سیل کے ذریعے مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا، جس سے ان کا لبلبہ کچھ ہی ہفتوں بعد انسولین بنانا شروع ہوگیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے مریض کے لبلبے کے خلیات کے ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کی حالت انتہائی تشویش ناک بن چکی تھی اور انہیں یومیہ متعدد انسولین کے انجکشن لگائے جاتے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ٹرانسپلانٹ کے تین ماہ بعد مریض کا لبلبہ انسولین پیدا کرنے لگا اور آہستہ آہستہ مریض کو تمام ادویات کی ضرورت نہ رہی اور اب گزشتہ تقریباً تین سال سے مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے 2021 میں مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا اور 2022 کے آغاز میں مریض کے لبلبے نے انسولین بنانا شروع کردی تھی اور اب تک مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

  • شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا جس میں ایک مریض کے کینسر زدہ پھیپھڑے نکال کر عطیہ کردہ صحت مند پھیپھڑے لگائے گئے، سرجری کے 6 ماہ بعد بھی کینسر کے واپس آنے کے کوئی آثار نہیں۔

    اس اہم طبی کارنامے میں پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا شخص کے دونوں پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا جس کے بعد وہ شخص نہ صرف روبصحت ہے بلکہ سرطان سے آزاد بھی ہے۔

    اس اہم سائنسی پیش رفت میں بہت کامیابی کے ساتھ اسٹیج 4 کے لنگ کینسر میں مبتلا مریض کا علاج نور ویسٹرن نامی ایک ادارے نے کیا ہے، اگرچہ اس کا ٹیومر دونوں پھیپھڑوں کو تباہ کر چکا تھا لیکن جسم کے دوسرے حصے اس مرض سے محفوظ تھے۔

    البرٹ خوری کا 6 ماہ قبل ٹرانسپلانٹ آپریشن ہوا تھا، ابھی تک اس میں کینسر کے پلٹنے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے 6 ماہ بعد بھی ڈاکٹروں نے اسے تندرست قرار دیا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق سرطان زدہ پھیپھڑوں کو ہٹا کر دوسرے لگانا ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل ترین عمل ہے کیونکہ یہ سرطان صرف سینے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ دوسرے اعضا تک بھی سرایت کرجاتا ہے اور یوں زندگی بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    54 سالہ البرٹ گو کہ سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا لیکن ایک سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا، ابتدا میں اسے صرف کھانسی تھی لیکن یہ بیماری کینسر میں بدل کر اسٹیج 1 سے اسٹیج 4 تک پہنچ گئی۔

    یہ اس وقت ہوا جب کرونا وبا کے دوران اسپتال تک البرٹ کی رسائی نہیں تھی کیونکہ تمام اسپتال کووڈ کے مریضوں کے علاج میں مصروف تھے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بڑی مشکل یہ تھی ہے کہ پھیپھڑے جسامت میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کینسر کو دوبارہ پھیلنے سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    اس سے قبل جتنے مریضوں میں سرطان زدہ پھیپھڑوں کو نکال کر ایک یا دو صحت مند پھیپھڑے ٹرانسپلانٹ کیے گئے تو کچھ ہی عرصے بعد کینسر دوبارہ نمودار ہوا۔

    اب ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بہت غور و فکر کے بعد کچھ نئے پروٹوکولز بنائے اور پھر ایک انتقال کر جانے والے شخص کے عطیہ شدہ پھیپھڑے لگائے۔

    آپریشن کے 6 ماہ گزرنے کے بعد مریض صحت مند ہے، اس کے پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور مکمل طور پر صحت مند ہیں۔

  • پختونخواہ میں مفت جگر ٹرانسپلانٹ کا آغاز جلد ہوگا

    پختونخواہ میں مفت جگر ٹرانسپلانٹ کا آغاز جلد ہوگا

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت تیمور خان جھگڑا کا کہنا ہے کہ یکم جنوری سے صوبے میں مفت جگر ٹرانسپلانٹ کا آغاز کردیا جائے گا، سالانہ 120 سے 150 مریضوں کو پیوند کاری درکار ہوتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت تیمور خان جھگڑا کا کہنا ہے کہ یکم جنوری سے صوبے میں جگر کی مفت پیوند کاری کا آغاز کردیا جائے گا، جگر کی پیوند کاری صحت کارڈ کے ذریعے کی جائے گی۔

    وزیر صحت کا کہنا تھا کہ صوبے میں سالانہ 120 سے 150 مریضوں کو پیوند کاری درکار ہوتی ہے، جنوری 2021 سے جون تک پیوند کاری سب کے لیے مفت ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ جون کے بعد شوکت خانم اسپتال کے ماڈل پر غریبوں کے لیے علاج مفت ہوگا، جگر کی پیوند کاری صرف لاہور اور کراچی کے مخصوص اسپتالوں میں ممکن ہے، متعلقہ سہولت رکھنے والے اسپتال پہلے سے صحت کارڈ پلس پر ہیں۔

    صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ شراب نوشی کی وجہ سے درکار جگر کی پیوند کاری مفت نہیں ہوگی۔

  • وزیر اعظم کی ہدایت پر ملک بھر میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کے اسپتال بنانے کا فیصلہ

    وزیر اعظم کی ہدایت پر ملک بھر میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کے اسپتال بنانے کا فیصلہ

    لاہور: وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر تمام صوبوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کے اسپتال بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، پہلے مرحلے میں پنجاب میں مذکورہ اسپتال کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) اسپتال بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں 500 بستروں کے بون میرو اسپتال بنائے جائیں گے۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے این آئی بی ڈی کے سربراہ طاہر شمسی سے مشاورت مکمل کرلی۔

    ذرائع کے مطابق سندھ، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان میں اسپتال قائم ہوں گے، ایک یونٹ کی تعمیر پر 6 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ پہلے مرحلے میں پنجاب میں یونٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔

    مشاورتی عمل کے دوران ڈاکٹر طاہر شمسی نے پنجاب میں 2 سو بستروں سے اسپتال شروع کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ کے لیے ماہرین اور انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کے اسپتال نجی شعبے میں قائم ہیں، ملک میں سالانہ 10 ہزار بون میرو ٹرانسپلانٹ کے مریض ہوتے ہیں۔ این آئی بی ڈی اب تک 800 بون میرو ٹرانسپلانٹ مکمل کر چکا ہے۔

  • امریکا: 17سرجریوں کے بعد نیا چہرہ پانے والی امریکی خاتون

    امریکا: 17سرجریوں کے بعد نیا چہرہ پانے والی امریکی خاتون

    واشنگٹن : امریکی ڈاکٹرز نے 31 گھٹنے طویل سرجری کے بعد کیٹی نامی خاتون کو نیا چہرہ لگا دیا، مذکورہ خاتون نے 18 برس کی عمر میں خودکو چہرے پر گولی مار کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی رہائشی کیٹی اسٹبل فیلڈ کا 31 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد چہرہ تبدیل کیا گیا ہے۔ مذکورہ خاتون کے چہرے کے 17 سرجری کرنے کے بعد نیا چہرہ لگایا گیا ہے۔

    ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ 21 سالہ کیٹی اسٹبل فیلڈ نے 18 برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں مذکورہ خاتون کی آنکھیں، ناک اور چہرے کا دیگر حصّہ خراب ہوگیا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کیٹیی کو بچپن میں بہت زیادہ امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے باعث کیٹی خود کو گولی مارلی تھی۔

    ڈاکٹرز نے بتایا کہ کیٹی کے چہرے کو متعدد سرجریوں کے تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد خاتون کا چہرے کی بتدیلی کو فوراً قبول کرلیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کیٹی سنہ 2016 سے ڈونر نہ ملنے کے باعث مسخ شدہ چہرے کے ساتھ سرجری ہونے کی منتظر تھیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ 21 سالہ خاتون سرجری کے ذریعے مکمل چہرہ تبدیل کروانے والی 40 ویں انسان ہیں اور گذشتہ برس مئی میں چہرے کی پہلی سرجری کروانے والے امریکا کی پہلی نوجوان انسان تھی۔

    یاد رہے کہ رواں برس فرانسیسی شہری جیرومی ہامون دنیا کے پہلے انسان تھے جنہوں نے اپنے چہرے کی تین سرجریاں کروائی تھی۔

    خیال رہے کہ دنیا کی پہلی چہرے کی تبدیلی کا آپریشن سنہ 2005 میں شمالی فرانس میں کیا گیا تھا، جس کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں 40 سرجریاں ہوچکی ہیں۔